متحدہ عرب امارات کا حکمران خاندان پاکستان کے ایک دور افتادہ علاقے میں کیسے پہنچا اور اس شہر کی قسمت ان کی وجہ سے کیسے تبدیل ہوئی؟
پسینے میں شرابور مومن کو یقین نہیں ہو رہا تھا کہ وہ ریس جیت چکا ہے۔۔۔ لیکن یہ اس دن اس کی زندگی کا سب سے غیر معمولی واقعہ نہیں تھا۔
اونٹوں کی ریس جیتنے والا ان پڑھ مومن چند ہی لمحوں بعد روایتی عربی لباس میں ملبوس ایک باریش شخص کے سامنے کھڑا تھا۔ اور یہ ملاقات مومن کی زندگی بدلنے والی تھی۔
اسی عربی شخص نے اس ریس کا انعقاد کروایا تھا اور جیت کے انعام کے طور پر مومن کے ہاتھ میں ایک چابی تھما دی گئی۔ یہ ایک ’نسان پیٹرول جیپ‘ کی چابی تھی لیکن مومن کے لیے یہ نام اجنبی تھا۔ وہ تو یہ تک نہیں جانتا تھا کہ حاتم طائی جیسے اس شخص کے تحفے، یعنی اس چابی اور اس جیپ کے ساتھ کیا کرے۔
لیکن پھر راتوں رات مومن، جس کے لیے دو وقت کی روٹی کمانا ہی زندگی کا حاصل تھا، پچاس ایکڑ زمین کا مالک بن گیا۔ یہ ہوا کیسے؟ اس سے پہلے جانتے ہیں کہ مومن کو انعام دینے والا شخص کون تھا؟
مومن کو یہ انعام دینے والا شخص اس زمانے میں دنیا کے امیر ترین افراد میں شمار ہونے والے متحدہ عرب امارات کے شیخ زید بن سلطان النہیان تھے جو پاکستان کے صوبہ پنجاب کے جنوبی ضلع رحیم یار خان میں اکثر شکار کرنے آتے۔
مومن کی 30 سال پرانی آنکھوں دیکھی کہانی مجھے رحیم یار خان کے سابق ڈپٹی کمشنر رئیس عباس زیدی نے سنائی جنھیں پنجاب کے اس دورافتادہ ضلع میں گزارا وقت آج بھی یاد ہے۔
اس ضلع میں، جو ایک جانب چولستان اور دوسری جانب سندھ کے بیچ پھیلا ہوا ہے، ایسی کئی کہانیاں اور قصے زبان زدِعام ہیں کہ کیسے ابوظہبی کے شاہی خاندان نے لوگوں کی قسمت پل بھر میں بدل ڈالی۔
واضح رہے کہ پاکستان میں متحدہ عرب امارات، بحرین اور قطر کے حکمران اور ان کے وزرا، فوجی سربراہان اور شاہی خاندان کے ارکان پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں خصوصی سرکاری اجازت ناموں کے تحت تلور کا شکار کرنے آتے ہیں۔ تاہم کسی اور علاقے پر کسی غیر ملکی حکمران یا خاندان کی ایسی چھاپ دکھائی نہیں دیتی جیسی ابوظہبی کے حکمران خاندان کی رحیم یار خان پر نظر آتی ہے۔
شیخ زید ہسپتال، شیخ زید میڈیکل کالج، شیخ زید سکول، شیخ زید ایئرپورٹ۔۔۔ یہ اُن ان گنت منصوبوں میں سے چند کے نام ہیں جو اس شہر میں متحدہ عرب امارات نے تعمیر کروائے یا ان کی تعمیر میں معاونت کی۔
لیکن متحدہ عرب امارات کا حکمران خاندان پاکستان کے ایک دور افتادہ علاقے میں کیسے پہنچا اور اس شہر کی قسمت ان کی وجہ سے کیسے تبدیل ہوئی؟
بی بی سی نے اس بارے میں علاقے کے بااثر افراد سمیت ضلعی انتظامیہ کے سابق افسران سے بات چیت کی ہے۔ لیکن اس سے قبل یہ جانتے ہیں کہ عرب شیوخ کا پاکستان آمد کا سلسلہ کب شروع ہوا اور یہ متنازع کیوں ہے؟
عرب شیوخ اور تلور
عرب حکمرانوں کا شکار کے لیے پاکستان آنے کا سلسلہ کب شروع ہوا؟ ایک خیال یہ ہے کہ پاکستان میں خلیجی ممالک کے سربراہان کی شکار کے لیے آمد کا باقاعدہ سلسلہ جنرل ایوب خان کے دورِ حکومت سے شروع ہوا تھا۔
جبکہ ایک اور عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ پاکستان میں عرب حکمرانوں کی شکار کے ارادے سے آمد کا سلسلہ 1970 کی دہائی میں اس وقت شروع ہوا جب اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے تیل کی دولت سے مالامال مشرق وسطی کی ریاستوں سے بہتر تعلقات استوار کیے۔
مصنف ندیم فاروق پراچہ کی ایک تحریر میں بھی یہی دعویٰ کیا گیا ہے کہ 1970 کی دہائی کے وسط میں رحیم یار خان شکار کے لیے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں کا پسندیدہ علاقہ بن گیا کیونکہ ان کے اپنے صحراؤں میں تلور معدوم ہوتا جا رہا تھا۔ یہ شیوخ دسمبر سے فروری کے مہینوں میں آتے کیونکہ پاکستان ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں نایاب سمجھا جانے والا پرندہ تلور موسمِ سرما گزارتا ہے۔
رفتہ رفتہ یہ حکومت اور مقامی لوگوں کے لیے منافع بخش کام بھی بن گیا۔ 2019 میں معاشی امور پر رپورٹ کرنے والے جریدے ’دی اکانمسٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ ڈالر کے عوض شکار گاہ، ایک لاکھ ڈالر کے عوض دس دن کا اجازت نامہ دیا جانے لگا جس کے تحت صرف سو تلور کے شکار کی اجازت دی جاتی اور ہر تلور کے عوض ایک ہزار ڈالر اضافی دینا ہوتے۔
تاہم اس سے قبل یہ معاملہ اس وقت متنازع ہو گیا تھا جب بلوچستان ہائی کورٹ نے نومبر 2014 میں اپنے ایک فیصلے میں عرب شیوخ کو شکار گاہیں الاٹ کرنے کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ اس کے بعد اگست 2015 میں اس وقت کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے تلور کے شکار پر پابندی عائد کرنے کے بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔
تاہم پھر جنوری 2016 میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے تلور کے شکار پر مکمل پابندی عائد کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔
اس وقت جسٹس میاں ثاقب نثار نے فیصلے میں لکھا تھا کہ عالمی ادارہ برائے جنگلی حیات نے تلور کو اُن پرندوں میں شامل نہیں کیا جن کی نسل معدوم ہو رہی ہے اور اقوامِ متحدہ کا کنونشن اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ان نسلوں کی افزائش کر کے شکار کیا جا سکتا ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا کہ قانون کا جائزہ لے کر عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ تلور کے شکار پر مستقل پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔
شیخ زید النہیان کا ’دوسرا گھر‘
تحقیق سے علم ہوتا ہے کہ ستر کی دہائی میں شیخ زید نے رحیم یار خان میں فلاحی منصوبوں کا آغاز کر دیا تھا۔ ڈان اخبار کی 24 جنوری 1974 کی خبر کے مطابق اس دن شیخ زید نے رحیم یار خان کے محل میں ایک پریس کانفرنس کی اور اعلان کیا کہ شہر سے صحرا تک 19 میل طویل سڑک تعمیر کروائی جائے گی جبکہ ہسپتال اور مسجد کی تعمیر کا اعلان بھی کیا گیا۔ شہر کے ڈپٹی کمشنر نے اس سڑک کا نام شیخ زید روڈ رکھنے کا اعلان کیا۔
رئیس عباس زیدی، جو اس وقت پنجاب ٹرانسپورٹ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین ہیں، 1993 سے 1996 تک رحیم یار خان کے ڈپٹی کمشنر تھے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ ’متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ زید اس وقت بھی رحیم یار خان آیا کرتے تھے جب ان کا ملک تیل کی وجہ سے امیر نہیں ہوا تھا۔‘
شیخ زید کے رحیم یار خان سے تعلق کے بارے میں بتاتے ہوئے اہم سفارتی ذرائع نے بی بی سی کو اس بات کی تصدیق کی کہ متحدہ عرب امارات کے قیام سے قبل ہی شیخ زید النہیان رحیم یار خان کے دوروں پر آیا کرتے تھے۔
سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ’ابتدائی دوروں کی وجہ شیخ زید کا شکار کا وہ شوق تھا جسے فالکنری کہتے ہیں۔‘ یاد رہے کہ عرب ثقافت سے جڑے اس روایتی کھیل میں تربیت یافتہ شکاری پرندوں، جیسا کہ باز، عقاب اور شکروں، کی مدد سے قدرتی ماحول میں شکار کیا جاتا ہے جسے یونیسکو نے ’انسانیت کے ثقافتی ورثے‘ کا درجہ دیا ہے۔
یاد رہے کہ چند دہائیاں قبل ابو ظہبی کا النہیان خاندان اتنا امیر نہیں تھا۔ متحدہ عرب امارات اور النہیان خاندان کی امارات کی کہانی کا آغاز 1960 کی دہائی میں ہوا جب اس خطے سے تیل کی دریافت ہوئی۔ مگر تیل کی دریافت کے فوراً بعد ابوظہبی کے اس وقت کے شاہ شیخ زید بن سلطان النہیان نے خطے کی تمام امارات کو یکجا کر کے متحدہ عرب امارات کے نام سے ایک ملک بنایا۔
رئیس عباس زیدی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو سے شیخ زید النہیان کا خصوصی تعلق تھا لیکن ان کے مطابق ابتدائی زمانے میں حکومت پاکستان کے بجائے ان کے رہنے کے انتظامات بی سی سی آئی بینک کیا کرتا تھا جس کی وجہ آغا حسن عابدی اور شیخ زید کا قریبی تعلق تھا۔
رئیس عباس زیدی کے مطابق شیخ زید رحیم یار خان کو اپنا ’دوسرا گھر‘ قرار دیتے تھے۔ ’ایک بار شیخ زید بیمار ہو گئے تو انھوں نے کہا کہ مجھے رحیم یار خان لے چلو، میں ٹھیک ہو جاؤں گا۔ اُس مرتبہ وہ ڈیڑھ ماہ تک رحیم یار خان رکے۔‘
ذرائع کے مطابق ’شیخ زید کو رحیم یار خان کا خشک علاقہ مقامی حیاتیاتی تنوع کی وجہ سے بھی بھا گیا کیونکہ انھیں صحرا کا ماحول فطری طور پر پسند تھا۔ صحرا کی زندگی کے ساتھ ساتھ مقامی ثقافت کا رنگ اور تاریخ کا امتزاج بھی شیخ زید کے رحیم یار خان سے تعلق کی وجہ بنا۔‘
ذرائع کے مطابق ’شیخ زید النہیان کی ابوظہبی میں پرورش کے دوران ان کا جنوبی پنجاب کے قبائل سے تعارف ہوا جس میں روایات اور رہن سہن کے طریقوں سے جان پہچان ہونے کے علاوہ شیخ زید کو دلچسپی پیدا ہوئی اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ وہ رحیم یار خان جیسے ماحول میں ایسا ہی محسوس کرتے تھے جیسے وہ اپنے گھر میں موجود ہیں۔‘
خود رئیس عباس زیدی کے تین سالہ دور میں ان کے مطابق شیخ زید چار بار رحیم یار خان آئے۔
شیخ زید کا محل رحیم یار خان شہر سے کبھی چند کلومیٹر کی دوری پر واقع تھا جہاں تک رسائی کے لیے ایئرپورٹ سے خصوصی شاہراہ تعمیر ہوئی۔ لیکن رفتہ رفتہ شہر کا پھیلاؤ بھی اسی جانب ہوتا چلا گیا اور اب محل سے صرف کچھ ہی فاصلے پر ایک نیا ایئرپورٹ بن چکا ہے جہاں حال ہی میں متحدہ عرب امارات کے موجودہ صدر محمد بن زید النہیان کو پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف سے ایک گاڑی میں بیٹھے ہوئے گفتگو کرتے ہوئے دیکھا گیا۔
’حکمران نہیں، پوری حکومت آتی تھی‘
رئیس عباس زیدی کے مطابق ستر کی دہائی میں پہلی بار شیخ زید نے رحیم یار خان ضلع میں سرکاری زمین لیز پر حاصل کی جو ریگستان میں واقع تھی۔
ان کے مطابق اس کے بعد ان کے دور میں چار ہزار ایکڑ مزید زمین لیز پر لی گئی جو بنجر اور بے آباد تھی۔ ’وہاں پانی نہیں تھا لیکن اس زمین کو آباد کیا گیا، سڑکیں بنائی گئیں، اور صحرا کے خانہ بدوشوں کی زندگی بدل گئی۔‘
تاہم رئیس عباس زیدی کے مطابق بطور ڈپٹی کمشنر متحدہ عرب امارات کے حکمران کی رحیم یار خان آمد کے بعد ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری بڑھ جایا کرتی تھی۔
’جب شیخ زید زیادہ عرصے کے لیے آتے تھے تو ان کی مجلس یعنی کابینہ کا اجلاس بھی ادھر ہی ہوا کرتا تھا اور اکثر دوسرے ممالک کے عہدیداران ملاقات کے لیے آیا کرتے تھے۔ اس دوران بینظیر بھٹو وزیراعظم تھیں جو خود شیخ زید سے ملنے آیا کرتی تھیں جبکہ نواز شریف اپوزیشن لیڈر تھے، وہ بھی آتے تھے۔‘
رئیس عباس زیدی کہتے ہیں کہ ’محل میں شیخ زید کے کمرے کے باہر چیتے کی کھال لگی تھی جو ذوالفقار علی بھٹو نے تحفہ کے طور پر دی تھی اور ان کی ہدایت تھی کہ اس کھال کو ہٹایا نہ جائے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ شیخ زید کو وی وی آئی پی پروٹوکول دیا جاتا تھا جو صدر اور وزیر اعظم کے لیے مخصوص ہے۔
’پنجاب حکومت کی بلو بک کے مطابق وی وی آئی پی کو خاص طرح کی سکیورٹی دی جاتی ہے۔ تاہم رئیس عباس زیدی کے مطابق متحدہ عرب امارات سے ان کی اپنی سکیورٹی بھی آتی تھی جو بہت پیشہ ورانہ ہوا کرتی تھی اور ان کے ایک وزیر ضلعی انتظامیہ سے رابطے میں ہوتے تھے۔‘
تلور کے شکار کے حوالے سے کی جانے والی تنقید پر ایک سوال کے جواب میں رئیس عباس زیدی نے کہا کہ ’کسی تلور نے پاکستان کی کیا مدد کی ہو گی جو شیخ زید خاندان نے کی۔‘
ہسپتال اور مساجد
سفارتی ذرائع کے مطابق ’متحدہ عرب امارات کا شاہی خاندان، خصوصی طور پر شیخ زید النہیان کا خاندان، پورے پاکستان میں ہی سرمایہ کاری کرتا ہے لیکن رحیم یار خان میں خصوصی طور پر مختلف منصوبوں میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے جن میں صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر کے منصوبے شامل ہیں۔‘
سفارتی ذرائع کے مطابق ان منصوبوں نے مقامی آبادی کو بہتر علاج کی سہولیات کے ساتھ ساتھ تعلیمی مواقع بھی فراہم کیے ہیں جبکہ انٹرنیشنل ایئرپورٹ، سڑکیں، پانی کی فراہمی سمیت تحفظِ ماحولیات میں سرمایہ کاری نے مختلف انداز میں مقامی آبادی کی مدد کی ہے۔
رئیس عباس زیدی کے مطابق رحیم یار خان کے شیخ زید ہسپتال سے لے کر مقامی شیخ زید سکول تک بہت سے منصوبوں کے لیے متحدہ عرب امارات کے حکمران خاندان نے مدد فراہم کی۔ ’ہسپتال کے لیے فرانس سے مشینری منگوائی گئی تھی۔‘
حال ہی میں اس ہسپتال میں ایک نیا اور جدید کارڈیک مرکز بنایا گیا جس پر پونے چار ارب روپے کی لاگت آئی۔ سینٹر کے فوکل پرسن کے مطابق یہ شیخ محمد بن زید کی جانب سے تعمیر کروایا گیا اور ہسپتال کے اہک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایک سال تک اس سینٹر کا خرچ بھی متحدہ عرب امارات کی جانب سے اٹھایا جا رہا ہے۔
رئیس عباس زیدی کے مطابق ان کے دور میں شیخ زید کی جانب سے ہر سال ایک خاص فنڈ مختص کیا جاتا تھا جو مساجد کے لیے دیا جاتا تھا۔
’ضلع میں کل 450 مساجد تھیں۔ ہم ان میں مسائل کی نشان دہی پہلے ہی کر لیتے تھے اور جب شیخ زید کے مشیر آتے تھے تو وہ ان کے لیے پیسے دیا کرتے تھے اور یہ ہر سال ہوتا تھا۔‘
متحدہ عرب امارات کی جانب سے پاکستان کے مختلف شہروں اور علاقوں میں فلاحی منصوبوں کے لیے امداد دی گئی ہے اور کئی علاقوں میں شیخ زید اور شیخ خلیفہ بن زید کے نام کے ہسپتال موجود ہیں۔
تاہم رحیم یار خان جیسے شہر میں ان منصوبوں نے کیسے مقامی لوگوں کی زندگی بدلی؟ اس میں جہاں دیگر عوامل بھی شامل ہیں وہیں شیخ زید کی صحت کے شعبے میں سرمایہ کاری کا اہم کردار ہے۔
ایک مقامی ڈاکٹر جو سنہ 1984 میں رحیم یار خان منتقل ہوئے تھے بتاتے ہیں کہ اس سے پہلے ’مقامی ڈی ایچ کیو ایک چھوٹا ہسپتال ہوا کرتا تھا لیکن پھر شیخ زید کی سرمایہ کاری کی وجہ سے اسے وسعت ملی، جدید مشینری آئی، نئے شعبے کھلے، ڈاکٹروں کو رہائش کی سہولت بھی ملی تو یہ ایک بڑا ہسپتال بن گیا۔‘
واضح رہے کہ رحیم یار خان کا جغرافیہ کافی اہم ہے۔ پنجاب کے جنوب میں واقع صوبے کا یہ آخری ضلعی ہیڈکوارٹر ہے جس کی سرحدیں مشرق میں انڈیا، جنوب میں سندھ سے ملتی ہیں جبکہ بلوچستان کے مشرقی علاقوں تک رسائی بھی یہاں سے آسان ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کرنے والے مقامی ڈاکٹر بتاتے ہیں کہ اس زمانے میں وہ اپنے شعبے میں سکھر سے بہاولپور تک واحد سپیشلسٹ تھے۔ ’اسی طرح اور شعبوں میں بھی لوگ تھے تو سندھ اور بلوچستان تک سے مریض رحیم یار خان آیا کرتے تھے۔‘ ان کے مطابق اب بھی اس ہسپتال میں مریضوں کی ایک بڑی تعداد شہر کے باہر سے آتی ہے جس کی وجہ یہاں موجود سہولیات ہیں۔
ان کے مطابق شہر کی ترقی میں صحت کی ایسی سہولت کا اہم کردار تھا جس میں مرکزی سرمایہ کاری شیخ زید نے کی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’رحیم یار خان کے قریب قریب کوئی اور ایسا ضلعی ہیڈکوارٹر نہیں ہے جہاں ایئر پورٹ بھی ہو، میڈیکل کالج بھی ہو، ایسا ہسپتال بھی ہو اور جہاں ریگستان تک آباد ہوں۔‘
مومن اور چوہدری منیر
اب واپس چلتے ہیں مومن کی کہانی کی جانب۔ رئیس عباس زیدی بتاتے ہیں کہ مومن کو شیخ زید کی جانب سے ’نسان پیٹرول جیپ‘ کا تحفہ ملنے پر انھیں یہ فکر لاحق ہوئی کہ کہیں ایک انتہائی غریب شخص سے کوئی وڈیرہ یا با اثر شخص یہ گاڑی چھین نہ لے۔
وہ بتاتے ہیں کہ مومن تو بہت غریب تھا۔ انھوں نے یہ گاڑی اپنی تحویل میں لے لی۔ رئیس عباس زیدی کے مطابق اس زمانے میں، 1990 کے وسط میں، اس گاڑی کی قیمت کا تخمینہ لگوایا گیا تو 38 لاکھ روپے بنا۔
’ہم نے یہ گاڑی نیلام کر دی اور اس سے جو پیسے ملے تھے، اس سے مومن کو پچاس ایکڑ یعنی دو مربع زمین خرید کر اس کے نام کر دی۔‘
مومن کی زندگی تو پل بھر میں شیخ زید کے تحفے نے بدل دی لیکن رحیم یار خان کی ایک اور ایسی شخصیت بھی ہیں جن کی قسمت بدلنے میں متحدہ عرب امارات کے شاہی خاندان کا بڑا ہاتھ ہے۔
یہ شخصیت اب سابق وزیر اعظم نواز شریف اور پنجاب کی وزیر اعلی مریم نواز کے رشتہ دار ہی نہیں بلکہ پاکستان کے ایک بڑے کاروباری گروپ کے مالک ہیں جن کی اس کاروباری سلطنت میں شوگر ملز بھی ہیں اور پاور جنریشن کمپنیاں بھی۔
لیکن مقامی افراد کے مطابق ایک زمانہ تھا جب ان کا صرف لکڑی کا ایک ٹال ہوا کرتا تھا۔
یہ شخصیت چوہدری منیر ہیں جن کی کمپنی ٹیکنیکل ایسوسی ایٹس پاکستان پرائیویٹ لمیٹڈ پاکستان میں متحدہ عرب امارات کے تقریبا تمام منصوبوں کی تعمیر کی ذمہ دار ہے۔ کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق رحیم یار خان کا ہسپتال ہو یا شیخ زید ایئرپورٹ، شیخ خلیفہ بن زید سکول ہو یا پھر ڈیرہ بگٹی میں 40 بستروں کا شیخ خلیفہ بن زید ہسپتال، یہ سب اسی کمپنی نے تعمیر کیا ہے۔
بی بی سی نے ٹی اے پی ایل سے اس بارے میں رابطہ کیا تاہم ان کی جانب سے جواب نہیں دیا گیا۔ ٹی اے پی ایل، جو ویب سائٹ کے مطابق 1977 میں بنی تھی، اب اتحاد گروپ میں شامل صرف ایک کمپنی ہے۔
اتحاد گروپ، جس کے ڈائریکٹر راحیل منیر مریم نواز کے داماد ہیں، کی ویب سائٹ کے مطابق اس میں اتحاد سٹیل مل، اتحاد شوگر مل، اتحاد انرجی، سمیت ریئل سٹیٹ کے مختلف منصوبے میں شامل ہیں اور گروپ کے پاکستان کے علاوہ برطانیہ اور متحدہ عرب امارات میں بھی دفاتر موجود ہیں۔
اس بارے میں جب رئیس عباس زیدی سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ’چوہدری منیر پراجیکٹ ڈائریکٹر ہوا کرتے تھے شیخ زید کے ہر پراجیکٹ کے۔ رحیم یار خان کی سڑکیں، ہسپتال، ایئر پورٹ ان تمام پراجیکٹس کو چوہدری منیر مکمل کیا کرے تھے۔‘
ان کے مطابق ’جب شیخ زید رحیم یار خان آئے تو انھیں کسی ایسے مقامی شخص کی ضرورت تھی جو ان کے لیے سارے کام کرتا، تو انھیں چوہدری منیر مل گئے۔‘
جن مقامی افراد سے بی بی سی کی بات ہوئی ان کے مطابق لکڑی کا کاروبار کرنے والے چوہدری منیر کے خاندان کو پہلے چھوٹے چھوٹے ٹھیکے ملتے تھے لیکن آہستہ آہستہ ان کا ابوظہبی کے شاہی خاندان سے تعلق مضبوط ہوتا چلا گیا اور ایک وقت آیا کہ شیخ زید کی تمام سرمایہ کاری کو عملی جامہ پہنانے کی ذمہ داری چوہدری منیر کی کمپنی کو ہی ملتی اور آج وہ پاکستان کے ایک بڑے کاروباری گروپ کے مالک ہیں۔