رانی پور میں کمسن ملازمہ کا ریپ اور قتل کیس: ’ملزمان کی ضمانت پر کوئی اعتراض نہیں‘، والدہ نے عدالت میں درخواست جمع کروا دی

پاکستان کے صوبہ سندھ میں ریپ کے بعد قتل ہونے والی کمسن گھریلو ملازمہ فاطمہ پھرڑو کے والدین نے مقدمے میں نامزد ملزمان سے سمجھوتہ کر لیا ہے اور عدالت میں درخواست جمع کرائی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انھیں ملزمان کی ضمانت پر اعتراض نہیں۔
تصویر
Getty Images

پاکستان کے صوبہ سندھ میں ریپ کے بعد قتل ہونے والی کمسن گھریلو ملازمہ فاطمہ پھرڑو کے والدین نے مقدمے میں نامزد ملزمان سے سمجھوتہ کر لیا ہے اور عدالت میں درخواست جمع کروائی ہے جس میں کہا ہے کہ انھیں ملزمان کی ضمانت پر اعتراض نہیں۔

یاد رہے 13 اگست 2023 کو 10 سالہ کمسن گھریلو ملازمہ فاطمہ صوبہ سندھ کے علاقے رانی پور کے ایک پیر کی حویلی میں ہلاک ہو گئی تھیں۔

فاطمہ کی قبر کشائی کر کے پوسٹ مارٹم کیا گیا تھا جس میں کمسن ملازمہ کے ساتھ ریپ اور تشدد کی تصدیق ہوئی تھی جس کے بعد پولیس نے مقدمہ درج کرکے ملزم پیر اسد شاہ، ان کی بیگم حنا شاہ اور سسر پیر فیاض شاہ کو گرفتار کیا تھا۔

خیرپور کی فورتھ ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں فاطمہ پھرڑو کی والدہ شبانہ پھرڑو پیش ہوئیں اور تحریری درخواست جمع کرائی جس میں انھوں نے موقف اختیار کیا کہ انھیں ’نامزد ملزمان کی ضمانت پر کوئی اعتراض نہیں۔‘

ملزمان کے وکیل ایڈووکیٹ قربان ملانو نے عدالت کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے سمجھوتے کی تصدیق کی اور کہا کہ مدعی نے کہا ہے کہ انھیں ضمانت پر اعتراض نہیں اور اب 7 فروری کو عدالت ضمانت کا فیصلہ کرے گی۔

فاطمہ پھرڑو کے والدین کی لیگل ٹیم میں شامل ایڈووکیٹ یاسین گھنیو کا کہنا ہے کہ ’ہر سماعت پر فاطمہ کے والدین رینجرز اور پولیس کی نگرانی میں آتے تھے، گذشتہ شب جب ان سے رابطہ ہوا تو انھوں نے انکار کیا اور کہا کہ وہ عدالت میں نہیں آئیں گے، اس کے برعکس صبح والدہ عدالت میں پیش ہوئیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے پہلے بھی بچی کی والدہ بیان دینے کے بعد اس سے پھر گئی تھیں جس کی وجہ سے وکلا کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا اور اس صورتحال کے بعد وکلا وکالت ناموں سے دستبردار ہو گئے۔‘

فلاحی تنظیم سندھ سہائی تنظیم کی رہنما عائشہ دہاریجو اس کیس کی پیروی کرتی رہی ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے بھی سندھ ہائی کورٹ میں بھی درخواست دائر کی تھی کہ مقدمہ کراچی منتقل کیا جائے کیونکہ خیرپور میں فیملی پر دباؤ رہتا ہے لہدا وہ چاہتے ہیں کہ اس کیس کی سماعت کراچی میں ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ درخواست ابھی زیر سماعت تھی کہ فیصلی نے سمجھوتہ کر لیا۔

عائشہ کا کہنا تھا کہ ’ہم اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ والدین کے سمجھوتے کے بعد کیا بطور شہری اور سول سوسائٹی وہ اس مقدمے میں فریق بن سکتے ہیں یا نہیں اور اس کی بنیاد پر مزید کارروائی ہوگی۔‘

دوسری جانب فاطمہ کے والدین نوشہروفیروز کے علاقے خانواہن کے قریب واقع اپنے گاؤں سے گھر خالی کر کے چلے گئے ہیں۔

مقامی صحافی مظہر کلہوڑو نے بی بی سی کو بتایا کہ جب وہ ان کے گھر پہنچے تو باہر تالا لگا ہوا تھا جبکہ گاؤں والوں نے ان کے متعلق لاعلمی کا اظہار کیا۔

bbc
BBC
ستمبر 2023 میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بچی کی والدہ کا کہنا تھا کہ ’میں فاطمہ کے خون کا سودا نہیں کروں گی‘

10 سالہ فاطمہ رانی پور کی حویلی میں بطور ملازمہ کام کرتی تھیں

ایڈیشنل پولیس سرجن شہید بینظیر آباد امان اللہ بھنگوار کی تیار کردہ عبوری پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق 10 سالہ فاطمہ کی پیشانی پر نیل پڑے ہوئے تھے، سینے کے اوپری حصے پر سرخ و سیاہ نشان موجود تھے جبکہ اسی طرح پیٹھ پر بھی تشدد کے واضح نشان موجود تھے۔ اس کے علاوہ بازو، ہاتھ پر بھی زخم تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا یہ تمام چوٹیں قبل از مرگ کی ہیں۔ رپورٹ میں اینل اور وجائنل پینیٹریشن کی علامات ظاہر ہوئی تھیں تاہم لیبارٹری میں جائزے کے لیے نمونے اکٹھے کیے گئے تھے۔

اس رپورٹ کے مطابق گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرنے والی بچی کی موت پُراسرار حالات میں ہوئی اور انھیں بغیر میڈیکو لیگل جائزے کے دفن کیا گیا۔

10 سالہ بچی سندھ کے علاقے رانی پور میں ایک پیر گھرانے کی حویلی میں بطور ملازمہ کام کرتی تھیں اور ان کے والدین کو بذریعہ فون آگاہ کیا گیا تھا کہ پیٹ میں درد کے باعث ان کی بچی کی ہلاکت ہوئی۔

bbc
BBC
فاطمہ کی والدہ کے مطابق انھوں نے اپنی بیٹی کو حویلی پر پیروں کے بچوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے چھوڑا تھا

ستمبر 2023 میں بی بی سی کو دیے ایک انٹرویو میں فاطمہ کی والدہ شبانہ کا کہنا تھا کہ ’میں پیر اور بی بی (پیر کی اہلیہ) کو ہرگز معاف نہیں کروں گی۔‘

انھوں نے بتایا تھا کہ فاطمہ نو ماہ حویلی رہی اس دوران ’حویلی کے گیٹ کے باہر پانچ سات منٹ ملاقات ہوتی تھی۔ فاطمہ کے ساتھ ایک ملازمہ ہوتی تھی تاکہ اس پر نظر رکھ سکے جبکہ سی سی ٹی وی کیمرے بھی لگے ہوئے تھے۔ اس لیے فاطمہ کوئی بات نہیں بتاتی تھی نہ کسی تکلیف کا ذکر کرتی تھی۔‘

بقول ان کے فاطمہ کی ملازمت کے عوض انھیں تین ہزار روپے ملتے تھے۔

شبانہ آخری بار 28 جولائی کو اپنی بیٹی سے ملنے گئی تھیں اور ان کے مطابق انھوں نے فیاض شاہ کی منت سماجت کی کہ خاندان میں شادی ہے اس لیے فاطمہ کو ساتھ لے جانے دیں مگر فیاض شاہ نہیں مانے اور پھر وہ واپس لوٹ آئیں۔

شبانہ کے شوہر بھی اپنی بیٹی کو لینے حویلی گئے لیکن انھیں بھی ناکام لوٹنا پڑا اور پھر بلآخر اس کی لاش واپس آئی۔

شبانہ کا کہنا تھا کہ 'جب ہم نے فاطمہ کو دفن کیا تو اس کے بازوؤں، گلے پر تشدد کے نشانات تھے۔ بال نوچے ہوئے تھے جبکہ ایک بازو بھی ٹوٹا ہوا تھا۔ ہم نے فاطمہ کے زخم تو دیکھے لیکن اس پر ہونے والا ظلم نہیں دیکھا تھا۔'

ویڈیو وائرل ہونے کے بعد گرفتاریاں

اگست 2023 میں پولیس نے اس واقعے میں نامزد مرکزی ملزم، علاقہ ایس ایچ او اور بچی کا علاج کرنے والے ڈاکٹر کو گرفتار کیا تھا۔ ایس ایچ او رانی پور کو فرائض سے غفلت برتنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا جبکہ مرکزی ملزم کی گرفتاری بچی کی والدہ کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کی بنیاد پر کی گئی۔

ضلع نوشہرو فیروز سے تعلق رکھنے والے بچی کے والدین نے میت وصول کرنے کے بعد گاؤں میں اس کی تدفین کر دی تھی۔

تاہم تدفین سے قبل ہی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں 10 سالہ بچی کے جسم اور سر پر تشدد اور زخموں کے نشانات نظر آ رہے تھے۔ پولیس حکام نے بتایا تھا کہ انھوں نے ملزم پیر کی حویلی میں نصب کیمروں کا مکمل ریکارڈ حاصل کر لیا ہے۔

اس ابتدائی ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد ایک سی سی ٹی وی فوٹیج بھی شیئر ہوئی جس میں نظر آ رہا تھا کہ ایک بچی زمین پر پڑی تکلیف میں کراہ رہی ہے اور اسی دوران ایک خاتون اور ان کے پیچھے آتی ہوئی ایک بچی کمرے میں داخل ہوتے ہیں۔

کمرے میں داخل ہونے والی خاتون کے انتباہ پر اُسی کمرے میں بیڈ پر لیٹا ہوا شخص جلدی سے اٹھتا ہے اور بچی کی سانسیں چیک کرتا ہے۔

اس نوعیت کی مزید ویڈیوز سامنے آنے کے بعد ایس ایس پی خیرپور گذشتہ روز متاثرہ خاندان کے گھر پہنچے اور بچی کی والدہ سے ملاقات کی۔ پولیس کے مطابق بچی کی والدہ کو یقین دہانی کروائی گئی کہ وہ ایف آئی آر درج کرائیں تاکہ اس معاملے کی تفتیش ہو سکے اور ملزمان کو گرفتار کیا جا سکے۔

یہ بھی پڑھیے

ایف آئی آر میں کیا کہا گیا تھا؟

پولیس کی جانب سے یقین دہانی کے بعد اس واقعے کا مقدمہ بچی کی والدہ کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ہلاک ہونے والی بچی گذشتہ نو ماہ سے ملزم کی حویلی پر کام کرتی تھی۔ والدہ کے مطابق کچھ عرصہ قبل جب وہ اپنی بچی سے ملنے حویلی گئے تھے تو بچی نے بتایا تھا کہ پیر (ملزم) اور ان کی اہلیہ اس سے بہت زیادہ کام کاج کرواتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی بات پر مار پیٹ بھی کرتے ہیں۔

والدہ کے مطابق انھوں نے بچی کی شکایت سُن کر پیر کی اہلیہ سے ملاقات بھی کی اور ان سے ’رحم کی گذارش‘ کی جس کے بعد وہ اپنے شوہر کے ہمراہ گھر واپس آ گئیں۔

مدعی مقدمہ کے مطابق 14 اگست کی دوپہر انھیں حویلی سے ایک شخص کی کال موصول ہوئی کہ اُن کی بیٹی طبعیت میں خرابی کے باعث فوت ہو گئی ہے اور اس کی لاش لے جائیں۔ایف آئی آر کے مطابق والدہ نے ملزم پیر سے بچی کی ہلاکت سے متعلق استفسار کیا تو وہ کوئی خاطر خواہ جواب نہ دے سکے۔

والدہ کے مطابق وہ اپنی بچی کی میت کو گاؤں لے آئے اور اس کی تدفین کر دی۔

 بچی تشدد سے ہلاک
Getty Images

’بچی کے اعضا پر سوجن تھی‘

ایس ایس پی کی موجودگی میں بچی کی والدہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ اپنی بچی کے معاملے پر اس لیے خاموش رہیں کیونکہ اُن کے گاؤں کی تین دیگر لڑکیاں بھی وہاں (پیر کی حویلی) پر قید تھیں اور انھوں نے سوچا تھا جب ان کی بخیریت واپسی ہو جائے گی تب وہ بات کریں گی۔

والدہ نے دعویٰ کیا کہ بچی کی پیٹھ، گردن اور پسلیوں پر تشدد کے نشانات موجود تھے اور انھیں شبہ ہے کہ اس کا بازو بھی ٹوٹا ہوا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم نے سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھی ہے جس میں میری بیٹی تڑپ تڑپ کی ہلاک ہوئی ہے۔ جو ویڈیو وائرل ہوئی ہے وہ بلکل سچی ہے۔ ہمیں ویڈیوز کے ٹکڑے دیے گئے ہیں۔ اُن کے پاس 24گھنٹوں کی ویڈیو موجود ہو گی، اس کو دیکھا جائے اور ہم سے انصاف کیا جائے۔‘

بچی کے والد گزر بسر کے لیے معمولی محنت مزدوری کرتے ہیں۔

بچی کو غسل دینے والی خاتون نے اس موقع پر مقامی صحافیوں کے سامنے دعویٰ کیا کہ ’بچی کے اعضا پر سوجن تھی۔‘

ملزم کی پریس کانفرنس اور دعوے

یاد رہے کہ یہ معاملہ سامنے آنے کے بعد مرکزی ملزم نے اپنی گرفتاری سے قبل کی گئی ایک پریس کانفرنس میں تشدد کے الزامات کو مسترد کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 12اگست کو بچی کی طبعیت خراب ہوئی جس پر ان کے فیملی ڈاکٹر نے بچی کے لیے ادویات اور ڈرپس تجویز کیں جو بچی کو دی گئیں مگردوا کے چھسے سات گھنٹے کے بعد دوبارہ اس کی طبعیت خراب ہو گئی۔

ملزم نے پریس کانفرنس میں مزید دعویٰ کیا تھا کہ 13 اگست کو انھوں نے دوبارہ ڈاکٹر کو کہا کہ بچی ٹھیک نہیں ہو رہی ہے چنانچہ کوئی اور دوا تجویز کریں۔

’ہم بچی کے والدین کو اور بچی کے والدین ہمیں جانتے ہیں۔ ہم نے ہی انھیں سی سی ٹی وی فوٹیج فراہم کی ہے ورنہ میرے گھر کی سی سی ٹی وی فوٹیج تک رسائی کسی اور کی تو نہیں بلکہ میری ہوگی نا۔‘

جب ان سے سوال کیا گیا کہ بچی کے جسم پر تشدد کے نشانات کی ویڈیوز ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ جو انسان مرتا ہے اس پر تو ڈرپس کا نشان بھی بڑا ہو جاتا ہے۔

ان کے کمرے میں بچی کے سونے کے بارے میں سوال کے جواب میں ملزم کا کہنا تھا ’مریدین ہمارے بچے ہیں۔ ہمیں ان کا احساس ہوتا ہے، لہذا وہ بھی اے سی میں سوئی۔ ہم جو کھاتے ہیں وہ ہی ان کو بھی کھلاتے ہیں۔‘

تشدد سے بچی ہلاک
Getty Images
فائل فوٹو

گرفتار ملزم نے پریس کانفرنس میں مزید دعویٰ کیا کہ بچی ہیپاٹائٹس (یرقان) کے مرض میں مبتلا تھی۔

اس وقت ایس ایس پی میر روحل کھوسہ نے بتایا تھا جس ڈاکٹر نے بچی کا علاج کیا تھا اسے بھی تفتیش کی غرض سے گرفتار کیا گیا ہے۔

ایس ایس پی کے مطابق 'ڈاکٹر نے بتایا کہ بچی کو گیسٹرو اینٹائٹس تھی، مگر جب ڈاکٹر سے پوچھا کہ نسخے کہاں ہیں تو انھوں نے کہا کہ وہ بچی والدین کے پاس ہیں۔'

اس وقت ڈاکٹر فتاح میمن کی گرفتاری کے خلاف رانی پور کے سرکاری ہسپتالوں میں احتجاج کرتے ہوئے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ مذکورہ ڈاکٹر نے ہمدردی کی بنیاد پر علاج کیا تھا اور ان کو کیس میں غلط طور پر ملوث کیا جا رہا ہے۔

ان ڈاکٹروں کے مطابق کسی نجی کلینک کا ڈاکٹر ایم ایل سی سرٹیفیکٹ جاری نہیں کرتا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.