دلی انتخابات میں بی جے پی کی جیت کی پیشگوئی، اروند کیجریوال کی عام آدمی پارٹی کے لیے اس کا مطلب کیا ہو گا؟

اگر بی جے پی کی تمام تر کوششوں کے باوجود اس ریاست میں ’آپ‘ تیسری بار بھی اقتدار میں آ گئی تو پارٹی کے رہنما اروند کیجریوال کی اہمیت ملک کی قومی سیاست میں بہت بڑھ جائے گی اور یہ بی جے پی کے لیے ایک بہت بڑا سیاسی دھچکہ ہو گا۔ اسی لیے دلی کا یہ انتخاب زبردست اہمیت اختیار کر گیا ہے۔
Getty Images
Getty Images

انڈیا کے دارالحکومت دلی میں بدھ کو ریاستی اسمبلی کے انتخابات کے لیے ووٹ ڈالے گئے اور ووٹوں کی گنتی آٹھ فروری یعنی سنیچر کے روز کی جائے گی۔

لیکن میڈیا گروپس کے ذریعے کرائے گئے تقریباً سب ہی ایگزٹ پولز میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جیت کی پیشگوئی کی گئی ہے۔

اگر بی جے پی اس انتخاب میں فتح یاب ہوتی ہے تو وہ 27 برس کے وقفے کے بعد ایک بار پھر دلی کی ریاستی اسمبلی کا کنٹرول سنبھال لے گی۔

تاہم ضروری نہیں کہ ایگزٹ پولز کی پیشگوئیاں درست ہی ثابت ہوں۔ ابھی حال ہی میں ہریانہ اور مہاراشٹر اسمبلی کے انتخابات میں بیشتر ایگزٹ پولز کی پیشگوئیاں غلط ثابت ہوئی تھیں۔

لیکن اگر آٹھ فروری کو انتخابات کے نتائج واقعی اروند کیجریوال کی عام آدمی پارٹی کے خلاف گئے تو یہ صرف اس کی سیاسی شکست نہیں ہو گی بلکہ اس کے وجود کے لیے بھی بہت بڑا چیلنج ہو گا۔

لیکن اگر وہ بی جے پی کی تمام کوششوں کے باوجود تیسری بار بھی دلی میں اقتدار میں آ گئی تو پارٹی کے رہنما اروند کیجریوال کی اہمیت بہت بڑھ جائے گی اور یہ بی جے پی کے لیے بہت بڑا سیاسی دھچکہ ہوگا۔

‏عام آدمی پارٹی گزشتہ دس برس سے دلی میں اقتدار میں ہے۔ اروند کیجریوال کی قیادت میں عام آدمی پارٹی 2015 میں 70 رکنی اسمبلی میں 67 اور 2020 میں 62 سیٹوں کے ساتھ کامیاب ہوئی تھی۔

‏عام آدمی پارٹی اور بی جے پی کے علاوہ بڑی جماعتوں میں کانگریس بھی انتخابی میدان میں تھی۔

نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی نے کبھی بھی کسی ریاستی انتخاب میں مسلسل تیسری بار شکست نہیں کھائی۔

تجزیہ کار آرتی جے رتھ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر بی جے پی اس بار بھی دلی کے اسمبلی انتخابات میں ہار گئی تو یہ نہ صرف پارٹی کے لیے بلکہ نریندر مودی کی سیاسی ساکھ کے لیے بھی بڑا دھچکہ ہو گا۔

انڈیا، دلی الیکشن
Getty Images

بی جے پی نے ماضی کے انتخابات میں بھی عام آدمی پارٹی کو شکست دینے کے لیے پوری طاقت لگائی تھی۔ اس بار بھی وزیر اعظم نریندر مودی اور پارٹی صدر جے پی نڈا کے علاوہوزیر داخلہ امیت شاہ، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ، آسام، اتر پردیش، مہاراشٹر کے وزرا اعلی اور متعدد مرکزی وزرا نے انتخابی مہم میں حصہ لیا۔

بی جے پی کی نظریاتی تنظیم آر ایس ایس نے گزشتہ ایک مہینے میں دلی میں ووٹروں کے ساتھ50 ہزار سے زیادہ ڈرائنگ روم میٹنگز کی ہیں۔

تجزیہ کار آشوتوش نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’ماضی کے مقابلے اس بار بی جے پی کے لیے انتخاب جیتنے کا سب سے بہترین موقع ہے۔ اگر بی جے پی یہ انتخاب نہ جیت سکی تو وہ اپنی غلطیوں کی وجہ سے ہارے گی۔‘

’عام آدمی پارٹی کی حکومت کے بارے میں عوام میں بیزاری ہے۔ ان کے خلاف بدعنوانی کے الزامات ہیں ۔ اس لیے یہ بی جے پی کے لیے اچھا موقع ہے لیکن اگر پھر بھی اروند کیجریوال انتخاب جیتتے ہیں تو یہ بہت تاریخی لمحہ ہو گا، اس سے ذاتی طور پر کیجریوال کا سیاسی قد بڑھے گا اور ‏عام آدمی پارٹی کا سیاسی اثر قومی سطح پر بڑھ جائے گا۔‘

آشوتوش کہتے ہیں کہ عام آدمی پارٹی، کانگریس اور بی جے پی کی طرح پچاس برس پرانی پارٹی نہیں اور اس کی جڑیں ابھی اتنی مضبوط نہیں۔

’آپ پارٹی کے بارے میں جو خدشات ہیں وہ بے بنیاد نہیں کیونکہ اس کی جڑیں پرانی جماعتوں کی طرح مضبوط نہیں۔ اس کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے یہ پارٹی ایک فرد واحد کے گرد جمع ہو گئی۔ اس کے اندر دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح کا تنظیمی ڈھانچہ نہیں۔‘

’اس کا کام کرنے کا طرز الگ ہے۔ دلی عام آدمی پارٹی کا گڑھ ہے۔ اگر وہ یہاں ہارتی ہے اور اقتدار سے باہر ہو جاتی ہے تو ایک طرح سے ان کے لیے اپنے وجود کو زندہ رکھنے کا بحران پیدا ہو جائے گا۔‘

آشوتوش کہتے ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اگر کسی ریاست میں ایک انتخاب ہار جاتے ہیں تو اگلی بار وہ جیت کے لیے آتے ہیں۔یہاں اگر شکست ہو گئی تو انتخاب جتوانے کی ان کی ذاتی صلاحیتوں کے بارے میں بھی سوال اٹھیں گے۔

یاد رہے کہ عام آدمی پارٹی سیاست میں بدعنوانی کے خلاف ایک تحریک کے طور پر اروند کیجریوال کی قیادت میں وجود میں آئی تھی۔

اپنے اقتدار کے پہلےپانچ برس میں پارٹی نے دلی میں سرکاری سکولوں کو بہتر بنایا، نئے سکول کھولے، بہترین ہسپتال ‍قائم کیے، غریب اور کچی بستیوں میں رہنے والے لاکھوں باشندوں کے لیے مفت بجلی اور پانی کی سپلائی کا انتظام کیا۔

لیکن 2020 مین دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد کیجریوال کی حکومت تقریباً مفلوج ہو کر رہ گئی۔ ان کی حکومت پر الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے بعض مخصوص کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے شراب کی فروخت کے لائسنس کی پالیسی میں گھپلے کیے۔

اس الزام میں وزیر اعلی اروند کیجریوال کو جیل بھیجا گیا اور انھیں اپنے عہدے سے استعفی دینا پڑا تھا۔

بی جے پی
Getty Images
بی جے پی نے ماضی میں بھی عام آدمی پارٹی کو شکست دینے کے لیے پوری طاقت لگائی تھی۔ اس بار بھی وزیر اعظم نریندر مودی کے علاوہوزیر داخلہ امیت شاہ اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بھی انتخابی مہم میں حصہ لیا

عام آدمی پارٹی کا کہنا ہے کہ یہ الزامات فرضی ہیں اور بی جے پی انھیں اقتدار سے ہٹانے کے لیے یہ حربے استعمال کر رہی ہے۔ کیجریوال اور پارٹی کے کئی بڑے رہنماؤں کے جیل میں ہونے کے سبب عام آدمی پارٹی کی حکومت کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی۔

تجزیہ کار آرتی جےرتھ کہتی ہیں کہ ‏’عام آدمی پارٹی کو غریب طبقے اور دلت آبادی کے ساتھ مڈل کلاس کے لوگوں کی زبردست حمایت حاصل تھی لیکن گزشتہ دو، تین برس میں حکومت کچھ خاص کام نہیں کر سکی، دارالحکومت کی سڑکیں بری حالت میں ہیں، فضائی آلودگی ایک سنگین مسئلہ بنی ہوئی ہے، شہر میں کوئی بڑا تعلیمی ادارہ نہیں کھولا گیا۔ ان وجوہات کی بنا پر مڈل کلاس عام آدمی پارٹی سے بہت حد تک بدظن ہوِہ ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’بی جے پی اگر دلی کا انتخاب جیت گئی تو یہ اس کے لیے بڑی کامیابی ہوگی۔ یہ ہریانہ اور مہاراشٹر کے بعد اس کی تیسری جیت ہو گی۔ آئندہ مہینوں میں بہار میں انتخابات ہونے والے ہیں جو بی جے پی کے لیے دلی سے بھی زیادہ اہم ہیں۔‘

اروند کیجریوال نے دلی کی انتخابی مہم کے دوران الیکشن کمیشن پر جانبداری کا الزام عائد کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ کمیشن بی جے پی کو جتوانے کے لیے کام کر رہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے ان کے الزام کو بے بنیاد قرار دے کر رد کر دیا۔

بی جے پی ترجمان شازیہ علمی کا کہنا ہے کہ ’عام آدمی پارٹی ملک کے جمہوری اداروں کا احترام نہیں کرتی۔ وہ سبھی اداروں کو بدنام کرتی ہے۔ اس نے الیکشن کمیشن پر بھی الزام عائد کیا اور یہ اس کی شکست کی علامت ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.