’دی گریٹسٹ رائیولری‘: انڈیا اور پاکستان کے کرکٹرز پر سیاست، توقعات اور شائقین کے دباؤ کی کہانی

نیٹ فلکس پر اس سیریز کے ساتھ جو تعارفی سطریں لکھی گئی ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ 'انڈیا اور پاکستان کے درمیان کرکٹ کی دشمنی پر مبنی اس دستاویزی سیریز میں پچ پر ان کے پیچیدہ ماضی اور غیر یقینی حال کا احاطہ کیا گیا ہے۔'

نیٹ فلکس نے اپنی تازہ ترین دستاویزی فلم ’دی گریٹیسٹ رائویلری: انڈیا ورسیز پاکستان‘ جاری کی ہے جس میں وریندر سہواگ، شعیب اختر اور دیگر کھلاڑی شامل ہیں۔

تین حصوں پر مشتمل اس سیریز میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان دو طرفہ سیریز کے سیاسی اور تجارتی پہلوؤں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔

نیٹ فلکس پر اس سیریز کے ساتھ جو تعارفی سطریں لکھی گئی ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ ’انڈیا اور پاکستان کے درمیان کرکٹ کی دشمنی پر مبنی اس دستاویزی سیریز میں پچ پر ان کے پیچیدہ ماضی اور غیر یقینی حال کا احاطہ کیا گیا ہے۔‘

سرحد کی دونوں جانب شائقینِ کرکٹ اور بطور خاص انڈیا اور پاکستان کے درمیان میچز کو پسند کرنے والوں کے لیے یہ سیریز یقیناً دلچسپ ہو گی جس میں وہ ماضی کے سنسنی خیز لمحوں اور ان کے بارے میں کھلاڑیوں کے تاثرات و کیفیات جان سکیں گے۔

شعیب اور سہواگ
Getty Images

ڈاکومینٹری سیریز میں ہے کیا؟

انڈیا اور پاکستان کے درمیان ورلڈ کپ کا میچ ہو یا کوئی سیریز، جہاں یہ شائقینِ کرکٹ کے لیے کافی پر جوش لمحات ہوتے ہیں وہیں کھلاڑیوں پر بھی یہ پریشر رہا ہے کہ ’اگر میچ میں پرفارم نہ کیا تو ٹیم سے آؤٹ ہو سکتے ہیں اور کر دیا تو ہیرو بن جائیں گے۔‘

اس ڈاکومینٹری سیریز میں جن کھلاڑیوں کے انٹرویوز شامل کیے گئے ہیں ان میں مرکزی کھلاڑی انڈیا کے وریندر سہواگ اور پاکستان کے شعیب اختر شامل ہیں۔

’دی گریٹ رائویلری: انڈیا ورسیز پاکستان‘ میں وریندر سہواگ کہتے ہیں کہ ’یہ ایک ملک ہی تھا، دو بھائی ہیں جو الگ الگ ہو گئے، ہمیں ایک دوسرے کے ملک میں کھیلے زمانہ ہو گیا۔ یہ کرکٹ کے شائقین کا بڑا نقصان ہے۔‘

شعیب اختر کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ یہ ہزاروں سالوں سے ساتھ ہیں لیکن اب اختلاف اتنے ہیں کہ جب میچ دیکھنے آتے ہیں تو ان کا بوجھ بھی ساتھ لے آتے ہیں۔‘

اسی ڈاکومنٹری میں پاکستانی فاسٹ بولر وسیم اکرم کا کہنا تھا کہ پاکستان اور انڈیا کے میچ کے لیے کھلاڑیوں سے گھر والوں اور شائقین کی اتنی توقعات ہوتی ہیں جس سے ان پر دباؤ بڑھ جاتا ہے۔

اپنے کرکٹ میں آنے کے حوالے سے شعیب اختر نے بتایا کہ اس کے لیے ان کی والدہ سے حوصلہ افزائی کی ’میری ماں نے مجھے کہا کہ میں کرکٹ میں اپی قسمت کیوں نہیں آزماتا۔‘

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ انڈیا میں اچھے بلے باز جبکہ پاکستان سے اچھے بولرز سامنے آنے کی تاریخ رہی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ڈاکو مینٹری میں انڈیا سے سہواگ اور پاکستان شعیب اختر کو شامل کیا گیا۔

اس ڈاکومینٹری میں سہواگ اور شعیب اخترکے کرکٹ میں سفر کے ساتھ ساتھ ان تاریخی میچز کا ذکر ہے جن میں ان دونوں نے خود بھی کھیلا۔

کن تاریخی لمحات کا ذکر ہوا؟

پاکستان اور انڈیا کی کرکٹ 90 کی دہائی کے آغاز سے خطے کی سیاسی صورتحال کی وجہ سے متاثر ہو گئی۔ کشمیر کے معاملے میں دونوں ملکوں کی تلخی کھیل کے میدان تک آگئی۔ ہندو انتہا پسند تنظیم شیو سینا کے حملوں اور دھمکیوں کے بعد میچز کا انعقاد مشکل ہو گیا۔

تاہم 1999 میں کولکتہ میں ہونے والا ٹیسٹ میچ دونوں ملکوں کے شائقین کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں تھا بلکہ یہی وہ میچ تھا جس نے شعیب اختر کو پہچان دی۔

اس دن کو یاد کرتے ہوئے ڈاکومینٹری میں شعیب اختر کہتے ہیں ’ایک لاکھ لوگ صرف ایک نام لے رہے تھے اور وہ تھا سچن۔ مجھے لگا اسی بندے کو آؤٹ کرنا ہے۔ پھر صرف 10 سیکنڈ میں ایک لاکھ خاموش تھے اور صرف ایک شخص چِلّا رہا تھا اور وہ میں تھا۔‘

شعیب کا کہنا تھا ’اس کے بعد میں نے آنکھیںبند کر کے خود سے کہا کہ وہ دن آ گیا ہے، تم سٹار بن گئے ہو۔‘

ادھر سہواگ جنھوں نے 18 سال کی عمر میں کریئر کا آعاز کیا اور ڈیبیو میچ ہی پاکستان کے خلاف تھا۔ وہ سوچ رہے تھے کہ شعیب اختر کا سامنا کیسے کریں گے۔ وہ شعیب کی پہلی ہی گیند پر آؤٹ ہو گئے۔

سہواگ کا کہنا تھا ’مجھے گیند نظر ہی نہیں آیا، تب مجھے پہلی بار پاکستان اور انڈیا کے میچ کا پریشر محسوسں ہوا۔‘

لیکن شائقینِ کرکٹ کی خوشی زیادہ دیر نہ چلی اور 1999 کی کارگل جنگ کے بعد دونوں ملکوں میں پھر کشیدگی بڑھ گئی۔ اور یہ دوری 15 سال تک چلی۔

شعیب اور سہواگ
Getty Images

سنہ 2004 میں 15 سال بعد اٹل بہاری واجپائی اور پرویز مشرف کے دور میں انڈین ٹیم نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم سکیورٹی کے بہت مسائل تھے جس کے لیے کڑے انتظامات کیے گئے۔

وریندر سہواگ کے بقول وہ اس وقت 25 برس کے تھے اور ان کے گھر والوں کو کافی خدشات تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’میرے والدین نے کہا پاکستان جانا ضروری ہے کیا؟ وہاں کچھ ہو گیا تو؟‘

تاہم جب وہ پاکستان آئے تو یہاں سکیورٹی دیکھ کر حیران رہ گئے ’سڑکیں خالی تھیں جیسے یہاں کوئی رہتا ہی نہ ہو۔ پھر سکیورٹی نے بتایا کہ جلدی ہوٹل پہنچنے کے لیے سڑکیں خالی کی گئی ہیں۔‘

انڈین ٹیم کا دورہ غیر یقینی صورتحال کا شکار تھا، بہت وقت کبھی ہاں۔۔۔ کبھی ناں میں کٹ گیا۔ لیکن بالآخر انڈین ٹیم پاکستان آہی گئی۔ اس دورے پر اسے پانچ ون ڈیز اور تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلنی تھی۔

ڈاکومنٹری میں سابق انڈین کپتان سارو گنگولی کا کہنا تھا وہ ’پاکستان کو پاکستان میں ہرانا‘ چاہتے تھے۔

صرف کھلاڑی ہی نہیں ان میچوں کو دیکھنے کے لیے قریباً 55 ہزار شہری بھی پاکستان آئے۔

کراچی کا پہلا ون ڈے ہمیشہ کی طرح سنسنی خیز مقابلے کے بعد آخری گیند پر چھ رنز کی ضرورت پر آ کر ٹھہرا تو دونوں ملکوں کے شائقین دم سادھے انتظار میں تھے۔ اشیش نہرا بال کروا رہے تھے اور معین خان پاکستان کی طرف سے بیٹنگ کر رہے تھے۔

سب کو لگا تاریخ خود کو دہرائے گی اور معین خان بھی جاوید میاں داد کی طرح چھکا لگا دیں گے۔ جاوید میاں داد خود اس وقت ٹیم کے کوچ تھے۔ لیکن معین کیچ آؤٹ ہو گئے اور انڈیا میچ گیا۔

دوسرا اور تیسرا میچ پاکستان جیتا۔ لاہور میں ہونے والا چوتھا میچ پاکستان ہار گیا اور سیریز دو دو سے برابر ہو گئی۔ لیکن میچ کے بعد صحافیوں کے سوالوں میں میچ فکسنگ کی گونج نے کھلاڑیوں سمیت کپتان انضمام الحق کو پریشان کردیا۔ جس کا جواب انھوں نے ’شٹ اپ‘ کہہ کر دیا تھا۔ پانچواں ون ڈے جیت کر انڈیا نے یہ سیریز جیت لی۔

اس کے بعد ٹیسٹ سیریز تھی۔ ون ڈیز میں پرفارم نہ کرسکنے کے بعد سہواگ کو ڈر تھا کہ یہ آخری موقع ہے ورنہ وہ ٹیم سے آؤٹ ہو جائیں گے۔

انھوں نے بتایا کے اس ذہنی دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے کئی نفسیاتی ڈاکڑوں سے مشورہ کیا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

انھوں نے بتایا ’پھر میں نے خود ہی اس کا حل نکالا۔۔ اور وہ تھا ذہن میں کسی گانے کی دھن پکڑ کر اس پر سٹروکس لگانا۔‘

اس میچ میں انھوں نے ٹرپل سنچری بنائی اور ٹیسٹ میچ کی ایک اننگ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی بن گئے۔ یہ میچ ملتان میں ہوا تھا اس لیے انھیں ’ملتان کا سلطان‘ کا نام دیا گیا۔ یہ ٹیسٹ سیریز انڈیا نے دو ایک سے جیتی تھی اور سہواگ مین آف دی سیریز بنے۔

2004 میں سخت سکیورٹی میں پاکستان آنے والی انڈین ٹیم کے کھلاڑی پاکستانی کھانوں اور میزبانی سے بہت خوش ہوئے۔ سیریز میں سہواگ نے بتایا کہ انھوں نے بہن کی شادی کے لیے جتنے کپڑے اور چیزیں خریدیں دکانداروں نے ان سے پیسے نہیں لیے اور کہا کہ ’آپ ہمارے مہمان ہیں۔‘

یہی نہیں بلکہ انڈین کھلاڑیوں نے سکیورٹی سے نظر بچا کر ہوٹل سے باہر جانے اور کھانوں اور تفریح کا لطف اٹھانے کا بھی اعتراف کیا۔

آئی پی ایل کا دور آیا تو دونوں ملکوں کے کھلاڑی ایک ٹیم میں کھیلنے لگے۔ روایتی حریفوں کے کھلاڑیوں کے لیے شائقین کے پیار نے نیا رخ لیا۔ بہترین بولر اور بہترین بیٹرز نے مل کر مضبوط ٹیمیں بنائیں۔

2008 تک اچھا ماحول رہا لیکن پھر ممبئی حملے ہو گئے اور کرکٹ کے میدان کی پچ ایک بار پھر اُکھڑ گئی اور پاکستانی کھلاڑیوں کو آئی پی ایل سے نکال دیا گیا۔

اس کے بعد پاکستان اور انڈیا کے درمیان سیریز ہونا بھی بند ہو گئیں جس سے کرکٹ کے ساتھ ساتھ تفریحی اور معاشی نقصانات ہوئے۔

شعیب اور سہواگ
Getty Images

نیٹ فلیکس کے لیے پاکستان میں پہلی بار پروڈکشن کیسے ممکن ہوئی؟

بی بی سی نے طحہٰ صداقت سے بات کی جنھوں نے سیریز کے پاکستانی حصے کی شوٹنگ کی تاکہ یہ جان سکیں کہ اس موضوع کی فلم بندی کے دوران انھیں کن چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا۔

طحہٰ صداقتنے بی بی سی کو بتایا کہ یہ پہلی نیٹ فلکس اوریجنل ہے جسے پاکستان میں شوٹ کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پائل اور چندرادیو میرے دوست ہیں وہ اس آئیڈیا پر کام کر رہے تھے۔ جب بات چیت شروع ہوئی تو انھوں نے کہا کہ یہ ہمیں پاکستان میں بھی شوٹ کرنی ہے۔‘

’اس تصویر کے دو رُخ ہیں انڈیا اور پاکستان۔۔۔ تو یہ اس کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی تھی۔ کافی مہینے اس پر بات ہوئی کہ پاکستان میں کس طرح کر پائیں گے، کیا نیٹ فلکس کی تمام ضروریات پوری کر پائیں گے۔ پھر نیٹ فلکس کے ساتھ میٹنگز ہوتی رہیں، یہ کورونا وائرس کے وقت 2021 کی بات ہے لہذا زیادہ تر زوم وغیرہ پر ہی بات چیت ہوتی تھی۔‘

طحہٰ صداقتنے مزید بتایا کہ ’پاکستان میں اسے شوٹ کرنے پر اتفاق کے بعد تمام چیزیں اکھٹی کرنے میں مجھے کافی وقت لگا۔ اس میں جو سب سے زیادہ مددگار بات تھی وہ یہ تھی کہ ہم نے دو برطانوی ٹیموں کی مدد حاصل کی ایک ڈائریکٹر اور ایک ڈی او پی جنھوں نے پہلے بھی نیٹ فلکس کی چیزوں پر کام کیا ہوا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو انڈیا بھی جا سکتے تھے، پاکستان بھی آ سکتے تھے اور انگلینڈ اور آسٹریلیا بھی جا سکتے تھے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ریلیز میں تاخیر کی وجہ بارہا مزید لوگوں کو شامل کیا جانا اور کچھ ادھورے کام مکمل کرنا رہا۔ تاہم اب انھیں لگا کہ یہ اتنی مکمل ہو چکی ہے کہ اسے ریلیز کیا جا سکے۔

انڈیا اور پاکستان کے درمیان کرکٹ میں سیاست کا عمل دخل بھی ہوتا ہے تو کیا ایسے میں تخلیقی کام کتنا مشکل تھا؟ اس پر طحہٰ صداقت کا کہنا تھا کہ سیاسی معاملات کو جتنا نظر انداز کرنا چاہیں حقیقت میں ایسا کرنا مشکل ہوتا ہے۔

’اچھی بات یہ تھی کہ ہم سب ایک ہی ایجنڈے پر کام کر رہے تھے کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی سپورٹس رائیولری ہے، صرف کرکٹ کی دنیا کی نہیں بلکہ سپورٹس کی دنیا کی کیونکہ کسی اور ایونٹ کو بھی اتنی آنکھیں نہیں دیکھتیں جب تک انڈیا اور پاکستان نہیں کھیلتے۔‘

اس نیٹ فلکس کی سیریز میں 2004 کی سیریز پر ہی فوکس کیا گیا۔ کیا یہ جان بوجھ کر فیصلہ کیا گیا کہ 2004 پر ہی توجہ دینی ہے؟

اس بارے میں طحہٰ صداقت کا کہنا تھا 2004 کی سیریز پر فوکس اس لیے کیا گیا کیونکہ وہ ایک اچھی مثال تھی جو اچھے تعلقات میں ہوئی باقی ہر سیریز میں کوئی نہ کوئی تنازعہ رہا۔

’ہم جب ماضی کو دیکھتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ سب سے اچھی سیریز جو ہوئی تھی وہ 2004 ہی کی تھی۔ ہم نے تھوڑا 1999 کا ریفرنس دیا ہے جیسے کہ پِچ کھود دی گئی تھی اور دیگر خطرات بھی تھے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’1999 بھی بہت اچھی سیریز تھی اور وہ ایک طرح سے شعیب اختر کی بطور بولر پیدائش کا وقت تھا۔ لیکن اس سیریز میں کچھ منفی پہلو بھی سامنے تھے۔‘

سیریز میں وریندر سہواگ بتاتے ہیں کہ اس وقت کے انڈین وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے انڈین ٹیم کو2004 میں پاکستان کے دورے کے موقع پر کہا تھا کہ ’آپ جیت کر آئیں یا ہار کر اس سے فرق نہیں پڑنا چاہے، یہ ایک دوستانہ ٹور ہے پاکستانی عوام کے دل ضرور جیت کے آنا۔‘

طحہٰ صداقت کا کہنا تھا کہ ’ہمارا اصل مقصد تھا کہ ہم لوگوں کو پاکستان اور انڈیا کے درمیان کرکٹ کی اصل سپرٹ دکھائیں، لوگوں کو معلوم ہو کہ کھلاڑیوں کے اور عام لوگوں کے جذبات کیا ہیں۔ اس سے کوئی فرق پڑے گا یا نہیں؟ یہ مجھے نہیں معلوم۔ ہم نے ایک ایسی چیز بنا دی ہے جو کہ اب تاریخ کا حصہ بن گئی ہے۔ انڈیا نے چیمپیئنز ٹرافی کے لیے پاکستان آنے سے انکار کر دیا ہے اور اب ہمیں ان کے خلاف دبئی جا کر کھیلنا ہے لیکن لانگ رن میں ہم نے ایک اچھی چیز کو تاریخ کا حصہ بنایا ہے جس میں کوئی منفی چیزیں موجود نہیں ہیں۔‘

ڈاکومنٹری میں شعیب اختر اور وریندر سہواگ ہیں جن کے درمیان رائیولری رہی ہے۔ سوشل میڈیا صارفین کا اعتراض ہے کہ سہواگ ہندی میں اور شعیب اختر زیاد تر انگریزی میں کیوں بات کر رہے تھے؟

اس پر طحہٰ صداقتنے وضاحت کی کہ اگر آپ شعیب اختر سے بہترین کام چاہتے ہیں تو آپ انھیں بتا نہیں سکتے کہ انھیں کیا کرنا ہے۔

’وہ ایک سپورٹس مین ہیں کوئی اداکار نہیں ہیں۔ آپ ان سے سوال کر سکتے ہیں اور جواب وہ خود دیتے ہیں۔ وہ انگلش بول رہے تھے وہ ان کی مرضی تھی۔‘

ایک سوال یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ پاکستان سے وسیم اکرماور ادھر سے سچن تندولکر کیوں نہیں؟

اس بارے میں طحہٰ صداقت نے بتایا کہ اس پر پہلے ہی فیصلہ ہوا تھا کہ وریندر سہواگ اور شعیب اختر نریٹرز ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم چاہتے تھے کہ اس میں وہ کرکٹرز بھی شامل ہو سکیں جنھوں نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ہم کچھ کو اس ڈاکومینٹری میں شامل کر پائے اور کچھ کو نہیں۔ کہیں شیڈول تو کہیں بجٹ کا مسئلہ تھا۔‘

چونکہ انڈیا اور پاکستان کی کرکٹ ایک بہت بڑا موضوع ہے تو کیا اس سیریز کا کوئی سیکوئل آئے گا؟ اس پر طحہٰ صداقت کا جواب تھا کہ اس حوالے سے کچھ کہنا ابھی قبل ازوقت ہوگا۔ تاہم ’ہمیں جو رسپانس مل رہا ہے اس کے بعد کچھ بھی ممکن ہو سکتا ہے۔ اس پر غور بھی کیا جا سکتا ہے۔‘

اس ڈاکومنٹری میں کافی دلچسپ مناظر بھی دیکھنے کو ملیں گے جن میں سے ایک کو طحہٰ صداقت نے یاد گار قرار دیا۔ انھوں نے بتایا ’ایک آگ کا سین تھا جس میں ہم نے شعیب اختر کے لیے سٹنٹ ڈبل فراہم کیا تھا۔ کیونکہ ہم نے یہ ڈھائی سال پہلے شوٹ کیا تھا اس وقت شعیب بھائی کے گھٹنے کا آپریشن نہیں ہوا تھا۔ شعیب بھائی کو اس وقت گھٹنے میں بھی تکلیف تھی، ہم جون میں شوٹ کر رہے تھے۔ تو ایک تو جون اوپر سے فائر کا سین، لیکن انھوں نے کہا کہ یہ میں خود کروں گا۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا باقی پاکستانی پروڈکشن ہاؤسز بھی نیٹ فلکس کے معیار پر پورے اُتر سکتے ہیں؟ اس پر طحہٰ صداقتکا کہنا تھا کہ ’جب ہم اس معیار پر پورا اُترے ہیں تو پھر دوسرے بھی اُتر سکتے ہیں لیکن یہاں کچھ رُکاوٹیں بھی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا ’خطے میں نیٹ فکس کا جو ہیڈکوارٹر ہے وہ انڈیا میں ہے اور پاکستان سے بہت ساری چیزیں وہاں جاتی ہیں لیکن پاکستان سے اب تک کسی چیز کو منظوری نہیں دی گئی۔‘

طحہٰ کا کہنا تھا کہ ابھی ایک اور پراجیکٹ کے بارے میں ہم سُن رہے ہیں جس کی منظوری دے دی گئی ہے اور وہ شوٹ بھی ہو رہا ہے۔۔ کچھ یورپ میں اور کچھ پاکستان میں۔‘

’جو تکنیکی ضروریات ہیں وہ آپ پوری کر سکتے ہیں، باہر سے ٹیکنیشن بھی آ سکتا ہے۔ سب سے بڑی چیز ہے آئیڈیا، شاید وہ آئیڈیا یہاں سے نہیں نکل رہا جس کی منظوری نیٹ فلکس دے۔ پاکستان کو بہتر آئیڈیاز پر کام کرنا چاہیے اور مجھے امید ہے کہ یہاں پر اور بھی کام ہو گا۔‘

شائقین کا ردِعمل

اس سیریز کے متعلق خبریں آنے پر دونوں ملکوں کے سائقین کافی پر جوش دکھائی دیے کہ شاید انھیں وہ مناظر اور کھلاڑیوں کے تاثرات جاننے کو ملیں گے جو ان کی یادوں میں ابھی تک تازہ ہیں یا جن کے بارے میں انھیں نے تاریخ اور اپنے بڑوں سے بہت سنا ہے۔

لیکن اب جبکہ یہ سیریز نشر ہو چکی ہے تو بہت سے شائقین مایوس ہیں کہ اس میں وہ لینجڈز نہیں ہیں جنھیں دیکھنے کی وہ توقع کررہے تھے۔ اور اس کا جواب تو طٰحہ صداقت اوپر دے ہی چکے ہیں کہ ایسا کیوں ہے۔

کئی جوشیلے پاکستانی شائقین اس بات پر ناراض ہیں کہ پاکستانی رائویلری انڈین پروڈکشنز کے لیے جتنی پرکشش ہیں اس کے باوجود انڈیا پاکستان سے میچ کھیلنے سے انکاری ہے۔

سنکیت مشرا نامی سوشل میڈیا صارف نے ایکس پر لکھا ’میں نے نیٹ فلکس پر دستاویزی فلم دی گریٹیسٹ رائویلری: انڈیا بمقابلہ پاکستان دیکھی۔ یہ اتنا ڈرامائی نہیں تھا جتنا میں نے توقع کی تھی لیکن پھر بھی یہآرام دہ شو کی طرح محسوس ہوا۔ 2004 میں انڈیا کے دورہ پاکستان کی یادیں تازہ کرنا اچھا لگا۔ میری خواہش ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے مزید کرکٹ دورے ہوں۔‘

حسن احمد خان کا کہنا تھا کہ ’کیا اس میں کوئی شک ہے؟ یہ سب سے بڑی رائویلری (دشمنی) ہے۔ کوئی ایشز نہیں، کوئی بی جی ٹی پاکستان انڈیا گیمز کے قریب تر نہیں ہے۔ ان دونوں ٹیموں کو ٹیسٹ سیریز کھیلے ہوئے 17 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ یہ بہت شرمناک ہے۔ امید ہے کہ وہ باقاعدگی سے دوبارہ کھیلتے ہوئے دیکھائی دیں گے۔‘

مدھر کپورنامی صارف کا کہنا تھا کہ ’پاکستان اور انڈیا کے درمیان کرکٹ کی سب سے بڑی دشمنی پر بہت اچھی دستاویزی فلم بنائی گئی ہے۔ یہ ہر کرکٹ شائقین کے لیے لازمی ہے چاہے وہ کسی بھی ملک سے تعلق رکھتے ہوں۔ اسے دیکھتے ہوئے میرے رونگھٹے کھڑے ہو گئے۔‘

چوہدری کاشفی علی کا کہنا تھا کہ ’حال ہی میں نیٹ فلکس کی دستاویزی سیریز دیکھی جس میں انڈیا پاکستان کی کرکٹ کی سب سے بڑی دشمنی پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ شاندار اور اچھی طرح سے متوازن۔۔۔ یہ مجھے 2006 میں واپس لے گئی جب میں نے شعیب اختر کو فیصل آباد میں سچن کو بولنگ کرتے ہوئے دیکھا۔ میری خواہش ہے کہ ایک دن میں انڈیا کو لاہور میں کھیلتا اور پاکستان کو ممبئی میں سیریز جیتتے ہوئے دیکھ سکوں۔‘

پرکھار کھنہ نے اپنے تاثرات میں لکھا کہ ’کرکٹ دستاویزی فلم نے مایوس کیا اور یہ بے معنی محسوس ہوئی۔ اچھی طرح سے احاطہ نہیں کیا گیا اور پھر جلدی کردی گئی۔ جیسے وہ بہت ساری مشہور فوٹیج کے حقوق حاصل نہیں کرسکے۔‘

کرن کوشک کے خیال میں یہ بورنگ تھی کیونکہ دو اقساط میں صرف سہواگ اور شعیب اپنی تعریفیں کرتے رہے۔

عذرا نقوی کا کہنا تھا کہ ’یہ اتنی بری نہیں تھی۔ آخر میں پاکستان کو اچھا دکھایا گیا۔‘

ابھیجیت دیش مکھ لا خیال ہے کہ ’یہ کافی بورنگ ہے۔ کوئی نئی بات نہیں اور شاید ہر کرکٹ عاشق کو تمام حقائق کا علم ہو گا۔ زیادہ تر توجہ 2004 میں انڈیا کے دورہ پاکستان پر مرکوز ہے۔ وہ دلچسپ کہانیوں کے ساتھ اسے بہتر کر سکتے تھے۔‘

عنقریب پاکستان اور انڈیا ایک بار پھر آمنے سامنے ہوں گے۔ چیمپئنز ٹرافی کا یہ میچ 23 فروری کو دبئی میں کھیلاجائے گا۔

ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان اور انڈیا کے مسائل اتنے بڑے ہیں کہ کرکٹ سے حل نہیں ہو سکتے لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کہ کہ انڈیا اور پاکستان کا ٹیلنٹ سامنے آتا رہے گا اور شائقینِ کرکٹ کو میدانوں تک لاتا رہے گا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.