بلراج ساہنی کا سفید محل ’اکرام‘: جہاں بیٹی کی خودکشی اور بیوی کی موت کا غم انھیں کھا گیا

60 کی دہائی تک انڈین فلموں کے سپر سٹار بن جانے والے بلراج نے جب اپنا ایک لگژری گھر بنایا تو جیسے ان کی زندگی سے خوشیاں ایک ایک کر کے روٹھنے لگیں۔یوں تو اس گھر میں متعدد بار فلمی ستاروں کی شاندار محفلیں سجیں مگر یہ رونق ان کے خاندان کو راس نہ آ سکی۔

’اس نئے گھر میں یکے بعد دیگرے کئی سانحات رونما ہوئے۔ اور آخرکار میرے والد نے کہا کہ بیٹا تم ٹھیک کہتے ہو۔ ہم اپنے پہلے چھوٹے گھر میں خوش تھے۔ ایک دوسرے کے قریب تھے۔ آتے جاتے ایک دوسرے سے باتیں کرتے تھے۔ اس بڑے گھر میں سب اپنے اپنے کمروں میں رہتے ہیں۔ ایک دوسرے سے بہت دور، جڑے رہنے کے بجائے ایک دوسرے سے کٹے ہوئے ہیں۔‘

پریکشت ساہنی اور ان کے والد فلمسٹار بلراج ساہنی کے درمیان ہونے والے اس مکالمے کے پیچھے پوری ایک کہانیہے۔

انڈین فلمی ستاروں کے پرتعیش بنگلوں کی اس خصوصی سیریز کی کہانی پچھلی کہانیوں سے آپ کو قدرے مختلف ملے گی۔

اس مضمون میں موجود عالیشان بنگلہ خود ایک کردار ہے، جس کے تعمیر ہونے کے بعد اس اداکار کی زندگی میں بہت کچھ بدل گیا۔ یہ بنگلہ بے مثال مانے جانے والے اداکار بلراج ساہنی کا تھا۔

بلراج ساہنی۔۔۔ وہ اداکار جن کا نام ذہن میں آتے ہی ایک خوبصورت، نرم اور پروقار چہرہ سوچ کے پردے پر ابھرتا ہے۔

ان کا دور تب شروع ہوا جب ملک انگریزوں کے تسلط سے ابھی نیا نیا آزاد ہوا تھا ایسے میں بلراج ساہنی نہ صرف پردے پر اپنے کرداروں کے ذریعے عام آدمی کے دکھ درد اور پریشانیوں کو سامنے لائے بلکہ فلموں سے باہر بھی ان کا اخلاق، انسان دوستی اور سماجی فکر ان کی عوامی زندگی کا اہم حصہ بن کر ساتھ رہی۔

تاہم 60 کی دہائی تک انڈین فلموں کے سپر سٹار بن جانے والے بلراج نے جب اپنا ایک لگژری گھر بنایا تو جیسے ان کی زندگی سے خوشیاں ایک ایک کر کے روٹھنے لگیں۔یوں تو اس گھر میں متعدد بار فلمی ستاروں کی شاندار محفلیں سجیں مگر یہ رونق اور گھر کی فضائیں ان کے خاندان کو راس نہ آ سکیں۔

پاکستان کے علاقے بھیرہ میں پیدائش

بلراج ساہنی
BBC
بلراج ساہنی کا شمار ان فنکاروں میں ہوتا ہے جو آرٹ فلموں کے ساتھ کمرشل فلموں میں بھی سرگرم تھے

بلراج ساہنی 1913 میں بھیرہ میں پیدا ہوئے جو برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان کے صوبہ پنجاب کا علاقہ بن گیا۔بلراج کا تعلق وہاں کے ایک خوشحال کاروباری گھرانے سے تھا۔

ادب میں ڈبل ایم اے کرنے کے بعد ان کے اندر کی تخلیقی صلاحتوں اور ملک کے لیے کچھ کرنے کا جنون کھل کر سامنے آیا۔

اپنے والد کے کاروبار سے قطع نظر انھوں نے پہلے گرودیو رابندر ناتھ ٹیگور کے شانتی نکیتن میں پڑھایا اور پھر اپنی بیوی دمیانتی کے ساتھ مہاراشٹر کے شہر وردھا میں گاندھی کے سیواگرام آشرم میں کام کیا اور وہیں رہائش اختیار کی۔

پھر عالمی جنگ کے دوران وہ واپس لندن چلے گئے، جہاں انھوں نے بی بی سی کی ایسٹرن سروس کے ہندوستانی سیکشن میں ہندی براڈکاسٹر کے طور پر کام کیا۔

لندن سے انڈیا واپس آنے کے بعد بلراج ساہنی انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن یعنی آئی پی ٹی اے کے اہم رکن بن گئے
BBC
لندن سے انڈیا واپس آنے کے بعد بلراج ساہنی انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن یعنی آئی پی ٹی اے کے اہم رکن بن گئے

لندن میں رہنے کے دوران ہی وہ روسی سنیما اور مارکسزم میں دلچسپی لینے لگے۔

غیر منقسم ہندوستان واپس آنے کے بعد وہ انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن (IPTA) کے ایک اہم رکن بن گئے اور ملک کے بہترین اداکاروں کی صف میں جگہ بنا لی۔

ایک طرف وہ ’دھرتی کے لال‘، ’دو بیگھے زمین‘، ’کابلی والا‘ اور ’گرم ہوا‘ جیسی سماجی موضوعات پربننے والی سنجیدہ فلموں میں اپنا آپ منوا چکے تھے وہیں دوسری طرف ’وقت‘، ’سنگھرش‘، ’انورادھا‘ اور ’ایک پھول دو مالی‘ جیسی خالص کمرشل فلموں میں بھی ان کی فطری اداکاری اور ان کے کرداروں نے مداحوں پر بالکل مختلف تاثر چھوڑا۔

ساہنی کے ’اکرام‘ بنگلے کی تعمیر

بلراج ساہنی نظریاتی طور پر ایک مکمل کامریڈ تھے اور اپنے کمیونسٹ خیالات کی وجہ سے انھیں جیل بھی جانا پڑا۔ اپنی اسیری کے دنوں میں وہ پروڈیوسر کے طور پر کے آصف کی فلم ’ہلچل‘ کی شوٹنگ کر رہے تھے۔ کے آصف نے حکام سے خصوصی اجازت حاصل کی کہ بلراج شوٹنگ ختم کرنے کے بعد واپس آرتھر روڈ پر واقع جیل چلے جایا کریں گے۔

بلراج ساہنی میتھڈ ایکٹنگ میں گہرا یقین رکھتے تھے۔

انڈین فلمی تاریخ کی سب سے یادگار فلموں میں سے ایک دو بیگھہ زمین میں اپنے کردار کے لیے انھوں نے اپنا آدھے سے زیادہ وزن کم کیا اور ہاتھ سے رکشہ چلانا بھی سیکھا۔

’کابلی والا‘ کے کردار کے لیے وہ پٹھانوں کے ساتھ رہنے لگے۔ ان کے قریبی دوستوں میں بہت سے مچھیرے بھی تھے جن کے ساتھ وہ کئی دنوں تک مچھلیاں پکڑنے جاتے اور ان کے ساتھ رہتے۔

’دس کپیٹل‘ کے مصنف بلراج ساہنی کمیونسٹ نظریے اور سوشلزم پر یقین رکھتے تھے۔ وہ ایک ایسے شخص تھے جو سماج کے طبقات میں برابری کی بات کرتے، اپنی جڑوں سے جڑے رہتے اور سوشلزم کی ’سادہ زندگی اور اعلیٰ سوچ‘ کے مطابق زندگی بسر کرتے تھے۔

سپر سٹار امیتابھ بچن نے پرکشت ساہنی کی کتاب میں بلراج ساہنی کے حوالے سے لکھا کہ جب انھوں (امیتابھ) نے اپنے والد مصنف ہری ونش رائے بچن کو فلم انڈسٹری میں کام کرنے سے متعلق آگاہ کیا تو انھوں نے امیتابھ سے کہا کہ ’فلموں میں کام کرنا ہے تو بلراج ساہنی کی طرح بنو، وہ فلم انڈسٹری میں ہیں لیکن ابھی تک اس کے خمار سے باہر ہیں۔‘

1960 کی دہائی کے وسط تک بلراج کا شمار سپر سٹارز میں ہوتا تھا۔

انھوں نے وقت، نونہال، سنگھرش، ہمراز جیسی بڑی اور کامیاب فلموں میں اہم کردار ادا کیے تھے۔

تب ہی ان کے قریبی دوست احباب حتیٰ کہ ان کے سیکرٹری نے ان پر زور ڈالا کہ اب انھیں اپنے لیے ایک بڑا بنگلہ بنوانا چاہیے جو ایک فلم سٹار کی شخصیت اور حیثیت کے ساتھ انصاف کرے۔

اس وقت تک بلراج اپنے خاندان کے ساتھ ’سٹیلا ولا‘ نامی تین کمروں کے مکان میں رہتے تھے۔

دوستوں کے بار بار اصرار کرنے اور ایک پرتعیش گھر کی چھپی ہوئی خواہش لیے وہ بلراج بنگلہ تعمیر کرنے پر راضی ہو گئے۔ انھوں نے ممبئی کے علاقے جوہو میں اس وقت کے مشہور ہوٹل ’سن اینڈ سینڈ‘ کے سامنے 15-16 کمروں والے ایک وسیع و عریض اور لگژری گھر کی تعمیر شروع کر دی۔

سوشلزم کے فلسفے اور سادہ زندگی کے برعکس عالیشان گھر

بلراج ساہنی کے بیٹے اور مشہور اداکار پریکشت ساہنی نے اپنے والد پر ایک کتاب ’دی نان کنفارمسٹ: میموریز آف مائی فادر بلراج ساہنی‘ کے نام سے لکھی۔ اس کتاب میں پریکشت ساہنی لکھتے ہیں ’بہت سے لوگوں نے میرے والد سے کہا کہ اب آپ کو ایک بڑا گھر خرید لینا چاہیے، آپ بڑے سٹار بن گئے ہیں۔‘

پریکشت اس وقت روس میں زیر تعلیم تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب وہ چھٹیاں گزارنے گھر آئے تو ان کے والد نے بڑے اشتیاق سے انھیں وہ لگژری بنگلہ دکھایا۔

تب تک گھر کا بنیادی ڈھانچہ مکمل ہو چکا تھا۔ اس خوبصورت اور بڑے گھر کو دیکھ کر پریکشت گہری سوچ میں پڑ گئے۔ انھیں لگا کہ یہ محل نما گھر ان کے والد کی شخصیت سے میل نہیں کھاتا۔

پریکشت لکھتے ہیں کہ ’یہ ان کے والد کی زندگی کا سب سے بڑا تضاد تھا۔‘

انھوں نے اپنے والد سے کہا، ’ابا، آگے کچی بستیاں ہیں غریبوں کی جھونپڑیاں ہیں۔ یہ محلاتی گھر ہمارے فلسفہ زندگی سے مطابقت نہیں رکھتا۔‘

بلراج ساری زندگی سوشلزم کے اصولوں پر یقین رکھتے تھے۔

پریکشت لکھتے ہیں کہ میں نے کہا کہ گھر کو چھوٹا کر دیں۔ تین چار کمروں سے بڑے گھر کی ضرورت نہیں ہے۔ جس پر بلراج ساہنی سوچ میں پڑ گئے اور پھر کہا بیٹا اب گھر بن گیا ہے۔

انھوں نے اپنے بیٹے پریکشت کے لیے اس گھر میں تین کمروں کا ایک پورا ونگ بنایا تھا جس میں ایک کمرہ پینٹنگ، ایک فوٹوگرافی اور ایک بڑا بیڈروم تھا۔ جم بنانے کے لیے ایک بہت بڑا ٹیرس بھی موجود تھا۔

یہ عالیشان گھر بلراج کے سوشلزم کے فلسفے ، سادہ زندگی اور گہری سوچ سے بالکل برعکس تھا۔

پریکشت ساہنی کا کہنا ہے کہ روس میں انھوں نے اس گھر سے متعلق ایک برا خواب دیکھا تھا اور ان کے ذہن میں یہ بات تھی کہ اس گھر میں کوئی ناخوشگوار واقعہ ہونے والا ہے۔ یہ بات انھوں نے اپنی ڈائری میں بھی درج کی تھی۔ آخر کار وہ خوف بھیانک حقیقت بن گیا۔

گھر میں آتے ہی خاندان کا برا وقت شروع

بلراج ساہنی نے سفید رنگ کے محل نما بنگلے کا نام ’اکرام‘ رکھا جس کا مطلب عزت یا وقار کے ہیں۔ شروع شروع میں اس گھر میں یادگار محفلیں بھی ہوئیں۔

شاعر کیفی اعظمی، شاعر ہریندر ناتھ چٹوپادھیائے، پی سی جوشی جیسے دانشور، وکیل رجنی پٹیل اور فلم انڈسٹری کے بڑے نام ان محفلوں کا حصہ ہوتے تھے۔

لیکن جلد ہی ایسے واقعات رونما ہوئے جس نے سب کچھ تہس نہس کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس گھر میں آتے ہی جیسے ان کا برا وقت شروع ہو گیا۔

پہلی بیوی کی موت کے بعد گھر کے ایک ملازم کی بھی اچانک یہاں موت ہو گئی۔ زندگی میں ایسے کئی واقعات پیش آئے جنھوں نے بلراج کو ویران کر دیا۔

پریکشت کہتے ہیں کہ ’اس نئے گھر میں یکے بعد دیگرے کئی سانحات رونما ہوئے۔ اورآخر میں میرے والد نے مان لیا کہ ان کا بیٹا صحیح ہے۔ انھوں نے کہا کہ بیٹا تم ٹھیک کہتے ہو۔ ہم اپنے پہلے چھوٹے گھر میں بہتر تھے۔ ایک دوسرے کے قریب تھے۔ آتے جاتے ایک دوسرے سے باتیں کرتے تھے۔ اس بڑے گھر میں سب اپنے اپنے کمروں میں رہتے ہیں۔ ایک دوسرے سے بہت دور، کٹے ہوئے ۔‘

پریکشت کہتے ہیں کہ ان کے والد وہاں خوش نہیں تھے۔

بلراج ساہنی کو سب سے بڑا صدمہ اس وقت پہنچا جب ان کی جوان بیٹی شبنم نے اچانک خودکشی کر لی۔ وہ اس صدمے سے کبھی سنبھل نہ سکے۔ بلراج اور ان کے خاندان کو وہ عالیشان سفید بنگلہ راس نہ آ سکا۔

پریکشت کہتے ہیں ’بالآخر اس گھر نے ہمارے پورے خاندان کو برباد کر دیا۔‘

بی بی سی اسٹوڈیو میں بلراج ساہنی اور دمیانتی ساہنی
BBC
بی بی سی اسٹوڈیو میں بلراج ساہنی اور دمیانتی ساہنی

ضرورت سے زیادہ کی خواہش اور کئی دہائیوں کی کٹھن زندگی کے بعد ایک ’پرتعیش‘ زندگی گزارنے کی خواہش، اس نے نظریے اور تجربے کے درمیان فرق کو واضح کیا۔

اپنے والد کے تضاد کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے پریکشت کی توجہ ونسٹن چرچل کے اس قول پر گئی کہ ’ہم اپنے گھربناتے ہیں اور پھر گھر ہمیں بناتے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اس کے بعد زندگی میں مکمل طور پر اپنے اصل کی طرف واپس آنا ممکن نہیں ہو سکتا۔

بلراج کے چھوٹے بھائی اور معروف ادیب بھیشم ساہنی نے بھی اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ ’جب بلراج مارکسسٹ ہوئے تو ان کے ذہن میں دکھی انسانیت کے تئیں عزم کا جذبہ پیدا ہوا۔‘

’ایسا شخص آسانی سے اپنے آپ کو کسی ایسے میدان کی تلخ حقیقت سے ہم آہنگ نہیں کر سکتا جہاں فن کو رعایت دی جاتی ہے اور پیسے کی قدر غالب ہوتی ہے۔‘

’اس مشینی نظام کے حصے کے طور پر امیر اور مشہور ہونا بہت کم ذاتی اطمینان یا تکمیل کا کوئی احساس فراہم کرتا ہے۔‘

اپنی آخری فلم ’گرم ہوا‘ کے لیے بلراج کو ایک سین شوٹ کرنا تھا جس میں ان کی بیٹی خودکشی کر لیتی ہے۔

انھوں نے اس منظر کو شوٹ کیا لیکن شاید اس منظر نے ان کے ذاتی زخم دوبارہ کھول دیے۔

وہ اس عالیشان گھر کو چھوڑ کر پنجاب میں رہنا چاہتے تھے۔ ان کے بھائی بھیشم ساہنی نے لکھا کہ ’بلراج جی نے اپنا فلمی کام کافی کم کر دیا تاکہ وہ لکھنے کے لیے زیادہ وقت دے سکیں۔‘

’انھوں نے پنجاب میں ایک چھوٹا سا کاٹیج بھی خریدا، اس کی تزئین و آرائش کروائی اور اسے اچھی طرح سے سجایا تاکہ وہ پنجاب میں جا کر زیادہ دیر تک رہ سکیں۔‘

لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اپنی یادگار آخری فلم ’گرم ہوا‘ کی ڈبنگ مکمل ہونے کے اگلے ہی دن دل کا دورہ پڑنے سے وہ وفات پا گئے۔

بلراج کے بنگلے پر ویرانی کا راج

یہ 13 اپریل 1973 تھا بلراج کی 60 ویں سالگرہ سے ایک ماہ قبل، جس دن انھیں پنجاب میں سکونت اختیار کرنے کے لیے ممبئی چھوڑنا تھا۔

دوستوں، رشتہ داروں اور فلم انڈسٹری کی سرکردہ شخصیات کے ساتھ ساتھ ان کے ماہی گیر دوست اور مخالف کچی آبادیوں میں رہنے والے لوگ بھی ان کے آخری دیدار کے لیے وہاں موجود تھے۔

جوہو کے رہائشی امیتابھ بچن نے پریکشت کی کتاب کی رونمائی کرتے ہوئے کہا ’جب بھی میں جوہو میں بلراج ساہنی کے گھر کے سامنے سے گزرتا ہوں تو اسے دیکھ کر اداسی اور مایوسی طاری ہو جاتی ہے۔‘

’وقت اور ویرانی نے بلراج کے بنگلے اکرام کو تباہ کر دیا ہے اور اس کی شکل بگاڑ دی ہے۔حالات زندگی میں آنے والی مشکلات کی کہانی سناتے ہیں، اور یہ گھر اسی حقیقت کی علامت ہے۔‘

پریکشت ساہنی خود کہتے ہیں کہ جب بھی وہ اس گھر کے سامنے سے گزرتے ہیں تو آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔

بلراج ساہنی کا محلاتی گھر ’اکرام‘ آج بھی اپنی جگہ پر خستہ حالت میں وقت کی تباہ کاریوں کا سامنا کر رہا ہے۔

یہ گھر ان کی دوسری بیوی اور بیٹی صنوبر کے حصے میں آیا۔ لیکن ’اکرام' جو اپنے وقت میں بمبئی کے سب سے پرتعیش بنگلوں میں سے ایک تھا، اب خستہ حال ہے، جو اپنے اندر ساہنی خاندان کی کہانی سمیٹے ہوئے ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.