یہ بات انتہائی اہم ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی دوسری صدرات کے ایک مہینے کے اندر ہی نریندر مودی کو امریکہ آنے کی دعوت دی اور ان سے مذاکرات کیے۔ ٹرمپ کے دوسرے دور صدارت میں مودی ان سے ملاقات کرنے والے چوتھے سربراہ حکومت ہیں۔
![ٹرمپ، مودی](https://ichef.bbci.co.uk/news/raw/cpsprodpb/253a/live/e24ad9d0-ead3-11ef-bd1b-d536627785f2.jpg)
انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو مزید وسعت دینے کا اعلان کرتے ہوئے اربوں ڈالر کے نئے دفاعی سودوں اور انڈیا کو امریکی پیٹرول، گیس اور امریکی جوہری ری ایکٹروں کی فروخت کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔
اس منصوبے کے مطابق امریکہ انڈیا سے ہونے والے تجارتی خسارے کو بھی ختم کرے گا اور دونوں ملکوں نے باہمی تجارت کو آئندہ پانچ برس میں 500 ارب ڈالر تک پہنچانے کا اعلان بھی کیا۔
یہ بات اہم ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی دوسری صدرات کے ایک مہینے کے اندر ہی نریندر مودی کو امریکہ آنے کی دعوت دی اور ان سے مذاکرات کیے۔
ٹرمپ کے دوسرے دور صدارت میں مودی ان سے ملاقات کرنے والے چوتھے سربراہ حکومت ہیں۔ مودی کا دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا، جب صدر ٹرمپ نے انڈیا سمیت کئی ملکوں کے خلاف جوابی محصولات لگانے کا اعلان کیا تھا۔
صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم مودی کے ساتھ مشترکہ کانفرنس میں بھی کہا کہ ’انڈیا نے امریکی مصنوعات پر بہت ڈیوٹی لگا رکھی ہے، جس کے سبب انڈیا میں کاروبار کرنا بہت مشکل ہے۔ اگر یہ ڈیوٹی کم کر کے امریکہ کے برابر نہیں لائی گئی تو جوابی ٹیرف نافذ کیا جائے گا۔‘
صدر ٹرمپ سے ملاقات اور مذاکرات کے بعد وزیر اعظم مودی نے ایکس پر ایک بیان میں کہا ’وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات بہت شاندار رہی۔ ہماری بات چیت سے انڈیا امریکہ دوستی کو نیا دور شروع ہو گا۔‘
واشنگٹن میں دونوں رہنماؤں کی ملاقات کے بعد یہ اعلان کیا گیا کہ انڈیا باہمی تجارت میں ہونے والے خسارے میں امریکی مصنوعات کی خریداری سے توازن لائے گا۔
مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ امریکہ انڈیا کو خام تیل اور گیس سپلائی کرنے والا بڑا ملک بننا چاہتا ہے۔
یہ بھی کہا گیا کہ دونوں ممالک دفاعی تعاون کو اور مؤثر بنانے کے لیے دفاعی اشتراک کے فریم ورک کو نئی شکل دے کر اسے مزید دس برس کے لیے آگے بڑھائیں گے۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ اور انڈیا اربوں ڈالر کے دفاعی معاہدے پر بات چیت کر رہے ہیں جس میں جدید ترین سٹیلتھ جنگی جہاز ایف 35 کی سپلائی بھی شامل ہو گی۔
![امریکہ، انڈیا](https://ichef.bbci.co.uk/news/raw/cpsprodpb/fc08/live/c2402bd0-eacf-11ef-a319-fb4e7360c4ec.jpg)
’ایف 35 کی خریداری ابھی شروع نہیں ہوئی، ابھی اسے صرف پیشکش یا تجویز کہہ سکتے ہیں‘
دفاعی تجزیہ کار راہل بیدی نے ٹرمپ مودی ملاقات کے بعد دفاعی معاہدے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ بہت عرصے سے انڈیا کو اپنے دفاعی سامان فروخت کرنے کی کوشش کر ریا تھا، جس میں جنگی طیارے، ٹرانسپورٹ طیارے اور سرویلنس جہاز شامل ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ انڈین فضائیہ نے سنہ 2019 سے 114 جنگی طیاروں کا ٹینڈر جاری کر رکھا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس کنٹریکٹ کے مطابق 16 طیارے مکمل تیار حالت میں آنے ہیں اور باقی 98 طیارے انڈیا میں لائسنس کے تحت بننے اور اسمبل کیے جانے ہیں۔
’ابھی یہ واضح نہیں کہ جس دفاعی معاہدے کی بات ہوئی یہ وہی پرانا کنٹریکٹ ہے یا وزیر اعطم مودی نے کسی نئے معاہدے کی بات کی۔‘
راہل بیدی نے مزید بتایا کہ ’ایف 35 انتہائی جدید نوعیت کا جنگی طیارہ ہے اور ابھی تک اس کے بارے میں بات چیت نہیں ہوئی تھی۔
’114 جنگی طیارے لینے کا جو منصوبہ تھا اس کی مالیت 25 سے 30 ارب ڈالر کی تھی۔ ایف 35 بہت مہنگا جنگی طیارہ ہے۔ اگر یہ بھی معاہدے میں شامل کیا گیا تو اس کی مالیت اس سے تجاوز کر جائے گی۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’جنگی طیاروں کے علاوہ ملٹری ٹرانسپورٹ طیارہ سی 130 جے اور بحریہ کے لیے سرویلینس طیارہ پی 8 آئی خریدنے کی بات چیت بھی چل رہی ہے۔ اس کے علاوہ انفینٹری کمبیٹ ویکل ’سٹرائیکر‘ کی خریداری کی بھی بات چیت چل رہی ہے۔‘
راہل کا کہنا ہے کہ انڈیا کے پاس سات طرح کے جنگی طیارے ہیں اور ان کی دیکھ بھال کے لیے الگ الگ سروس سینٹر اور مرمت کے کارخانے وغیرہ کا انتطام کرنا پڑتا ہے۔
’کچھ عرصے پہلے تک فضائیہ کے اعلی افسران امریکی جنگی طیارے خریدنے کے حق میں نہیں تھے۔ انڈیا کے خارجہ سکریٹری وکرم مسری نے ٹرمپ مودی ملاقات کے بعد ایک نیوز بریفنگ میں ایف 35 کی خریداری سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جنگی طیارے خریدنے کا ایک طویل عمل ہوتا ہے۔‘
راہل بیدی کے خیال میں انڈیا کے ذریعے اس جدید طیارے کی خریداری کا عمل ابھی شروع نہیں ہوا اور اس لیے اس مرحلے میں ہم اسے صرف ایک پیشکش اور تجویز کہہ سکتے ہیں۔
’انڈیا دباؤ میں آ گیا اور یہ دورہ امریکہ کے حق میں رہا‘
انڈیا میں دونوں رہنماؤں کی ملاقات کو ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ سرکاری سطح پر اسے ایک بہت کار آمد اور مفید دورہ قرار دیا گیا تاہم بین الاقوامی امور کی تجزیہ کار نیانیما باسو کہتی ہیں کہ یہ دورہ انڈیا سے زیادہ امریکہ کے حق میں رہا۔
’امریکہ نے دفاعی ساز وسامان کی فروخت کے معاملے پربہت زیادہ توجہ دی۔ انڈیا میں جنگی جہازوں کی خریداری کا عمل بہت لمبا ہوتا ہے۔ انڈین فضائیہ کی ایسی بہت سی تجاویز پہلے سے برسوں سے پھنسی ہوئی ہیں۔ ان حالات میں امریکہ کا یہ کہنا کہ وہ ایف 35 دینے والے ہیں۔ میرے خیال میں انڈیا دباؤ میں آ گیا۔ ہم نے وزیر اعظم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ وہ دفاع کو سینٹر پوائنٹ پر رکھنا چاہتے ہیں۔ دونوں ممالک ڈیفینس کوآپریشن فریم ورک کو دس سال کے لیے بڑھا رہے ہیں۔ اس کے تحت بہت ساری دفاعی فروخت ہونے والی ہے۔‘
نیانیما کہتی ہیں کہ جہاں تک امریکہ سے تیل اور گیس خریدنے کی بات ہے تو امریکہ چاہتا ہے کہ انڈیا روس سے تیل خریدنا بند کر دے۔
انھوں نے کہا کہ ’روس اس وقت انڈیا کو تیل سپلائی کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس لیے روس سے خریداری فوراً بند کرنا ممکن نہیں ہو گا لیکن مشترکہ اعلامیے میں واضح طور پر یہ کہا گیا کہ امریکہ انڈیا کو تیل سپلائی کرنے والا بڑا سپلائر بننا چاہتا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکہ کا تیل روس اور کئی دوسرے ملکوں سے مہنگا ہے۔‘
نیانیما کہتی ہیں کہ یہ بات بھی اہم ہے کہ ٹرمپ سکیورٹی کے سوال پر چین کو چیلنج نہیں کرنا چاہتے کیونکہ بین اقوامی امور میں چین کا اہم کردار ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’چین کے صدر شی جن پنگ ایک سمبھدار رہنما ہیں۔ چین کے ساتھ انڈیا کا سرحدی تنازعہ ابھی حل نہیں ہوا۔ انڈیا کو چین کو بھی پارٹنر بنا کر چلنا ہے اور اس سے کاروبار بھی دوبارہ شروع ہو چکا۔‘
’دیکھنا ہو گا انڈیا کس طرح تعلقات میں توازن پیدا کرتا ہے‘
تجزیہ کار نیانیما کہتی ہیں کہ امریکہ اور انڈیا سٹریٹیجک پارٹنرز ہیں اس لیے یہ توقع تو تھی ہی کہ دونوں ممالک کے درمیان بہت سے شعبوں میں معاہدے اور معاہدے ہوں گے تاہم ان کے خیال میں انڈین حکومت مودی کے اس دورے کوبڑی کامیابی کے طور پر پیش کرے گی لیکن آئندہ چار برس انڈیا اور امریکہ کے تعلقات کے حوالے سے بہت دلچسپ ہوں گے۔
انھوں نے کہا کہ ’انڈیا کے لیے آئندہ چار پانچ برس تک خارجہ پالیسی میں یہ چیلنج رہے گا کہ ایک طرف وہ چین اور روس کے ساتھ کس طرح نبھاتا ہے اور دوسری جانب وہ امریکہ کے ساتھ کیسے ڈیل کرتا ہے۔ یہ آئندہ برسوں میں انڈیا کے لیے سب سے بڑا چیلنج رہے گا۔‘
نیانیما کہتی ہیں کہ آئندہ چند ماہ میں کواڈ سربراہی اجلاس ہونے والا ہے جس کے لیے صدر ٹرمپ انڈیا آئیں گے اور وہ اجلاس چین سے تعلقات میں تلخی کا ایک نیا باب کھول سکتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ایک طرف چین اور روس ہیں اور دوسری جانب امریکہ اور اب اس میں اسرائیل کا پہلو شامل ہو گیا ہے۔ انڈیا ان کے درمیان پھنسا ہوا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ انڈیا کس طرح ان سے تعلقات میں توازن پیدا کر پاتا ہے۔‘
’یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ وزیر اعطم نریندر مودی نے غیر قانونی تارکین وطن کے سوال پر صدر ٹرمپ کی مکمل حمایت کی اور کہا کہ ہر ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر آنے والے تارکین وطن کو ان کے ملک واپس بھیج دے۔‘
یاد رہے کہ امریکہ سے 104 غیرقانونی انڈین تارکین وطن کو لے کر ایک امریکی فوجی طیارہ فروری کے پہلے ہفتے میں انڈیا پہنچا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دورِ اقتدار میں امریکہ میں مقیم انڈین افراد کی یہ پہلی ملک بدری ہے۔