طورخم میں افغان طالبان اور پاکستانی فورسز کے درمیان جھڑپ: سرحد کی بندش اور چوکی کی تعمیر پر تنازع

جھڑپ کے بعد سرحد کے قریب پاکستانی گاؤں باچا مینہ کو خالی کرا لیا گیا ہے اور تمام لوگوں کو لنڈی کوتل منتقل کر دیا گیا ہے۔ باچا مینہ میں شنواری خوگہ خیل قوم آباد ہے اور اس میں افغان شہری بھی شامل ہیں۔
EPA
EPA

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی مقام طورخم پر دونوں ملکوں کی سکیورٹی فورسز میں جھڑپ کی اطلاعات ہیں جس کے بعد سے حالات کشیدہ ہیں۔ اس جھڑپ میں پاکستان کے تین اہلکار زخمی ہوئے ہیں جبکہ افغانستان کی جانب سے اب تک کسی جانی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہو سکی۔

حکام کے مطابق سرحد پر جھڑپ سے پاکستان کی جانب بھگدڑ کے دوران ایک شخص دل کا دورہ پڑنے سے وفات پا گئے ہیں۔

لنڈی کوتل ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر احتشام نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ان کے ہسپتال میں دو افراد کو لایا گیا ہے جن میں سے ایک دل کا دورہ پڑنے سے وفات پا چکے تھے اور انھیں مردہ حالت میں ہسپتال لایا گیا تھا جبکہ دوسرا شخص زخمی تھا جنھیں طبی امداد فراہم کی گئی۔

مقامی افراد نے بتایا ہے کہ جھڑپ کے بعد سرحد کے قریب گاؤں باچا مینہ کو خالی کرا لیا گیا ہے اور تمام لوگوں کو لنڈی کوتل منتقل کر دیا گیا ہے۔ باچا مینہ میں شنواری خوگہ خیل قوم آباد ہے اور اس میں افغان شہری بھی شامل ہیں۔

مقامی صحافی ہجرت علی نے بتایا کہ باچا مینہ طورخم سرحد سے کچھ فاصلے پر واقعہ ہے اور یہ گاؤں بہت بڑا نہیں لیکن اس میں ہزاروں افراد رہایش پذیر ہیں۔

ایک سرکاری افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ اب تک کی اطلاعات کے مطابق اس جھڑپ میں سکیورٹی فورسز کے تین اہلکار زخمی ہوئے ہیں جنھیں فوری طور پر ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔

سرکاری افسران کے مطابق یہ جھڑپ نیم شب کے وقت شروع ہوئی اور صبح چھ بجے تک وقفے وقفے سے جاری رہی اور اس کے بعد سے خاموشی ہے۔ سرحد پر پاکستان کی جانب سے مزید نفری بھی پہنچا دی گئی ہے۔

افغان فورسز کے حملے میں پاکستان میں ایک مارٹر پوسٹ کو نقصان پہنچا ہے جبکہ پاکستان کی جانب سے افغانستان میں جنگل پوسٹ اور خوڑ پوسٹ کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

یہ جھڑپ ایک ایسے وقت میں شروع ہوئی ہے جب صرف ایک روز قبل ہی دونوں جانب سے سرحد پر تعینات اہلکاروں کے آپس میں مذاکرات ہوئے تھے اور یہ توقع کی جا رہی تھی کہ دس روز سے بند سرحد آمد و رفت کے لیے کسی بھی وقت کھل سکتی ہے۔

سرحد پر بڑی تعداد میں مسافر و سامان سے لدی گاڑیاں کھڑی ہیں

EPA
EPA

پاک افغان سرحد گذشتہ دس روز سے تمام تجارتی سرگرمیوں کے لیے بند ہے جس سے مقامی آبادی، تاجروں اور دونوں ممالک کے درمیان سفر کرنے افراد کے لیے مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ سرحد کی بندش سے تاجروں کو بھاری نقصان کا سامنا ہے۔

پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کی جانب سے اس بارے میں کوئی باقاعدہ بیان جاری نہیں کیا گیا ہے لیکن طورخم سرحد پر رہنے والے مقامی افراد نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ افغان حکام ایک متنازع مقام پر چوکی تعمیر کرنے جا رہے تھے جس پر پاکستان کی جانب سے اعتراض کیا گیا اور پھر اس سے دونوں جانب کشیدگی میں اضافہ ہوتا گیا۔

افغانستان میں سرحدی علاقے میں تعینات کمشنر عبدالجبار حکمت نے گذشتہ روز اس جھڑپ سے پہلے کہا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کو سرحد 24 گھنٹے کھلا رکھنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’فیصلہ کرنا ہوگا کہ آئندہ یہ راستہ بند نہیں کیا جائے گا اور یہ کہ سیاست اور تجارت کو الگ الگ کرنا ضروری ہے۔‘

انھوں نے کہا تھا کہ اس حوالے سے پاکستان اور افغانستان کے حکام نے آپس میں بات چیت کی ہے۔

سرحد پر بڑی تعداد میں مسافر گاڑیاں اور دیگر سامان سے لدی گاڑیاں موجود ہیں۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اب پاک افغان سرحد پر حالات اتنے کشیدہ ہوگئے ہیں کہ ہر کچھ دنوں بعد سرحد بند کر دی جاتی ہے ۔

افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے قیام کے بعد سے پاک افغان سرحد مختلف مقامات پر متعدد بار بند کی جا چکی ہے جس کی وجہ سے اب افغانستان کے تاجر وسطی ایشیائی ممالک اور ایران کے ساتھ تجارت کو ترجیح دے رہے ہیں۔

تجارت، معیشت اور نقصان؟

Getty Images
Getty Images

سرحد کی بندش سے تاجروں، ٹرانسپورٹرز اور مریضوں کو زیادہ مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔

پاک افغان سرحد کی حالیہ بندش سے وہاں موجود تاجروں کے مطابق صرف پاکستان کی جانب 2500 کے لگ بھگ ٹرک کنٹینر اور دیگر گاڑیاں کھڑی ہیں۔

پاک افغان جائینٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینیئر نائب صدر ضیا الحق سرحدی نے کہا ہے کہ سرحد کی بار بار اور پھر کئی دنوں تک بندش سے تاجروں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے اور اس کے لیے دونوں ممالک کی حکومتوں کو ٹھوس اقدامات کرنے چاہیں تاکہ تجارت کا یہ سلسلہ بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہے۔

انھوں نے بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے تک پاکستان اور افغانستان کے درمیان کل تجارت کا حجم دو اعشاریہ پانچ بلین ڈالرز تک تھا اور کوشش کی جا رہی تھی کہ یہ حجم پانچ بلین ڈالرز تک پہنچایا جائے لیکن اب اس میں کافی کمی آ چکی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس کی بڑی وجہ سرحد کی بار بار بندش ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان بار بار معاہدے ہوتے رہے ہیں اور پالیسیاں بھی بتنی رہی ہیں لیکن تجارتی پالیسیوں میں تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے تاجروں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ہم اس تجارت میں اضافے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں، حکومتوں کو چاہیے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے معاملات حل کریں۔

پاکستان میں تجارت میں بہتری کے لیے طورخم اور اور چمن کے مقام پر نئے ٹریمنل کی تعمیر بھی آخری مراحل میں ہے اور ایسی اطلاعات ہیں کہ طورخم ٹرمینل کا افتتاح 25 مارچ تک متوقع ہے ۔

افغانستان اور پاکستان میں تاجروں کے علاوہ عام شہریوں کا انحصار بھی دونوں ممالک میں دستیاب وسائل پر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان سے مریض پاکستان میں علاج کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کے لیے روزانہ بڑی تعداد میں افغانستان سے مختلف امراض میں مبتلا افراد علاج کے لیے پشاور آتے ہیں۔

’سرحد کا بند رہنا دونوں اطراف کے لوگوں کے مفاد میں نہیں‘ علی امین گنڈا پور

Getty Images
Getty Images

وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈہ پور بارہا افغانستان کے ساتھ مذاکرات اور اعتماد سازی کے لیے وفود بھیجنے کے متعلق بات کر چکے ہیں۔

گذشتہ روز پشاور میں تعینات افغان قونصل جنرل حافظ محب اللہ شاکر نے وزیر اعلیٰ سے ملاقات میں تجارت کے فروغ، علاقائی امن و استحکام، صوبے میں مقیم افعان شہریوں کو درپیش مسائل کے حل سمیت دیگر معاملات پر تبادلہ خیال کیا ہے۔

ملاقات میں طورخم پر پاک افغان سرحد کی عارضی بندش سے دونوں اطراف کے تاجروں اور عام لوگوں کو درپیش مشکلات پر گفتگو ہوئی جبکہ ماہ رمضان اورآنے والی عید الفطر کے پیش نظر سرحد کو جلد سے جلد کھولنے کے لیے کوششوں پر اتفاق کیا گیا۔

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ سرحد کی بندش کی وجہ سے رمضان کے مہینے میں تاجروں اور ٹرانسپورٹرز کو تکالیف کا سامنا ہے، سرحد کا بند رہنا دونوں اطراف کے لوگوں کے مفاد میں نہیں ہے اور اس سے کاروباری لوگوں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے جس کے پیش نظر جلد سے جلد بارڈر کھولنے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے کہا ہم بارڈر کھولنے کے لیے اپنی طرف سے کوششیں کر رہے ہیں اور افعان قونصلیٹ جنرل بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں۔

خیبر پختونخوا کی موجودہ حکومت افغانستان کے ساتھ اعتماد سازی کے لیے دو وفود کابل بھیجنے کے حوالے سے ایک منصوبہ وفاقی حکومت کو پیش کر چکی ہے۔

اس کے مطابق پہلے ایک وفد اعتماد سازی کے لیے افغانستان میں حکام سے مذاکرات کرے گا اور اس کے بعد ایک وفد کابل بھیجا جائے گا جس میں تمام سٹیک ہولڈرز کی نمائندگی ہو گی۔

اس سلسلے میں صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے گذشتہ ماہ پاکستان میں تعینات افغان سفیر سے ملاقات بھی کی تھی جس پر اسلام آباد میں افغان سفارتخانے کی جانب سے کہا گیا تھا کہ انھوں نے کابل میں حکام کو اس بارے میں آگاہ کر دیا ہے۔

جمعہ کے روز دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں مولانا حامد الحق پر حملے کے بعد صوبائی حکومت کے ترجمان نے وفاقی حکومت سے کہا تھا کہ افغانستان کے مذاکرات کے لیے ٹی او آرز جلد از جلد جاری کیے جائیں۔

وزیر اعلی نے افغان قونصل جنرل سے ملاقات میں کہا کہ صوبائی حکومت نے اپنیسطح پر افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے جرگہ تشکیل دیا ہے، وفاقی حکومت کی طرف سے جرگے کے ٹی او آرز کی منظوری کا انتظار ہے اور جونہی ٹی او آرز طے پاتے ہیں، جرگہ افغانستان بھیجا جائے گا۔

انھوں نے کہا کہ تجارت، تعلیم اور علاجکی غرض سے آنے جانے والوں کی سہولت کے لیے بارڈر پر خصوصی ڈیسک کے قیام کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

خیبر پختونخوا میں جاری تشدد کے واقعات میں اضافے پر وزیر اعلی نے اپنے بیانات میں بارہا کہا ہے کہ اس وقت خیبر پختونخوا میں حالات کشیدہ ہیں اور افغانستان سے بامقصد مذاکرات کے ذریعے اس میں بہتری لائی جا سکتی ہے ۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.