پاکستان میں حکام نے ویزا نہ رکھنے والوں کے لیے31 مارچ اور دوبارہ آباد کاری کے خطوط کے حامل غیر ملکی افراد کے لیے 30 جون کی حتمی تاریخ مقرر کی ہے اور اس تاریخ تک انھیں ملک چھوڑنا ہو گا۔
نبیلہ کے والد نے 2021 میں افغانستان پر طالبان کے قبضے سے قبل افغان فوج میں خدمات انجام دی تھیں اور انھیں خدشہ ہے کہ اب انھیں واپس افغانستان بھیج دیا جائے گانبیلہ نے روتے ہوئے کہا ’مجھے ڈر لگتا ہے‘۔
10 سالہ نبیلہ کی زندگی اسلام آباد میں اس کے ایک کمرے والے گھر اور اس کے باہر کچی سڑک تک محدود ہے۔
دسمبر میں ان کے سکول کی جانب سے پاکستان کا پیدائشی سرٹیفیکیٹ نہ رکھنے والے افغان بچوں کو تعلیم نہ دینے کے فیصلے کے بعد سے نبیلہ سکول نہیں گئیں اور ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ جا سکتیں تب بھی نہ جاتیں۔
’میں ایک دن بیمار تھی اور میں نے سنا کہ پولیس افغان بچوں کو ڈھونڈ رہی ہے‘۔ انھوں نے روتے ہوئے ہمیں بتایا کہ اس کے دوست کے خاندان کو افغانستان واپس بھیج دیا گیا۔
نبیلہ اس بچی کا اصل نام نہیں ہے۔ اس تحریر کے لیے جن افغانوں سے بات کی گئی، ان کے تحفظ کے لیے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد اور اس کے جڑواں شہر راولپنڈی میں افغان باشندوں کی ملک بدری، گرفتاریوں اور حراستوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ ادارے کے اندازے کے مطابق پاکستان میں موجود 30 لاکھ افغانوں میں سے نصف سے زیادہ کے پاس متعلقہ اور ضروری دستاویزات نہیں ہیں۔
افغان باشندوں کا کہنا ہے کہ وہ گھروں پر پولیس کے روزانہ چھاپوں کے سائے میں مسلسل خوف کی زندگی گزار رہے ہیں۔
کچھ لوگوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر وہ افغانستان واپس چلے گئے تو انھیں مار دیے جانے کا خدشہ ہے۔ ان میں وہ خاندان بھی شامل ہیں جو امریکہ کے اس بازآبادکاری کے پروگرام کا حصہ ہیں، جسے ٹرمپ انتظامیہ نے معطل کر دیا ہے۔
اسلام آباد میں اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کی نمائندہ فلپا کینڈلر کہتی ہیں کہ پاکستان نقل مکانی کے پروگرامز میں زیادہ وقت لگنے سے مایوس ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کا کہنا ہے کہ فروری کے پہلے دو ہفتوں میں 930 افراد کو افغانستان واپس بھیجا گیا، جو دو ہفتے پہلے کی تعداد سے دوگنا ہے۔
اسلام آباد اور راولپنڈی سے ملک بدر کیے جانے والوں میں سے کم از کم 20 فیصد کے پاس اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کی دستاویزات تھیں، یعنی انھیں بین الاقوامی تحفظ کے ضرورت مند افراد کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔
احمد کا دعویٰ ہے کہ ان کے خاندان کو تین دن تک ایسے حالات میں رکھا گیا جس کا تصور نہیں کیا جا سکتالیکن پاکستان پناہ گزینوں کے کنونشن کا حصہ نہیں ہے اور ماضی میں کہہ چکا ہے کہ وہ ملک میں مقیم افغانوں کو پناہ گزینوں کے طور پر تسلیم نہیں کرتا۔ حکومت نے کہا ہے کہ اس کی پالیسیوں کا ہدف تمام غیرقانونی غیرملکی شہری ہیں اور انھیں ملک چھوڑنے کے لیے دی گئی آخری تاریخ آنے والی ہے۔ یہ تاریخ بدلتی رہی ہے لیکن اب کارآمد ویزا نہ رکھنے والوں کے لیے 31 مارچ اور دوبارہ آباد کاری کے خطوط کے حامل افراد کے لیے 30 جون کی حتمی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔
بہت سے افغان اس صورتحال سے خوفزدہ ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ویزا کا عمل مشکل ہو سکتا ہے۔ نبیلہ کے گھر والوں کا خیال ہے کہ ان کے پاس صرف ایک ہی صورت ہے: چھپ جانا۔ ان کے والد حامد نے 2021 میں طالبان کے قبضے سے پہلے، افغان فوج میں خدمات انجام دی تھیں۔
وہ اپنی بےخواب راتوں کو بیان کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے۔ ان کا کہنا تھا ’میں نے اپنے ملک کی خدمت کی اور اب میں بیکار ہوں۔ اس کام نے مجھے برباد کر دیا ہے۔‘
اس کے خاندان کے پاس ویزا نہیں ہے اور وہ دوبارہ آبادکاری کی فہرست میں بھی شامل نہیں ہیں۔
وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی نے ان کی فون کالز کا جواب نہیں دیا۔ بی بی سی نے تبصرے کے لیے ایجنسی سے رابطہ کیا ہے۔
طالبان حکومت نے ماضی میں بی بی سی سے کہا ہے کہ تمام افغانوں کو واپس آنا چاہیے کیونکہ وہ ’بلا خوف و خطر ملک میں رہ سکتے ہیں‘۔ طالبان کا دعویٰ ہے کہ یہ پناہ گزین ’معاشی تارکین وطن‘ ہیں۔
لیکن 2023 میں اقوام متحدہ نے ایک رپورٹ میں طالبان حکومت کی یقین دہانیوں پر شک کا اظہار کیا۔ رپورٹ کے مطابق عام معافی کے باوجود سینکڑوں سابق سرکاری افسران اور مسلح افواج کے ارکان کو مبینہ طور پر قتل کیا گیا ہے۔
طالبان کی حکومت کی ضمانتوں پر نبیلہ کے خاندان کو زیادہ یقین نہیں اس لیے جب حکام ان تک پہنچنے لگتے ہیں وہ راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔ پڑوسی ایک دوسرے کو پناہ دینے کی پیشکش کرتے ہیں، کیونکہ وہ سب افغانستان واپس جانے سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق جنوری 2025 میں پاکستان بھر میں 1245 افغانوں کو گرفتار یا حراست میں لیا گیا جو پچھلے سال کی اسی مدت کے مقابلے میں دوگنی تعداد ہے۔
نبیلہ کہتی ہیں کہ افغانوں کو زبردستی نہیں نکالا جانا چاہیے۔ ’افغانوں کو ان کے گھروں سے نہ نکالو۔ ہم یہاں اپنی مرضی سے نہیں آئے بلکہ یہاں رہنے پر مجبور ہیں۔‘
ان کے گھر میں اداسی اور تنہائی کا احساس ہے۔ نبیلہ کی والدہ مریم کہتی ہیں، ’میری ایک دوست تھی جو یہاں تھی اور پھر اسے افغانستان بھیج دیا گیا۔ وہ ایک بہن، ایک ماں کی طرح تھیں۔ جس دن ہم الگ ہوئے وہ ایک مشکل دن تھا۔‘
میں نبیلہ سے پوچھتی ہوں کہ وہ بڑی ہو کر کیا کرنا چاہتی ہے۔ جواب ملتا ہے ’ماڈلنگ‘۔ کمرے میں موجود سب لوگ مسکراتے ہیں اور تناؤ کم ہو جاتا ہے۔
اس کی والدہ سرگوشی کرتی ہیں کہ اور بھی بہت سی چیزیں ہیں جو وہ کر سکتی ہے، انجینیئرنگ یا پھر وکالت۔ ماڈلنگنبیلہ کا وہ خواب ہے جسے وہ طالبان کی حکومت میں کبھی پورا نہیں کر سکتی اور وہاں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کی وجہ سے اس کی والدہ کی تجاویز پر عمل بھی ناممکن ثابت ہو گا۔
ایک نیا مرحلہ
پاکستان ایک طویل عرصے سے افغان پناہ گزینوں کو پناہ دیتا آیا ہے لیکن سرحد پار سے ہونے والے حملوں نے دونوں پڑوسیوں کے درمیان کشیدگی کو بڑھا دیا ہے۔ پاکستان ان حملوں کا الزام افغانستان میں مقیم شدت پسندوں پر لگاتا ہے جس کی طالبان حکومت تردید کرتی ہے۔
ستمبر 2023 میں پاکستان کی جانب سے ’غیر قانونی غیر ملکیوں کی وطن واپسی‘ کے منصوبے کے آغاز کے بعد سے اب تک 836,238 افراد افغانستان واپس جا چکے ہیں۔
ملک بدری کے اس موجودہ مرحلے کے درمیان، کچھ افغانوں کو اسلام آباد کے حاجی کیمپ میں رکھا جا رہا ہے۔ احمد امریکہ کے دوبارہ آبادکاری کے پروگرام کے آخری مراحل میں تھا۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس منصوبے کو نظرثانی کے لیے معطل کیا تو ان کی ’آخری امید‘ بھی جاتی رہی۔ بی بی سی نے احمد کے پاس افغانستان میں ایک مغربی، مسیحی ادارے کی طرف سے ملازمت کا خط دیکھا۔
افغانوں نے امریکہ کے باز آبادکاری پروگرام کے تعطل پر احتجاج کیا ہےچند ہفتے قبل جب وہ خریداری کے لیے باہر نکلے تھے تو انھیں ایک فون کال موصول ہوئی۔ ان کی تین سالہ بیٹی لائن پر تھی۔ ’میری بچی نے فون کیا، بابا آؤ پولیس آ گئی ہے۔‘
احمد بتاتے ہیں کہ ان کی اہلیہ کے ویزے کی توسیع کا عمل ابھی مکمل نہیں ہوا اور وہ پولیس سے بات کرنے میں مصروف تھی۔ ان کے بقول وہ گھر کی جانب بھاگے۔ ’میں انھیں پیچھے نہیں چھوڑ سکتا تھا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک گاڑی میں بیٹھے گھنٹوں انتظار کرتے رہےاور پولیس کے چھاپے جاری رہے۔ ان کے پڑوسیوں کی بیویاں اور بچے گاڑی میں گھستے رہے۔ احمد کو ان کے شوہروں کے فون آنے لگے جو گزارش کر رہے تھے کہ وہ ان کا خیال رکھیں کیونکہ وہ خود پہلے ہی فرار ہو چکے تھے۔
احمد کا دعویٰ ہے کہ ان کے خاندان کو تین دن تک ایسے حالات میں رکھا گیا جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انھیں فی خاندان صرف ایک کمبل اور روزانہ ایک روٹی دی گئی اور ان کے فون بھی ضبط کر لیے گئے۔ پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ’وطن واپسی کے عمل کے دوران کسی کے ساتھ بدسلوکی نہ ہو اور انھیں ہراساں نہ کیا جائے۔‘
ہم نے احمد کے دعووں کی تصدیق کے لیے حاجی کیمپ کے اندر جانے کی کوشش کی لیکن حکام کی جانب سے داخلے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا۔ بی بی سی نے پاکستانی حکومت اور پولیس سے انٹرویو یا ردعمل کے لیے رابطہ کیا، لیکن کوئی دستیاب نہیں تھا۔
حاجی کیمپ کے دروازے کے باہر انتظار کرتی ایک خاتون نے ہمیں بتایا کہ اس کی بہن کے ویزے کے میعاد ختم ہو چکی ہے اور وہ کیمپ میں قید ہےحراست میں لیے جانے یا ملک بدر کیے جانے کے خوف سے کچھ خاندانوں نے اسلام آباد اور راولپنڈی چھوڑنے کا انتخاب کیا ہے جبکہ دیگر کا کہنا ہے کہ وہ اس کی استطاعت نہیں رکھتے۔
ایک خاتون کا دعویٰ ہے کہ وہ امریکی آبادکاری کی سکیم کے آخری مراحل میں تھی اور انھوں نے اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ اسلام آباد سے 80 کلومیٹرمغرب میں واقع اٹک جانے کا فیصلہ کیا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں بمشکل روٹی کا خرچ برداشت کر سکتی ہوں۔‘
بی بی سی نے ایک دستاویز دیکھی جو اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ جنوری کے اوائل میں آئی او ایم نے ان کا انٹرویو لیا تھا۔ ان خاتون کا دعویٰ ہے کہ ان کا خاندان جس علاقے میں مقیم ہے وہاں تقریباً روزانہ چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے ترجمان نے کہا ہے کہ وہ امریکی آبادکاری کے عمل میں شامل افغان شہریوں کی حیثیت کے بارے میں پاکستان کی حکومت کے ساتھقریبی رابطے میں ہے۔
حاجی کیمپ کے دروازے کے باہر انتظار کرتی ایک خاتون نے ہمیں بتایا کہ ان کے پاس ایک کارآمد ویزا ہے لیکن اس کی بہن کے ویزے کے میعاد ختم ہو چکی ہے۔ ان کی بہن کو اب بچوں سمیت کیمپ کے اندر رکھا گیا ہے۔ افسران انھیں اپنے خاندان سے ملنے نہیں دے رہے اور وہ خوفزدہ ہیں کہ انھیں ملک بدر کر دیا جائے گا۔
وہ روتے ہوئے کہتی ہیں ’اگر میرا ملک محفوظ ہوتا تو میں یہاں پاکستان کیوں آتی اور یہاں بھی ہم سکون سے نہیں رہ سکتے۔‘
انھوں نے اپنی بیٹی کی طرف اشارہ کیا جو گاڑی میں بیٹھی تھی۔وہ افغانستان میں ایک گلوکارہ تھیں، جہاں اب گانا تو ایک طرف، قانون کے مطابق خواتین کو گھر سے باہر بولتے ہوئے بھی نہیں سنا جا سکتا۔
میں اس کی بیٹی کی طرف متوجہ ہوا اور پوچھا ہوں کہ کیا وہ اب بھی گاتی ہے تو اس نے خلا میں گھورتے ہوئے کہا،’نہیں۔‘