بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ ٹک ٹاک پر 15 سال تک کی عمر کے بچوں کی جانب سے براہ راست جنسی نوعیت کی پرفارمنس کے ذریعے منافع کمایا جا رہا ہے۔

بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ ٹک ٹاک پر 15 سال تک کی عمر کے بچوں کی جانب سے براہ راست جنسی نوعیت کی پرفارمنس کے ذریعے منافع کمایا جا رہا ہے۔
اس سلسلے میں ہم نے کینیا میں تین خواتین سے بات کی جن کا کہنا ہے کہ انھوں نے یہ کام لڑکپن میں شروع کیا۔
انھوں نے جنسی نوعیت کے مواد کی کھلے عام تشہیر اور ادائیگیوں کے حوالے سے بات دیگر پلیٹ فارمز کے مقابلے ٹک ٹاک کا زیادہ استعمال کیا۔
ٹک ٹاک کے منتظمین نے بی بی سی کو بتایا کہ ٹک ٹاک پر رقم کے مطالبے پر پابندی ہے مگر کمپنی جانتی ہے کہ ایسا ہوتا ہے۔ ہمیں ماضی میں معلوم ہوا تھا کہ ٹک ٹاک پر تمام لائیو سٹریم لین دین سے تقریباً 70 فیصد کٹوتی کی جاتی ہے۔
ٹک ٹاک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’استحصال کے حوالے سے زیرو ٹالرنس ہے۔‘
کینیا سے بننے والی لائیو سٹریمز ٹک ٹاک پر مشہور ہیں۔ ایک ہفتے کے دوران ہر رات ہم نے ایک درجن تک ایسے پرفارمرز کو دیکھا جس میں خواتین نے نازیبا اشاروں کے ساتھ رقص کیا۔ اس مواد کو دنیا بھر میں سینکڑوں لوگوں نے دیکھا ہے۔
کچھ نے جنسی مواد کی تشہیر کے لیے کوڈڈ جنسی زبان کا استعمال بھی کیا ہے۔
انتباہ: یہاں جنسی نوعیت کے مواد کی تفصیل دی گئی ہے۔
یہ ٹک ٹاک کی لائیو سٹریم سے لیا گیا سکرین شارٹ ہے جسے شناخت چھپانے کے لیے دھندلا کر دیا گیا ہےنیروبی میں صبح کے دو بج رہے ہیں اور ٹک ٹاک لائیوز پورے جوبن پر چل رہے ہیں۔
اونچی آواز میں میوزک بج رہا ہے اور صارفین ایک دوسرے سے بات چیت کر رہے ہیں۔ ایک عورت اپنے کیمرے کو آن کرتی ہے اور ایک ہیجان انگیز پوز دکھاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی سکرین ایموجیز کی صورت میں تحفائف سے بھر جاتی ہے۔
پرفارمرز بار بار کہتے ہیں: ’مجھے کینمبے گائز کے لیے ان بوکس کریں۔ ٹیپ کریں، ٹیپ کریں۔‘
ٹیپ ٹیپ، ٹک ٹاک پر عام طور پر استعمال ہونے والا ایک فقرہ ہے جس میں ناظرین کو لائیو سٹریم کو پسند کرنے کا کہنا جاتا ہے۔
’کینمبے‘ سواہلی زبان میں خواتین کے جنسی عضو کو کہتے ہیں۔
اس میں دیکھنے والوں کو کہا جاتا ہے کہ مجھے ان باکس کریں، وہ ٹک ٹاک پر ایک نجی پیغام بھیجیں جس میں زیادہ واضح طور پر پرفارمرز کو ایسی درخواستیں کی جائیں۔ مثلاً دوسری خواتین کے ساتھ مشت زنی کرتے ہوئے، انھیں برہنہ کرتے یا ان کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرتے ہوئے دیکھا جا سکے۔
ایموجی کی صورت میں گفٹس ٹک ٹاک لائیو سٹریمز کے لیے ادائیگی کے طور پر کام کرتے ہیں اور کیونکہ ٹک ٹاک کسی بھی واضح جنسی عمل اور عریانی کو ہٹا دیتا ہے۔ جبکہ تحائف کو نقد میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
کینیا کے ایک سابق منتظمین جو کا کہنا ہے کہ یہ ٹک ٹاک کے مفاد میں نہیں ہے کہ وہ سیکس کی درخواست پر پابندی عائد کرے کیونکہ لوگ لائیو سٹریم پر اتنے زیادہ تحفے دیتے ہیں۔
جو ٹک ٹاک کے 40,000 سے زیادہ منتظمین میں سے ایک ہے۔
ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ ٹک ٹاک ابھی بھی لائیو سٹریم تحائف سے تقریبا 70 فیصد کٹوتی لے رہا ہے۔
جب ہم نے 2022 کی تحقیقات میں اسی کٹوتی کو ثابت کیا تو کمپنی نے اتنا بڑا کمیشن لینے سے انکار کیا۔
امریکی ریاست یوٹاہ کی جانب سے گذشتہ سال دائر کیے گئے مقدمے میں دعوے کیے گئے کہ ٹک ٹاک طویل عرصے سے اپنی لائیو سٹریمز میں بچوں کے استحصال کے حوالے سے آگاہ ہے، اور اس نے اس ضمن میں 2022 میں داخلی سطح پر تحقیقات کی تھیں لیکن اس معاملے کو نظر انداز کر دیا تھا کیونکہ وہ اس سے 'کافی فائدہ' اٹھا رہی تھا۔
ٹک ٹاک نے جواب دیا کہ یہ مقدمہ جاری ہے، جس میں حفاظت کو بہتر بنانے کے لیے اٹھائے گئے 'فعال اقدامات' کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
خیراتی ادارے چائلڈ فنڈ کینیا کا کہنا ہے کہ کینیا اس بدسلوکی کا مرکز ہے، جس میں نوجوان آبادی زیادہ ہے اور وہاں بڑے پیمانے پر انٹرنیٹ کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔
ادارے کا مزید کہنا ہے کہ مجموعی طور پر افریقی ممالک میں مغربی ممالک کے مقابلے میں آن لائن نگرانی بہت کم ہے۔
ٹک ٹاک پر ادائیگیاں جیسے کہ میک اپ ٹیٹوریلز کے لیے صارفین ایموجیز تحفے میں بھیجتے ہیں جس کا تبادلہ پیسوں کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ جو ٹیلی پرفارمنس کے لیے کام کرتے ہیں، جن کا ٹک ٹاک کے ساتھ یہ معاہدہ ہوتا ہے کہ وہ اس کے مواد کی نگرانی کرے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ منتظمین کو ممنوعہ جنسی الفاظ یا اعمال کا حوالہ دیا جاتا ہے۔
لیکن جو یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ گائیڈ بہت محدود ہے۔اور اس میں نازیبا الفاظ یا دیگر اشتعال انگیز اشاروں کی جانب توجہ نہیں دی گئی۔
وہ کہتے ہیں کہ 'مثال کے طور پر کیمرے کے سامنے جس طرح وہ اپنے گریبان اوررانوں کے پوز بنا رہی ہوتی ہیں، کہ جیسے وہ سیکس کے لیے کہہ رہے ہوتے ہیں۔ شاید وہ وہ کچھ نہ کہیں، لیکن آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وہ اپنے (دوسرے پلیٹ فارم) اکاؤنٹ پر سائن پوسٹ کر رہے ہیں، لیکن میں کچھ نہیں کر سکتا۔‘
ٹیلی پرفارمنس کے مواد کو دیکھنے والے ایک اور منتظم جنھیں ہم کیلون کہہ رہے ہیں کا کہنا ہے کہ ٹک ٹاک کے مصنوعی ذہانت پر بڑھتے ہوئے انحصار کی وجہ سے اعتدال پسندی بھی کم ہوئی ہے۔
جو اور کیلون ٹک ٹاک مواد پر کام کرنے والے سات موجودہ اور سابق مواد منتظمین میں شامل ہیں جنھوں نے ہمیں اپنے خدشات سے آگاہ کیا۔
جو کہتے ہیں کہ مواد کی نگرانی کرنے والے افراد کی فیڈز میں دکھائی دینے والا تقریباً 80 فیصد لائیو سٹریم جنسی نوعیت کا تھا یا پھرجنسی نوعیت کی سروسز کی تشہیر کر رہا تھا اور ٹک ٹاک اس مسئلے کے سے آگاہ ہے۔

چائلڈ فنڈ کینیا اور دیگر خیراتی اداروں کا کہنا ہے کہ بچے جن کی عمر نو سال تک ہے وہ بھی ان سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔
ہم نے اس سلسلے میں نوعمر لڑکیوں اور نوجوان خواتین سے بات کی جن کا کہنا ہے کہ وہ رات کے چھ سے سات گھنٹے ان امور میں لگاتی ہیں اور ان کی اوسط آمدن 30 پاؤنڈ تک ہے جو کہ ایک ہفتے کی خوراک اور ٹرانسپورٹ کے کرائے کے لیے کافی ہے۔
17 سالہ لڑکی جنھیں ہم ایستھر کہہ کر پکار رہے ہیں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں خود کو ٹک ٹاک پر بیچتی ہوں، میں برہنہ ہو کر ڈانس کرتی ہوں، میں یہ اس لیے کرتی ہوں کیونکہ میں اپنا گزارہ کرنے کے لیے وہاں سے پیسے کما سکتی ہوں۔‘
وہ نیروبی کے ایک پسماندہ علاقے میں رہتی ہیں جہاں تین ہزار مکین بیت الخلا کے لیے ایک جگہ موجود سہولت کو شیئر کرتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں جو پیسہ وہ کماتی ہیں اس سے وہ اپنے بچے کے لیے کھانا لے سکتی ہیں اور اپنی ماں کو گھر کا کرایہ دینے میں مدد کر سکتی ہیں جو کہ ان کے والد کی وفات کے بعد سے مشکل سے گزر بسر کررہی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ جب وہ 15 برس کی تھیں تو ایک دوست نے انھیں ٹک ٹاک لائیو کے بارے میں بتایا۔ اسی دوست نے انھیں ٹک ٹاک کے استعمال کے لیے عمر کی حد کے مسئلے سے نجات دلانے میں مدد کی۔
خیال رہے کہ ٹک ٹاک پ صرف 18 برس کے لوگ لائیو آ سکتے ہیں اور اس کے لیے بھی ان کے فالورز کی تعداد 1000 ہونی چاہیے۔
ایسے میں ٹک ٹاک صارفین جن کے زیادہفالوورز ہیں وہ تو جنسی مواد فروخت کرنے والے لائیو سٹریمز کی میزبانی کی صورت میں ڈیجیٹل دلال کی طرح کام کر سکتے ہیں۔
ان میں سے کچھ کے بیک اپ اکاؤنٹس ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماضی میں ٹک ٹاک نے ان پر پابندی عائد کی ہے یا پھر ان کے اکاؤنٹ معطل کیے تھے۔
ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ جانتے ہیں کہ ٹک ٹاک کے مواد کے منتظمین سےاپنی شناخت کیسے چھپانی ہے۔ جبکہ صارفین کی دلچسپی کو بڑھانے کے لیے مناسب مقدار میں جنسی چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے۔
ایک دلال چیخ کر ڈانس کرتی عورت کو کہتا ہے کہ ’جب آپ رقص کریں تو کیمرے سے دور ہو جائیں، ورنہ پھر آپ کو بلاک کر دیا جائے گا۔‘
اس میزبانی کے بدلے میں عورتیں دلالوں کو اپنی کمائی کا ایک حصہ دیتی ہیں۔
ایستھر کہتی ہیں کہ یہ رشتہ تیزی سے استحصال کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل دلال کو پتہ ہوتا ہے کہ ان کی عمر 18 سال سے کم ہے اور 'وہ نوجوان لڑکیوں کا استعمال کرنا پسند کرتے ہیں۔'
وہ کہتی ہیں کہ دلال نے ان پر زیادہ کمانے کے لیے دباؤ ڈالا۔جس کا مطلب ہے کہ انھیں زیادہ بار لائیو سٹریم نگ کرنے کی ضرورت تھی، اور ان کی آمدنی میں توقع سے کہیں زیادہ کٹوتی کی جاتی تھی۔
لہذا اگر کوئی ایموجی بھیجی جاتی ہے جو 213 پاؤنڈ ہے تو وہ 121 پاؤنڈ لے لیتا ہے اور آپ کو صرف92 پاؤنڈ ملتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کے لیے کام کرنا 'ہتھکڑیوں' میں رہنے جیسا تھا۔ ’یہ آپ ہوتے ہیں جس کا نقصان ہوتا ہے کیونکہ دلال بڑا حصہ لے رہا ہوتا ہے جبکہ یہ آپ ہیں جو استعمال ہو رہے ہوتے ہیں۔‘
ان کا اصل نام صوفی نہیں، وہ کہتی ہیں کہ جب وہ پندرہ برس کی تھیں تب انھوں نے ٹک ٹاک کی لائیو سٹریمنگ پر کام شروع کیا۔
وہ کہتی ہیں انھیں یورپ میں موجود ایک شخص کی جانب سے ریکوسٹ ملی کہ وہ تھرڈ پارٹی پلیٹ فارم کے لیے کام کریں۔ وہ کہتی ہیں اس میں ایک جرمن صارف بھی شامل تھا جو ان سے کہتا تھا کہ وہ پیسوں کے لیے اپنے بریسٹ اور جینیٹلز کی حفاظت کرے۔
صوفی جو کہ اب اٹھارہ برس کی ہو چکی ہیں وہ آن لائن سیکس ورک کرنے پر پچھتاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے دیگر پلیٹ فارمز سے صارفین کو جو مواد بھجوایا اس میں سے کچھ ویڈیوز کو ان کی اجازت کے بغیر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیا گیا۔
بی بی سی سے گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ ان کے ہمسایوں نے اس مواد کو دیکھ لیا اور دیگر نوجوان لوگوں کو کہا کہ وہ مجھ سے دوستی نہ رکھیں۔
وہ کہتی ہیں مجھ پر یہ ٹھپہ لگ گیا کہ میں بھٹگ گئی ہوں اور نوجوان لوگوں سے کہا گیا کہ میں انھیں غلط راستے پر ڈال دوں گی۔
’میں زیادہ تر تنہا ہی ہوتی ہوں۔‘
ہم نے جن خواتین اور لڑکیوں سے بات کی ان میں سے کچھ نے یہ بھی کہا کہ ہمیں ٹک ٹاک صارفین نے سیکس کے لیے ملنے کے لیے پیسے بھی دے یا پھر انھیں اپنے دلالوں کے ساتھ سیکس کرنے پر مجبور کیا گیا۔
کینیا میں مواد کی نگرانی کر نے والوں نے ہمیں بتایا کہ ٹک ٹاک افریقی مارکیٹوں قدم جمانا چاہتا ہے۔ لیکن مواد کی بہتر طریقے سے نگرانی کرنے کے لیے اتنے عملے کو تعینات نہیں کر رہا جتنے کی ضرورت ہے۔
کینیا کی حکومت نے اس کو ایک مسئلے کے طور پر تسلیم کیا ہے۔
سنہ 2023 میں ملک کے صدر ولیم روٹو نے ٹک ٹاک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر شؤزی چو سے ملاقات کی اور ان سے کہا کہ اس پلیٹ فارم پر مواد کی بہتر طریقے سے نگرانی کی جائے۔ حکومت نے کہا کہ کمپنی نے قوانین کو مزید سخت کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا۔ اس میں کینیا میں ٹک ٹاک کا دفتر بھی شامل ہے تاکہ آپریشنز کو مربوط بنانے میں مدد مل سکے۔
لیکن جن منتظمین کے ساتھ ہماری بات ہوئی انھوں نے بتایا کہ 18 ماہ کے بعد کچھ بھی نہیں ہوا۔
ٹیلی پرفارمنس کی جانب سے جواب ملا ہے کہ اس کے منتظمین صارفینکی جانب سے بنایا گیا مواد ٹیگ اور فلیگ کرنے کے لیے ڈیجیٹل طور پر کام کرتے ہیں، جو کسی میونٹی کے سٹینڈرز اور کلائینٹ کی جانبدیے گئے اصول و قواعد کے مطابق ہوتا ہے۔
بی بی سی سے گفتگو میں ٹک ٹاک کے ترجمان نے کہا کہ ٹک ٹاک کسی قسم کا استحصال برداشت نہیں کرتا۔
ان کا کہنا ہے کہ ہم تحفظ کے لیے سخت پالیسی لاگو کرتے ہیں، ان میں لائیو مواد کے قواعد بھی شامل ہیں۔ سواہلی سمیت ہم 70 زبانوں میں نگرانی کرتے ہیں۔ اور ہماری مقامی ماہرین اور تخلیق کاروں کے ساتھ شراکت داری ہے، اس میں ذیلی صحارا افریقہ کی سیفٹی ایڈوائزری کونسل ہمارے نقطہ نظر کو مسلسل مضبوط بنانے کے لیے ہمارے ساتھ ہے۔