غزہ میں مرنے والوں کے لواحقین جو اپنے پیاروں کے آخری الفاظ دل سے لگائے زندہ ہیں: ’میں جواب نہ بھی دوں تو پھر بھی مجھ سے بات کرنا‘

اپنے نقصان کا بوجھ ظاہر کرتے اس سوال کے جوابات دل کو چیرنے والے ہیں۔ جوابات نے ان لوگوں کا ایک دستاویزی ریکارڈ فراہم کیا جنھوں نے جنگ میں اپنے پیاروں، رشتہ داروں یا دوستوں کو کھو دیا۔
غزہ
Getty Images

غزہ میں سورج غروب ہوتے وقت بھی بمباری کی آوازوں سنائی دے رہی ہیں اور ایسے میں وہ لوگ، اپنے ان پیاروں کی اپنے ساتھ آخری بار ہونے والی گفتگو یا جملے یاد کر رہے ہیں جو اس جنگ کے دوران لقمہ اجل بن گئے۔

زندگی کی ڈور ٹوٹنے سے پہلے ادا کیے جانے والے الفاظ اب پیچھے رہ جانے والوں کے لیے سرمایہ حیات ہیں۔

فلسطینی صحافی واد ابو ظہیر نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر ایک سوال پوسٹ کیا جس میں انھوں نے پوچھا کہ ’مرنے سے پہلے انھوں نے آپ سے آخری جملہ کیا کہا تھا؟

اپنے نقصان کا بوجھ ظاہر کرتے اس سوال کے جوابات دل کو چیرنے والے ہیں۔ جوابات نے ان لوگوں کا ایک دستاویزی ریکارڈ فراہم کیا جنھوں نے جنگ میں اپنے پیاروں، رشتہ داروں یا دوستوں کو کھو دیا۔

’میرے بارے میں ہمیشہ لکھنا‘

زندگی ختم ہونے سے پہلے یہ آخری جملے ناقابل فراموش ہیں اور دل میں اس طرح موجود رہتے ہیں جیسے ابھی کی بات ہو۔

یافہ محمد نے اپنے بھائی کے آخری الفاظ لکھے کہ ’میرے بارے میں ہمیشہ لکھتی رہنا اور مجھے کبھی مت بھلانا۔‘

یافہ نے اپنے بھائی کی گفتگو کو شیئر کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’مجھ سے چیٹ پر باتیں کرنا چاہے میں جواب نہ دوں۔ میں نمبر نہیں بننا چاہتا۔ مجھ پر یقین کرو۔ میری روح کے لیے مغفرت کی دعا کرنا۔ میں بھوکا ہوں، مجھے کافی چاہیے، میں تمہیں کچھ اہم بات بتانا چاہتا ہوں، مجھے اپنی کتابیں یاد آ رہی ہیں، اوہ خدا، میرے لیے اداس مت ہونا اور رونا نہیں۔‘

یافہ اپنے بھائی کے آخری الفاظ یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’بہت سارے ان کے الفاظ ہر وقت میرے دماغ میں گونجتے ہیں اور میرے ذہن میں ایک بے چینی پیدا کرتے ہیں۔ خدا ان پر رحم کرے اور ان سے خوش ہو۔‘

راوند حسین کے شوہر نے اپنے آخری الفاظ میں دوبارہ ملنے کے وعدے کے ساتھ یقین اور امید دلانے کی کوشش کی تھی۔

راوند نے اپنے شوہر کے الفاظ کو یاد کرتے ہوئے لکھا کہ ’فکر نہ کرو، کوئی بھی اپنے وقت سے پہلے نہیں مرتا۔ جب ہم ملیں گے تو میں ان تمام دنوں کی قضا کروں گا جس میں تم مجھ سے جدا رہیں۔ ہم میں سے جو آگے رہے گا وہ وادی الاصل کے پیچھے زیتون کے باغ میں دوسرے کا انتظار کرے گا۔ کیا تم اس جگہ کو جانتی ہو؟ میں تم سے پہلے وہاں جاؤں گا اور وہاں تمہارا انتظار کروں گا۔‘

اسرا سہمود نے اپنے بھائی کو یاد کرتے ہوئے لکھا کہ ’میرے پیارے بھائی، خدا اس کی قربانی قبول فرمائے۔ اس نے میری ماں سے کہا تھا آپ کیوں ڈرتی ہیں۔ دیکھیں میں تو نہیں ڈرتا۔ میں صبح کی نماز پڑھتا ہوں آپ بھی پڑھیں اور ڈریں نہیں۔

اسرا نے مزید لکھا کہ ’اس گفتگو کے چند گھنٹے بعد وہ ہمیشہ کے لیے ہم سے دور چلا گیا۔‘

غزہ کے رہائشی
Getty Images

محبت، خوف اور الوداع پر مبنی وصیت

آیا ابو جامعہ نے اپنے شوہر کو یاد کرتے ہوئے اپنی کہانی کو کچھ اس طرح بیان کیا۔ ’میرے لیے ان کے آخری الفاظ ایک وصیت تھی جس میں محبت، خوف اور الوداع کہنے کا مختصر بیان تھا۔‘

’میرے شوہر ابو کنان نے اپنی موت سے آدھا گھنٹہ پہلے کہا کہ آیا اپنا اور بچوں کا خیال رکھیں اور اپنے معاملات خدا کے سپرد کر دیں۔ ہر ایک کو اس کا حصہ ملے گا۔ اپنے خوف کو نظر انداز کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے سوا کوئی جان نہیں لیتا، میری محبت۔ خدا کی قسم ہم سے موت کو کوئی نہیں دور کر سکتا۔ پرسکون رہیں، ہر وقت ڈرنا بند کریں، اور فکر نہ کریں۔‘

انھوں نے اپنے شوہر کے الفاظ مزید لکھے کہ ’آپ کے بچے آپ کے ساتھ ہیں اور آپ کا تعاون ہیں۔ مضبوط رہیں، دنیا کو صرف مضبوط لوگوں کی ضرورت ہے۔‘

’میرے لیے عمرہ کرنا‘

یہ ابراہیم تبازہ کی اپنی بہن تسنیم کے ساتھ آخری گفتگو تھی جس میں انھوں نے اپنی بہن پر زور دیا کہ وہ اپنی اور اپنے شوہر کی طرف سے ان کی وفات کے بعد ان کے لیے عمرہ ادا کریں۔

ان کی طرف سے صدقہ کریں اور بچوں کا خیال کریں خاص طور پر ان کی بیٹی مسا کا، جو بمباری اور خوف سے رات کو سو نہیں پاتی۔

اس کے بعد وہ تسنیم اور مسّا سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئے۔

’میری ہمسفر فکر نہ کرنا‘

اسما ولید کو وہ لمحات یاد ہیں جب ان کے شوہر نے گھر چھوڑا تھا۔ ’میں ان سے التجا کرتی رہی کہ وہ میری اور اپنے بچوں کی خاطر اپنا خیال رکھیں اور ان کا جواب تھا کہ میری ہمسفر میری فکر نہ کرو۔‘

ہیثم النبہین کا اپنے دوست خیرالدین کے نام آخری پیغام تھا۔’ہم ہر روز اپنے آپ سے پوچھتے ہیں، کیا لوگ اب بھی جانتے ہیں کہ ہر روز تقریباً 160 اور ہر ہفتے 1000 افراد شہید ہوتے ہیں؟‘

زینب ابو سویرا نے اپنی بیٹی کے ساتھ اپنے آخری لمحات بیان کرتے ہوئے کہا۔ ’میری ڈھائی سالہ بیٹی یاسمین نے مجھے بتایا کہ ماما، میں بہت ڈری ہوئی ہوں۔ اس نے مجھے اپنے بھائی کے کپڑے پہنانے کو کہا اور اسی میں وہ ہمیشہ کے لیے چلی گئی۔ مجھے امید ہے کہ اب اسے وہ تحفظ اور سکون مل گیا جس سے ہم محروم تھے۔‘

طاہر ماہنا اپنی بہن کے ساتھ عید کی کوکیز تیار کرنے کا انتظار کر رہیں ہیں۔ ’میری بہن، میری پیاری فدا نے مجھے کہا کہ میں آدھے گھنٹے میں عید کی کوکیز بنانے کے لیے تمہارے گھر پہنچ جاؤں گی لیکن وہ ابھی تک نہیں آئی۔‘

صفا سلیلا نے ایک سادہ اور پُرجوش فقرے میں انتظار اور امید کا خلاصہ کیا کہ ’میرے شوہر اور جیون ساتھی جنھیں میں نے ایک سال سے زیادہ سے نہیں دیکھا۔ ہر چیز کے لیے اللہ کا شکر ہے۔‘

یحییٰ ابو زکریا نے لکھا کہ ’میری بہن رانیہ نے مجھے ایک ٹیکسٹ میسج بھیجا جس میں کہا گیا کہ مجھے لگتا ہے کہ ہم میں سے ایک مرنے والا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ رب کو یاد کرو اور آیات پڑھو۔ رانیہ نے جواب دیا کہ میں قسم کھاتی ہوں مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں وہی ہوں جو تمہیں چھوڑ کر جا رہی ہوں۔‘

’اگلے دن اس کے گھر پر بمباری کی گئی اور وہ اور اس کے بچے مارے گئے۔ خدا ان کی جان کا دیا نذرانہ قبول فرمائے۔‘

یحییٰ ابو زکریا کی جانب سے اپنی بہن رانیہ کے بچوں کی پوسٹ کی گئی ایک تصویر
BBC
یحییٰ ابو زکریا کی جانب سے اپنی بہن رانیہ کے بچوں کی پوسٹ کی گئی ایک تصویر

پہلی مسکراہٹ اور آخری ملاقات

علا کے شوہر کے الفاظ اب بھی ان کے ذہن میں گونج رہے ہیں جیسے انھوں نے ابھی ابھی سنا ہو۔ ان کے پہلے بچے کی پیدائش کے صرف پانچ دن بعد ان کے شوہر ہلاک ہو گئے۔

علا کے شوہر نے اپنی نوزائیدہ بیٹی سارہ کے ساتھ کھیلتے وقت کہا تھا کہ ’سوسو، آپ کے پاپا۔۔‘ اور اس پر پانچ دن کی سارہ پھر پہلی بار مسکرائی تھی۔

علا کہتی ہیں کہ ’میں اس وقت حسد کا شکار ہوئی تھی کہ وہ اپنے والد کی طرف دیکھ کر کیوں مسکرائی۔‘

پھر میں نے ان سے کہا کہ ’مجھے ڈر ہے کہ یہ بمباری بہت خوفناک ہے۔‘

انھوں نے پراعتماد لہجے اور مسکراہٹ کے ساتھ مجھ سے کہا کہ ’اپنے ہاتھ ٹھنڈے پانی میں ڈالو اور گھبراؤ نہیں، جو اللہ نے لکھا ہے وہی ہو گا۔‘

’میں نے ان کی اتنی خوبصورت مسکراہٹ شاید اس سے پہلے نہیں دیکھی تھی۔ پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی، گویا شہدا کی مسکراہٹ تھی جس کا ہم تصور کر سکتے ہیں۔‘

’میں نے اصرار کیا کہ وہ اپنا خیال رکھیں اور انھوں نے کہا اپنا اور بیٹی کا خیال رکھنا، ہم رابطے میں رہیں گےاور پھر ویڈیو کال کٹ گئی۔‘

’میں اس امید میں رہتی ہوں کہ وہ دوبارہ کال کریں گے یا میں وہ آخری ہنسی دوبارہ دیکھوں گی جو اب تک کی سب سے خوبصورت تھی۔‘

’پھر میرا سب سے حیران کن سوال باقی ہے کہ گھر پر بمباری سے پہلے ان کا آخری جملہ کیا تھا، جب وہ، ان کے چچا اور ان کے کزن موجود تھے؟ ہر رات میں اپنے آپ سے یہی پوچھتی ہوں، یہاں تک کے سو جاتی ہوں اور میرے آنسو میرے تکیے کو بھگو دیتے ہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts