پاڑہ چنار کے راستے کی بندش: ’زندگی میں پہلا رمضان جس میں افطار کے لیے کھجور تک دستیاب نہیں‘

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کرم کے صدر مقام پاڑہ چنار میں راستوں کی بندش کے خلاف احتجاجی دھرنا تیسرے روز میں داخل ہو چکا ہے جس میں کرم کے رہائشی صوبائی حکومت سے آمد و رفت کے راستے کھولنے اور اُن کی جان و مال کی حفاظت کے لیے اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
تصویر
Getty Images
’ٹینڈا اور گوبھی جیسی عام دستیاب سبزیاں بھی اس وقت علاقے میں 300 روپے سے 400 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہی ہیں جبکہ پیاز کی فی کلو قیمت 300 روپے ہے‘ (فائل فوٹو)

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کرم کے صدر مقام پاڑہ چنار میں راستوں کی بندش کے خلاف احتجاجی دھرنا تیسرے روز میں داخل ہو چکا ہے جس میں کرم کے رہائشی صوبائی حکومت سے آمد و رفت کے راستے کھولنے اور اُن کی جان و مال کی حفاظت کے لیے اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ پاڑہ چنار اور اس سے منسلک دیگر چھوٹے دیہات کا رابطہ پاکستان کے دیگر علاقوں سے گذشتہ پانچ ماہ سے منقطع ہے جس کے باعث پہاڑوں میں گھرے اس علاقے میں خوراک اور دیگر بنیادی اشیائے ضروریہ کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے۔

یہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ماہ رمضان کی آمد کے بعد سے صورتحال مزید گھمبیر ہوئی ہے اور بیشتر افراد کو ’افطار کے لیے کھجور تک دستیاب نہیں ہے جبکہ سحری میں چائے، روٹی پر گزارہ ہو رہا ہے۔‘

خیبر پختونخوا کی حکومت کی جانب سے قافلوں کی صورت میں کھانے پینے کی اشیا، اشیائے ضروریہ اور دیگر سامان سے لدی گاڑیاں بھجوائے جانے کا عمل جاری ہے تاہم ان قافلوں پر بار بار ہونے والے حملوں کی وجہ سے یہ عمل تعطل کا شکار رہتا ہے۔

کرم میں ماہ رمضان میں صورتحال کیا ہے؟

ضلع اپر کرم کے شہریوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ماہ رمضان میں خوراک کی اتنی قلت ہے کہ لوگوں کو افطار کے لیے کھجور تک دستیاب نہیں ہے جبکہ وہ سحری اور افطار میں صرف چائے اور روٹی پر گزارہ کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ ضلع کرم میں حالات اکتوبر 2024 میں اُس وقت خراب ہوئے تھے جب مسافر قافلوں پر پے در پے حملوں کے واقعات پیش آئے تھے۔ ان واقعات کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ اس کے ردعمل میں علاقے میں متعدد مکانات اور دکانوں کو نذر آتش کیا گیا تھا۔

ان واقعات کے بعد علاقے میں خوراک اور اشیائے ضروریہ کی شدید قلت پیدا ہوئی اور حکام کی جانب سے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے انتہائی سکیورٹی میں قافلوں کی صورت میں امدادی اشیا کو علاقے میں بھیجا گیا مگر ان قافلوں پر بھی حملے ہوئے اور چند ٹرک ڈائیوروں کو اغوا بھی کیا گیا۔

مقامی لوگوں نے بتایا سامان سے لدے ٹرکوں پر مشتمل کانوائے کی صورت میں آنے والی گاڑیاں بمشکل ہی کرم تک پہنچ پاتی ہیں کیونکہ روانہ ہونے والی بیشتر گاڑیوں کو راستے ہی میں روک لیا جاتا ہے۔

کرم کے مقامی افراد نے بتایا کہ اس صورتحال کے باعث انھیں سبزیاں اور پھل انتہائی مہنگے نرخوں پر مل رہے ہیں۔

بی بی سی کے استفسار پر شہریوں نے بتایا کہ ٹینڈا اور گوبھی جیسی عام دستیاب سبزیاں بھی اس وقت علاقے میں 300 روپے سے 400 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہی ہیں جبکہ پیاز کی فی کلو قیمت 300 روپے ہے۔ ان کے مطابق مقامی طور پر پیدا ہونے والی سبزیاں تو مناسب ریٹ پر مل جاتی ہیں مگر باہر کے شہروں سے آنے والی تمام سبزیاں انتہائی مہنگے نرخوں سے مل رہی ہیں۔

شہریوں کے مطابق چونکہ گذشتہ پانچ ماہ سے اس علاقے میں پیٹرول اور ڈیزل کی ترسیل متاثر ہے اس لیے ماہ رمضان میں پیٹرول 1000 روپے فی لیٹر سے 1500 روپے فی لیٹر تک میں بلیک میں فروخت ہو رہا ہے اور اس کی بھی انتہائی کم مقدار ملتی ہے۔

کرم سے تعلق رکھنے والی مسرت بنگش ایک سماجی کارکن ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ لوگ اب یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر یہی صورتحال جاری رہی تو شہری فاقوں مر جائیں گے یا پھر وہ کوئی انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوں گے کیونکہ یہاں عام رائے یہی ہے کہ حکومت اس صورتحال سے نمٹنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔

ان کے مطابق ضلع کرم میں گذشتہ پانچ ماہ کے دوران محض دس کے لگ بھگ اشیا سے لدے ٹرکوں پر مشتمل کانوائے بھیجے گئے ہیں جس میں پانچ لاکھ سے زیادہ آبادی کے اس علاقے کے لیے سبزیاں، ادویات اور کچھ دیگر اشیا پہنچائی گئی ہیں لیکن یہ سب آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

مسرت بنگش کے مطابق 'خود سوچیں جب ماہ رمضان میں ٹماٹر 500 روپے سے 600 روپے فی کلو ملنے لگ جائیں تو غریب آدمی یہ کیسے خریدے گا۔'

تصویر
Getty Images
سکیورٹی فورسز کی زیر نگرانی پاڑہ چنار بھیجے جانے والے امدادی سامان کے قافلوں پر بھی فائرنگ کے واقعات تواتر سے پیش آتے ہیں

انھوں نے بتایا کہ گذشتہ برسوں میں ماہ رمضان میں اُن کے گھر بڑا دستر خوان سجتا تھا کیونکہ اس علاقے کے لوگ خوش خوراک ہیں اور یہاں کھلے دل سے لوگ خریداری بھی کرتے تھے اور لوگوں میں تقسیم بھی کرتے تھے، لیکن اس مرتبہ حالات بالکل مختلف ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس رمضان میں سحری اور افطاری دونوں اوقات چائے کے ساتھ روٹی کھا کر گزارہ کر رہے ہیں۔ غریب لوگوں کے گھروں میں تو کچھ بھی نہیں ہے۔ دودھ کچھ مقامی طور پر مل جاتا ہے اور گندم اور آٹا بھی بہت تھوڑا رہ گیا ہے۔'

اس صورتحال کے خلاف گذشتہ تین روز سے جاری احتجاجی دھرنے میں شریک ملک زرتاج نے بی بی سی کو بتایا کہ 'کہا جاتا ہے کہ آج روڈ کُھل رہا ہے، کل روڈ کُھل جائے گا۔ حکومت کا گرینڈ جرگہ عوام کے لیے نہیں، وہ تو سرکاری جرگہ ہے، تکلیف سے عوام گزر رہے ہیں۔ جب تک سڑک نہیں کھولی جائے گی دھرنا کسی صورت ختم نہیں ہو گا۔'

پاڑہ چنار سے سینیئر صحافی علی افضل افضال کے مطابق رمضان شروع ہوتے ہی عوام کے صبر کا پیمانہ جواب دے گیا ہے اور ان کے مطابق علاقے میں اشیائے خوردونوش کی شدید کمی ہے۔

واضح رہے کہ پاڑہ چنار میں آخری بار اشیائے خوردونوش کا قافلہ 17مئی کو پہنچا تھا جس پر راستے میں فائرنگ بھی کی گئی تھی۔ فائرنگ کے واقعے کے بعد چند گاڑیاں واپس چلی گئی تھیں جبکہ شرپسندوں نے دس سے زائد گاڑیوں میں لدا سامان لوٹ کر انھیں آگ لگا دی تھی۔

مقامی صحافی علی افضل کے مطابق کانوائے کی صورت میں آنے والے سامان کی منھ مانگی قیمت طلب کی جاتی ہے اور لوگ یہ قیمت ادا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سال ماہ رمضان میں پورے شہر میں کھجور تک دستیاب نہیں ہے۔ 'شاید میری زندگی کا یہ پہلا رمضان ہے کہ ہم کھجور کے بغیر روزہ پانی سے افطار کرنے پر مجبور ہیں۔'

پاڑہ چنار ٹریڈ یونین کے صدر حاجی امداد نے بی بی سی کو بتایا کہ پاڑہ چنار کے تاجروں نے رمضان کی آمد کے حوالے سے بڑی تعداد میں اشیائے خوردونوش کی خریداری کی تھی تاہم تین سو کے قریب چھوٹی بڑی گاڑیاں منتظر ہیں کہ کب راستہ کھلے گا اور کب انھیں شہر میں داخلے کی اجازت ملے گی۔

انھوں نے کہا کہ تاجروں کو انتظامیہ کی جانب سے یہ یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ روزانہ چار گھنٹے سٹرک کھولی جائے گی مگر ایسا ممکن نہیں ہو پا رہا ہے۔

حاجی امداد کے مطابق کرم سے تعلق رکھنے والے تاجروں کا کروڑوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ 'بازاروں کا یہ عالم ہے کہ رمضان میں دکانیں بند ہیں۔ جب سامان ہی نہیں ہو گا تو کون دکانیں کھولے گا۔'

حاجی امداد کا کہنا ہے کہ پاڑہ چنار آنے والے اشیا، ادویات اور دیگر سامان سے لدے ٹرک ٹل سے ہنگو کے درمیان مختلف جگہوں پر سامان سمیت کھڑے ہیں اور راستہ کھلنے کے منتظر ہیں۔

مقامی دکانداروں نے بتایا کہ 'جب راستہ کھلنے کی کچھ امید پیدا ہوتی ہے تو وہ فون پر آرڈر کر کے سامان لوڈ کروا دیتے ہیں، اس لوڈنگ ان لوڈنگ پر بھی خرچہ آتا ہے۔ مگر پھر اچانک معلوم ہوتا ہے کہ ٹرک نہیں جا سکتے اور کانوائے کے چلنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔'

اُدھر پاڑہ چنار میں پٹرول اور ڈیزل نہ ہونے کی وجہ سے تمام سرکاری اور نجی سکولز بند کر دیے گئے ہیں۔

ہیڈ ماسٹر ایسوسی ایشن کرم کے صدر مرتضیٰ حسین کے مطابق یکم مارچ سے 'ونٹر زون' کے سکول کھلنے تھے مگر علاقے میں پٹرول کی قلت کے باعث کرم میں تمام سرکاری اور نجی سکولز بند کر دیے گئے ہیں۔

اسی طرح مارچ 2025 میں پرائیوٹ سکولز کے نئے سیشن کا آغاز ہونا تھا مگر سٹیشنری، یونیفارم کی عدم دستیابی کے باعث یہ سلسلہ رکا ہوا ہے جبکہ مارچ میں سرکاری سکولوں میں سالانہ امتحانات منعقد ہونے تھے جو کہ فی الحال منعقد ہوتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔'

تصویر
Getty Images
ایدھی کی ایئرایمبولینس کے ذریعے بھی پاڑہ چنار میں جان بچانے والی ادویات بھیجی گئی ہیں

عامر اقبال کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے اور وہ پاڑہ چنار کے ایک نجی سکول کے پرنسپل ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے چار سے پانچ ٹیچر اس سکول میں پڑھاتے ہیں جبکہ باقی سب حالات خراب ہونے سے پہلے یہاں سے چلے گئے تھے مگر وہ یہیں رُک گئے تھے۔

ان کے مطابق 'مجھے معلوم نہیں تھا کہ حالات اتنے خراب ہو جائیں گے۔ ہمارے لیے تو یہ رمضان ایک بڑا امتحان ہے کیونکہ شہر میں ایندھن نہ ہونے کی وجہ سے ہوٹل اور تندور بھی مکمل طور پر کام نہیں کر رہے ہیں۔ بڑی مشکل سے گزارہ ہو رہا ہے۔ بس یہاں کے مقامی لوگ کچھ کھانا لا دیتے ہیں جس سے روزہ رکھ رہے ہیں۔'

دوسری جانب ضلع کرم کے ڈپٹی کمشنر محمد اشفاق نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ اپر کرم کے لیے کانوائے پولیس اور سکیورٹی فورسز کے زیر انتظام لائے جاتے تھے اور اب ایک مرتبہ پھر راستے کھولنے کے لیے بھرپور کوششیں کی جا رہی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ 'آپ جانتے ہیں کہ بعض اوقات مشکلات آجاتی ہیں، لیکن حکومت کی کوشش ہے کہ یہ راستے جلد از جلد کھول دیے جائیں۔'

بی بی سی کے رابطہ کرنے پر خیبر پختونخوا حکومت نے بتایا کہ رمضان کے آمد کے بعد ضلع اپر کرم کے لیے سامان کی ترسیل کا قافلہ ٹل سے پاڑہ چنار بھیجا جا رہا ہے اور ان گاڑیوں میں روزمرہ استعمال کی اشیا شامل ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.