جب اسامہ بن لادن کو بندوق نہیں مگر بلڈوزر چلانا آتا تھا: ’اسامہ کا بیٹا ہونا بہت مشکل ہے، لوگ آج بھی ہم سے رابطہ کرنے سے ڈرتے ہیں‘

آغاز میں اسامہ بن لادن افغانستان میں بلڈوزر چلا کر جہادی مقاصد کے لیے تعمیراتی کام میں حصہ لیتے تھے۔ وہ یہ کام افغانستان جانے سے پہلے ہی اپنے خاندان کی کنسٹرکشن کمپنی میں سیکھ چکے تھے۔ مگر افغانستان آنے کے بعد انھوں نے ہتھیار چلانے کی تربیت حاصل کی اور لڑنے کے لیے کلاشنکوف اٹھائی۔
اسامہ بن لادن، آکسفورڈ
BBC
اسامہ بن لادن (انتہائی دائیں جانب) اپنے دو بھائیوں اور دو ہسپانوی خواتین کے ساتھ کھڑے ہیں

اسامہ بن لادن آج سے ٹھیک 69 برس قبل یعنی 10 مارچ 1957 کو سعودی عرب میں پیدا ہوئے تھے۔ اپنے اہلخانہ اور دوست احباب کی نظروں میں بھی وہ بچپن میں وہ ’خاموش اور شرمیلے‘ لڑکے تھے تاہم انھیں سنہ 2001 میں امریکہ میں نائن الیون حملوں کے بعد دنیا کے سب سے مطلوب دہشتگرد اور بین الاقوامی شدت پسند تنظیم القاعدہ کے سربراہ کے طور پر عالمی توجہ حاصل ہوئی تھی۔

اس حملے میں تین ہزار لوگوں کی ہلاکت کے 10 سال بعد یعنی سنہ 2011 میں پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں امریکی فوج کی ایک کارروائی میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا گیا تھا۔

اس تحریر میں ہم نے اسامہ بن لادن کے بیٹے، دوست احباب اور افغان کمانڈروں کے ماضی میں دیے گئے بیانات کی روشنی میں اُن کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو جاننے کی کوشش کی ہے کہ وہ کیسے ایک خاموش لڑکے سے عالمی سطح پر انتہائی مطلوب شدت پسند بنے۔

’اسامہ بن لادن کا بیٹا ہونا بہت مشکل ہے‘

عمر بن لادن
BBC
اسامہ بن لادن کے بیٹے عمر بن لادن

اسامہ بن لادن کے فرانس میں مقیم بیٹے عمر بن لادن نے بی بی سی اُردو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ بطور باپ اسامہ بن لادن ’پرانے وقتوں کے والد کی طرح ہی تھے۔ وہ اکثر نرم سلوک کرتے تھے مگر کبھی کبھار غصے میں آ جاتے تھے اور بڑے سخت ہو جاتے تھے کیونکہ ان کی زندگی بڑی سخت تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ وہ بہت سی چیزوں کے لیے ذمہ دار ہیں۔ اسی لیے مجھے لگتا ہے کہ وہ کبھی کبھار ایک سخت باپ تھے۔‘

عمر بن لادن کہتے ہیں ان کے والد 90 کی دہائی تک مطلوب نہیں تھے جبکہ ’سویت جنگ کے بعد میرے ملک (سعودی عرب) میں اُن کا اپنے خاندان کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں تھا۔ وہ (بن لادن خاندان) ماضی میں یہ کوشش کر چکے تھے کہ ان کا سعودی بادشاہ یا شاہی خاندان سے کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو۔‘

افغانستان میں اسامہ بن لادن کے قیام کے دوران کچھ عرصے تک وہاں ان کے ساتھ عمر بن لادن بھی موجود رہے تھے۔ ان کے بقول وہ نائن الیون سے قبل اپنی والدہ نجوی غانم کے ہمراہ افغانستان سے نکل گئے تھے۔

عمر بن لادن کہتے ہیں کہ ’میں امریکہ کے خلاف بڑی جنگ کے خدشے سے ناخوش تھا۔ میں ان حالات سے متفق نہیں تھا تو میں نے وہاں سے جانے کا فیصلہ کیا اور والد سے اجازت مانگی۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ میں جاؤں لیکن بالآخر انھوں نے اجازت دے دی۔‘

عمر کہتے ہیں کہ ’اسامہ بن لادن کا بیٹا ہونا بہت مشکل ہے۔ لوگ آج بھی ہم سے رابطہ کرنے سے ڈرتے ہیں۔‘

شرمیلا نوجوان جسے سعودی یونیورسٹی میں ’برین واش کیا گیا‘

سنہ 1988 کے دوران جلال آباد کے ایک غار میں اسامہ بن لادن کی تصویر
EPA
سنہ 1988 کے دوران جلال آباد کے ایک غار میں لی گئی اسامہ بن لادن کی تصویر

یہ سنہ 1971 کی بات ہے جب ایک 14 سالہ سعودی نوجوان لینگویج کورس کرنے کی غرض سے برطانیہ کے علاقے آکسفورڈ میں موجود تھا۔ اس لڑکے کا تعلق سعودی عرب کے سب سے امیر خاندانوں میں سے ایک سے تھا جس کے سعودی شاہی خاندان سے بھی قریبی تعلقات تھے۔

اسامہ اور اُن کے دو دیگر بھائیوں سے ملنے والی ایک ہسپانوی خاتون نے کئی دہائیوں بعد اس ملاقات کے بارے میں بتایا کہ اسامہ میں اپنی عمر سے زیادہ پختہ تھے مگر بظاہر اُن کی سیاست یا مذہب میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔

اسامہ بن لادن کے والد محمد بن لادن ایک معروف کنسٹرکشن کمپنی کے مالک اور سعودی عرب کی ایک امیر شخصیت سمجھے جاتے تھے۔ سنہ 1968 میں ہیلی کاپٹر حادثے میں اپنے والد کی ہلاکت کے بعد اسامہ بن لادن اور ان کے بھائیوں کو تقریباً پچیس کروڑ ڈالر کے اثاثے ملے۔

سنہ 2002 میں ریلیز ہونے والے بی بی سی ٹو کے ایک پروگرام ’آئی میٹ اسامہ‘ میں ان لوگوں سے گفتگو کی گئی تھی جو اسامہ بن لادن کے لڑکپن میں ان سے مل چکے تھے۔

جدہ کے ایک ایلیٹ سکول میں انگلش کے استاد برائن فائی فیلڈ شائلر نے بتایا تھا کہ وہ شرمیلے تھے اور بولنے سے کتراتے تھے۔ ’دوسرے (سعودی) بچے مجھے اسلام قبول کرنے کا کہہ رہے ہوتے تھے مگر اسامہ اُن میں سے نہیں تھے۔ وہ کلاس میں اتنے قابل غور نہیں تھے۔‘

ان کے مطابق اسامہ کو انگلش سیکھنے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا مگر ان کا مذہبی رجحانات کی طرف جھکاؤ ضرور تھا۔

انگلش ٹیچر کے مطابق اسامہ کے کئی سوتیلے بھائی بیرون ملک تعلیم حاصل کر کے مغربی طرز زندگی کو قبول کر چکے تھے مگر اسامہ اُن میں سے نہیں تھے۔

اسامہ نے جدہ میں ہی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی جہاں پہلی بار ان کا سامنا سخت گیر اسلامی سکالرز سے ہوا۔

اسامہ بن لادن کنگ عبد العزیز یونیورسٹی میں سول انجینیئرنگ کے طالب علم تھے جہاں اُن کی ملاقات شدت پسند اور سخت گیر سمجھے جانے والے طالب علموں اور اساتذہ سے ہوئی جس سے طالب علمی کے زمانے ہی میں اس کے نظریات میں تبدیلی آنی شروع ہو گئی۔

اسامہ بن لادن کی والدہ عائلہ غنیم سنہ 2018 میں پہلی بار منظر عام پر آئی تھیں۔ انھوں نے اخبار ’دی گارڈیئن‘ کو بتایا تھا کہ جب اسامہ جدہ کی شاہ عبدالعزیز یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے تو انھیں انتہاپسندی کی جانب راغب کیا گیا۔ اُن کے مطابق ’یونیورسٹی میں لوگوں نے اُسے بدل دیا، وہ ایک بالکل ہی مختلف انسان بن گیا تھا۔‘

یونیورسٹی میں جن لوگوں سے اسامہ بن لادن کی ملاقات ہوئی ان میں عبداللہ عظام بھی شامل تھے جو اخوان المسلمین کے رکن تھے۔ عبداللہ کو ان کی سرگرمیوں کی وجہ سے بعدازاں سعودی عرب سے نکال دیا گیا مگر آگے چل کر وہ اسامہ کے روحانی مشیر بن گئے۔

اسامہ کی والدہ عائلہ غنیم نے اس دور کو یاد کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اسامہ کی ملاقات ’کچھ افراد سے ہوئی جنھوں نے جوانی میں ہی اس کا برین واش کیا۔ آپ اسے مذہبی فرقہ کہہ سکتے ہیں۔ وہ اپنے مقاصد کی خاطر پیسے حاصل کرتے تھے۔‘

’میں اسے (اسامہ کو) ہمیشہ اِن سے دور رہنے کا کہتی تھی اور وہ کبھی نہیں بتاتا تھا جو وہ کر رہا تھا۔‘

افغانستان روانگی، بلڈوزر اور ہتھیار

اسامہ بن لادن
Getty Images

سنہ 1980 کی دہائی میں اسامہ بن لادن سویت یونین کے خلاف لڑنے افغانستان گئے تھے۔ اسامہ کی والدہ عائلہ غنیم کے مطابق انھوں نے ’افغانستان میں اپنی ساری دولت لُٹائی جہاں وہ خاندانی کاروبار کا بہانہ کر کے گئے تھے۔‘

اسامہ بن لادن اپنی ذاتی دولت سے مجاہدین کی فنڈنگ کر رہے تھے مگر کئی مجاہدین کمانڈرز بھی اس بات سے لاعلم تھے۔

بی بی سی سلیکٹ کی دستاویزی فلم ’بن لادن: دی روڈ ٹو نائن الیون‘ میں سابق مجاہدین جنگجو عبداللہ انس بتاتے ہیں کہ اسامہ بن لادن جدہ میں اپنے خاندان کی کنسٹرکشن کمپنی سے کچھ انجینیئرز کو بھی افغانستان لائے تھے۔

افغانستان میں اُن کے سابق ساتھی اور جنگجو کمانڈر اسام دراز کو بھی یہ جان کر حیرت ہوئی تھی کہ ایک اتنا امیر آدمی کیسے خود کو جنگ میں دھکیل سکتا ہے۔

افغان مجاہدین کمانڈر سید واحد یار بتاتے ہیں کہ 80 کی دہائی کے دوران ’ہمارے ساتھ 12 عرب شہری شامل ہوئے جن میں سے ایک نام اسامہ تھا۔ ایسا نہیں کہ وہ ہمارے ساتھ کچھ روز تک رہا، بلکہ اس نے ہمارے ساتھ مہینوں گزارے۔ مجھے یاد نہیں مگر چھ سے آٹھ مہینے تھے۔ وہ وہاں عام جنگجو کے روپ میں رہ رہے تھے۔‘

’ہمیں عربوں کے ساتھ نرم رویہ رکھنا پڑتا تھا۔ انھیں جنون تو بہت تھا لیکن لڑنا نہیں آتا تھا۔‘

سید واحد یار، جن کا تخلص ’نڈر‘ تھا، نے بی بی سی کی دستاویزی فلم ’بن لادن: دی روڈ ٹو نائن الیون‘ میں مزید بتایا کہ ابتدا میں مجاہدین کمانڈر ’کسی آپریشن کے لیے عرب نوجوانوں کو اپنے ساتھ نہیں لے جانا چاہتے تھے۔‘

افغانستان میں اپنے قیام کے شروع کے عرصے میں اسامہ بن لادن افغانستان میں بلڈوزر چلا کر جہادی مقاصد کے لیے تعمیراتی کام میں حصہ لیتے تھے۔ وہ یہ کام افغانستان جانے سے پہلے ہی اپنے خاندان کی کنسٹرکشن کمپنی میں سیکھ چکے تھے۔

سابق مجاہدین جنگجو عبداللہ انس کو یاد ہے کہ شمال کی جانب ایک دورے پر انھوں نے دیکھا کہ اسامہ ’بلڈوزر چلا رہے ہیں۔‘

جب انھوں نے پوچھا کہ ’اسامہ، آپ یہ کیا کر رہے ہو؟‘ تو اسامہ نے جواب دیا ’ہمیں مجاہدین کے لیے سڑکیں بنانی ہوں گی۔ ہمیں پہاڑوں کے اندر غاروں میں کلینک بنانے ہوں گے۔‘

افغان مجاہدین کمانڈر سید واحد یار بتاتے ہیں کہ سڑکوں کا نہ ہونا بڑا مسئلہ تھا کیونکہ مجاہدین کہیں پہنچ نہیں پاتے تھے۔

سید واحد یاد کہتے ہیں کہ مجاہدین کو لگتا تھا کہ اسامہ ایک عام جنگجو ہیں اور ’ہمیں کبھی نہیں لگا کہ اس سب کا خرچ اسامہ خود برداشت کر رہے ہیں۔ ہمیں لگا یہ انتظامات کوئی اور کر رہا ہو گا اور وہ صرف مدد کر رہے ہوں گے۔‘

مگر افغانستان میں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد اسامہ نے بندوق چلانے کی بھی تربیت حاصل کی اور لڑنے کے لیے کلاشنکوف اٹھائی۔

سید واحد یار بتاتے ہیں کہ پہلے پہل انھیں ہتھیاروں کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ کلاشنکوف کیسے استعمال کرتے ہیں یا گولی کیسے چلاتے ہیں۔ '(مگر) جہاد اور لڑائی کی تربیت حاصل کرنے کے لیے اسامہ نے ہمیں اپنا استاد سمجھا۔'

وہ یاد کرتے ہیں کہ ’وہ صرف ہمیں دیکھتے تھے اور آہستہ آہستہ انھوں نے ہتھیار استعمال کرنا سیکھ لیا۔ جب وہ سیکھ گئے تو ہم انھیں لڑائی کے لیے لے جانے لگے۔‘

افغان مجاہدین کمانڈر مزید بتاتے ہیں کہ ’ایک لڑائی کے دوران ہمیں ان کو بتانا پڑا کہ نیچے جھک جاؤ ورنہ گولی لگ جائے گی۔ وہ خود کو سنبھال نہ سکے۔ وہ ایک شخص سے دوسرے کی طرف بھاگ رہے تھے۔ میں نے غصے میں کہا ’نیچے بیٹھو!‘ اور وہ بیٹھ گئے۔‘

ان کے بقول اسامہ بن لادن دبلے پتلے اور اونچے قد کے تھے مگر انھیں ’گولی لگنے کا کوئی ڈر نہیں تھا۔‘

سابق جنگجو عبداللہ انس کہتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ اسامہ خیرات دینے والے شخص سے ’جنگجو میں بدل چکے تھے۔‘

اسامہ بن لادن کے نظریات سے خائف دوست اور خاندان

اسامہ بن لادن
Reuters

اسامہ بن لادن کے بچپن کے ایک دوست خالد بترفی کی رائے ہے کہ ’لوگ سمجھتے ہیں اگر کوئی زندگی کی شروعات میں ایک اچھا انسان ہے تو وہ پوری زندگی اچھا رہے گا۔ لوگ پیدائشی مجرم یا پیدائشی نیک کے نظریے کو مانتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔‘

وہ بی بی سی سلیکٹ کی دستاویزی فلم ’بن لادن: دی روڈ ٹو نائن الیون‘ میں بتاتے ہیں کہ ’لوگ بدل جاتے ہیں اور جنگ لوگوں کو بدل دیتی ہے۔

’اسامہ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔‘

اسامہ مصری شدت پسند ایمن الظواہری (القاعدہ کے سربراہ اور اسامہ کے جانشین) کے پُرتشدد نظریات سے متاثر تھے اور جب القاعدہ نے جہاد کے لیے لشکر بنایا تو اسامہ نے اس میں مرکزی کردار ادا کیا۔

افغانستان میں سوویت جنگ کے بعد جب بن لادن واپس سعودی عرب گئے تو وہ شہری زندگی سے ناخوش تھے۔

سعودی انٹیلیجنس کے سربراہ شہزادہ ترکی الفیصل یاد کرتے ہیں کہ اسامہ نے ان سے پڑوس ملک یمن میں تخت الٹنے کے لیے مجاہدین جنگجوؤں کو استعمال کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس پر ترکی الفیصل کو حیرت ہوئی تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’مجھے اس لمحے یہ احساس ہوا کہ یہ شرمیلا اور کم بولنے والا نوجوان اب بدل چکا ہے۔‘

سنہ 1991 میں اسامہ سعودی عرب چھوڑ کر سوڈان چلے گئے۔ وہاں انھوں نے امریکی صحافی سکاٹ میکلیوڈ کو انٹرویو دیا۔ سکاٹ میکلیوڈ نے بتایا کہ ’وہ کہتے تھے فلاں شہزادہ احمق ہے، فلاں شہزادے نے میری تضحیک کی ہے۔ یہ ایک خاندانی لڑائی اور سیاست جیسا معاملہ تھا۔‘

اسامہ بن لادن کی لڑائی صرف سعودی شاہی خاندان سے نہیں تھی۔ ان کی سعودی شہریت ختم کر دی گئی تھی اور سوڈان سے انھیں ملک بدر کر دیا گیا تھا۔ وہ اب صرف افغانستان ہی واپس جا سکتے تھے جہاں سے ان کا عالمی جہاد کا منصوبہمنظر عام پر آیا۔

نائن الیون حملوں سے چار سال قبل انھوں نے برطانوی صحافی رابرٹ فسک کو بتایا تھا کہ ’میں خدا سے دعا مانگتا ہوں کہ ہمیں امریکہ کو اسی کے سائے میں بدلنے کی اجازت دے۔‘

اسامہ بن لادن کی 2011 کے دوران ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن میں ہلاکت کو کئی سال گزرنے کے باوجود ان کے بیٹے عمر بن لادن کے لیے مشکلات کم نہیں ہوئی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اسامہ بن لادن کا بیٹا ہونا بہت مشکل ہے۔ لوگ آج بھی ہم سے رابطہ کرنے سے ڈرتے ہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.