جب مرد اٹیچ باتھ نہیں بنوا سکتا تو شادی کیوں کرتا ہے۔۔ دلہن شوہر کے ساتھ کھانا بھی نہیں سکتی ! سجل علی کے ڈرامے نے خواتین کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا

image

"ہم جس فیملی سسٹم میں رہتے ہیں، اس میں کچھ نہیں ہو سکتا، یار ہم اپنی بیوی کے ساتھ ایک پلیٹ میں کھانا نہیں کھا سکتے، کھل کے ہنس نہیں سکتے، ماں بہنیں انسیکیور ہو جاتی ہیں۔"

“جب مرد ایک اٹیچ باتھ روم تک نہیں بنوا سکتا تو شادی کیوں کرتا ہے“

رمضان اسپیشل ڈرامہ دل والی گلی ہر گزرتی قسط کے ساتھ ایک نیا زاویہ لے رہا ہے، جہاں محبت سے زیادہ پرائیویسی اور ذاتی حدود کے مسائل نمایاں ہو رہے ہیں۔ مجی اور ڈیجو کی شادی کسی خواب کی تعبیر ہونی چاہیے تھی، مگر یہ ایک مسلسل کشمکش میں بدل چکی ہے۔

نئی نویلی دلہن اور سانجھا واش روم – ازدواجی زندگی کی سب سے بڑی الجھن

ڈیجو، جو محبت کی خوشبو میں رچ بس کر سسرال پہنچی تھی، یہ جان کر حیران رہ گئی کہ اس کے کمرے سے جڑا کوئی باتھ روم نہیں، بلکہ ایک صحن میں موجود مشترکہ واش روم ہے، جسے استعمال کرنے کے لیے باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ جہاں ایک نئی زندگی کا آغاز ہونا تھا، وہیں ایک بنیادی سہولت کی عدم موجودگی نے اس کی خوشیوں پر سوالیہ نشان لگا دیا۔

یہ مسئلہ صرف ڈیجو کا نہیں، بلکہ ہزاروں خواتین کا ہے جو مشترکہ خاندانی نظام میں بنیادی پرائیویسی کے لیے بھی جدوجہد کرتی ہیں۔

"ہمیں شادی سے پہلے زیادہ آزادی تھی" – مجی کی بےبسی

نہ صرف ڈیجو، بلکہ مجی بھی اس صورتِ حال سے بے حد دلبرداشتہ ہے۔ وہ اپنے دوست کے سامنے اعتراف کرتا ہے کہ شادی کے بعد زندگی پر کسی اور کا کنٹرول زیادہ ہوتا ہے، وہ اپنی بیوی کے ساتھ بیٹھ کر کھا نہیں سکتا، ہنس نہیں سکتا، حتیٰ کہ آزادی سے جینے کا حق بھی چھن چکا ہے۔

ڈیجو کی تذلیل یا سماج کا آئینہ؟

جب ڈیجو لائن میں کھڑی ہوکر واش روم کے انتظار میں ہوتی ہے، تو اسکول کے بچے اجتماعی طور پر "لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری" گاتے ہیں، جس سے وہ مزید شرمندگی اور بے بسی محسوس کرتی ہے۔ ناظرین کے مطابق، یہ منظر جتنا مزاحیہ ہے، اتنا ہی تلخ حقیقت کو بےنقاب کرتا ہے—کہ ایک عورت کو اپنی بنیادی ضروریات کے لیے بھی سماجی دباؤ اور تضحیک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ہنی مون یا پولیس کی حراست؟ شخصی آزادی پر سوالیہ نشان

جب مجی اور ڈیجو اپنی ازدواجی زندگی کو تھوڑا سکون دینا چاہتے ہیں اور ہوٹل میں وقت گزارنے کا فیصلہ کرتے ہیں، تو ان کے ساتھ ایک نیا امتحان جڑ جاتا ہے۔ ہوٹل کے عملے کے لیے شادی شدہ جوڑے کا نکاح نامہ دیکھنا ضروری ہوجاتا ہے، اور جلد ہی پولیس آ کر انہیں جرائم پیشہ عناصر کی طرح حراست میں لے لیتی ہے۔

یہ ایک عام سی کہانی نہیں، بلکہ ایک معاشرتی حقیقت ہے، جہاں شادی شدہ جوڑوں کی نجی زندگی پر بھی شک کیا جاتا ہے۔ تاہم، ایک سینئر پولیس افسر کی دانشمندانہ گفتگو نے اس معاملے کا دوسرا رخ بھی واضح کیا:

"قانون میں کہیں نہیں لکھا کہ ہم نکاح نامے چیک کریں۔ آپ لوگ چانس دیتے ہیں بےایمان لوگوں کو، جو پھر آپ کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔"

سوشل میڈیا پر بحث – خواتین کی آواز بن گیا "دل والی گلی"

یہ ڈرامہ دیکھنے کے بعد سوشل میڈیا پر خواتین کی بڑی تعداد نے اپنی شادی شدہ زندگی کی تلخ حقیقتوں کو شیئر کیا۔ ایک صارف نے لکھا:

"صرف خواتین ہی باتھ روم کی اشد ضرورت کو سمجھ سکتی ہیں۔ خاص طور پر جب آپ کو پیریڈز ہوں اور پرائیویسی نہ ہو۔ ڈیجو کی کیفیت مجھ پر بھی گزری ہے!"

کچھ خواتین نے کہا کہ سسرال میں سانجھا واش روم استعمال کرنا ان کی زندگی کا سب سے مشکل وقت تھا، جب کہ کچھ نے یہ انکشاف بھی کیا کہ گھر میں سب کچھ بنایا گیا، مگر شادی شدہ جوڑوں کے لیے پرائیویٹ اسپیس کی کوئی اہمیت نہ سمجھی گئی۔

"دل والی گلی" – محض تفریح نہیں، حقیقت کا عکس

اس ڈرامے کی کامیابی کا راز اس کی حقیقت پسندی میں ہے۔ یہ صرف ڈیجو اور مجی کی کہانی نہیں، بلکہ ہزاروں شادی شدہ جوڑوں کا درد ہے، جو اپنی بنیادی ضروریات اور نجی زندگی کے حق کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔


About the Author:

Khushbakht is a skilled writer and editor with a passion for crafting compelling narratives that inspire and inform. With a degree in Journalism from Karachi University, she has honed her skills in research, interviewing, and storytelling.

مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.