کراچی میں لگژری گاڑیاں چھیننے والے گروہ کا مبینہ سرغنہ پولیس کانسٹیبل ’چھوٹی سے غلطی‘ کی وجہ سے کیسے پکڑا گیا؟

تین مختلف وارداتوں میں ملزمان نے انتہائی دیدہ دلیری سے پوش علاقوں میں لگژری گاڑیاں چھیںی تھیں اور اب پولیس کا دعوی ہے کہ یہ وارداتیں کرنے والا گینگ بھی ایک ہی تھا، جس کا سرغنہ مبینہ طور پر ایک پولیس کانسٹیبل ہے، جو چورہ شدہ لگژری گاڑیاں بلوچستان تک پہنچا کر فروخت کر دیا کرتا تھا۔
گاڑی چوری
Getty Images
’ملزماں عموماً کراچی کے پوش علاقوں میں وارداتیں کرتے تھے اور حال ہی میں انھوں نے معروف پاکستانی اداکارہ مومنہ اقبال سے فورچیونر گاڑی چھینی تھی‘

رات کے تقریباً پونے دس بجے کا وقت تھا جب کراچی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی فیز 6 میں رہائش پذیر اداکارہ مومنہ اقبال اپنی گاڑی میں بیٹھ کر گھر سے نکلیں۔ اُن کی گاڑی ابھی گھر سے باہر نکلی ہی تھی کہ اچانک ایک سیاہ رنگ کی آلٹو گاڑی نے اُن کا راستہ روکا اور دو مسلح افراد نے پھرتی سے دروازے کھول کر پہلے اُن کے ڈرائیور اور پھر خود مومنہ اقبال کو بھی زبردستی گاڑی سے نیچے اُتار دیا۔

یہ رواں سال چھ فروری کا واقعہ ہے جس کی تفصیلات تھانہ درخشاں کی حدود میں ہونے والی اس واردات کی ایف آئی آر میں تفصیل سے درج ہیں۔

گاڑی کے ڈرائیور کی مدعیت میں درج اس مقدمے کے مطابق ملزمان اسلحہ کے زور پر اسی، نوے ہزار روپے کیش، رولکس گھڑی اور دو آئی فون چھیننے کے ساتھ ساتھ اداکارہ کے کپڑوں سے بھرے دو سوٹ کیس اور میک اپ کٹ وغیرہ بھی لے کر چلتے بنے۔

ان دو مسلح افراد میں سے ایک اداکارہ کی فورچیونر گاڑی میں بیٹھ کر فرار ہو گیا جبکہ دوسرا اُسی آلٹو گاڑی میں فرار ہوا جس میں یہ ملزمان آئے تھے۔

تاہم پولیس کے مطابق کراچی میں یہ اس نوعیت کی پہلی واردات نہیں تھی۔ کچھ عرصہ قبل ایک ایسی ہی واردات میں کراچی کی دارالسلام سوسائٹی کورنگی میں اپنے گھر پہنچنے والے محمد وسیم کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔

تھانہ کورنگی انڈسٹریل ٹاون میں درج ہونے والی اس مقدمے کی ایف آئی آر کے مطابق وسیم نے ابھی اپنے گھر میں اپنی فارچیونر گاڑی کھڑی کی ہی تھی کہ اچانک ایک آلٹو گاڑی سے چند مسلح افراد پھرتی سے نکل کر اندر آئے اور نقدی، موبائل سمیت گاڑی لے کر فرار ہو گئے۔

یہ واردات 26 جون 2024 کو ہوئی تھی۔

اور مہنگی اور لگژری گاڑیاں چھیننے کا سلسلہ یہیں تک محدود نہیں۔ اس طرح کی ہی ایک اور واردات، جس کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی موجود ہے، میں بخاری کمرشل فیز چھ ڈیفنس سے ایک فارچیونر گاڑی چھینی گئی تھی جو بعد میں کوئٹہ پولیس نے بازیاب کی۔

تینوں وارداتوں میں ملزمان نے انتہائی دیدہ دلیری سے پوش علاقوں سے یہ لگژری گاڑیاں چھیںی تھیں اور اب پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ وارداتیں کرنے والا گینگ بھی ایک ہی تھا، جس کا مبینہ سرغنہ ایک پولیس کانسٹیبل ہے۔

کراچی پولیس کا دعویٰ ہے کہ مبینہ سرغنہ اور اُن کا گینگ یہ چوری شدہ لگژری گاڑیاں کراچی سے بلوچستان لے جا کرفروخت کر دیا کرتے تھے۔

ملزم کو جوڈیشنل ریمانڈ پر جیل بھج دیا گیا ہے جبکہ مختلف تھانوں اور اضلاع کی پولیس تفتیش کے لیے عدالت سے اس کا ریمانڈ مانگ رہی ہے۔

کراچی کے اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل (اے وی ایل سی) کے سربراہ ایس ایس پی بشیر احمد بروہی نے بی بی سی کو بتایا کہ اس گینگ کے سرغنہ پولیس کانسٹیبل کو حراست میں لینے کے بعد باقاعدہ کارروائی کرتے ہوئے اسے عدالتی کارروائی مکمل ہونے تک معطل کیا جا چکا ہے۔

ان کے مطابق اس گینگ کے دو اراکین مفرور ہیں جن کی گرفتاری کے لیے کارروائی کی جا رہی ہے۔

اے وی ایل سی کے مطابق یہ گینگ ایک سال سے سرگرم تھا اور صرف لگژری گاڑیاں ہی چھینتا تھا۔ ان کا دعوی ہے کہ گرفتار ملزم نے ایک سال کے عرصہ میں چوبیس گاڑیاں چھیننے کا اعتراف جرم کر لیا ہے۔

لیکن یہ گروہ ایک چھوٹی سی غلطی سے کیسے پکڑا کیسے گیا؟ اس سے پہلے اس گینگ کا طریقہ واردات جانتے ہیں۔

ملزماں گاڑیاں کیسے چھینتے تھے؟

کراچی میں گاڑی کی چوری
Getty Images
کراچی میں اس نوعیت کی یہ پہلی واردات نہیں تھی بلکہ پے در پے واقعات میں کئی فارچیونر گاڑیاں چھینی گئی تھیں

اس نوعیت کے کیسز کی تفتیش سے منسلک پولیس افسران کے مطابق یہ ملزمان عموماً کراچی کے پوش علاقوں میں وارداتیں کرتے تھے اوربندوق کی نوک پر گاڑیاں چھینتے تھے اور ان کی وارداتوں کا نشانہ بننے والوں میں اداکارہ مومنہ اقبال بھی شامل ہیں۔

پولیس کے مطابق ملزمان ان وارداتوں کے لیے چوری شدہ گاڑی کا استعمال کیا کرتے تھے۔ پولیس کے مطابق مرکزی ملزم سے برآمد شدہ سوزوکی آلٹو بھی ملزمان نے گذشتہ سال فیروزآباد کے علاقے سے اسلحہ کے زور پر چھینی تھی۔

اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل (اے وی ایل سی) کے مطابق گروہ کا ملزم پولیس اہلکار اور اس کے ساتھی ہمیشہ مہنگی اور قیمتی گاڑی چھینتے تھے اور کسی گاڑی کو نظر میں رکھ کر پہلے اس کی باقاعدہ ریکی کرتے، یعنی گاڑی کہاں اور کس کی ملکیت میں ہے اور مالک کے آنے جانے کے اوقات کیا ہیں۔

ان کے مطابق اس کے بعد کسی طے شدہ محفوظ مقام پر جو عموماً گاڑی مالکان کے گھروں کے قریب ہی کا علاقہ ہوتا، واردات کرتے تھے۔

اے وی ایل سی کے مطابق مرکزی ملزم پولیس میں کانسٹیبل تھا اور ان کے مطابق اسی لیے وہ یہ وارداتیں اتنی دیدہ دلیری سے کی جا رہی تھیں۔

اے وی ایل سی کے ایس اسی پی بشیر احمد بروہی کے مطابق ملزم پولیس اہلکار غیر ملکیوں کی حفاظت کی غرض سے بنائے گئے پولیس کے خصوصی یونٹ میں فرائض ادا کر رہا تھا۔ ان کے مطابق ’وہ دن میں ڈیوٹی پر ہوتا اور رات کو وارداتیں کرتا تھا۔‘

اس سوال پر کہ اتنے اہم یونٹ میں تعینات اہلکاروں کا کیا کوئی بیک گراؤنڈ چیک ہوتا ہے؟ بشیر احمد بروہی کا کہنا تھا کہ پولیس میں ایک پورا میکینزم موجود ہے اور اگر کوئی بھی پولیس اہلکار جو جرائم اور غلط راستے پر چل پڑے وہ قانون کی نظروں سے نہیں بچ سکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس اہلکار کی گرفتاری اس بات کا ثبوت ہے کہ پولیس الرٹ ہے اوراپنا کام اچھے سے کر رہی ہے۔ ’پولیس کے اندر جانچ پڑتال کا ایک مستقبل نظامموجود ہے جو کہ فعال ہے۔ اس نظام پر کوئی سوالیہ نشان نہیں ہے۔‘

ملزم کیسے پکڑا گیا؟

گاڑی چوری
Getty Images

ایس ایس پی بشیر احمد بروہی کے مطابق ابتدائی تفتیش یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ گینگ پہلے صرف گاڑیاں چھینا کرتا تھا اور اِن گاڑیوں کو فی الفور شہر کے اندر محفوظ ٹھکانوں پر پہنچا دیا کرتے تھے۔

اُن کے مطابق بعد میں ملزمان نے وارداتوں کے دوران موبائل فون بھی چھیننا شروع کر دیے تھے اور اسی ہی واردات کے دوران مشہور اداکارہ کی گاڑی میں موجود موبائل فون بھی ملزمان اپنے ساتھ لے گئے۔

ایس ایس پی بشیر احمد بروہی کا کہنا تھا کہ اے وی ایل سی نے اس واردات کے بعد مذکورہ موبائل فون کی ٹریکنگ شروع کر دی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹریکنگ سے پتا چلا کہ ملزم اس فون کو لے کر فروخت کرنے کے ارادے سے ایک علاقے میں پہنچے جہاں پر انھوں نے کچھ لوگوں کے ساتھ بات چیت کی اور اس کی اطلاع ملنے پر ’ایک مخصوص علاقہ ہماری نظروں میں آ گیا جہاں مخبروں کو پھیلایا گیا۔‘

اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ موبائل فون کو فروخت کرنے کے لیے جن لوگوں سے بات چیت کی گئی تھی وہ ملزم کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے تھے اور نہ ہی انھیں اس بارے میں کچھ زیادہ پتا تھا تاہم پولیس کو اطلاع مل چکی تھی۔

بشیر احمد بروہی کا کہنا تھا کہ تفتیش کا دائرہ مزید وسیع کیا گیا اور موبائل فون کی ٹریکنگ کی ہی مدد سے ملزم نظروں میں آیا اور اسے گرفتار کر لیا گیا۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’دوران تفتیش ملزم نے اب تک کم از کم دو درجن گاڑیاں چھیننے کا اعتراف کیا مگر ہمارا خیال ہے کہ چھینی گئی گاڑیوں کی تعداد تین سے چار درجن ہو سکتی ہے۔‘

بشیر احمد بروہی کا کہنا تھا کہ ملزم کے گروہ میں تین سے چار افراد شامل تھے جبکہ ملزم پولیس اہلکار خود اس گروہ کا سرغنہ تھا۔

لیکن یہ گاڑیاں کہاں جاتی تھیں؟

گاڑی چوری
Getty Images

اس سوال کے جواب میں ایس ایس پی بشیر احمد بروہی اور اس کیس کی تفتیش سے منسلک اہلکاروں نے بتایا کہ یہ گاڑیاں شکار پور اور جیک آباد کے راستے سے بلوچستان پہنچائی جاتی تھیں۔

یاد رہے کہ بین الصوبائی شاہراہوں پر پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی چوکیاں بھی موجود ہوتی ہیں۔

تاہم ایس ایس پی بشیر احمد بروہی کا کہنا تھا کہ یہ گاڑیاں اس راستے سے ایک اور ملزم پہنچاتا تھا جس کو تلاش کیا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق وہ مفرور ملزم خود بھی گاڑیاں چھیننے کا کام کرتا تھا لیکن گرفتار کانسٹیبل اس کام کے لیے الگ سے ادائیگی کیا کرتا تھا۔

بشیر احمد بروہی کے مطابق یہ گاڑیاں، جن کی مارکیٹ میں قیمت اسی لاکھ سے لے کر ایک کروڑ بیس، تیس لاکھ روپیہ ہوتی ہے، بلوچستان میں بیس سے تیس لاکھ روپیہ میں فروخت کی جاتی تھیں۔

ان کا دعویٰ ہے کہ یہ گاڑیاں بلوچستان کے نیم قبائلی علاقے میں استعمال ہوتی ہیں جہاں پر عموماً اُن کی نمبر پلیٹ تبدیل کر دی جاتی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ان نیم قبائلی علاقوں میں عموماً ایسی لگژری گاڑیوں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی توجہ کم ہوتی ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.