عدیل افضل نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ انھیں ٹی سی ایم کی طرف سے مطلع کر دیا گیا تھا کہ ’ہم پر دباؤ آ گیا ہے اور اب ہم اس انٹرویو کو ویب سائٹ سے ہٹا رہے ہیں۔‘
’جب آپ خود آرٹسٹ بننے کی کوشش کریں گے اور پانچویں کے مطالعہ پاکستان جیسا آرٹ بنائیں گے تو پھر آپ کو کالجز میں جا کر ہی بچوں کو بتانا پڑے گا اور یقین جانیں اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔۔۔‘
یہ الفاظ پاکستانی اداکار عدیل افضل کے ہیں اور وہ ڈیجیٹل پلیٹ فارم دی سینٹرم میڈیا (ٹی سی ایم) کی ایک پوڈکاسٹ میں پاکستانی فوج کے سربراہ، ڈی جی آئی ایس آئی اور شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کی جانب سے مختلف یونیورسٹیوں میں نوجوانوں سے خطاب کی روایت پر تبصرہ کر رہے تھے۔
ان کے انٹرویو کو ٹی سی ایم کے یوٹیوب چینل سے پیر کو ہٹا دیا گیا تھا جس کے بعد منگل کو جب یہ انٹرویو یوٹیوب پر دوبارہ اپ لوڈ ہوا تو اس میں سے آئی ایس پی آر کی گئی تنقید کا یہ حصہ جو اس سے پہلے ایک ریل کی صورت میں سوشل میڈیا پر شیئر کیا جا رہا تھا، حذف کر دیا گیا تھا۔
اس بارے میں ہم نے ٹی سی ایم کے بانی طلحہ احد سے اس بارے میں رابطہ کیا لیکن انھوں نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا تاہم عدیل افضل نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ انھیں ٹی سی ایم کی طرف سے مطلع کر دیا گیا تھا کہ ’ہم پر دباؤ آ گیا ہے اور اب ہم اس انٹرویو کو ویب سائٹ سے ہٹا رہے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’یہ انٹرویو دوبارہ ویب سائٹ پر ’اپ لوڈ‘ تو کر دیا گیا مگر اس میں میرے انٹرویو کا وہ خاص حصہ سینسر کر دیا گیا، جس میں فوجی حکام کے یونیورسٹیوں میں جا کر طلبہ سے خطاب کرنے پر تنقید کی گئی۔‘
حال ہی میں نجی چینل اے آر وائے نے بھی اپنے یوٹیوب چینل سے ایک کلپ کو حذف کیا جس میں شانِ رمضان پروگرام میں تقریری مقابلے کے دوران ایک بچی اپنی تقریر میں بلوچ سماجی کارکن اور صوبے میں جبری گمشدگیوں کے بارے میں آواز اٹھانے والی ماہ رنگ بلوچ کا ذکر ایک باہمت خاتون کے طور پر کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
سوشل میڈیا پر وائرل اس کلپ کے حوالے سے بھی اے آر وائے کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا جس کے بعد یہ اے آر وائے کے یوٹیوب چینل سے ہٹایا جا چکا ہے۔
حال ہی میں پاکستان کے متعدد ٹی وی چینلز سے بھی اینکرز کو آف ایئر کیا گیا ہے اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ میڈیا سینسرشپ کا دائرہ اب براڈکاسٹ میڈیا سے وسیع ہو کر مختلف میڈیا اداروں کے یوٹیوب چینلز کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔
عدیل افضل کو ’عہدِ وفا‘ اور آئی ایس پی آر سے شکایت کیوں
اداکار عدیل افضل کا جو کلپ وائرل ہے اس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ’ہمارے ڈی جی آئی ایس پی آر کالجوں اور یونیورسٹیوں کے دورے کر رہے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ فوج نے ملک کو بچانے کے لیے کتنی قربانیاں دیں۔‘
’یہ جو آپ نے محکمہ بنایا ہوا ہے آئی ایس پی آر، ذرا دکھا دیں آئی ایس پی آر نے اپنی گڈ ول بنانے پر ایک سال میں کتنا پیسہ خرچ کیا اور جن لوگوں پر خرچ کیا، وہ اتنے نکمے تھے کہ آپ کا امیج ہی نہیں بنا سکے۔‘
اس کے بعد وہ ڈرامہ سیریل عہدِ وفا کا ذکر کرتے ہیں جو سنہ 2020 میں آئی ایس پی آر کے اشتراک سے بنایا گیا تھا اور ہم ٹی وی پر نشر کیا گیا تھا۔
اس انٹرویو میں عدیل افضل کہتے ہیں کہ ’جب آپ بیانیے کو لے کر چلنا چاہتے ہیں، کہ اب ہم قوم کو سمجھائیں گے، اس کا لیول تھوڑا بڑھائیں، کسی پڑھے لکھے شخص، اداکار کے ساتھ آپ ملیں گے تو وہ آپ کو بتائے گا کہ کس طرح کام کرنا ہے، جب آپ اس کو خود ڈکٹیٹ کرتے ہیں تو پھر آپ عہدِ وفا جیسا ڈرامہ بناتے ہیں۔‘
خیال رہے اس ڈرامے کے نشر ہونے کے دوران بھی اس پر خاصی تنقید ہوئی تھی جس پر بی بی سی کے صفحات پر اس موضوع پر ایک تفصیلی تحریر بھی شائع کی گئی تھی۔
عدیل افضل انٹرویو کے دوران عہدِ وفا کے چاروں کرداروں کے بارے میں تفصیل سے بات کرتے ہیں۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’اس میں لکھاری اور ڈائریکٹر کو دوش نہیں دوں گا کیونکہ میں دونوں کو جانتا ہوں، جس نے بنوایا ہے نا، اس نے ڈنڈے کے زور پر یہ کہانی لکھوائی، ہمارے پاس شعیب منصور صاحب کا کام بھی ہے، بہت اچھا کام ہے جب آپ کسی اچھے بندے سے کام کروائیں گے تو آپ کا امیج اچھا ہو گا، جب آپ خود آرٹسٹ بننے کی کوشش کریں گے اور پانچویں کے مطالعہ پاکستان جیسا آرٹ بنائیں گے تو پھر آپ کو کالجز میں جا کر ہی بچوں کو بتانا پڑے گا، اور یقین جانیں اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔‘
’یہ ڈرامہ آپ بنائیں گے، یہ سرمایہ کاری آپ کریں گے؟ کن سے لکھوا رہے ہو، کن سے بنوا رہے ہو؟ ہم آپ کی اس گیم سے تنگ آ چکے ہیں۔‘
عدیل افضل نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ابھی بھی یہ سمجھتے ہیں کہ فوج کا کام ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت نہیں بلکہ یہ آرٹسٹ، لکھاری اور استاد کے کرنے کا کام ہے۔
عدیل افضل کے مطابق انھوں نے عہد وفا ڈرامے کا حوالہ اپنی بات سمجھانے کے لیے دیا تھا کیونکہ اس نئی نسل نے تو ایلفا براوو چارلی یا سنہرے دن جیسے ڈرامے نہیں دیکھ رکھے ہیں۔
عدیل افضل کے مطابق ہم تواتر سے دیکھ رہے ہیں کہ فوجی حکام کالجز اور یونیورسٹیوں میں جا کر طلبہ سے خطاب کرتے ہیں اور انھیں اپنا نکتہ نظر سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے مطابق میں نے یہ رائے دی کہ ’یہ کام فوج کا نہیں، یہ کام ہمارے شعبے کا ہے۔‘
عدیل افضل کے مطابق انھوں نے یہ بھی تنقید کی تھی کہ اگر فوجی حکام کو خود تعلیمی اداروں کا رخ کرنا پڑ رہا ہے تو پھر ماضی میں فوج میں اس سے متعلق جو شعبہ بنایا گیا تھا، اس کا کیا فائدہ ہوا۔
’ریاست اعتدال پسند لوگوں کو بھی اپنا دشمن بنا رہی ہے، عنقریب ان کا کوئی دوست نہیں ہو گا‘
میڈیا اور کمیونیکیشن تجزیہ کار اور پاکستان میں میڈیا سینسرشپ پر نظر رکھنے والے عدنان رحمت نے بی بی سی سے اس موضوع پر تفصیل سے بات کی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس واقعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ریاست کی پُرزور خواہش ہے کہ وہ آوازوں کو دبائے اور اپنے خلاف ہونے والی تنقید کو سینسر کرے۔
’اب تو خبروں کے فارمیٹ کے علاوہ بھی ایک یوٹیوب پوڈکاسٹ میں بھی رائے کو سینسر کیا گیا۔‘
انھوں نے کہا کہ 'جو حصہ حذف کیا گیا، اس میں ایک ڈرامے کا ریویو کیا جا رہا تھا، اس کے کرداروں کے بارے میں بات ہو رہی تھی اور اس حوالے سے ادارے کے کام پر سوال اٹھائے جا رہے تھے۔
’اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ریاست میں عدم برداشت کس حد تک بڑھ چکی ہے کہ وہ ایک ایسے موضوع کو سینسر کر رہی ہے اور اعتدال پسند رائے رکھنے والوں کو بھی اپنا دشمن بنا رہی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ریاست اس بات کو نظر انداز کر رہی ہے کہ پھر ان کا کوئی دوست نہیں رہ جائے گا۔ یہ تنقید کرنے والے انتشار پھیلانے والوں میں سے نہیں لیکن بظاہر ریاست کو اس بات سے کوئی غرض ہی نہیں۔‘
عدنان رحمت نے کہا کہ ’اب صورتحال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ریاست اپنے آپ کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ جو لوگ بظاہر ایک دوسرے کے مخالف بھی ہوں تو وہ ریاست کے ظلم کے خلاف ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہو رہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’دی سینٹرم میڈیا جیسے ادارے صرف تنقید ہی نہیں کرتے بلکہ مثبت پہلوؤں پر بھی بات کرتے ہیں، یہ کچھ بچے کچھے ادارے ہیں جو ڈیجیٹل سپیس میں نفرت پھیلانے والوں اور عام میڈیا ہاؤسز کے درمیان لوگوں کو ایک تیسرا آپشن دے رہے ہیں، جو کہ نفرت اور جھوٹی خبریں پھیلانے والوں کی اہمیت کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے لیکن ریاستی اداروں بظاہر یہ بات سمجھ نہیں آ رہی۔‘
عدنان رحمت کا کہنا تھا کہ پچھلے آٹھ ماہ کے دوران پاکستان کے آرمی چیف نے ڈیجیٹل دہشتگردی کی اصطلاح مختلف اوقات میں آٹھ مرتبہ استعمال کی اور اب تو یہ ایک قانون بھی بن چکا ہے، جو ملک میں رائج ہے۔
’جس طرح تیزی سے پیکا کا قانون پاس کروایا گیا، ٹی سی ایم کو تو صرف وارننگ دی گئی ہو گی، ورنہ اگر ان پر مقدمہ درج ہو جائے تو اس کی سزا تین سال قید اور لاکھوں کا جرمانہ ہے۔‘
’یہ اپنی رائے کا اظہار کرنے کے لیے بہت بڑی قیمت ہے۔‘