اسلامیہ کالج کراچی کا یہ شرمیلا گریجویٹ، کرکٹ بھی اتنی ہی اچھی کھیلتا، جتنا اچھا وہ گاتا تھا۔ اس نوجوان کا نام مرزا نذیر بیگ تھا جو بعد میں پاکستان کی فلم اور ڈرامہ انڈسٹری میں ندیم بیگ کے نام سے مشہور ہوئے۔
یہ بات ہے ستمبر سنہ 1965 کی جب ایک طرف صوبہ پنجاب میں لاہور کے آس پاس جنگ جاری تھی اور دوسری طرف صوبہ سندھ کا شہر کراچی نسبتاً پرسکون تھا اور یہاں فلمی افق پر چمکنے والے اس دور کے سپر سٹار وحید مراد اور ان کی اہلیہ کی شادی کی سالگرہ کی تقریب منعقد ہونے والی تھی۔
اس دعوت میں گانے کا انتظام بھی تھا جس میں ایک 24 سالہ نوجوان نے مائیک پر خوش اسلوبی سے آواز کا جادو جگایا۔ اس نوجوان نے انڈین فلم ’ملن‘ کا مشہور گیت ’رام کرے ایسا ہو جائے‘ گا کر خوب داد سمیٹی۔
اسلامیہ کالج کراچی کا یہ شرمیلا گریجویٹ، کرکٹ بھی اتنی ہی اچھی کھیلتا، جتنا اچھا وہ گاتا تھا۔ اس نوجوان کا نام مرزا نذیر بیگ تھا جو بعد میں پاکستان کی فلم اور ڈرامہ انڈسٹری میں ندیم بیگ کے نام سے مشہور ہوئے۔
اسی زمانے میں نذیر کو موسیقار نثار بزمی نے اپنی شاگردی میں لیا اور فلم ’سہرا‘ کے لیے ایک گیت ’بہت یاد آئیں گے یہ دن‘ گنوایا۔
پی ٹی وی کے پرڈیوسر ایم ظہیر خان نذیر بیگ کے ساتھ اسلامیہ کالج کراچی میں پڑھتے تھے اور ان کو وہ دن آج بھی یاد ہے جب اس گانے کی ایسٹرن سٹوڈیو میں ریکارڈنگ تھی۔
’ہم سب اسلامیہ کالج کے لڑکے وہاں پہنچ گئے کہ ہمارا یار آج گائے گا، نذیر کے لیے لمحہ فخریہ ہو یا نہ ہو، ہم سب کو اس پر کافی ناز تھا۔ دوستوں میں مشہور تھا کہ نذیر بیگ یا کرکٹر بنے گا یا گلوکار لیکن قسمت کو اسے اداکار بنانا تھا۔‘
مرزا نذیر بیگ سے ندیم بیگ تک کا سفر
مرزا نذیر بیگ مغل 19 جولائی 1941 میں متحدہ ہندوستان کے شہر وجے وڑہمیں پیدا ہوئے۔ کم عمری میں پاکستان آئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔ پاپوش اور ناظم آباد کی گلیوں میں کرکٹ کھیلی، اسلامیہ کالج سے تعلیم حاصل کی اور گاہے بگاہے پارٹیوں میں گاتے نظر آتے تھے۔
بزم طلبہ کے سلسلے میں ریڈیو کے چکر لگے اور وہاں ملاقات موسیقار سہیل رعنا سے ہوئی، جنھوں نے فلموں میں موسیقی ترتیب دینا شروع کردی تھی۔
شکل اچھی تھی، اوپر سے آواز بھی تو اس نئے گلوکار کی دھوم مچ گئی اور سہیل رعنا نے چاہا کہ ان کے دوست وحید مراد کی فلم ’ہیرا اور پتھر‘ میں یہ لڑکا کوئی گانا گائے لیکن وحید مراد نے منع کر دیا۔ پھر ایک سین میں نذیر کو صرف بیٹھا ہوا دکھایا اور اس کے بعد ہی ندیم کا اٹھنا بیٹھنا وحید مراد، پرویز ملک، سہیل رعنا میں ہونے لگا۔
وحید مراد کے سب سے قریبی دوست اور سابق بیوروکریٹ جاوید علی خان نذیر بیگ کو ایسے ہی یاد کرتے ہیں۔
’نذیر بیگ ان دنوں ایک سٹرگلنگ سنگر تھے۔ ایک آدھ بار ملاقات بھی ہوئی تھی، جب وحید کے والد صاحب نے گھر پر دعوت کا اہتمام کیا، تو مجھ سے کسی گانے والے کو لانے کے لیے کہا تو میں نے نذیر کو بُک کیا۔ دعوت کے چند دن بعد میں لندن چلا گیا اور دو سال بعد آیا تو چند خواتین دوستوں کو لے کر پرل کانٹینینٹل کافی پینے گیا۔‘
’وہاں اُسی سٹرگلنگ سنگر سے ملاقات ہوئی مگر میں نے دیکھا کہ میری دوستیں منہ بنائے ہوئی تھیں۔ جب وہ چلا گیا تو وہ خواتین مجھ پر غصہ ہوئیں کہ ہمیں ندیم سے کیوں نہیں ملایا، میں نے سمجھایا کہ یہ نذیر ہیں مگر وہ نہ مانیں اور سنیما کے سامنے لے جا کر کھڑا کردیا جہاں فلم ’چکوری‘ کا بورڈ لگا تھا۔‘
ندیم ہی کیوں؟
ان برسوں میں کیا ہوا؟ یہ ہم نے خود ہی ندیم سے پوچھ لیا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’حالات مجھے مشرقی پاکستان لے گئے جہاں ٹی وی نیا نیا آیا تھا۔ مجھے وہاں ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں نوکری مل گئی اور ساتھ ہی ٹی وی پر گانے کا موقع بھی کیونکہ ٹی وی کو مناسب شکل والے سنگرز چاہیے تھے۔‘
’میں وہاں موسیقار روبن گھوش سے ملا، شبنم سے ان کی شادی ہو چکی تھی۔ وہاں ڈھاکہ ٹی وی پر شوز ہوتے تھے، جس میں ایک ہی سنگر کو اردو اور بنگلہ میں گانے گانا ہوتے تھے۔ اب بنگلا زبان تو آتی نہیں تھی تو رومن میں لکھے گیت گاتا تھا۔ اسی طرح روبن مجھے کیپٹن احتشام کے پاس لے گئے جو فلم چکوری بنا رہے تھے۔ مجھ سے فلم میں ایک گیت ’کہاں ہو تم کو ڈھونڈ رہی ہیں‘ فردوسی بیگم کے ساتھ گنوایا گیا جسے فلم کے ہیرو عظیم پر فلمانا تھا لیکن عظیم کافی مصروف تھے اور اسی وجہ سے اس فلم کو ٹائم نہ دے سکے۔‘
’احتشام صاحب کے پاس ایک ہی مہینہ تھا اور میں اداکار تو تھا نہیں لیکن انھوں نے مجھے ہیرو بننے کی پیشکش کی، جو میں نے منع کردی۔ خیر، اپنے باس، مشہور ڈائریکٹر ظہیر ریحان سے اجازت اور ایڈ ایجنسی کی نوکری نہ جانے کی یقین دہانی کے بعد، میں نے فلم میں کام کیا۔ فلمساز نذیر کے ہوتے ہوئے مجھے کوئی اور نام رکھنا تھا، جو مسز احتشام نے چنا۔ احمد ندیم قاسمی کے سب ہی فین تھے اور جب انھوں نے ندیم کا نام تجویز کیا تو میں نے بھی اوکے کردیا۔ چکوری کی شوٹنگ ہوئی اور وہی گانا جو عظیم صاحب کے لیے گایا تھا، مجھ پر فلمایا گیا۔ فلم جب سنیما میں لگی تو ہٹ ہو گئی اور اس کے بعد آفرز آنے لگیں۔‘
مغربی پاکستان میں بھی دھوم
چکوری 22 مارچ 1967 کو ڈھاکہ میں ریلیز ہوئی اور دو ماہ بعد کراچی میں۔ مشرقی پاکستان میں چکوری کے بعد فلم’چاند اور چاندنی‘ اور ’چھوٹے صاحب‘ کے بعد ندیم مقبول ہوئے اور انھیں ہاتھوں ہاتھ لاہور میں بھی لیا جانے لگا۔
اسی اثنا میں کیپٹن احتشام کی صاحبزادی سے ندیم کی شادی ہو گئی اور ان کے کیرئیر کی گاڑی کا سٹیرنگ وہیلکیپٹن احتشام کے ہاتھ آ گیا۔
شباب کیرانوی کی ’سنگدل‘ اور ’فسانہ دل‘ سے ندیم نے یہاں بھی اپنے نام کی دھاک بٹھائی اور منہ مانگے پیسے چارج کیے جو اس وقت کے مشہور ترین ہیروز کو بھی نہیں ملتے تھے۔
شبنم کے ساتھ فلمیں
بنگلہ دیش کے قیام نے ملک کا مشرقی حصہ چھین لیا اور ندیم صرف مغربی پاکستان تک محدود ہو گئے۔ یہاں بھی ندیم نے اپنی پرانی ٹیم یعنی شبنم، روبن گھوش، نذرالاسلام کے ساتھ ’احساس، شرافت، آئینہ، بندش‘ جیسی سوپر ہٹ فلمیں دیں۔
ساتھ ہی شبنم کے ساتھ ایک ایسی جوڑی بنائی جس نے ایس سلیمان، پرویز ملک، جاوید فاضل اور کے خورشید کے ساتھ کام کیا اور کامیاب فلموں کی لائن لگا دی۔
ندیم اور شبنم نے پروڈیوسر سرور بارابنکوی کی فلم ’تم میرے ہو‘ سے جو سفر شروع کیا وہ 1997 میں فلم ’اولاد کی قسم‘ کے ساتھ ختم ہوا۔
شبنم کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ ’شبنم کو بھی میرے سسر نے ہی فلم چندا سے متعارف کروایا تھا۔ تو مجھ سے پہلے وہ میری بیوی کی دوست تھیں اور بالکل گھر کے فرد کی طرح تھیں۔‘
شبنم بھی ندیم کو اپنی فیملی کہتی ہیں اور آج تک انھیں نذیر کہہ کر ہی بلاتی کہتی ہیں۔ بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے شبنم نے ندیم کے ساتھ اپنی جوڑی کی کامیابی کا ذمہ دار پبلک کو قرار دیا۔
’جوڑے کوئی اپنی مرضی سے تو نہیں بناتا، جو لوگ پسند کرتے ہیں ، اسی کو پھر دیکھنا چاہتے ہیں، ندیم کے ساتھ بھی یہی ہوا، فلمیں بنتی رہیں، پسند آئیں اور تعداد پچاس ہو گئی۔‘
ندیم ایک عہد ساز اداکار
ندیم نے خود کو ہیرو بنانے سے زیادہ اداکار بنانے میں محنت کی اور اسی کی دہائی تک پاکستان کے ایسے ایکٹر بن گئے، جن سے کامیڈی، ایکشن، ٹریجیڈی اور رومانس سب کروایا جاسکتا تھا۔ کبھی کبھی انھیں فلموں میں ولن کا کردار بھی کرنے کو ملتا، جو وہ بخوبی نبھا لیتے۔
انھوں نے اپنی ایک ایسی پہچان بنائی کہ پاکستان میں نوجوان انھیں دیکھ کر کاپی کرنے لگے۔ اس کی واضح مثال ٹی وی اداکار بہروز سبزواری کی ہے۔
’قباچہ‘ کے رول سے مشہور ہونے والے بہروز سبزواری نے بتایا کہ ’بیگ صاحب سے میری پہلی ملاقات پی سی کراچی میں ہوئی، جب میں تھوڑا بہت مشہور ہونے کے باوجود ان سے ایک فین کی حیثیت سے ملا۔ بعد میں جاوید شیخ فلم نگری میں چلے گئے اور ان سے دوستی کی وجہ سے میرا لاہور آنا جانا شروع ہوا ۔ اس وجہ سے بیگ صاحب کو قریب سے جاننے کا موقع ملا، بہت ہی پیارے شخص ہیں۔ میرا اور ان کا ایک اور شوق بھی تھا، گاڑیوں کا۔ ٹی وی پر کام کرنے کے ساتھ میرا گاڑیوں کا بھی کام تھا۔ ایک دن کسی چیریٹی میچ پر سیالکوٹ جاتے ہوئے انھوں نے اپنی سپورٹس کار مجھے دی اور کہا کہ اسے بہروز چلائے گا۔ پھر میں ڈرائیور بنا، بیگ صاحب ساتھ بیٹھے اور جاوید اور غالباً گلو، پیچھے۔‘
بہروز سبزواری اورندیم نے سنہ 1985 میں فلم ’خوش نصیب‘ میں بھی کام کیا، جس میں ایک گانے ’دوستی تیری میری دوستی‘ میں بیگ صاحب بائیک چلا رہے ہیں اور بہروز ایک پٹھان کے کردار میں پیچھے بیٹھے ہیں۔ اس فلم میں یہ رول بہروز سبزواری کے لیے ندیم نے ہی چنا تھا۔
غلام محی الدین سے دوستی اور سٹوڈیو میں کرکٹ کھیلنا
جس وقت غلام محی الدین نے فلموں کا رخ کیا، ندیم اس وقت تک ایک سوپر سٹار بن چکے تھے۔ دونوں کی پہلی ملاقات شباب کیرانوی کی فلم ’انسان اور فرشتہ‘ کے سیٹ پر ہوئی تھی۔
بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بیگ صاحب ایک دھیمے مزاج کے انتہائی نفیس آدمی ہیں۔
’ہماری پہلی ملاقات میں ہی کرکٹ کی بات شروع ہوئی اور کہیں سے وحید مراد بھی آ گئے، میں چونکہ اپنی گاڑی میں ہمیشہ بیٹ بال رکھتا تھا تو اکثر سٹوڈیو میں کرکٹ بھی ہو جاتی تھی۔ ہم نے کوئی درجن بھر سے زیادہ فلموں میں ساتھ کام کیا، شرمیلی، محبت اور مہنگائی، ضد، جیوا، لازوال، طاقت کا طوفان، جنگل کا قانون، مٹھی بھر چاول، محل میرے سپنوں کا اور عمر مختار شامل ہیں۔‘
’مجھے فلم ’لازوال‘ کے حوالے سے یاد ہے کہ میں اس فلم میں کام نہیں کرنا چاہ رہا تھا کیونکہ رول اتنا بڑا نہیں تھا۔ بڑی مشکل سے مجھے ڈائریکٹر نے قائل کیا اور میں نے کام کیا۔ جب فلم ہٹ ہو گئی تو بیگ صاحب نے مجھے چھٹی کے دن اپنے گھر بلایا، الماری کھولی اور ایک نئی شرٹ، سکارف اور پرفیوم گفٹ کیا۔‘
ندیم اور انڈین فلم
کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ ندیم نے بالی ووڈ کی ایک فلم میں بھی کام کیا۔ ’گہری چوٹ‘ المعروف ’دور دیش‘ میں انھوں نے ٹونی کا کردار نبھایا، جو ڈیوڈ کے گینگ کے لیے بوبیتا کے کردار ’پنکی‘ کو اٹھا لے آتا ہے۔
بوبیتا مشرقی پاکستان اور بعد میں بنگلہ دیش کی اداکاری تھیں جو کینیڈا میں بننے والی اس فلم کی شوٹنگ سے بارہ سال قبل جلتے سورج کے نیچے میں ندیم کی ہیروئن تھیں۔
مشرقی پاکستان میں ندیم نے اپنی اس آخری فلم میں ٹرپل رول ادا کیا تھا۔
گہری چوٹ میں ندیم کے ساتھ انڈیا سے ششی کپور، شرمیلا ٹیگور، راج ببر اور پروین بوبی نے بھی اداکاری کی تھی۔
اس فلم کے حوالے سے ندیم نے بتایا کہ ’مجھے راج ببر کا اور ٹونی کا رول آفر ہوا تھا، ٹونی میں مجھے زیادہ مارجن نظر آیا اور میں نے اسے کرنے کی حامی بھری۔ فلم ایک بہت اچھے ماحول میں بنی اور ساری شوٹنگ کینیڈا میں ہوئی۔ ایک ٹیم کی طرح کام ہوا تھا جسے پسند بھی کیا گیا۔‘
ندیم کی اداکاری کی وجہ سے نذیر کی گلوکاری پیچھے رہ گئی
ندیم کی اداکاری کی وجہ سے نذیر کی گلوکاری پیچھے رہ گئی۔ مشرقی پاکستان کی بلیک اینڈ وائٹ فلموں میں تو وہ یہ شوق کبھی کبھی پورا کر لیتے مگر مغرب میں آکر ان کے گانے کا سورج غروب ہو گیا۔
ان کے کیرئیر میں سب سے زیادہ ان پر احمد رشدی نے گیت گائے، جن کی تعداد 80 کے قریب ہے، ساٹھ ستر کے قریب گانے مہدی حسن کے جبکہ تیسرے نمبر پر اخلاق احمد ہیں جنھیں ندیم نے خود ہی منتخب کیا تھا۔
غلام عباس، مسعود رعنا، اے نئیر کا شمار ان سنگرز میں ہوتا ہے، جنھوں نے ندیم کے لیے کافی گایا مگر مسلسل نہیں۔
ندیم نے سنہ 1974 میں فلم ’مٹی کے پتلے‘ بنائی تھی، جس کا تھیم، مزدور تحریک تھا۔ بائیں بازو کے خیالات والی یہ فلم جب شروع کی گئی، تب سوشلزم کا دور دورہ تھا اور مشرقی پاکستان الگ ہوا۔
احتشام صاحب کو ہارٹ اٹیک ہوا اور فلم رک گئی۔ بالاآخر اسے بنا کر ریلیز کیا گیا اور ماحول یکسر بدل جانے کی وجہ سے فلم کامیاب نہ ہو سکی۔
ندیم پروڈکشن سے دور ہو گئے اور جب اسی کی دہائی کے اواخر میں اردو فلمیں کم اور پنجابی زیادہ بننے لگیں تو انھوں نے پنجابی فلم بنانے کا فیصلہ کیا۔
انھوں نے بتایا کہ ’مجھے پنجابی فلموں کی آفرز ویسے تو ہو رہی تھیں مگر مجھے ڈر تھا کہ کہیں مجھے گنڈاسا نہ پکڑا دیا جائے۔ میں نے خود ہی فلم مکھڑا بنانے کا فیصلہ کیا، جہاں سکرپٹ اور ڈائریکشن میرے قابو میں تھیں۔ بابرہ کو اس فلم میں ہیروئن لیا گیا اور میرا کردار ایک بھولے آدمی کا تھا۔ فلم ریلیز کے بعد ہٹ ہو گئی، خاص کر میرا گایا ہوا میڈم نور جہاں کے ساتھ گیت، ’منڈیا ڈوپٹہ چھڈ میرا‘ آج بھی مقبول ہے۔
نوے کی دہائی میں بھی پاکستانی سینما میں ندیم کا اہم کردار رہا۔ اب ندیم ’ینگ ٹو اولڈ‘ کردار کرنے لگے جس کی وجہ سے بلندی ، پناہ، جیوا، ہوائیں، دیوانے تیرے پیار کے، انتہا میں ندیم کے زیر سایہ شان، فیصل قریشی، بابر علی، سعود، معمر رانا، اور ہمایوں سعید کے ڈبیو ہوئے۔
ٹیلی ویژن سے کیرئیر شروع کرنے والے ندیم نے نوے کی دہائی کے اواخر میں ٹی وی کا رخ کیا۔ ندیم نے عمران اسلم کے لکھے کھیل بساط سے ٹی وی اننگز کا دوبارہ آغاز کیا۔
انھوں نے کوئی چالیس سے پچاس ڈراموں میں کام کیا۔ اس کے علاوہ ’ہو وانٹس ٹو بی اے ملین ائیر‘ کا پاکستانی ورژن بھی ہوسٹ کیا۔ انھوں نے ’میرے ندیم‘ کے نام سے ایک شو میں بھی میزبانی کی، جس میں شوبز کے افراد کے ساتھ بات چیت ہوتی۔
ندیم کے ساتھ ٹی وی اور فلم دونوں میں کام کرنے والی سینئیر اداکارہ ثمینہ احمد کے خیال میں ندیم ایک بہترین اداکار کے ساتھ بہترین انسان بھی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’1985 کی فلم ’ناراض‘ میں مجھے جاوید فاضل نے کاسٹ کیا۔ اس فلم میں میرے ساتھ شبنم، ندیم اور فیصل تھے۔ ندیم اس وقت بھی بڑے سٹار تھے مگر کام کے وقت ایک پروفیشنل بن جاتے تھے ۔ جب ٹی وی پر بھی ان کے ساتھڈرامے ’سسکیاں‘ میں کام کیا تو کبھی ایسا محسوس نہ ہونے دیا کہ وہ اتنے بڑے سٹار ہیں۔‘