’بدبودار پھول‘، آسٹریلیا میں کھلنے والے ’گلِ لاش‘ کی کہانی

image

پھول کا لفظ سماعتوں سے ٹکراتے ہی ایک چیز نتھنوں میں گھستی سی محسوس ہوتی ہے ۔۔۔ جی بالکل، خوشبو، مگر جہاں سب کچھ ہی تبدیل ہو رہا ہے تو پھول کیوں پیچھے رہیں۔

کافی سال قبل ایک شاعر نے پھولوں کا درد کچھ یوں بیان کیا تھا

ہر پھول کی قسمت میں کہاں نار و عروساں

کچھ پھول تو کھلتے ہی مزاروں کے لیے ہیں

اس شعر کے پیچھے لگتا ہے درد کچھ زیادہ ہی گہرا تھا کہ قدرت نے بھی ایسا پھول متعارف کرا دیا، جس کا نام ہی لاش ہے اور اس سے خوشبو نہیں بلکہ بھبھوکے اٹھتے ہیں۔

پچھلے دنوں سامنے آنے الی وہ رپورٹ سب ہی کی نظروں سے گزری ہو گی جو ایک مغربی ملک میں کھلنے والے عجیب و غریب پھول کے بارے میں تھی اور اس کو دیکھنے کے لیے لوگ بڑی تعداد میں پہنچ رہے تھے۔

مگر کیا واقعی یہ پھول ہے، اس کا اصل نام کیا ہے اور عرفیت کیسے پڑی، جسامت کتنی بڑی ہے، کس موسم میں کھلتا ہے، کہاں کہاں پایا جاتا ہے۔ کیا اس کو گھر میں اگایا جا سکتا ہے؟ وغیرہ جیسے سوال ذہنوں میں ہی رہے۔

ان سطور میں انہی کا جواب دینے کی کوشش کی جائے گی۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے اس پھول کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے جس میں ماہرین زراعت کی آرا بھی شامل ہیں۔   

رپورٹ کے مطابق گلے سڑے کی طرح شدید بدبو رکھنے والا یہ پھول پچھلے دنوں آسٹریلیا میں کھلا، جس کو غیرمعمولی اہمیت ملی۔

دارالحکومت کینبرا کے نیشنل بوٹینک گارڈنز میں یہ پھول پندرہ برسوں میں پہلی بار کھلا۔ سنیچر کو پوری طرح کھل اٹھنے کے بعد پیر کے اوائل میں اس کو مرجھاتے ہوئے دیکھا گیا۔

کینبرا میں پندرہ سال بعد کھلنے والے پھول کو دیکھنے کے لیے ہزاروں لوگ پہنچے (فوٹو: روئٹرز)

یہ چند ماہ کے دوران آسٹریلیا میں کھلنے والا تیسرا پھول تھا۔

جنوری کے اواخر میں بھی سڈنی گارڈنز میں ایسا ہی پھول کھلا تھا، جس نے تقریباً بیس ہزار افراد کو اپنی جانب متوجہ کیا جبکہ اس سے قبل نومبر میں بھی ایسا پھول میلبرن میں سامنے آیا، جس کو دیکھنے کے لیے دور دور سے لوگ پہنچے تھے۔

یہ واقعی پھول ہے؟

اگرچہ اس کے کئی فٹ پر مشتمل سائز اور ناگوار بو کے باعث کچھ لوگوں نے اس کو پھول کے بجائے محض پودا قرار دینے پر زور دیا ہے تاہم سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ واقعی پھول ہے کیونکہ بیج سے پودے پر کلی بننے اور پھر پھوٹنے کے مراحل سے یہ بھی گزرتا ہے اور اس کا سائنسی نام امورفوفالیس ٹائٹینیئم ہے، جس کو ٹائٹن ارم بھی کہا جاتا ہے۔

رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں لوگ اس کےبارے میں جاننے کے لیے کوشاں ہیں اور بڑے پیمانے پر انٹرنیٹ پر سرچ بھی کی گئی۔

بنیادی طور پر اس نایاب پودے کا تعلق انڈونیشیا سے ہے وہاں کی مقامی زبان میں اس کو بنگا بینکئی کہتے ہیں اور یہ مغربی سماٹر کے جنگلات میں پایا جاتا ہے۔

قدرتی ماحول میں یہ آٹھ سے دس سال کے دوران کھلتا ہے اور اس کی عمر چوبیس سے اڑتالیس گھنٹے تک ہی ہوتی ہے۔ یہ اپنی تیز بو کی وجہ سے مکھیوں اور کچھ دوسرے کیڑوں کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے۔

عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ جنگلوں میں اس کے صرف تین سو پودے ہی موجود ہیں جبکہ ایک ہزار کے قریب کاشت کاری کے ذریعے اگائے گئے ہیں۔

بنیادی طور پر ٹائٹن اروم انڈونیشیا سے تعلق رکھتا ہے (فوٹو: جکارتہ پوسٹ)

اس پھول کا نظارہ کرنے کے لیے دس سال کا انتظار کرنا پڑتا ہے اور جب یہ کھل جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انسان گلے سڑے گوشت کے کسی ڈھیر کے قریب بیٹا ہے اور اسی مناسبت سے ہی اس کو کورپس فلاور کہا جاتا ہے۔

صرف تین پھول ہی کیوں؟

اے پی کی رپورٹ میں کینبرا نرسری کی مینیجر کیرول ڈیل سے بھی بات کی گئی ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ اتنے مہنوں کے دوران صرف تین پھول ہی کیوں کھل سکے؟

تو ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے کچھ زیادہ وضاحت موجو نہیں ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوا، اس بارے میں مزید سوچ بچار کی جا رہی ہے۔

پودے پر کلی بننے سے لے کر پھول کی مانند کھلنے کے عمل کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ایسا تب ہوتا ہے جب پودا اپنے زیرمین تنے اور جڑوں میں 

مطلوبہ توانائی کا ذخیرہ کر لیتا ہے، جس کو کورم کہا جاتا ہے.

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک خیال یہ بھی ہے کہ دنیا بھر میں قدرتی طور پر موجود اس کے پودون کی عمر ایک دوسرے کے قریب قریب ہے اس لیے وہ پھول کھلنے کے لیے درکار کاربوہائیڈریٹس کا ذخیرہ ایک ہی وقت میں کرتے ہیں۔

کیرول ڈیل نے یہ بھی بتایا کہ آسٹریلیا اور اس کے اردگرد جتنے بھی پودے ہیں وہ مختلف حالات میں بڑھتے ہیں تاہم یہ بات ضرور غیرمعمولی ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں پھول کھلاتے ہیں۔

جنگلوں میں اس پھول کے تین سو پودے موجود ہیں جبکہ باقی نرسریوں میں اگائے گئے ہیں (فوٹو: گیٹی امیجز)

ناامیدی اور خوشگوار حیرت

دارالحکومت میں کھلنے والے پھول کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ امید تقریباً ختم ہو چکی تھی اور خیال ظاہر کیا جا رہا تھا کہ چونکہ یہاں برفباری ہوتی ہے اس لیے یہ موسم اس کے لیے موافق نہیں ہو گا، تاہم کچھ عرصہ بعد یہ چمتکار ہو گیا۔

 اس پودے کا دورانیہ ذرا لمبا ہو گیا تھا کیونکہ آٹھ سے دس برس کے دوران ایسا ہو جاتا ہے، اس لیے ہمارا خیال تھا کہ سازگار صورت حال نہیں ہے۔۔

 مگر اس نے تو کھل کر ہمیں حیرت میں ہی ڈال دیا، ایک ایسی حیرت جو بہت خوشگوار ہے۔۔

انہوں نے بتایا کہ پھول لنچ ٹائم کے قریب کھلنا شروع ہوا اور اس کی بو تیزی سے پھیلتی چلی گئی۔

شام تک اس قدر تیز ہو گئی کہ سڑک کی دوسری طرف بھی محسوس ہوتی تھی اور ناک کو ڈھانپنا پڑتا تھا۔

53 انچ یعنی ساڑھے چار فٹ کے قریب اونچے پھول کو دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں لوگ آنا شروع ہوئے اور انتظامیہ کو رش کم رکھنے کے لیے ٹکٹ لگانا پڑا۔

اس پھول کا اونچائی چار سے لے کر دس اور بارہ فٹ تک بھی ہو سکتی ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ پھول نو سے دس سال کے بعد کھلتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

پھول کو دیکھنے کے لیے آنے والوں کا کہنا ہے کہ اس کی بو مردہ جانوروں، خراب انڈوں، میلی جرابوں، سیوریج اور کچرے سے ملتی جلتی ہے۔

آخر بدبو کی وجہ کیا ہے؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ کھلنے کے بعد پھول کا درجہ حرارت بڑھنا شروع ہو جاتا ہے اور جلد ہی چالیس تک پہنچ جاتا ہے، جس کے بعد اس سے بدبو پھوٹنا شروع ہو جاتی ہے، جس پر وہ مکھیاں اس کی طرف متوجہ ہو جاتی ہیں جو پودوں کے تولیدی مراحل سے متعلق ذرات کو ایک سے دوسری جگہ پہنچاتی ہیں۔

ماہر نباتات پروفیسر ایرک سکیلر کہتے ہیں کہ چونکہ یہ پھول بہت کم اور تھوڑے وقت کے لیے کھلتے ہیں اس لیے ان کے بارے میں جاننے کا دائرہ بھی محدود ہو جاتا ہے۔

تاہم اب تک کھلنے والے پھولوں سے حاصل کیے گئے ٹشوز کی جانچ کے بعد محقق اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بدبو کی وجہ پوٹریسائن نامی مادہ ہے جو امینو ایسڈ اور ارجی کیمیکل کا امتزاج ہوتا ہے اور اس کی بو خراب گوشت جیسی ہوتی ہے۔

اسی طرح پھول اپنے اندر سلفر اور امینو ایسڈ سے ڈائمیتھل، ڈائسلفائیڈ اور ڈائمیتھل ٹرائسلفائیڈ اور کچھ دوسرے کیمیکل بھی بناتا ہے اور یہی بو کا باعث بنتے ہیں۔  

 


News Source   News Source Text

مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.