ڈونلڈ ٹرمپ متعدد مرتبہ انڈیا کو 'ٹیرف کنگ' قرار دے چکے ہیں اور الزام عائد کرتے ہیں کہ انڈیا تجارتی تعلقات کو 'پامال' کرتا ہے۔ ٹیرف اندورن ملک عائد کیے جانے والا ایک ٹیکس ہے جو بیرون ممالک سے امریکہ پہنچنے والے سامان پر عائد کیا جاتا ہے۔ اس کا نفاذ درآمدات کی قیمت کے تناسب سے ہوتا ہے۔

عام طور پر انڈیا اپنی معیشت میں اصلاحات اسی وقت لاتا ہے حب اسے پریشانی کا سامنا ہوتا ہے اور اس کی بڑی مثال 1991 میں کی گئی اصلاحات ہیں جب اس ملک نے معاشی بحران کے دوران اپنی معیشت کو لبرلائز کیا تھا۔
اب ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے بعد دنیا میں ایک بار پھر تجارت اور ایک دوسرے پر ٹیرف (ٹیکس) عائد کرنے کی جنگ چھڑ گئی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ انڈیا بھی اس کی زد میں آئے گا۔
کیا یہ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت یعنی انڈیا کے لیے ایک ایسا موقع ہے جہاں وہ اپنی معیشت کو مزید وسعت دے سکتا ہے؟ کیا انڈیا اس موقع سے فائدہ اٹھائے گا اور اپنی معیشت میں مزید اصلاحات لائے گا؟
ڈونلڈ ٹرمپ متعدد مرتبہ انڈیا کو 'ٹیرف کنگ' قرار دے چکے ہیں اور الزام عائد کرتے ہیں کہ انڈیا تجارتی تعلقات کو 'پامال' کرتا ہے۔ ٹیرف ایک اندورن ملک عائد کیے جانے والا ٹیکس ہے جو بیرون ممالک سے امریکہ پہنچنے والے سامان تجارت پر عائد کیا جاتا ہے۔ اور اس کا نفاذ درآمدات کی قیمت کے تناسب سے ہوتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ انڈیا آنے والی امریکی مصنوعات پر لگایا جانے والا ٹیکس بہت زیادہ ہے۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں غیر ملکی مصنوعات پر عائد کیے جانے والا ٹیکس دو اعشاریہ دو فیصد، چین میں تین فیصد، جاپان میں ایک اعشاریہ سات فیصد جبکہ انڈیا میں امریکی مصنوعات پر عائد کیے جانے والا ٹیکس 12 فیصد ہے۔
زیادہ ٹیرف یا ٹیکس عالمی ویلیو چینز پر انحصار کرنے والی کمپنیوں کی مصنوعات کی قیمت میں اضافہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ عالمی منڈیوں میں دیگر کمپنیوں سے مقابلہ کرنے میں ناکام ہو جاتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ انڈین شہری درآمدی اشیا خریدنے کے لیے غیر ملکی صارفین سے زیادہ رقم خرچ کرتے ہیں۔
انڈیا کی برآمدات میں اضافے کے باوجود نئی دہلی کو بڑے تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔ عالمی برآمدات میں انڈیا کا حصہ صرف ایک اعشاریہ پانچ فیصد ہے اور اسی سبب نئی دہلی کے لیے یہ چیلنج مزید مشکل ہو جاتا ہے۔
اب اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ کیا ٹرمپ کی ٹیرف جنگ کے سبب انڈیا معاشی اصلاحات متعارف کروائے گا۔
ابھی سے ہی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تحفظ پسندانہ اقدامات کے لیے مشہور وزیرِ اعظم نریندر مودی کی حکومت اپنی حکمت عملی تبدیل کرتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔

پچھلے مہینے واشنگٹن میں وزیر اعظم مودی کی صدر ٹرمپ کے ساتھ ملاقات سے قبل انڈیا نے یکطرفہ طور پر بوربن وہسکی، موٹر سائیکلوں اور کچھ دیگر امریکی مصنوعات پر ٹیکس کم کر دیا تھا۔
انڈیا کے وزیرِ اقتصادیات پییُش گویل ممکنہ تجارتی معاہدے کی تیاری کے لیے حال ہی میں امریکہ کے دو دورے کر چکے ہیں۔ خیال رہے صدر ٹرمپ نے ڈھمکی دی تھی کہ اگر انڈیا نے امریکی مصنوعات پر ٹیرف کم نہیں کیا تو امریکہ بھی انڈیا پر جوابی ٹیکس عائد کرے گا۔
گذشتہ ہفتے انڈین وزیر گویل نے کاروباری شخصیات کو کہا تھا کہ وہ اپنی 'محتاط ذہنیت سے باہر نکلیں اور دنیا کے ساتھ پُر اعتماد اوربہادرانہ طریقے سے پیش آئیں۔'
انڈیا اس وقت برطانیہ، نیوزی لینڈ اور یوروپی یونین کے کئی ممالک کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے کرنے کے لیے بھی سرگرم ہے۔
یہاں دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ انڈیا کی بڑی ٹیلی کام کمپنیاں ریلائنس جیو اور بھارتی ایئر ٹیل انڈیا میں ٹرمپ کے اتحادی ایلون مسک کے ساتھ مل کر ملک میں سیٹلائٹ انٹرنیٹ متعارف کروا رہی ہیں۔
تجزیہ کار ان کمپنیوں کے درمیان شراکت داری پر حیرانی کا اظہار کر رہے ہیں کیونکہ ایلون مسک حال ہی میں ان دونوں نجی کمپنیوں پر تنقید کرتے ہوئے نظر آئے تھے۔
سنہ 1990 اور 2000 کی دہائی میں انڈیا کی معیشت کو عالمی مارکیٹ میں انڈین دواؤں کی کمپنیوں، سافٹ ویئر کی کمپنیوں، ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کی کمپینوں نے بڑھاوا دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انڈیا کی برآمدات پر عالمی مارکیٹ میں ٹیکس بھی کم ہوا تھا۔
ماہرین معیشت کا ماننا ہے کہ انڈیا کے تحفظ پسند رویے سے وزیرِ اعظم نریندر مودی کی 'میک اِن انڈیا' پالیسی کو بھی دھچکا لگا ہے جس کے تحت ٹیکنالوجی اور سافٹ ویئر جیسے شعبوں کو ٹیکسٹائل جیسے شعبے پر فوقیت دی جا رہی ہے۔
نیو یارک یونیورسٹی سے منسلک معیشت کے پروفیسر روال اچاریا کہتے ہیں کہ ٹیکسز کی زیادتی کے سبب انڈین انڈسٹری میں تحفظ پسندانہ یا محتاط رویے کو تقویت ملی ہے جس کے سبب مارکیٹ میں سرمایہ کاری کی بھی حوصلہ افزائی نہیں ہو سکی ہے۔

پروفیسر اچاریا اپنی ایک مکالے میں لکھتے ہیں کہ انڈیا کی انڈسٹری میں توازن کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ 'ملک میں عالمی مصنوعات پر عائد ٹیکس کو کم کیا جائے اور تحفظ پسندی کو کم کیا جائے۔'
انڈیا میں غیر ملکی مصنوعات پر عائد ٹیکس پہلے سے ہی زیادہ ہے اور اس میں مزید اضافہ ملک کے لیے مزید نقصان کا باعث ہوگا۔
اندرا گاندھی انسٹٹیوٹ آف دویلپمنٹ ریسرچ سے منسلک راجیسوری سینگپتا کہتی ہیں کہ 'ہمیں اپنی برآمدات کو بڑھانے کی ضرورت ہے اور ایسے میں ٹیرف کی یہ جنگ ہمارے کسی کام نہیں آئے گی۔ چین یہ جنگ برداشت کر سکتا ہے کیونکہ اس کی برآمدات بہت زیادہ ہیں لیکن ہم عالمی مارکیٹ میں صرف ایک چھوٹا حصہ رکھتے ہیں۔'
'کوئی بھی تجارتی تنازع ہمیں دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ نقصان پہنچائے گا۔'
تاہم ٹرمپ کی نئی پالیسی کے تناظر میں انڈیا کے پاس ایک موقع ہے کہ وہ اپنی تجارتی حکمت عملی کو بدلے۔
کلیئرمونٹ مککینا کالچ سے منسلک ماہر تجارت اسیما سنہا کہتی ہیں کہ انڈیا کے پاس یہ 'نیا موقع ہے کہ وہ عالمی تجارت کے حوالے سے اپنے خیالات کو بدلے۔'
وہ کہتی ہیں کہ اپنی تحفظ پسندانہ پالیسی کو محدود کر کے اور جنوب مشرقی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے ساتھ تجارتی تعلقات کو نیا روپ دے کر انڈیا عالمی مارکیٹ میں ایک مرکزی کھلاڑی بن سکتا ہے۔
'ٹیرف میں کمی کر کے انڈیا نہ صرف اس خطے میں بلکہ اس خطے سے باہر بھی تجارتی اور اقتصادی سرگرمیوں کے حوالے سے ایک مقناطیس کی صورت اختیار کر سکتا ہے، جس کے مدار میں دیگر بڑی طاقتیں بھی گھوم رہی ہوں گی۔'
اس پالیسی کے سبب انڈیا ملک میں ملازمتوں کے نئے مواقع بھی پیدا کر پائے گا۔ انڈیا میں زراعت کے شعبے سے سب سے زیادہ 40 فیصد افراد منسلک ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر تعمیرات کا شعبہ آتا ہے جس سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد منسلک ہے۔
انڈیا کے لیے اپنی انڈسٹری کو آگے بڑھانا زیادہ بڑا چیلنج نہیں ہے بلکہ اس کے لیے سب سے بڑا مسئلہ اپنے بےہنر لوگوں کے لیے روزگار پیدا کرنا ہے۔

پروفیسر راجیسوری کہتی ہیں کہ 'انڈیا کی بڑی ورک فورس غیر تعلیم یافتہ ہے اور ان کے پاس ملازمتیں بھی نہیں اور وہ اکثر تعمیرات یا دیگر بے قاعدہ شعبوں سے منسلک نظر آتی ہے۔'
'اگر انڈیا ان لاکھوں لوگوں کو ملازمتیں فراہم کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنی برآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا کیونکہ وہ اپنی موجودہ انڈسٹری میں ہنر سے عاری لوگوں کو ملازمتِیں فراہم نہیں کر سکتا۔'
انڈیا کو ایک خدشہ یہ ہے کہ مصوعات پر ٹیکس کرنے کے بعد غیر ملکی کمپنیاں مارکیٹ میں سستی اشیا متعارف کروائیں گی جس کے سبب انڈین انڈسٹری کو نقصان ہو سکتا ہے۔
پروفیسر راجیسوری کے مطابق یہاں صحیح پالیسی یہ ہو گی کہ انڈیا 'پوری دنیا کے لیے ٹیرف میں کمی' کر دے کیونکہ ابھی اس کے تجارتی شراکت داروں کے مقابلے میں انڈیا میں غیرملکی مصنوعات پر سب سے زیادہ ٹیکس عائد ہے۔
تاہم یہاں ایک اور خدشہ یہ بھی ہے کہ امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ میں مصروف چین اپنی مصنوعات انڈیا میں بڑے پیمانے پر بھر سکتا ہے۔
پروفیسر راجیسوری کہتی ہیں کہ اس سے بچاؤ کے لیے انڈیا چینی مصنوعات پر پُرانے ٹیکس عائد کر سکتا ہے لیکن صرف اسی وقت جب یہ ثابت ہوجائے کہ چین انڈین مارکیٹس میں اپنی مصنوعات کو بےتحاشہ بھر رہا ہے۔
تاہم گلوبل ٹریڈ ریسرچ انیشیٹو کے بانی اجے شریواستو سمجھتے ہیں کہ 'اقتصادی دباؤ کے بجائے صرف باتوں کی بنیاد پر' اپنی پالیسی میں تبدیلی لانا عالمی مارکیٹ مِیں انڈیا کی کمزوری کا ظاہر کرتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر انڈیا یہ رویہ برقرار رکھتا ہے تو امریکہ کے ساتھ تجارتی مذاکرات میں اسے ضرورت سے زیادہ سمجھوتے کرنے پڑ سکتے ہیں۔
'اگر دنیا کی بڑی معیشتوں کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو تجارتی محاذ پر انڈیا کے سمجھوتے اسے دباؤ کی پالیسی کے سامنے ایک کمزرو ملک کی طرح پیش کریں گے۔'