آج سے کچھ عرصہ قبل پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور کے مضافات میں رنگ روڈ پر سفر کرتے ہوئے ایک مقام ایسا آتا تھا جہاں دور ہی سے سخت قسم کی بد بو بتا دیتی تھی کہ آپ محمود بوٹی کے علاقے سے گزرنے والے ہیں۔ تاہم اب صورتحال اس کے یکسر مختلف ہے، تو پھر گذشتہ چند ماہ میں ایسا کیا ہوا کہ کوڑے کا پہاڑ مٹی میں مل گیا؟

آج سے کچھ عرصہ قبل پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور کے مضافات میں رنگ روڈ پر سفر کرتے ہوئے ایک مقام ایسا آتا تھا جہاں دور ہی سے سخت قسم کی بدبو بتا دیتی تھی کہ آپ محمود بوٹی کے علاقے سے گزرنے والے ہیں۔
یہ بدبو محمود بوٹی میں واقع اس لینڈفل سائٹ سے اٹھتی تھی جہاں کوڑے کا پہاڑ لگ بھگ 80 فٹ اونچا ہو چکا تھا۔ سالہا سال سے لاہور شہر سے اکٹھے ہونے والا 14 ملین ٹن کوڑے کا یہ ڈھیر تقریباً 41 ایکڑ رقبے پر پھیل چکا تھا۔
لیکن یہ بدصورتی اور بدبو کوئی زیادہ بڑا مسئلہ نہیں تھا۔ بڑا مسئلہ وہ خطرناک گیس تھی جو اس میں سے خارج ہو رہی ہے اور جس کی بدبو نہیں ہوتی یعنی میتھین گیس۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مقابلے میں میتھین میں کئی گنا زیادہ موسمیاتی تبدیلی کا سبب بننے کی صلاحیت موجود ہے۔ اگر میتھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ دونوں فضا میں 20 برس تک رہتی ہیں تو میتھین کرہِ ارض کو گرم کرنے کی 80 فیصد زیادہ صلاحیت رکھتی ہے۔
فضا میں آتے ساتھ ہی اس گیس کے مالیکیول فوری طور پر اپنے اندرحدت کو قید کر لیتے ہیں۔ اگرچہ فضا میں اس کی زندگی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مقابلے کم ہوتی ہے تاہم جتنے برس یہ رہتی ہے یہ کرہِ ارض کو گرم کرنے میں کہیں بڑا کردار ادا کرتی رہتی ہے۔
مختلف قسم کی سیٹلائیٹ کی مدد سے سنہ 2021 اور اس کے بعد کے سالوں میں لاہور کی فضا میں میتھین کے بادل دیکھے گئے ہیں۔ خاص طور پر ایک ایسا بادل محمود بوٹی لینڈفل سائیٹ اور اس کے قریب واقع لکھو ڈیر ڈمپ سائیٹ کے اوپر دیکھا گیا تھا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے لاہور ویسٹ مینیجمنٹ کمپنی کے چیف ایگزیکیوٹو آفیسر بابر صاحب دین نے بتایا کہ جریدے بلوم برگ کی ایک رپورٹ کے مطابق ’سنہ 2021 میں اس لینڈ فل سائیٹ کے اوپر ایک میتھین کا ببل دیکھا گیا تھا جس کی وجہ سے بہت بڑا مسئلہ بن گیا تھا۔‘
رپورٹ کے مطابق دیکھے جانے والے میتھین کے اس بادل کا حجم لگ بھگ 126 میٹرک ٹن فی گھنٹہ تھا۔ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے مطابق سنہ 2021 میں پاکستان دنیا کا ساتواں بڑا میتھین کا اخراج کرنے والا ملک تھا۔
صرف میتھین کے ذریعے فضا ہی کو نہیں، محمود بوٹی ڈمپ سائیٹ یہاں لیچیٹ کی صورت میں زیر زمین پانی کو بھی آلودہ اور پینے کے لیے ناقابلِ استعمال بنا رہی تھی۔
سالہا سال تک لاکھوں ٹن کوڑے کے ایک جگہ پڑے رہنے سے جراثوموں کو بارش کے پانی اور موزوں درجہ حرارت کی مدد سے لیچیٹ بنانے کا سازگار ماحول ملتا ہے۔
ایل ڈبلیو ایم سی کے سی ای او بابر صاحب دین کے مطابق ’پھر بارش کے پانی کی مدد سے یہ لیچیٹ نیچے جا کر زیر زمین پانی کو آلودہ کرتا ہے۔‘
تاہم گذشتہ کچھ ماہ سے بتدریج نظروں سے اوجھل ہوتے ہوتے محمود بوٹی ڈمپ سائیٹ کا 14 ملین ٹن کوڑا اب نظروں سے مکمل طور پر اوجھل ہو چکا ہے۔ اب یہاں سے گزرتے ہوئے بدبو بھی نہیں اٹھتی۔ اس کی جگہ مٹی کا ایک پہاڑ نظر آتا ہے۔

کوڑے کا پہاڑ کہاں چلا گیا؟
پنجاب حکومت اور خاص طور پر لاہور شہر اور اس کی فضا کو صاف رکھنے کے ذمہ دار اداروں کے لیے یہ ایک درد سر بن چکا تھا۔ سنہ 2016 میں محمود بوٹی لینڈفل سائیٹ کو بند کر دیا گیا تھا لیکن اب مسئلہ یہ تھا کہ اس قدر زیادہ کوڑے کا کیا جائے۔
لاہور کی فضا میں نکلنے والی یہ میتھین گیس مقامی طور پر علاقے کے درجہ حرارت میں فوری تبدیلی کے ذریعے اس علاقے کا موسم تبدیل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔
لاہور میں بدترین فضائی آلودگی یعنی سموگ کے موسم میں رنگ روڈ کے ساتھ واقع اس علاقے میں سموگ کی شدت زیادہ دیکھنے میں آتی ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان نے دیگر ملکوں کے ساتھ مل کر موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کی 26 ویں کانفرنس یعنی کوپ 26 میں اس بات کا عزم کر رکھا ہے کہ وہ سنہ 2030 تک میتھین کے انسانی ذرائع سے اخراج کی شرح کو 30 فیصد نیچے لائیں گے۔
میتھین کے دو بڑے انسانی ذرائع لائیو سٹاک یعنی جانوروں کا فضلہ اور لینڈ فل سائیٹس ہیں۔ محمود بوٹی سائیٹ سے میتھین کے اخراج کو ختم کرنے کے لیے حکومت نے کئی حربے آزمائے تاہم زیادہ کامیابی نہیں ہوئی۔ اس کی بڑی وجہ ایسے کسی بھی منصوبے پر آنے والے اخراجات تھے۔
حال ہی میں ایل ڈبلیو ایم سی نے راوی اربن ڈویلمپنٹ اتھارٹی کے ساتھ مل کر ایک نیا پراجیکٹ شروع کیا ہے جس میں محمود بوٹی لینڈفل سائیٹ کی بحالی کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اس منصوبے کے ابتدائی مراحل پر کام کے نتیجے میں یہاں موجود 14 ملین ٹن کوڑا مٹی تلے دب چکا ہے۔
اس منصوے پر کام پرائیویٹ کمپنیاں کر رہی ہیں جسے رواں برس اگست تک مکمل کیا جانا ہے۔ اس پر لگ بھگ 1400 ملین روپے خرچ آنے کا تخمینہ ہے۔

حکومت اس منصوبے کے لیے پیسے کہاں سے لائے گی؟
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایل ڈبلیو ایم سی کے سی ای او بابر صاحب دین نے بتایا کہ اس منصوبے کے تحت 41 ایکڑ رقبے پر پھیلی اس لینڈفل سائیٹ سے گیس حاصل کی جائے گی جسے قریبی صنعتوں کو بیچا جائے گا۔
’ساتھ ہی اس کے 11 ایکڑ رقبے پر ایک سولر پارک بنایا جائے گا جو تقریباً پانچ میگا واٹ بجلی بنانے کی صلاحیت رکھے گا۔ باقی 30 ایکڑ پر اربن فاریسٹ اگایا جائے گا۔‘
محمود بوٹی سائیٹ پر لیولنگ اور گریڈنگ کا کام کافی حد تک مکمل ہو چکا ہے۔ یہاں سے ڈرلنگ کر کے لیچیٹ بھی نکالا گیا ہے۔ سائٹ پر گیس کے وینٹس یا اخراج کے لیے پائیپس بھی نصب کیے جا چکے ہیں۔
ان وینٹس میں سے میتھین اب بادل کی صورت میں نکلنے کے بجائے تھوڑی تھوڑی کر کے خارج ہو رہی ہے۔ بابر صاحب دین نے بتایا کہ ’اس حوالے سے سروے کیا جا رہا ہے کہ یہاں سے کتنی گیس مل سکتی ہے۔ اس کے بعد اسے یہاں سے نکالنے کا کام شروع ہو گا۔‘
انھوں نے بتایا کہ اگر وہ زیادہ مقدار میں ہوئی تو اسے قریبی صنعتوں کو سپلائی کیا جا سکتا ہے اور اگر وہ کم ہوئی تو اس کو جلا کر ضائع کر دیا جائے گا۔
تاہم سوال یہ ہے کہ حکومت اتنے برس پہلے ہی یہ کام کیوں نہیں کر پائی۔ اگر اس وقت اس پر آنے والے اخراجات بہت زیادہ تھے تو اب حکومت اتنی بڑی رقم اس پر خرچ کرنے کے لیے کہاں سے لائے گی۔
سی ای او ایل ڈبلیو ایم سی بابر صاحب دین نے بتایا کہ ’اس منصوبے کی اچھی بات یہ ہے کہ اس پر حکومت کا ایک پیسہ خرچ نہیں ہو گا۔‘
انھوں نے بتایا کہ اس پر تمام تر خرچ نجی کمپنیاں کر رہی ہیں اور ان کمپنیوں کو ادائیگی ’کاربن کریڈٹس‘ کے ذریعے کی جائے گی۔

کاربن کریڈٹس کیا ہوتے ہیں؟
کاربن کریڈٹس کو دوسرے الفاظ میں گرین ہاؤس گیس کے اخراج میں مصدقہ کمی بھی کہا جا سکتا ہے۔ جب کوئی کمپنی، شخص یا ادارہ کوئی ایسا پراجیکٹ کرتا ہے جس سے گرین ہاؤس گیس ختم ہو یا کم ہو تو وہ کاربن کریڈٹس پیدا کرتا ہے۔
ایک میٹرک ٹن گرین ہاوس گیس ختم ہونے یا کم ہونے پر ایک کاربن کریڈٹ پیدا ہوتا ہے۔ وہ کمپنی یہ کاربن کریڈٹس کاربن مارکیٹ میں فروخت کر سکتی ہے۔ کاربن مارکیٹ میں وہ کپمنیاں اس سے یہ کریڈٹس خرید لیتی ہیں جو خود اپنی ایمیشنز یا کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے قابل نہیں ہوتیں۔
یوں وہ ایک طرح سے ایسے پراجیکٹس کو فنڈ کر رہی ہوتی ہیں جو کاربن کے اخراج کو کم کر رہے ہیں۔ اس طرح ان کی طرف سے کیے جانے والا اخراج، ختم ہونے والی کاربن یا گرین ہاوس گیسز سے بیلنس ہو جاتا ہے۔
کاربن مارکیٹ دو قسم کی ہوتی ہے جس میں ایک وہ ہے جسے حکومتیں کنٹرول کرتی ہیں تو دوسری رضاکارانہ کام کرتی ہے۔ کاربن کریڈٹس کی قدر کیا ہو گی اس کا اندازہ پراجیکٹ کی کوالٹی اور کاربن مارکیٹ پر منحصر ہوتا ہے۔
لینڈفل سائیٹس کی بحالی سے حکومت کو کتنا پیسہ مل سکتا ہے؟
جن گرین ہاوس گیسز کو کم کرنے پر کاربن کریڈٹس ملتے ہیں وہ مختلف نوعیت کے ہو سکتے ہیں۔ یعنی ان میں کوڑے کی مینیجمنٹ یا ویسٹ مینیجمنٹ کے ذریعے ایمیشنز میں کمی لانا، ویسٹ ٹو انرجی، ٹیکنالوجی کے ذریعے امیشنز کم کرنا، رینیو ایبل انرجی یا پھر قدری طریقوں کے استعمال سے کاربن امیشنز کم کرنا شامل ہیں۔

ان پراجیکٹس کی افادیت کو تھرڈ پارٹی کے ذریعے انتہائی سخت پیمانوں پر پہلے تصدیق کی جاتی ہے کہ وہ واقعی گرین ہاوس گیسز کو ختم یا کم کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اس پراجیکٹ کی افادیت کتنی ہے۔ یعنی وہ کتنی مقدار میں کاربن امیشنز کم کر سکتا ہے۔
اسی پر اس کی قدر کا تعین بھی کیا جاتا ہے۔ سی ای او ایل ڈبلیو ایم سی بابر صاحب دین نے بی بی سی کو بتایا کہ عام طور پر کاربن مارکیٹ میں ایک کاربن کریڈٹ پراجیکٹ کی کوالٹی کو دیکھتے ہوئے پانچ امریکی ڈالر سے لے کر 50 ڈالر تک بکتا ہے۔
’ہمارا ویسٹ مینیجمنٹ کا پراجیکٹ ہے تو ہمیں توقع ہے کہ ہم ایک کاربن کریڈٹ کوئی 18 سے 20 ڈالر کے درمیان بیچ سکیں گے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ایک تفصیلی فیزیبلٹی سٹڈی کی جا رہی ہے جو تین ماہ میں مکمل ہو جائے گی تاہم انھیں امید ہے کہ وہ ایک سال میں اس پراجیکٹ کے ذریعے کاربن کریڈٹس کے ذریعے پانچ لاکھ سے ایک ملین امریکی ڈالر تک کما پائیں گے۔
محمود بوٹی لینڈ فل سائیٹ کی بحالی مکمل ہونے پر یہاں لگنے والے سولر پارک اور یہاں سے نکلنے والی گیس کی کمائی اس کے علاوہ ہو گی جس کا حصہ لاہور کو صاف رکھنے کی ذمہ دار کمپنی ایل ڈبلیو ایم سی کو جائے گا۔

تو کیا میتھین کے اخراج کا مسئلہ حل ہو گیا؟
میتھین کے اخراج کا ایک بہت بڑا ذریعہ جانوروں کا فضلہ ہے۔ تاہم لینڈ فل سائیٹس کی غیر موزوں مینیجمنٹ کا بھی میتھین کے اخراج میں بہت بڑا ہاتھ ہے۔
ان یہ دیکھنا باقی ہے کہ حکومت محمود بوٹی کی بحالی کے اس پراجیکٹ کو پوری طرح مکمل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے یا نہیں۔ اور اگر وہ اس میں کامیاب ہو بھی جاتی ہے تو محمود بوٹی وہ واحد لینڈ فل سائٹ نہیں جہاں لاکھوں ٹن کوڑا موجود تھا۔
محمود بوٹی سائٹ کے بند ہونے کے بعد سے لاہور کا زیادہ تر کوڑا پاس ہی واقع لکھو ڈیر لینڈ فل سائٹ پر جا رہا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر یہاں لگ بھگ پانچ ہزار ٹن کوڑا پھینکا جاتا ہے۔ یہاں بھی کئی ملین ٹن کوڑا جمع ہو چکا ہے اور یہ بھی کئی ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔
لکھو ڈیر بھی میتھین کے اخراج کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ اسی طرح بہت سے چھوٹے بڑے لینڈفل پنجاب کے دیگر شہروں کے باہر بھی موجود ہیں۔
ایل ڈبلیو ایم سی کے سی ای او بابر صاحب دین نے بی بی سی کو بتایا کہ لکھو ڈیر لینڈ فل سائٹ کو بھی اسی طرز پر بحال کرنے کا منصوبہ ہے۔ ’اس کی فیزیبلٹی کے لیے جرمن حکومت نے فنڈ بھی دیا ہے اور اس پر کام ہو رہا ہے۔ یہاں سے بھی گیس نکال کر انڈسٹری کو دی جائے گی۔‘
مستقبل میں اس پر بھی محمود بوٹی کی طرز کا اربن فاریسٹ اور سولر پارک قائم کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے اس طرح کی لینڈفل سائٹس کو ختم کرنا ایک مسئلہ تھا کیونکہ اس پر اخراجات بہت زیادہ آتے تھے۔
تاہم انھیں امید ہے کہ کاربن کریڈٹس کے آنے سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا اور اسی طرز کے منصوبے دیگر مقامات پر بھی کیے جا سکیں گے۔