کراچی میں والد کے ہاتھوں ریپ کا نشانہ بننے والی خاتون کو بچے کی پیدائش کے بعد انصاف کیسے ملا؟

عدالتی دستاویزات کے مطابق مجرم نہ صرف متاثرہ خاتون کا باپ ہے بلکہ ڈی این اے رپورٹ سے واضح ہے کہ یہ اس کے بچے کا بیالوجیکل والد بھی ہے۔ متاثرہ خاتون نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر اپنے والد کے خلاف ریپ کا مقدمہ درج کروایا۔ عدالت میں یہ کیس تین سال تک چلا جس دوران دیگر شواہد کے ساتھ ساتھ بچے کی ڈی این اے رپورٹ بھی پیش کی گئی۔
خاتون
Getty Images
پراسیکیوشن نے عدالت کو بتایا کہ متاثرہ خاتون کو مئی 2020 میں اس کے والد نے قتل کی دھمکی دے کر متعدد بار ریپ کا نشانہ بنایا تھا جس کے بعد وہ حاملہ ہوگئی تھیں

انتباہ: اس تحریر کے بعض حصے قارئین کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں

یہ مئی 2021 کی بات ہے جب کراچی کے رہائشی جنید (فرضی نام) کو فیس بُک پر ایک خاتون فوزیہ (فرضی نام) کا پیغام موصول ہوا جو ان کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدلنے والا تھا۔

یہ پیغام پڑھ کر انھیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا اور آغاز میں تو انھوں نے یہ بھی سوچا کہ ’یہ کوئی فراڈ ہے۔‘

اس پیغام میں خاتون نے کہا کہ ان کے والد نے ان کا ریپ کیا، جس کے نتیجے میں کچھ ماہ قبل انھوں نے ایک بچے کو جنم دیا ہے۔

بی بی سی کو دیے انٹرویو میں جنید بتاتے ہیں کہ میں نے سوچا ’بھلا ایسے کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک والد اپنی ہی بیٹی کا ریپ کرے۔‘

کچھ عرصہ بعد ان کی فوزیہ سے ملاقات ہوئی اور مزید بات چیت ہونے پر انھیں احساس ہوا کہ ’یہ حقیقت ہے اور اس خاتون کے ساتھ بہت ظلم ہوا ہے۔‘

جنید کو معلوم تھا کہ اس سب میں فوزیہ (فرضی نام) کا کوئی قصور نہیں تھا۔ انھوں نے اسی سال فوزیہ سے نکاح کیا اور انصاف کے حصول میں ان کی مدد شروع کر دی۔

کراچی کی ایک عدالت نے فوزیہ کے ریپ کے الزام میں ان کے والد کو 25 سال قید کی سزا سنائی ہے۔

عدالتی دستاویزات کے مطابق مجرم نہ صرف متاثرہ خاتون کا باپ ہے بلکہ ڈی این اے رپورٹ سے واضح ہے کہ یہ اس کے بچے کا بیالوجیکل والد بھی ہے۔

کراچی کی ایک عدالت کے جج نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ’اس کیس میں ملزم متاثرہ خاتون کا اصل باپ ہے اور اس نے کئی بار جرم دہرایا۔ لہٰذا یہ کسی کم سزا کا مستحق نہیں ہو سکتا۔‘

پراسیکیوشن نے عدالت کو بتایا کہ متاثرہ خاتون کو مئی 2020 میں اس کے والد نے قتل کی دھمکی دے کر متعدد بار ریپ کا نشانہ بنایا تھا جس کے بعد وہ حاملہ ہو گئی تھیں۔ متاثرہ خاتون سات ماہ تک حاملہ رہیں اور جنوری 2021 میں انھوں نے ایک بچے کو جنم دیا۔

متاثرہ خاتون نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر اپنے والد کے خلاف ریپ کا مقدمہ درج کروایا۔ عدالت میں یہ کیس تین سال تک چلا جس دوران دیگر شواہد کے ساتھ ساتھ بچے کی ڈی این اے رپورٹ بھی پیش کی گئی۔

20 مئی 2025 کو عدالت نے اپنے فیصلے میں ملزم کو ریپ کے الزام میں 25 سال قید اور دو لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں سنائی جبکہ قتل کی دھمکی کے الزام میں سات سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزائیں دیں۔

’میری اہلیہ کے ساتھ ظلم ہوا‘

عدالتی دستاویزات کے مطابق جنید اور فوزیہ کا نکاح مئی 2021 میں ہوا۔ نکاح سے قبل فوزیہ اپنے والدین اور چھ بہن بھائیوں کے ساتھ رہتی تھیں۔

پراسیکویشن نے عدالت کو بتایا ہے کہ مئی 2020 میں جب فوزیہ کی والدہ بیمار تھیں اور انھیں ہسپتال منتقل کیا گیا تھا تو رات گئے ان کے والد نے انھیں قتل کی دھمکی دے کر متعدد بار ریپ کا نشانہ بنایا تھا۔ فوزیہ کے والد نے انھیں ’کئی بار ریپ کیا جس سے وہ حاملہ ہو گئیں۔‘

عدالتی دستاویزات کے مطابق فوزیہ کی والدہ نے انھیں ’اسقاط حمل کا کہا مگر انھوں نے منع کر دیا۔‘ جنوری 2021 میں سات ماہ حاملہ فوزیہ نے ایک بچے کو جنم دیا۔

عدالت کے فیصلے میں لکھا ہے کہ فوزیہ کے بچے کی پیدائش کے موقع پر ان کی والدہ سے ’ڈاکٹروں نے باپ کا نام پوچھا تو انھوں نے ایک ایسے لڑکے کا نام بتایا جہاں ان کے رشتے کی بات چل رہی تھی۔‘

عدالتی دستاویزات کے مطابق بچے کی پیدائش کے چار ماہ بعد فوزیہ کا جنید سے فیس بک پر رابطہ ہوا اور انھوں نے جنید کو ساری بات بتا دی جس کے بعد جنید نے انھیں شادی کی پیشکش کی۔

کراچی پولیس
BBC

جوڑے نے ’مجبور ہو کر‘ پولیس سے رجوع کیا

عدالتی دستاویزات کے مطابق فوزیہ نے جنید سے شادی کے بعد پولیس کو مطلع کیا۔ پراسیکیوشن نے عدالت کو بتایا کہ فوزیہ کے والد نے جنید کو دھمکی دی تھی اگر اس بارے میں کسی کو بتایا تو وہ انھیں جان سے مار دیں گے۔

جنید نے بی بی سی کو بتایا کہ جب وہ فوزیہ کے گھر ان کا رشتہ لے کر گئے تو ان کے والدین نے انکار کر دیا تھا جس کے بعد انھوں نے فوزیہ کو اپنے ایک دوست کی بہن کے گھر منتقل کر دیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ اس پر فوزیہ کے والدین نے دو دن میں نکاح کے لیے حامی بھر لی۔ ’عدالت میں نکاح کرنے میں مشکلات تھیں کیونکہ میری اہلیہ کا فارم ب، شناختی کارڈ وغیرہ کچھ بھی نہیں بنا ہوا تھا۔‘

جنید نے دعویٰ کیا کہ ’جب میں نے اہلیہ کو واپس چھوڑا تو کہا گیا کہ نکاح دو دن بعد نہیں بلکہ دو سال بعد ہو گا۔‘ انھیں ڈر تھا کہ فوزیہ کے ساتھ اپنے گھر میں بدسلوکی کی جائے گی۔

جنید نے الزام عائد کیا کہ فوزیہ پر دباؤ ڈالا جا رہا تھا کہ وہ ’تھانے جائے اور میرے خلاف مقدمہ درج کروائے مگر اس نے انکار کر دیا تھا۔‘

’میرے والدین سامنے آئے اور انھوں نے دوٹوک کہا کہ لڑکا لڑکی تیار ہیں، اگر اب رکاوٹ ڈالو گے تو قانونی راستہ اختیار کریں گے اور پولیس سے رابطہ کریں گے جس کے بعد مجبور ہو کر انھوں نے نکاح کروایا اور میں اپنی اہلیہ کو لے کر گھر آ گیا۔‘

جنید نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جوڑے کو اس بچے کی زندگی کے حوالے سے خدشات تھے جو کہ فوزیہ کے والد کے خلاف بھی ایک بڑا ثبوت تھا۔

یوں اس جوڑے نے ’مجبور ہو کر‘ پولیس سے رابطہ کیا اور والد کے خلاف ریپ اور جان سے مارنے کی دھمکیوں کا مقدمہ درج کروایا۔

جنید کا کہنا ہے کہ ’میری اہلیہ اپنے والد سے شدید نفرت کرتی ہے۔ مقدمے کے دوران اس کی والدہ نے کئی مرتبہ کہا کہ یہ کیس واپس لے لو مگر اس نے سمجھوتہ نہیں کیا اور جب اس نے سمجھوتہ نہیں کیا تو میں نے بھی اس کا پورا ساتھ دیا تھا۔‘

ایف آئی آر میں فوزیہ کہتی ہیں کہ ان کے والد کوئی کام کاج نہیں کرتے تھے اور ’جب بھی ان کی والدہ گھر سے باہر کام پر جاتی تھیں تو وہ باقی بہن بھائیوں کو گھر سے باہر بھیج کر مجھ سے گندی باتیں کرتے تھے۔‘

مقدمے کے متن کے مطابق مئی 2020 کے دوران ان کی والدہ کی طبیعت خراب ہوئی تو والد نے انھیں ہسپتال داخل کروا دیا جبکہ چھوٹے بہن بھائی دوسرے کمرے میں سو رہے تھے۔ ’رات کے وقت مجھے میرے والد نے جان سے مارنے کی دھمکی دے کر میرے ساتھ منع کرنے کے باوجود ریپ کیا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ وہ خوفزدہ ہونے کی وجہ سے اس معاملے پر چپ رہی تھیں۔ عدالتی فیصلے کے مطابق مجرم نے متاثرہ خاتون کو دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے کسی اور کو اس واقعے کے بارے میں بتایا تو وہ اس کی دیگر بہنوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کرے گا۔

خاتون کے خاوند کا کہنا تھا کہ ’نکاح کے بعد میں اپنی اہلیہ کو گھر لے آیا تھا اور اس کے والد سے پیدا ہونے والے بچے کو بھی گھر لے آیا۔ مگر مختلف خطرات کی بنا پر فیصلہ کیا کہ ہمیں قانون کی مدد لینی چاہیے۔ اسی وجہ سے ہم نے شادی کے کافی عرصہ بعد مقدمہ درج کروایا تھا۔‘

 عدالت نے اپنے فیصلے میں ملزم کو ریپ کے الزام میں 25 سال قید اور دو لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں سنائی جبکہ قتل کی دھمکی کے الزام میں سات سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزائیں دیں۔
BBC
عدالت نے اپنے فیصلے میں ملزم کو ریپ کے الزام میں 25 سال قید اور دو لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں سنائی جبکہ قتل کی دھمکی کے الزام میں سات سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزائیں دیں۔

والدہ نے ذکر کرنے سے روکا مگر ’شوہر اس کے ساتھ کھڑے رہے‘

اس کیس پر تفتیش کرنے والے انسپیکٹر عزیز میمن کا کہنا تھا کہ یہ اتنہائی تکلیف دہ معاملہ تھا۔ ’سارا واقعہ سن کر ہی انتہائی دکھ ہو رہا تھا۔ جیسے جیسے اس کیس کی تفتیش کرتے جا رہے تھے ہم پر حقیقت کھلتی جا رہی تھی کہ یہ خاتون انتہائی متاثرہ تھی۔ خاتون انتہائی تکلیف دہ صورتحال سے گزری تھی۔‘

انسپکٹر عزیز میمن کا کہنا تھا کہ ’کیس کی ابتدا ہی میں تمام ثبوت اور شواہد اکٹھے کر لیے گئے تھے تاکہ مجرم سزا سے نہ بچ سکے۔

’مگر مجرم کی گرفتاری میں مشکلات کا سامنا تھا۔ وہ موبائل فون وغیرہ استعمال نہیں کرتا تھا۔ مجرم کی گرفتاری کے لیے ہمیں کئی راتوں تک چھاپے مارنے پڑے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ماں بننے کے بعد فوزیہ ایک مشکل صورتحال سے دوچار تھیں مگر اس دوران ان کے خاوند نے ان کی بھرپور مدد کی۔ ’اگر وہ اس کی مدد کو نہ آتے تو شاید خاتون کے لیے اس سے بھی زیادہ مشکل حالات پیدا ہوجاتے۔‘

عدالت میں اس کیس کی پیروی کرنے والی اسسٹنٹ ڈسڑکٹ پبلک پراسیکوٹر شیخ حنا ناز شمس کا کہنا تھا کہ اس کیس میں ملزم کو اپنے دفاع کے لیے کوئی وکیل اپنی خدمات دینے کو تیار نہیں تھا جس کے بعد عدالت نے انھیں وکیل کی سہولت فراہم کی۔ ’جب وکیل نے سارے حقائق جانے تو انھوں نے بھی اس کیس میں اپنا وکالت نامہ واپس لے لیا تھا۔‘

پراسیکیوٹر شیخ حنا ناز شمس کا کہنا تھا کہ یہ مقدمہ تین سال تک چلا جس دوران مجرم کو ایک دوسرے وکیل کی خدمات بھی دی گئیں۔ ’متاثرہ خاتون نے انتہائی ہمت اور جرات کے ساتھ ساری صورتحال کا سامنا کیا۔ اس کا خاوند اس کے ہمراہ کھڑا رہا جس کے بعد یہ ممکن ہوا کہ مجرم کو اپنے کیے کی سزا مل سکی۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ کیس کا فیصلہ متاثرہ خاتون کے بیان کے علاوہ ڈی این اے رپورٹ کی بنیاد پر ہوا ہے۔ عدالتی دستاویزات کے مطابق ڈی این اے کی رپورٹ سے ثابت ہوا کہ فوزیہ کے بچے کے بیالوجیکل والد انھی کے باپ ہیں کیونکہ دونوں کا ڈی این اے میچ ہوا جبکہ فوزیہ کے بچے کا ڈی این اے ان کے شوہر سے میچ نہیں ہوا تھا۔

عدالتی دستاویزات کے مطابق مقدمے درج ہونے میں تاخیر اس لیے بھی ہوئی کیونکہ فوزیہ کی والدہ نے انھیں اس بارے میں بتانے سے روکا تھا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’متاثرہ خاتون کو پیٹ میں متواتر درد ہو رہا تھا اور اس درد کے بارے میں اپنی والدہ کو بتایا تو وہ اس کو لے کر ایک لیڈی ڈاکٹر کے پاس گئیں جہاں پر لیڈی ڈاکٹر نے معائنے کے بعد کہا کہ وہ کیوں اتنی چھوٹی عمر میں شادی کر دیتے ہیں۔‘

فیصلے میں کہا گیا کہ ’یہ سن کر متاثرہ خاتون کی والدہ اس کو واپس گھر لے کر آئیں اور اس کو مارنا شروع کر دیا جس پر متاثرہ لڑکی نے بتایا کہ اس بچے کا والد اس کا اپنا والد ہے۔‘

فیصلے میں کہا گیا کہ ’اس موقع پر متاثرہ خاتون کی والدہ نے ایک گلاس توڑ کر اپنے خاوند کو مارنا شروع کر دیا۔ مگر یہ غصہ وقتی تھا اور وہ یہ کہہ رہی تھیں کہ اگر اس کو مار دیا تو ان بچوں کا کیا بنے گا۔‘

بچے کو ٹرسٹ کے حوالے کر دیا گیا

جنید اور فوزیہ نے اس بچے کو ایک ٹرسٹ کے حوالے کیا ہے تاکہ اس کا مستقبل بہتر ہو سکے۔

جنید نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میری اہلیہ کا وہ بیٹا جس کا میں والد نہیں ہوں اور جو عدالت میں بھی ثابت ہوا ہے، ہم نے اس کو کافی سوچ بچار کے بعد ایک ٹرسٹ کے حوالے کر دیا ہے جہاں ہم دونوں کبھی کبھار دیکھنے جاتے ہیں۔ مگر اہلیہ اس کو دور سے ہی دیکھتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ فیصلہ میری اہلیہ کا تھا۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ اس بچے کے بارے میں قریبی رشتہ دار جانتے ہیں کہ یہ کس کا بچہ ہے اور اگر یہ ان کی نظروں میں جوان ہوا تو اس کا مسقبل تاریک ہو گا۔

’اگر یہ رشتہ داروں کی نظروں سے ہٹ کر جوان ہوا تو شاید اس کا مستقبل بہتر ہوجائے۔ اس لیے اس کو ٹرسٹ کے حوالے کر دیا ہے۔‘

جنید کو امید ہے کہ فوزیہ کے والد کو سزا ملنے کے بعد اب وہ خوف کی زندگی سے باہر نکل سکیں گی۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.