نجی میڈیکل کالجوں کی ٹیوشن فیس کی حد مقرر: ’حکومت یہ فیصلہ دس سال پہلے کرتی تو میں بھی میڈیکل کی تعلیم حاصل کر لیتا‘

حکومت نے اعلان کیا ہے کہ میڈیکل سے منسلک نجی تعلیمی اداروں کی ٹیوشن فیسیں اٹھارہ لاکھ سے زیادہ نہیں ہو گی۔ یہ فیصلہ وزیرِاعظم پاکستان کی جانب سے قائم کردہ میڈیکل ایجوکیشن کمیٹی، جس کی سربراہی نائب وزیرِاعظم پاکستان کر رہے ہیں، نے جاری کیا ہے۔

ڈاکٹر فاہما کا تعلق راولپنڈی سے ہے اور انھوں نے چند سال پہلے ہی بی ڈی ایس کا کورس مکمل کیا اور اس وقت ایک نجی ہسپتال میں ڈینٹسٹ کے طور پر کام کر رہی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ آج سے ’پانچ چھے سال پہلے ملک کے سرکاری میڈیکل کالج میں ان کی بی ڈی ایس کی سالانہ فیس صرف بائیس ہزار روپے تھی، جبکہ ان کے ساتھی جو پرائیویٹ میڈیکل کالجز میں تھے، ان کی فیس دس سے گیارہ لاکھ تھی جو بہت بڑا فرق تھا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میں خوش قسمت تھی کہ سرکاری کالج میں داخلہ ملا کیونکہ کسی پرائیویٹ میڈیکل کالج کی فیس بھرنا میرے اور میری فیملی کے بس میں نہیں تھا۔‘

میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیوں میں فیسوں کا یہ فرق اب مزید بڑھ گیا ہے۔ کراچی کے ایک بڑے میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس میں داخلہ لینے والے طلبا کی ایک سال کی فیس پینتیس سے چالیس لاکھ کے درمیان ہے جبکہ نسبتاً کم مشہور پرائیویٹ میڈیکل کالج میں یہی فیس بارہ لاکھ سے شروع ہو کر بائیس لاکھ کے درمیان ہے۔

اب حکومت نے اعلان کیا ہے کہ میڈیکل سے منسلک نجی تعلیمی اداروں کی ٹیوشن فیسیں اٹھارہ لاکھ سے زیادہ نہیں ہو گی۔ یہ فیصلہ وزیرِاعظم پاکستان کی جانب سے قائم کردہ میڈیکل ایجوکیشن کمیٹی، جس کی سربراہی نائب وزیرِاعظم پاکستان کر رہے ہیں، نے جاری کیا ہے۔

اس سے قبل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن کی ذیلی کمیٹینےتمام نجی میڈیکل اور ڈینٹل اداروں کو ہدایات جاری کی تھیں کہ وہ 2024-2025 کے تعلیمی سیشن کے لیے طلبہ سے فیس وصول نہ کریں۔

میڈیکل ایجوکیشن کمیٹی نے گذشتہ ہفتے نجی میڈیکل کالجز کی فیسوں میں کمی کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کمیٹی کے پانچویں اجلاس کی صدارت نائب وزیرِاعظم اسحاق ڈار نے کی جس میں نجی میڈیکل کالجز کی فیسوں کے ضابطے اور ان میں مناسب کمی سے متعلق امور پر غور کیا گیا۔

تفصیلی مشاورت کے بعد، کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ نجی میڈیکل کالجز کی سالانہ ٹیوشن فیس کی حد 18 لاکھ روپے مقرر کرنے کی سفارش کی جائے گی۔

سنہ 1990 تک ملک میں میڈیکل اور ڈینٹل کالجز میں سرکاری شعبہ نمایاں طور پر حاوی تھا، جہاں تقریباً 20 سرکاری میڈیکل اور ڈینٹل کالجز موجود تھے، جبکہ نجی شعبے میں صرف دو کالجز کام کر رہے تھے۔

تاہم، 1990 کی دہائی کے اوائل میںحکومت کی جانب سے نجکاری کے رجحان کے فروغ کے ساتھ ہی یہ توازن نجی شعبے کی جانب جھکنے لگا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نجی میڈیکل کالجز کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

پاکستان میڈیکل کمیشن کے 2021 کے ڈیٹا بیس کے مطابق ملک میں مجموعی طور پر 176 میڈیکل اور ڈینٹل کالجز ہیں۔ ان میں 45 سرکاری اور 72 نجی میڈیکل کالجز ہیں، جبکہ 17 سرکاری اور 42 نجی ڈینٹل کالجز بھی شامل ہیں۔

گذشتہ چند سالوں میں وقت کے ساتھ ساتھ ان کالجز نے جدید انفراسٹرکچر اور بہتر تعلیمی سہولیات کی بنیاد پر اپنی جگہ بنائی، لیکن ان کی فیسیں عام طالب علموں کی پہنچ سے دور ہوتی گئیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اسلام آباد کے ایک نجی میڈیکل کالج کے طالب علم محمد عبداللہ نے اسے خوش آئند کہا، تاہم کراچی کے ایک نجی کالج کے طالب علم علی ثمر کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ ان پرائیویٹ کالجز کے لیے قابل قبول نہیں ہو گا۔

'ہو سکتا ہے کہ اسے چیلنج کر دیا جائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دیگر اخراجات کی مد میں مزید رقم طلبا سے وصول کی جائے۔'

ان کے خیال میں بڑے نجی میڈیکل اداروں کے 'بزنس ماڈل' کو یہ فیصلہ نقصان پہنچائے گا۔ خیال رہے کہ ان میڈیکل کالجز میں ٹیوشن فیس کے علاوہ دیگر اخراجات کی مد میں بھی ایک بڑی رقم وصول کی جاتی ہے۔

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے علی رضا جو اب ایک سرکاری ملازم ہیں، نے بی بی سی کو بتایا کہ حکومت یہی فیصلہ دس سال پہلے کرتی تو وہ بھی طبی شعبے میں تعلیم حاصل کر سکتے تھے۔

'جس سال میں نے اپلائی کیا تب سرکاری میڈیکل کالج میں میرٹ پچاسی فیصد پر بند ہوا اور میرا نام صرف ایک فیصد نمبر کم ہونے کی وجہ سے میرٹ لسٹ میں نہیں آیا۔ جب پرائیویٹ کالجز کی طرف گئے تو وہاں انٹری فیس اور ایڈمیشن فیس ہی اتنی زیادہ تھی کہ ہم افورڈ نہیں کر سکتے تھے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہاں ڈاکٹر بننا صرف امیروں کے بچوں کا حق ہے۔'

وہ کہتے ہیں کہ 'میرے والد ایک سکول ٹیچر تھے اور ہماری پوری زندگی محدود وسائل میں گزری ہے۔ اس کے باوجود ہم نے ہمیشہ تعلیم کو ترجیح دی۔ میں نے اتنی محنت کی، اتنے امتحانات دیے، مگر آخر میں سب کچھ صرف پیسوں کی وجہ سے ختم ہو گیا۔'

علی رضا کے خیال میں 'اگر اس فیصلے پر عملدرآمد ہوا تو نہ صرف نجی میڈیکل کالجز میں میرٹ زیادہ مضبوط ہو گا بلکہ ہزاروں سٹوڈنٹس جو چند نمبروں سے سرکاری کالج میں داخلہ نہیں لے پاتے، انہیں ان نجی اداروں میں اپنی ڈگری کرنے کا موقع ملے گا۔'

دوسری جانب کئی نجی میڈیکل کالجز اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان نجی کالجز کا ماننا ہے کہ اس فیصلے سے ان کے تعلیمی معیار پر اثر پڑ سکتا ہے۔

کراچی کے ایک نجی میڈیکل کالج کے ایڈمنسٹریٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ’اگر حکومت فیس کم کر رہی ہے تو ہمیں سبسڈی بھی دینی چاہیے۔ ہماری لاگت بہت زیادہ ہے، اور میڈیکل ایجوکیشن کی کوالٹی مینٹین رکھنا سستا نہیں ہوتا۔‘

اس فیصلے سے وہ طلبہ سب سے زیادہ مستفید ہوں گے جو میڈیکل کے داخلے کے لیے سخت محنت تو کرتے ہیں مگر فیس کی وجہ سے مجبور ہو کر دوسرے شعبوں میں چلے جاتے ہیں یا پھر بیرون ملک تعلیم کے لیے قرضوں پر انحصار کرتے ہیں۔

کئی کالجز فیس کی یہ حد مقرر ہونے کے بعد اپنی فیسوں کے سٹرکچر پر نظرِ ثانی کر رہے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اسلام آباد کے ایک نجی میڈیکل کالج کے ایم ایس نے بتایا کہ ’اس فیصلے سے پاکستان میں میڈیکل تعلیم کا شعبہ متاثر ہو گا۔ خاص طور پر وہ ادارے جنھوں نے بین الاقوامی معیارات کو سامنے رکھتے ہوئے جدید سہولیات فراہم کی ہیں، ان کے لیے اس فیصلے کو اپنانا مشکل ہو سکتا ہے۔‘

حرا احمد، جو کراچی میں ایک نجی میڈیکل کالج میں داخلے کی خواہشمند ہیں، کہتی ہیں کہ ’میری فیملی کے لیے اتنی بڑی فیس دینا ممکن نہیں تھا۔ یہ فیصلہ میرے جیسے طالب علموں کے لیے بہت اچھا ثابت ہوگا، اب کم از کم میں یہ سوچ سکتی ہوں کہ شاید میرا خواب پورا ہو سکتا ہے۔‘

تاہم کچھ طلبہ کو خدشہ ہے کہ نجی کالجز اس فیصلے کے بعد تعلیم کے معیار کو متاثر کر سکتے ہیں یا پھر غیر ضروری چارجز لگا سکتے ہیں تاکہ اپنی آمدن برقرار رکھ سکیں۔

اس فیصلے کے بعد ان کی نظریں اس پر ہیں کہ آیا حکومت اس پالیسی پر عملدرآمد کروا پائے گی یا نہیں، اور نجی میڈیکل کالجز اس کا جواب کس طرح دیتے ہیں۔

کچھ ماہرین کی رائے میں، فیس کی حد بندی کے ساتھ ساتھ سکالرشپس اور سبسڈی کی فراہمی جیسے مزید اقدامات کیے بغیر میڈیکل تعلیم کو عام آدمی کی پہنچ میں لانا مشکل ہو گا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.