’افغانستان میں اصل طاقت‘: روس اب طالبان کو دہشتگرد تنظیم کیوں نہیں سمجھتا؟

روس نے طالبان پر عائد پابندی ختم کرتے ہوئے انھیں کالعدم دہشتگرد تنظیموں کی فہرست سے نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ روس کے سرکاری میڈیا کے مطابق ملک کی سپریم کورٹ کی جانب سے طالبان سے پابندی ہٹانے کا یہ فیصلہ فوری طور پر نافذ العمل ہو گا۔
طالبان، افغانستان
Getty Images
افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد روسی وزیر خارجہ سرگئی لوروف نے طالبان کو ’سمجھدار لوگ‘ قرار دیا

روس نے طالبان پر عائد پابندی ختم کرتے ہوئے انھیں کالعدم دہشتگرد تنظیموں کی فہرست سے نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ روس کے سرکاری میڈیا کے مطابق ملک کی سپریم کورٹ کی جانب سے طالبان سے پابندی ہٹانے کا یہ فیصلہ فوری طور پر نافذ العمل ہو گا۔

روس میں گذشتہ 20 برس سے طالبان کو دہشتگرد تنظیموں کی فہرست میں رکھا گیا تھا تاہم اب عدالتی حکم کے بعد انھیں اس فہرست سے نکال دیا جائے گا۔

واضح رہے کہ طالبان پر پابندی کے باوجود گذشتہ کچھ برسوں کے دوران روسی حکام نے طالبان کے ساتھ تعلقات رکھے اور ان کے وفود کا ماسکو میں استقبال کیا۔

طالبان کے دورے

سنہ 2024 کے موسم بہار کے دوران روس میں طالبان سے پابندی ہٹانے کے لیے بل تیار کرنے کی کوششیں شروع ہو چکی تھیں۔

مئی 2024 میں روس کے افغانستان کے لیے سفیر ضمیر کابلوف نے اطلاع دی کہ روسی وزارت خارجہ اور وزارت انصاف نے صدر پوتن کو تجویز دی ہے کہ طالبان کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکال دیا جائے۔ کابلوف نے کہا کہ اس کے بغیر روس، طالبان کو افغانستان میں قانونی اتھارٹی کے طور پر تسلیم نہیں کر سکے گا۔

اسی بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے روسی وزیر خارجہ سرگئی لوروف نے کہا کہ یہ تجویز حقائق کی عکاسی کرتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان میں طالبان ہی اصل طاقت ہیں اور روس اس سے لاتعلق نہیں۔

چار اکتوبر کو ضمیر کابلوف نے بتایا کہ طالبان کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکالنے کا فیصلہ پہلے ہی اعلیٰ سطح پر کیا جا چکا ہے لیکن اس کے لیے ’قانونی طریقہ کار کی پیروی کی جائے گی۔‘

اسی دن روس کی فیڈرل سکیورٹی سروس کے ڈائریکٹر الیگزینڈر بورٹنیکوف نے کہا کہ ان کا ادارہ طالبان کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکالنے کا کام مکمل کر رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ افغانستان میں برسراقتدار طالبان کے اقدامات کا مقصد ملک میں ’امن کا قیام اور استحکام کو برقرار رکھنا‘ ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’طالبان داعش کے خلاف لڑنے کے لیے اپنی تیاری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔‘

لیکن طالبان سے پابندی ہٹانے کے لیے صرف بیانات کافی نہیں تھے لہذا 26 نومبر کو روس کی اسمبلی ’سٹیٹ ڈوما‘ میں ایک بل پیش کیا گیا جس کے تحت طالبان کی سرگرمیوں پر عائد پابندی کو عارضی طور پر ہٹایا جا سکے۔

اس بل کے وضاحتی نوٹ میں کہا گیا کہ روسی قانون ’ایسا طریقہ کار فراہم نہیں کرتا جو کسی دہشت گرد تنظیم کی سرگرمیوں پر پابندی کو معطل کرنے کی اجازت دے۔‘

28 دسمبر کو صدر پوتن نے اس بل پر دستخط کر دیے۔

بل کے مطابق اس پابندی کو معطل کرنے کے لیے ملک کے پراسیکیوٹر جنرل (یا اس کے نائب) کی طرف سےمقدمہ دائر کرنا ہو گا، جس کے بعد اس پر عدالتی فیصلہ آئے گا۔

روس کے طالبان کے ساتھ تعلقات

سنہ 1996 سے 2001 تک افغانستان پر حکومت کرنے والے طالبان کو سنہ 2003 میں روس نے دہشتگرد تنظیم قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی عائد کر دی تھی۔

گذشتہ 20 برس کے دوران ایسے بہت سے لوگوں پر کیس بھی چلائے گئے جن پر طالبان کے ساتھ تعلقات کا شبہ تھا۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ روس میں طالبان کے لیے حمایت رکھنے والے افراد پر ’دہشتگردی کا دفاع‘ کرنے کے الزامات بھی لگے۔

طالبان کی جانب روسی حکام کا رویہ اس وقت بدلنے لگا جب طالبان نے کالعدم شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ (داعش) کے خلاف اعلان جنگ کیا۔

سنہ 2015 میں روس کے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے ضمیر کابلوف نے کہا تھا کہ روس اور طالبان کے دولت اسلامیہ کے خلاف جنگ میں مشترکہ مفادات ہیں۔

سنہ 2018 میں طالبان پہلی بار مذاکرات کے لیے ایک وفد کی صورت میں ماسکو پہنچے۔ ان مذاکرات میں روس کی نمائندگی وزیر خارجہ سرگئی لوروف نے کی تھی۔ انھوں نے ان مذاکرات کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ایسے رابطے اسلام پسندوں کو ’مسلح جدوجہد ترک کرنے اور حکومت کے ساتھ بات چیت کے لیے‘ قائل کرنے کی کوشش کے لیے کیے جاتے ہیں۔

اس کے بعد فروری سنہ 2019 میں طالبان ’انٹر افغان ڈائیلاگ فورم‘ میں شرکت کے لیے ماسکو آئے۔ اسی برس مئی میں طالبان کا ایک اور وفد افغانستان اور روس کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کی 100ویں سالگرہ کے موقع پر پر ماسکو آیا۔ اس موقع پر سرگئی لوروف نے کھلے عام اور ذاتی طور پر طالبان وفد کا استقبال کیا۔

پوتن
Getty Images

جب سوشل میڈیا پر اس بارے میں تنقید کی گئی تو روسی وزارت خارجہ نے یہ بیان جاری کیا کہ انھیں اس میں اپنی ساکھ سے متعلق کوئی خطرہ نظر نہیں آتا۔

سنہ 2021 میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد سرگئی لوروف نے طالبان کو ’سمجھدار لوگ‘ قرار دیا۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد روسی حکومت کا رویہ طالبان کی جانب مزید نرم ہو گیا۔

اسی طرح روس کے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے ضمیر کابلوف نے افغان صدر اشرف غنی کی حکومت کی بجائے طالبان کو مذاکرات کے لیے زیادہ موزوں اور قابل قبول قرار دیا۔

اس کے بعد طالبان نمائندوں نے متعدد مواقع پر روس کا دورہ کیا۔

سنہ 2024 میں طالبان نے روسی اسلامک ورلڈ فورم میں بھی شرکت کی جبکہ دو بار سینٹ پیٹسبرگ انٹرنیشنل اکنامک فورم کا بھی حصہ بنے۔ واضح رہے کہ روس کے یوکرین پر حملے کے بعد مغربی ممالک نے اس فورم کا بائیکاٹ کیا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.