7/7 حملے اور فضا میں ’شہادتوں‘ کا منصوبہ: برطانوی خفیہ اداروں نے اپنی ناکامیوں سے کیا سیکھا

سرویلنس کے دوران بنائی گئیں کچھ غیرمعمولی تصاویر جنھیں اب بُھلا دیا گیا ہے لیکن یہ وہ شواہد ہیں جو ضائع ہوجانے والے ان موقعوں کی کہانی سناتی ہیں جن کا استعمال کر کے شاید 20 برس قبل لندن میں ہونے والے خودکش بم دھماکوں کو روکا جا سکتا تھا۔
سنہ 2005 میں 7 جولائی کو چار خودکش حملہ آوروں نے لندن کے پبلک ٹرانسپورٹ نظام کو نشانہ بنایا تھا جس کے نتیجے میں 52 افراد ہلاک ہوئے تھے
BBC
سنہ 2005 میں 7 جولائی کو چار خودکش حملہ آوروں نے لندن کے پبلک ٹرانسپورٹ نظام کو نشانہ بنایا تھا جس کے نتیجے میں 52 افراد ہلاک ہوئے تھے

سرویلنس کے دوران بنائی گئیں کچھ غیرمعمولی تصاویر جنھیں اب بُھلا دیا گیا ہے وہ شواہد ہیں جو ضائع ہوجانے والے ان موقعوں کی کہانی سناتی ہیں جن کا استعمال کر کے شاید 20 برس قبل لندن میں ہونے والے خودکش بم دھماکوں کو روکا جا سکتا تھا۔

یہ 7/7 دھماکوں میں ملوث گروہ کے سرغنہ کی تصاویر تھیں جو سنہ 2001 میں برطانیہ کے علاقے لیک ڈسٹرکٹ میں القاعدہ سے منسلک ایک تربیتی کیمپ میں بنائی گئی تھیں۔

پھر سنہ 2004 کی دو تصاویر ہیں جس میں یہ شخص بم دھماکوں کی تیاری کرنے والے ایک مختلف سیل کے کارندوں سے لندن شہر کے باہر ملاقات کر رہا ہے اور لیڈز واپس پہنچنے تک ایم آئی فائیو کی ایک ٹیم ان کا پیچھا کرتی رہی۔

بی بی سی اردو کے فیچر اور تجزیے براہ راست اپنے فون پر ہمارے واٹس ایپ چینل سے حاصل کریں۔ بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں۔

کسی نے بھی ان تانوں بانوں کو نہیں جوڑا۔ جب اس شخص اور اس کے تین ساتھیوں نے گھر میں بنائے گئے بموں کا استعمال کر کے لندن میں 52 افراد کو قتل کردیا اس کے بعد ہی جا کر معلوم ہوا کہ یہ شخص محمد صدیق خان تھا۔

برطانوی پولیس اور ایم آئی فائیو
PA Media
محمد صدیق خان (دائیں طرف) 7/7 حملوں میں ملوث گروہ کا سرغنہ تھا

سنہ 2005 میں 7 جولائی کو چار خودکش حملہ آوروں نے لندن کے پبلک ٹرانسپورٹ نظام کو نشانہ بنایا تھا جس کے نتیجے میں 52 افراد ہلاک اور 700 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔

محمد صدیق خان کو متعدد بار ایسے افراد سے ملاقات کرتے ہوئے دیکھا گیا جو کہ سکیورٹی اداروں کے لیے پریشانی کا باعث تھے لیکن پھر بھی ان کے خلاف تحقیقات کو فوقیت نہیں دی گئی۔

مہینوں تک میں وزرا اعظم، دیگر اعلیٰ حکاماور سابق شدت پسندوں سے پوچھتا رہا کہ انھوں نے 7/7 بم دھماکوں کے بعد 20 برسوں میں کیا سیکھا ہے۔

ان سوالات کے جوابات کے ذریعے مجھے معلوم ہوا کہ برطانوی ریاست میں ایک ارتقا آیا ہے اور اس کے پاس اب ایسے ٹولز موجود ہیں جن کے ذریعے دہشتگردی میں ملوث افراد کی شناخت کی جا سکتی ہے، ایسے واقعات کو روکا جا سکتا ہے، ان افراد پر مقدمات چلائے جا سکتے ہیں اور انھیں جیل بھی بھیجا جا سکتا ہے۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ دہشتگردی کے خطرات بھی سنہ 2005 کے مقابلے میں اب پیچیدہ شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ 7/7 کو 20 برسوں بعد ہم آج اس وقت کے مقابلے میں کتنے محفوظ ہیں۔

’وہ ایک ناکامی تھی‘

سات جولائی 2005 میں ہونے والے والے حملے برطانیہ کے انسدادِ دہشتگردی نظام کے لیے ایک ایسا لمحہ تھا جس نے سب کو جھنجھوڑ کر رکھ ریا۔

سنہ 2005 میں بم دھماکوں والے دن تک برطانیہ کا دہشتگرد گروہوں کے خلاف ردِعمل بالکل ویسا ہی تھا جیسا آئرش رپبلکن آرمی (آئی آر اے) کے خلاف لڑائی کے دوران تھا اور آئی آر اے ایک ایسا گروہ تھا جو کسی فوج کی طرز پر کام کرتا تھا۔

القاعدہ نے بھی خود کو ایک فوج کی طرز پر منظم کر رکھا تھا، وہ 7/7 حملوں میں ملوث سمیت دیگر کارندوں کو ہدایات اور احکامات جاری کیا کرتی تھی۔ لیکن 7/7 خودکش حملوں سے جو سبق سیکھا گیا وہ یہ تھا کہ یہ موازنہ کچھ زیادہ درست نہیں تھا۔

ایم آئی فائیو اور پولیس کو اندازہ ہوا کہ انھیں القاعدہ کے سیلز میں گھسنے کے لیے مل کر کام کرنا پڑے گا۔

ایم آئی فائیو کی ٹیمیں خفیہ طریقے سے انٹیلی جنس اکھٹی کرنے اور جاسوسی کرنے میں مہارت رکھتی تھی۔ جو افراد ان کی 'دلچسپی کا مرکز' ہوا کرتے تھے ان تک رسائی حاصل کرنا اور خفیہ طریقے سے ان کی باتیں سننے جیسے کام وہ کرلیا کرتے تھے۔

برطانوی پولیس اور ایم آئی فائیو
PA Media
لندن کا ریسل سکوائر ٹیوب سٹیشن

لیکن 7/7 حملوں سے قبل برطانوی ایجنسی یہ معلومات جلدی دیگر اداروں تک پہنچانے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔

ان بم دھماکوں کے وقت پیٹر کلارک میٹروپولیٹن پولیس میں انسدادِ دہشتگردی آپریشنز کے انچارج تھے۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ 'میں نے دہشتگردی کے خلاف کام کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں میں کبھی کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا جو اسے انٹیلی جنس کی ناکامی نہ تصور کرتا ہو۔'

یہ ناکامی بھی پیچیدگیوں پر مشتمل تھی۔ ایم آئی فائیو کے سابق سربراہ اور 7/7 حملوں کے وقت ایجنسی کے نائب سربراہ لارڈ جوناتھن ایونز اس دباؤ کا ذکر کرتے ہیں جو انٹیلی جنس ٹیموں پر تھا۔

'جہاں کاؤنٹر ٹیررازم اور تحقیقات کی بات آتی ہے وہاں آپ کو چیزوں کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ آپ ہر چیز کی تحقیقات نہیں کر سکتے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ آپ ایسی انٹیلی جنس پر کام اور تحقیقات کر رہے ہیں یا نہیں جسے پر فوری توجہ دینی چاہیے، کیا آپ کا انتخاب درست ہے؟'

سنہ 2004 میں 7/7 حملوں میں ملوث گروہ کے سرغنہ کو زیادہ توجہ نہ دینے کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت ایسی انٹیلی جنس موجود نہیں تھی جو اس طرف اشارہ کرتی ہو کہ محمد صدیق خان واقعی ایک حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔

تحقیقاتی ایجنسیاں اس وقت اس وقت ایک ایسے بم دھماکے منصوبے کے خلاف کام کر رہے تھے جس کے حوالے سے ان کے پاس معلومات موجود تھی اور اس تحقیقات کو 'آپریشن کریوس' کا نام دیا گیا تھا۔ اس منصوبے پر کام وہی لوگ کر رہے تھے جن سے محمد صدیق خان نے ملاقاتیں کی تھیں۔

لیکن تلخ سچائی یہ ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ محمد صدیق خان ایک سنجیدہ خطرہ تھے اور ایسا اس لیے ہی ہوا کیونکہ ان کے خلاف مزید تحقیقات کو ترجیح نہیں بنایا گیا تھا۔

برطانوی پولیس اور ایم آئی فائیو
AFP
ایم آئی فائیو اور پولیس کو اندازہ ہوا کہ انھیں القاعدہ کے سیلز میں گھسنے کے لیے مل کر کام کرنا پڑے گا۔

ایم آئیو فائیو نے جہازوں پر متوقع حملوں کو کیسے ناکام بنایا؟

سنہ 2005 میں ہونے والے حملوں نے ایم آئی فائیو اور پولیس کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ وہ کسی شخص کے خلاف تحقیقات میں ابھرنے والے خلا کو کیسے پُر کر سکتے ہیں، خصوصاً اس وقت جب وہ سمجھتے ہوں کہ ان کے پاس موجود انٹیلی جنس کسی کے خلاف تحقیقات کو آگے بڑھانے کے لیے کافی نہیں۔

اس معاملے کا تعلق فنڈز کی کمی سے بھی تھا اور اسی سبب آئندہ برسوں میں فنڈز کو بڑی حد تک بڑھایا گیا۔

لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایم آئی فائیو نے پولیس میں موجود اپنے پارٹنرز کے ساتھ مل کر ایک ایسا نظام بنایا جس کے تحت وہ دہشتگردی کے ممکنہ منصوبہ سازوں کے خلاف موثر تحقیقات کر سکیں۔

اس نظام کے تحت پولیس کو شواہد جمع کرنے اور شدت پسندوں کو جیل بھیجنے میں بہت مدد ملی۔

7/7 دھماکوں کے اگلے برس ہی 'آپریشن اوورٹ' میں اس نظام کی کامیابی نظر آئی۔ کچھ افراد کے پاس القاعدہ کی ایک لکوڈ بم بنانے کی ترکیب تھی اور وہ اس کا استعمال کرتے ہوئے مسافر جہازوں کو تباہ کرنا چاہتے تھے۔

ایم آئی فائیو کو اس گروہ کی تیاریوں کی غیرمعمولی تفصیلات ملیں۔ انھوں نے شدت پسندوں کو بوتلوں اور کیمرے کے فلیش سرکٹ اور گھر میں استعمال ہونے والے دیگر چیزوں کی مدد سے عجیب سی ڈیوائسز بناتے ہوئے دیکھا۔

تفتیش کاروں کو یہ نہیں معلوم تھا کہ شدت پسند کیا کر رہے ہیں لیکن پھر اچانک نگرانی پر مامور انٹیلی جنس ٹیم نے انھیں فضا میں اپنی 'شہادتوں' سے متعلق ویڈیوز بناتے ہوئے دیکھا۔

یہ انٹیلی جنس تمام اداروں کے ساتھ فوری شیئر کی جا رہی تھی اور اس سے قبل کہ شدت پسندوں کی ڈیوائسز پوری طرح تیار ہوتیں پولیس اور پروسیکیوٹرز نے فوراً کارروائی کرتے ہوئے ان افراد کو گرفتار کر لیا۔

'آپریشن اوورٹ' کی کامیابی نے یہ ثابت کیا کہ دہشتگردی کے منصوبوں کو جلدی بھی ناکام بنایا جا سکتا ہے۔

ایم آئی فائیو کے سابق سربراہ لارڈ ایونز کہتے ہیں کہ یہ کامیابی سوچ میں آنے والی تبدیلی کے سبب ممکن ہوئی تھی۔

'ہم لندن میں موجود ایک ادارہ تھے، لیکن جب آپ کو یہ معلوم ہوا کہ 7/7 میں ملوث حملہ آور یارکشائر سے آئے تھے تو معلوم ہوا کہ دہشتگردی کا خطرہ بھی قومی سطح کا ہے۔'

وہ مزید کہتے ہیں کہ 'ہمیں ایک ایسے موثر نیٹ ورک کی ضرورت تھی جو کہ بڑے شہروں میں پولیس کے ساتھ مل کر کام کر سکے اور جلدی اور کامیابی سے یہ معلوم کر سکے کہ مانچسٹر یا برمنگھم یا کسی اور جگہ پر کیا ہو رہا ہے، روایتی طور پر ہم ایسا کام لندن میں کیا کرتے تھے۔'

پھر سنہ 2006 میں برطانوی پارلیمنٹ نے دہشتگردی کے منصوبوں کی تیاری کے خلاف ایک نیا قانون بنا دیا۔ اس قانون کے تحت پولیس کو حملہ آوروں کے خلاف مزید برق رفتاری سے کام کرنے کی اجازت ملی۔

صرف انھیں عدالت کو یہ بتانے کی ضرورت تھی کہ فلاں شخص دہشتگردوں کی سوچ رکھتا ہے، بھلے ہی اس کے منصوبے نے حتمی شکل اختیار نہیں کی ہے لیکن وہ اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے ریسرچ کر رہا ہے۔

میکس ہِل نے برطانیہ میں تاریخ کے پیچیدہ ترین دہشتگردی کے مقدمات پر کام کیا ہے اور وہ 2018 سے 2023 تک پبلک پروسیکیوشن کے ڈائریکٹر بھی رہے ہیں۔

وہ ہمیشہ یہ ہی چاہتے تھے کہ جج اور جیوری کے سامنے ایک مضبوط مقدمہ رکھا جائے اور عوام کی حفاظت کے لیے مجرموں کو لمبی سزائیں سنوائی جائیں، لیکن بم تیار کرنے والے افراد پولیس اور ایم آئی فائیو کے لیے ایک مسئلہ بنے ہوئے تھے۔

میکس ہِل کہتے ہیں کہ 'کسی شخص کو ڈیوائسز نصب کرنے کے مقصد تک کس حد تک پہنچنے دیا جائے؟ اس معاملے کو اب جتنی دور جانے دیں گے، سزا اُتنی ہی زیادہ ملے گی۔ لیکن زیادہ انتظار کرنے کا مطلب یہ تھا کہ زیادہ نقصان اور تباہی کا خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔'

اس کے بعد اداروں کو کامیابیاں در کامیابیاں ملتی رہیں، جاسوسوں نے دہشتگردی کے منصوبہ سازوں کے گروہوں تک رسائی حاصل کی اور ان کے منصوبوں کے حوالے سے بات چیت جاننے کے لیے خفیہ طریقے ایجاد کیے۔

یورپ میں لون ولف حملے

سنہ 2014 میں ہزاروں شدت پسند مرد اور خواتین شام اور عراق میں ان علاقوں میں جانا شروع ہوئے جہاں نام نہاد دولتِ اسلامیہ نے قبضہ کیا تھا، یہ افراد قائل ہو چکے تھے کہ یہ گروہ ایک مثالی ریاست قائم کرنا چاہتا ہے۔

اس گروہ کے نظریہ دانوں نے اپنے پیروکاروں کو کہا کہ اگر وہ شام یا عراق کی طرف سفر نہیں کر سکتے تو اپنے اپنے ملکوں میں حملے کریں۔

یہ ایک نیا اور خوفناک طریقہ تھا جس پر عمل کرتے ہوئے برطانیہ سمیت یورپ میں لون وولف حملے ہوئے۔ اس وقت حکومت نے بیرون ملک سے برطانیہ آنے والے شدت پسندوں کو 'ناکام' بنانے کے لیے دیگر ٹولز کا استعمال کرنے کا فیصلہ کیا، ان کے پاسپورٹ منسوخ کیے اور ان سے برطانیہ کی شہریت بھی لے لی گئی۔

سنہ 2017 میں ایک حملہ تب ہوا جب ایک قاتل نے ویسٹ منسٹر برج پر پیدل چلنے والوں کو گاڑی سے روند دیا اور پارلیمنٹ کے باہر ایک پولیس افسر کو چاقو مار کر ہلاک کر دیا۔

یہ حملہ آور تنہا کام کر رہا تھا اور اس نے خود ہی شدت پسند نظریات اپنائے تھے۔ اس سے قبل کہ اس کے ارادے کوئی جان پاتا اس شخص نے اپنی سوچ کو تشدد میں بدل دیا۔

ان حملوں میں آنے والی شدت اور تسلسل نے انسدادِ دہشتگردی کی کارروائیوں کو مزید پیچیدہ بنا دیا تھا۔

انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں نے بھی یہ سب دیکھا، سیکھا اور 'انتقام' لینے کے لیے اسی طریقے کا انتخاب کیا۔

سنہ 2015 میں دائیں بازو کے کالعدم گروہ نیشنل ایکشن سے تعلق رکھنے والے 25 سالہ شخص نے ایک سُپرمارکیٹ میں سِکھ ڈینٹسٹ کے کلینک پر نسلی تعصب پر مبنی ایک حملہ کیا۔ یہ شخص بھی تنہا ہی کام کر رہا تھا۔

اگلے برس بریگزٹ ریفرنڈم کے دوران جس شخص نے پارلیمنٹ کی رُکن جو کوکس کو قتل کیا وہ بھی تنہا ہی کام کر رہا تھا۔

ان حملوں میں ملوث افراد اور منصوبہ سازوں کے درمیان کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ سب افراد انٹرنیٹ پر موجود مواد کو دیکھ کر شدت پسندی کی طرف راغب ہو رہے تھے۔

لیکن سکیورٹی اداروں نے اس پیچیدگی میں بھی شدت پسندوں کو روکنے کا ایک طریقہ ڈھونڈ لیا۔

ایم آئی فائیو اور ایف بی آئی سمیت دیگر پارٹنرز نے 'آن لائن رول پلیئرز' کی ٹیمیں تشکیل دیں۔ ان ٹیموں میں شامل لوگ چیٹ گروپس میں شدت پسندوں کو بھرتی کرنے والے افراد کے بھیس میں جاتے تھے اور ممکنہ حملہ آوروں کی نشاندہی کر کے ان کے دوست بن جاتے تھے۔

جلد ہی اس طریقہ کار نے ایجنسیوں کو کامیابیوں کے راستے پر گامزن کر دیا۔

سنہ 2017 میں شام میں لڑنے والے ایک شخص کی ہلاکت کے بعد ان کا نوجوان بھتیجا بہت غصے میں تھا اور اس نے ان جاسوسوں 'آن لائن رول پلیئرز' سے ڈاؤننگ سٹریٹ پر حملہ کرنے کے لیے ایک بم طلب کیا۔

یہ پاگل پن پر مبنی ایک منصوبہ تھا لیکن یہ نوجوان اسے عملی جامہ پہنانا چاہتا تھا۔

تاہم 'آن لائن رول پلیئرز' کا یہ نظام عوامی حمایت نہیں حاصل کر سکا کیونکہ انھیں ڈر تھا کہ اس کا استعمال کر کے عام افراد کی بھی جاسوسی کی جائے گی۔

لیکن آج بھی یہ سسٹم ریاست کی ترکش میں ایک اہم تیر ثابت ہو رہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2015 سے لے کر اب تک اس نظام کے ذریعے ایسے پانچہزار افراد کی شناخت ہو چکی ہے جو شدت پسندی کا راستہ اختیار کرنے کی طرف گامزن تھے۔ ان افراد کو کونسلنگ اور مدد کے ذریعے شدت پسند نظریات کو مسترد کرنے کی تعلیم دی گئی۔

ایم آئی فائیو مانچسٹر حملہ روکنے میں کیوں ناکام ہوئی؟

سنہ 2017 میں مانچسٹر ایرینا میں ہونے والے بم دھماکے میں 22 افراد ہلاک ہوئے تھے اور اس وقت انکشاف ہوا کہ ایم آئی فائیو نے نہ صرف ایک خودکش حملہ آور پر توجہ دینے کا موقع ضائع کیا بلکہ اسے روکنے میں بھی ناکام رہی۔ اس حملے کے بعد یہ بات بھی سامنے آئی کہ عوامی تقریبات کے دوران سکیورٹی کے ناقص انتظامات کا غلط فائدہ بھی اُٹھایا جا سکتا ہے۔

فیگن مرے کے بیٹے مارٹن ہیٹ ان 22 افراد میں سے ایک تھے جو اس بم دھماکے میں ہلاک ہوئے۔

وہ کہتی ہیں کہ 'آپ کبھی بھی یہ تمام چیزیں قبول نہیں کر سکتے، یہ ایک ظلم ہے۔ دہشتگرد حملے کرنے والوں کو اس کی پرواہ ہی نہیں ہوتی کہ وہ کس کو قتل کر رہے ہیں۔ متعدد کیسز میں وہ لوگوں کا انتخاب بھی نہیں کر رہے ہوتے۔'

'ہمارے پیاروں کی زندگیاں اس بڑے کھیل میں پیادوں سے زیادہ نہیں ہیں کیونکہ یہ دہشتگرد صرف اس کے ذریعے ریاست کو ایک پیغام دینا چاہتے ہیں۔'

فیگن مرے نے ایک سابق پولیس افسر نِک ایلڈورتھ کے ساتھ مل کر حکومت کو 'مارٹنز لا' بنانے پر قائل کیا۔

اس قانون سازی کے تحت تقریبات کے مقامات پر سکیورٹی پلان کی موجودگی کو لازمی قرار دیا تاکہ ان مقامات پر دہشتگردی کے واقعات کو روکنے میں مدد حاصل ہو سکے۔

اگر کسی مقام پر منعقد ایونٹ پر 800 سے زیادہ لوگ ہیں تو وہاں سی سی ٹی وی کیمرے اور سکیورٹی سٹاف کی موجودگی کو لازمی قرار دیا گیا۔ جس مقام پر 200 سے زیادہ افراد موجود ہوں وہاں بھی عوام کی حفاظت کے لیے پلان کی موجودگی کو لازمی قرار دیا گیا اور انھیں سٹاف کو ایمرجنسی میں کام کرنے کی تربیت دینے کا کہا گیا۔

مثال کے طور پر لندن کے اوٹو ارینا میں آنے والے مہمانوں کی جانچ پڑتال بالکل ویسے ہی کی جاتی ہے جیسے ایئرپورٹ آنے والے مسافروں کی کی جاتی ہے۔ وہاں ہتھیاروں کی شناخت کرنے والی مشینیں بھی نصب ہیں۔

نظریات کی عدم موجودگی میں تشدد

کاؤنٹر ٹیررازم پولیس کے موجودہ سربراہ ڈپٹی اسسٹنٹ کمشنر وکی ایونز کہتی ہیں کہ ان کے افسران دیکھ رہے ہیں کہ مشتبہ افراد میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہوتی جا رہی ہے اور انٹرنیٹ پر موجود پرتشدد مواد کا ان کی ذہن سازی میں ایک بڑا کردار ہے۔

کچھ کیسز میں افسران یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ نظریات کی عدم موجودگی کے باوجود دہشتگردی سے متاثر تشدد پر راضی افراد کا کیا کیا جائے؟

پولیس ایسے متعدد کیسز کو پریونٹ کاؤنٹر ریڈیکل آئزیسن پروگرام کی طرف بھیج دیتی ہے تاکہ اس شعبے میں مہارت رکھنے والے افراد ان نوجوانوں کی مدد کر سکیں۔

ساؤتھ پورٹ میں تین کم سن بچیوں کو قتل کرنے والے شخص ایکسل روڈاکوبانا ان افراد میں شامل تھے جن کی شناخت متعدد مرتبہ بطور پُرتشدد سوچ کے حامل شخص کے کی گئی تھی۔ آئندہ ہونے والی انکوائری اس معاملے کو جانچ کر جوابات تلاش کرے گی کہ کیا ہمیں لفظ 'دہشتگردی' کے معنی پر دوبارہ سوچنے کی ضرورت ہے۔

برطانوی سیکریٹری داخلہ یوویٹ کوپر کا فلسطین ایکشن گروہ پر دہشتگردی کے قوانین کے تحت پابندی کا حالیہ فیصلہ بھی اس حوالے سے ہونے والی قومی بحث کا حصہ بن گیا ہے کہ کاؤنٹر ٹیرر ازم نیٹورک کو ایسے خطرات سے کیسے نمٹنا چاہیے۔

آج برطانیہ کے کاؤنٹر ٹیررازم نیٹ ورک کے پاس لندن میں ایک خفیہ ہیڈکوارٹر موجود ہے جو کہ انتہائی مؤثر طریقے سے کام کر رہا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ دہشتگردی کے خطرات میں بھی تبدیلیاں آ گئی ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ سنہ 2017 سے اب تک ملک میں 15 دہشتگردی کے واقعات رونما ہو چکے ہیں اور اس کے علاوہ انھوں نے 43 ایسے منصوبوں کو ناکام بنایا ہے جو کہ 'حتمی مراحل' میں تھے۔

7/7 حملوں کے بعد اس وقت کے وزیرِ اعظم سر ٹونی بلیئر پر الزام لگا تھا کہ وہ سکیورٹی سروسز کو اختیارات دیتے وقت شخصی آزادیوں کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

میں نے سر ٹونی بلیئر سے پوچھا کہ کیا وہ ان اختیارات اور شخصی آزادیوں کے درمیان توازن قائم کرنے میں کامیاب رہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ 'سب سے بنیادی شخصی آزادی تشدد اور دہشتگردی کے خلاف حفاظت ہے۔'

'آپ کو خود سے پوچھنا پڑے گا کہ کیا ہمارے پاس موجودہ ٹولز دہشتگردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے کافی ہیں۔'


News Source

مزید خبریں

BBC
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts