پنجاب میں ایک باقاعدہ انوائرنمنٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ پہلے سے موجود ہے تو لاہور کی انوائرمنٹ پروٹیکشن فورس میں نیا کیا ہے؟ مثال کے طور پر یہ فورس ایسا کیا نیا کر سکتی ہے کہ لاہور میں فضائی آلودگی کا باعث بننے والے دو بڑے عناصر یعنی گاڑیوں اور فیکٹریوں کے دھویں پر قابو پایا جا سکے؟
پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور کا شمار دنیا کے اُن شہروں میں ہوتا ہے جو فضائی آلودگی میں سرِ فہرست رہتے ہیں۔ سال کے زیادہ تر دن لاہور فضائی آلودگی کے اعتبار سے دنیا کا آلودہ ترین شہر رہتا ہے۔
سنیچر کے روز بھی لاہور میں فضائی آلودگی ناپنے کا پیمانہ ایئر کوالٹی انڈیکس 170 اے کیو آئی سے زیادہ تھا۔ یہ انسانی صحت کے لیے مضر سطح تصور کی جاتی ہے۔ صحت افزا فضا کے لیے اے کیو آئی 50 سے کم رہنا چاہیے۔
ہر سال موسم سرما کے آغاز میں لاہور میں سموگ کی صورت میں یہ مسئلہ مزید گمبھیر ہو جاتا ہے۔ گذشتہ برس اے کیو آئی 1000 سے تجاوز کر گیا تھا۔ پنجاب میں آنے والی متعدد حکومتیں اس مسئلے سے نمٹنے کی کئی کوششیں کرتی آئی ہے تاہم بظاہر تاحال خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی ہے۔
حال ہی میں حکومت نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک کوشش اور کی ہے جس کے تحت پنجاب حکومت نے چند روز قبل لاہور میں ’انوائرمنٹ پروٹیکشن فورس‘ کا آغاز کیا ہے۔
پنجاب کی وزیراعلی مریم نواز نے اس نئے سکواڈ کی پاسنگ آؤٹ پریڈ کا جائزہ لیا جس میں سبز رنگ کی وردی میں ملبوس اس نئی فورس کے اہلکاروں کو موٹر سائیکلوں اور ہائبرڈ گاڑیوں میں سوار پریڈ میں حصہ لیتے دیکھا جا سکتا تھا۔ اس نئی فورس کے کام کے حوالے سے پنجاب کی وزیر ماحولیات مریم اورنگزیب نے بتایا کہ اس فورس کا ’ای بائیکس سکواڈ ایکو فرینڈلی یونٹ کے طور پر کام کرے گا۔‘
اسے بظاہر کام کی نوعیت کے اعتبار سے مختلف کلر کوڈز دیے گئے ہیں۔ جیسا کہ ’بلیو سکواڈ‘ آبی ذخائر کو محفوظ بنانے، گاڑیوں کے فیول کی ٹیسٹنگ اور زہریلے دھویں کے خلاف کام کرے گا۔
اسی طرح ’ریڈ سکواڈ‘ صنعتی علاقے اور ہسپتالوں میں مضر صحت مواد سے بچاؤ اور ’گرین سکواڈ‘ شہری علاقوں میں اینٹی پلاسٹک مہم، دھول مٹی اور ڈینگی کنٹرول کے لیے کام کرے گا۔
وزیر ماحولیات کے مطابق ایک ’ہاک آئی سکواڈ‘ 360 ڈگری لائیو کیمروں اور 11 اندھیرے میں دیکھنے والے ڈرونز کی مدد سے ماحولیاتی نگرانی کرے گا۔
اسی طرح اس فورس میں ایک ’پٹرولنگ اینڈ ویجیلنس سکواڈ‘ اینٹوں کے بھٹوں کی نگرانی کے لیے آٹھ عدد ڈبل کیبن گاڑیوں پر مشتمل برک کِلن سکواڈ اور پوائنٹ سورس پلوشن مانیٹرنگ سکواڈ شامل ہیں۔ اس نئی فورس میں چھ موبائل ایئر کوالٹی مانیٹرز بھی شامل کیے گئے ہیں۔
تاہم سوال یہ ہے کہ پنجاب میں ایک باقاعدہ انوائرنمنٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ پہلے سے موجود ہے تو اس نئی فورس میں نیا کیا ہے؟ مثال کے طور پر یہ فورس ایسا کیا نیا کر سکتی ہے کہ لاہور میں فضائی آلودگی کا باعث بننے والے دو بڑے عناصر یعنی گاڑیوں اور فیکٹریوں کے دھویں پر قابو پایا جا سکے؟
کیا یہ فورس محض گاڑیوں، بائیکس اور جدید گیجٹس کی تبدیلی ہے یا ان کے پاس عملی طور پر ماحولیات کے قوانین کا نفاذ کروانے کے اختیارات بھی ہوں گے؟
اس مضمون میںبی بیسی نے انھی سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔
نئی فورس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
پنجاب کی وزارت ماحولیات کے سیکریٹری راجہ جہانگیر انور نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پنجاب میں ماحولیات کے تحفظ کے حوالے سے موثر اور سخت قوانین کئی برسوں سے موجود تھے تاہم ان پر مکمل طور پر عملدرآمد کبھی نہیں ہو پایا۔
’اس کی بنیادی اور بڑی وجہ انوائرنمنٹ پروٹیکشن کے ادارے کی استعداد اور صلاحیت میں کمی تھی۔ یہ ادارہ محض این او سیز جاری کرنے تک محدود رہ گیا تھا۔‘
اُن کے پاس افرادی قوت اور جدید آلات کی بھی کمی تھی۔ انھوں نے بتایا کے فیلڈ اسسٹنٹس اور انسپکٹرز وغیرہ کے پاس موجود موٹر سائیکل اور گاڑیاں بھی بہت پرانی تھیں۔
’گذشتہ 12 برسوں میں کوئی نئی بائیکس نہیں خریدی گئی تھیں۔‘
سیکریٹری راجہ جہانگیر کے مطابق اِس وجہ سے قوانین کو لاگو کروانے والے اہلکاروں نے فیلڈ میں جانا ہی چھوڑ رکھا تھا۔
سیکریٹریماحولیات پنجاب نے بتایا کہ اس ادارے کو آج سے کچھ برس قبل جاپان کے ادارے جائیکا کی طرف سے سات ایئر کوالٹی مانیٹر دیے گئے تھے۔ اُن کی دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے اب پورے پنجاب میں صرف تین مانیٹرز کام کر رہے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ ان تمام مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت نے جدید طرز پر ایک نئی فورس قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔
نئی فورس میں نیا کیا ہے؟
اس نئی انوائرنمنٹ پروٹیکشن فورس کو الیکٹرک بائیکس دی گئی ہیں۔ اس پر سوار اہلکار کو جدید آلات دیے گئے ہیں۔ ان کے جسم پر باڈی کیم نصب ہو گا اور بائیک پر جی پی ایس ٹریکر لگا ہو گا۔
ساتھ ہی ان کے پاس موقع پر ہی گاڑی کی امیشن یعنی اس سے دھویں کے اخراج کو چیک کرنے کے آلات موجود ہوں گے جو یہ بتائیں گے کہ گاڑی جو دھواں چھوڑ رہی ہے وہ قانون میں مقرر کردہ حد کے مطابق ہے یا نہیں۔
اس موٹر بائیک سکواڈ کے اہلکار کے پاس ایکو واچ اور ایک ٹیب موجود ہو گی جس میں موقع پر ہی تمام ڈیٹا اور شواہد اپ لوڈ کر دیے جائیں گے۔ ان کو جو بائیکس دی گئی ہیں وہ ایک چارج میں لگ بھگ 90 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر سکتی ہے۔
اسی طرح اس فورس کو ٹویوٹا کرولا کراس ہائبرڈ گاڑیاں فراہم کی گئی ہیں۔ ان گاڑیوں میں دیگر جدید آلات کے ساتھ ساتھ اندھیرے میں دیکھنے کی صلاحیت رکھنے والے 11 ڈرون کیمرے موجود ہوں گے۔ ان کمیروں کو چلانے کے لیے جی آئی ایس ماہرین بھی موجود ہوں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ پنجاب بھر میں 60 مقامات پر نئے ایئر کوالٹی مانیٹرز نصب کیے گئے۔ ایک مانیٹر کا دائرہ کار ساڑھے چار کلومیٹر تک ہوتا ہے۔
سنیچر کے روز بھی لاہور میں فضائی آلودگی ناپنے کا پیمانہ ایئر کوالٹی انڈیکس 170 اے کیو آئی سے زیادہ تھاموٹر بائیکس سکواڈ
ایک سوال یہ بھی ہے کہ یہ فورس گاڑیوں، فیکٹریوں کے دھویں کے خلاف کیا ایکشن لے سکے گی؟
سیکریٹری انوائرنمنٹ پنجاب راجہ جہانگیر نے بی بی سی کو بتایا کہ نئی انوائرنمنٹ پروٹیکشن فورس میں باقاعدہ بھرتی کے عمل کے ذریعے پڑھے لکھے لوگوں کو بھرتی کیا گیا ہے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ نئی بھرتیاں کرنے کے لیے ادارے میں موجود ایسی آسامیوں کو ختم کیا گیا جو فاضل ہو چکی تھیں اور ان کی جگہ 250 نئی آسامیاں جاری کی گئیں۔
’ہم نے قابلیت ایف اے یا ایف ایس سی رکھی تھی لیکن ہمارے پاس 80 فیصد ایسے لوگ آئے ہیں جو انوائرنمنٹل سائنسز میں ایم فل ہیں۔ ہم نے ان سب کو باقاعدہ طور پر دو ماہ ٹریننگ دی ہے جس کے بعد انھیں فیلڈ میں لایا گیا ہے۔‘
راجہ جہانگیر نے بتایا کہ فورس کے اہلکار موقع پر جرمانہ کرنے، سیل کرنے اور ضبط کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ تاہم ان کے ان اختیار کے استعمال پر بھی چیک رکھا گیا ہے۔ مثال کے طور پر گھٹیا ایندھن استعمال کر کے دھواں چھوڑنے والی فیکٹری کو سیل کرنے کا اختیار ضلعی افسر کے پاس ہو گا۔
’سکواڈ کے اہلکار اس فیکٹری کے خلاف تمام تر شواہد جمع کر کے موقع سے ہی ٹیب کے ذریعے جمع کر دیں گے اور اس کو سیل کرنے کا عمل ضلعی افسر مکمل کر لے گا۔‘
اسی طرح انھوں نے بتایا کہ سکواڈ کی گاڑیوں میں موجود جی آئی ایس ایکسپرٹس ڈرون کیمروں کی مدد سے دور ہی سے خلاف ورزی کرنے والی فیکٹریون کا پتہ لگا لیں گے اور ان کی ویڈیو بھی ریکارڈ کر لیں گے۔
راجہ جہانگیر کے مطابق لاہور شہر کے آٹھ داخلی راستوں سے رات کے وقت لگ بھگ 15000 بڑی گاڑیاں تعمیراتی ساز و سامان وغیرہ لے کر شہر میں داخل ہوتی ہیں۔
نئی فورس کے سکواڈز ان گاڑیوں کی ایمیشنز کو چیک کریں گے اور آلودگی پھیلانے والی گاڑیوں کے خلاف موقع ہی پر ایکشن لیں گے۔ اس کو انجام دینے کے لیے سکواڈ کے اہلکار ان راستوں پر پکٹس قائم کریں گے۔
اسی طرح فورس کے اہلکار جدید آلات کی مدد سے گاڑیوں کے فیول، ان سے دھویں کے اخراج اور نوائز پلوشن کو بھی جانچیں گے۔ اس کے ساتھ تین موبائل فیول ٹیسٹنگ لیبارٹریز بھی انھیں فراہم کی گئی ہیں جو پٹرول سٹیشنز پر فیول کے معیار کو بھی چیک کریں گے۔
راجہ جہانگیر نے بتایا کہ یہ سکواڈز پانی کی ضیاع پر بھی ایکشن لیں گے۔ انھیں چھ عدد موبائل ایئر کوالٹی مانیٹرز بھی دیئے گئے ہیں جو مختلف مقامات سے ایئر کوالٹی چیک کر سکتے ہیں۔
’اصل مسئلہ کرپشن سے بچنا ہو گا‘
علیم بٹ ماہر ماحولیات اور ایشیئن کنسلٹنگ انجینیئر ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ماضی میں انوائرنمنٹ پروٹیکشن کے قوانین پر موثر عملدرآمد نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ ادارے کے اہلکاروں کی طرف سے کرپشن وغیرہ بھی تھی۔
’اصل مسئلہ کرپشن سے بچنے کا ہو گا۔ پہلے ان حکومتی اداروں کے اہلکار مثال کے طور پر فیکٹریوں وغیرہ سے پیسے لے لیتے تھے اور ان کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی تھی۔ اگر نئی فورس ایسی پریکٹسز سے بچی رہی تو موثر ثابت ہو سکتی ہے۔‘
علیم بٹ کا کہنا تھا کہ یہ فورس بنانے کا حکومتی اقدام اچھا ہے اور اس کو کافی پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔
انھوں نے بھی اس بات سے اتفاق کیا کہ اس سے قبل انوائرنمنٹ پروٹیکشن کے ادارے میں افرادی قوت اور وسائل کی شدید کمی تھی۔
سیکریٹری انوائرنمنٹ پنجاب راجہ جہانگیر نے بی بی سی کو بتایا کہ اس فورس کو جس قسم کے چیلنجز کا سامنا ہو سکتا تھا اس کا پہلے ہی سے اعادہ کر لیا گیا تھا اور کرپشن کا پہلو بھی اس میں شامل تھا۔
’یہی وجہ ہے کہ ان اہلکاروں پر لائیو باڈی کیمز لگائے گئے ہیں اس لیے وہ جو کچھ بھی کر رہے ہوں گے وہ کنٹرول روم میں ریکارڈ ہو رہا ہو گا۔ اسی طرح جی پی ایس ٹریکر کی مدد سے ان کی تمام تر حرکت بھی مانیٹر ہو رہی ہو گی۔ اسی طرح ان کو دیئے گئے اختیارات پر بھی چیکس ہیں۔‘
راجہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ نئی فورس کی تشکیل کے وقت ایسے تمام تر چیلنجز کے بارے میں سوچ سمجھ کر پالیسیاں بنائی گئی ہیں۔
کیا فضائی آلودگی کے مسئلے پر قابو پا لیا جائے گا؟
فائل فوٹوماہر ماحولیات علیم بٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ لاہور میں فضائی آلودگی کا سب سے بڑا ذریعہ گاڑیوں کا دھواں ہے جس کا تناسب 70 فیصد سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد فیکٹریوں کا دھواں اور بعد میں چاول کی مڈھی اور دیگر ذرائع آتے ہیں۔
’اس لیے فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے سب سے اہم ہو گا کہ گاڑیوں کے دھوئیں پر قابو پایا جائے۔ اس کے لیے گاڑیوں میں استعمال ہونے والے فیول کی کوالٹی کو بھی بہتر کرنا ہو گا اور گاڑیوں کے اخراج کو بھی دیکھنا ہو گا۔‘
علیم بٹ کا کہنا تھا کہ نئی فورس درست سمت میں حکومت کا ایک قدم ہے تاہم فضائی آلودگی اور خاص طور پر گاڑیوں سے نکلنے والی آلادگی پر قابو پانے کے لیے حکومت کو مزید کئی اقدامات کرنا ہوں گے۔
’دنیا کے دوسرے بڑے شہروں کو بھی اگر آپ دیکھیں تو وہاں بھی یہ مسائل تھے جیسا کہ لندن وغیرہ لیکن انھوں نے پبلک ٹرانسپورٹ کو بہتر کیا اور سڑک پر گاڑیوں کی تعداد کو کم کیا۔‘
علیم بٹ کے مطابق لاہور میں حکومت نے پبلک ٹرانسپورٹ شروع ضرور کی ہے تاہم وہ اس معیار کی نہیں ہے کہ زیادہ تر متوسط طبقے کے لوگ بھی گاڑی چھوڑ کر اس پر سفر کرنے کو ترجیح دیں گے۔ ان کے خیال میں یہی وجہ ہے کہ لاہور میں گاڑیوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
’حکومت کو لوگوں کو گاڑیاں چھوڑ کر پبلک ٹرانسپورٹ یا میس ٹرانزٹ سسٹم پر لانا ہو گا۔ تب ہی گاڑیاں کم ہوں گی اور دھواں کم ہو گا۔‘
وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں گاڑیوں میں جو فیول استعمال ہو رہا ہے اس کی کوالٹی اتنی خراب ہے کہ وہ بہت زیادہ آلودگی پیدا کرتا ہے۔ انھوں نے تجویز کیا کہ حکومت کو ریفائنریز پر دباو ڈال کر اندھن کی کوالٹی کو بہتر کرنا ہو گا۔
علیم بٹ نے بتایا کہ لاہور میں بہت سی فیکٹریوں اور کارخانوں میں اب بھی یہ پریکٹس ہے کہ وہاں ٹائر جلائے جاتے ہیں یا گھٹیا قسم کا ایندھن استعمال کیا جاتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اگر حکومت گاڑیوں کی تعداد میں کمی اور فیول کی کوالٹی کو بہتر کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو لاہور میں فضائی آلودگی کو بہت حد تک کم کیا جا سکے گا۔
تو کیا رواں برس لاہور میں سموگ نہیں ہو گی؟
سیکریٹری انوائرنمنٹ پنجاب راجہ جہانگیر انور نے بی بی سی کو بتایا کہ حکومت نئی فورس اس لیے بھی جلدی میدان میں لانا چاہتی تھی کیونکہ لاہور میں سموگ کے سیزن کو شروع ہونے میں لگ بھگ چار ماہ کا وقت باقی ہے۔
’ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم جلدی شروع کریں۔ وہ اقدامات جو سموگ کا سیزن شروع ہونے پر کیے جاتے تھے ہم چاہتے ہیں کہ ہم بہت پہلے سے شروع کریں اور جب سموگ کا سیزن آئے تو ہم تمام تر حفاظتی اقدامات کر چکے ہوں۔‘
تاہم ماہر ماحولیات علیم بٹ کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کہ نئی فورس بنانے اور اس کے اقدامات سے فوری طور پر سموگ کا خاتمہ ممکن ہو جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے سامنے لندن اور بیجنگ کی مثالیں موجود ہیں۔ لندن کو سموگ کا خاتمہ کرنے پر 30 برس اور بیجنگ کو لگ بھگ 12 برس لگے۔
’ان کے ہاں بھی ایسے ہی مسائل تھے، کوئلے کو ایندھن کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا، شہروں میں فیکٹریاں تھیں، گاڑیوں کا بے شمار دھواں تھا۔ انھوں نے اس پر کام کیا اور آہستہ آہستہ ان تمام آلودگی کے ذرائع کو ختم کیا تب جا کر کئی سالوں میں سموگ ختم ہوئی۔‘
علیم بٹ کے مطابق لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی حکومت کو ایسا ہی کرنا پڑے گا تب کچھ سالوں میں لاہور سے سموگ کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
سیکرٹری انوائرنمنٹ پنجاب راجہ جہانگیر نے بتایا کہ حکومت پنجاب لاہور کے بعد پانچ مزید اضلاع میں جہاں آلودگی کا مسئلہ ہے وہاں مستقبل میں ایسی فورس قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔