ہر صبح انڈیا کے اخبارات سڑک حادثات کی خبروں سے بھرے رہتے ہیں۔ یہ روزانہ کے سانحے ایک خاموش بحران کی نشاندہی کرتے ہیں کیونکہ صرف 2023 میں، 172،000 سے زیادہ لوگ انڈیا کی سڑکوں پر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
صرف 2023 میں، 172،000 سے زیادہ لوگ انڈیا کی سڑکوں پر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھےہر صبح انڈیا کے اخبارات سڑک حادثات کی خبروں سے بھرے رہتے ہیں جن میں مسافر بسیں پہاڑی کھائیوں میں گر جاتی ہیں، نشے میں دھت ڈرائیور پیدل چلنے والوں کو کچل دیتے ہیں، گاڑیاں کھڑے ٹرکوں سے ٹکرا جاتی ہیں اور موٹر سائیکلوں کو بڑی گاڑیاں ٹکر مار دیتی ہیں۔
یہ روزانہ کے سانحے ایک خاموش بحران کی نشاندہی کرتے ہیں۔ صرف 2023 میں، 172،000 سے زیادہ لوگ انڈیا کی سڑکوں پر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، یعنی اوسطاً ہر دن 474 اموات یا ہر تین منٹ میں تقریباً ایک موت۔
حالانکہ 2023میں سڑکوں پر حادثات کی سرکاری اعداد و شمار پر مبنی رپورٹ ابھی تک جاری نہیں کی گئی ہے، لیکن روڈ ٹرانسپورٹ اور ہائی ویز کے وزیر نتن گڈکری نے دسمبر میں روڈ سیفٹی ایونٹ میں ان اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے ایک خوفناک تصویر پیش کی تھی۔
اس سال مرنے والوں میں دس ہزار بچے بھی شامل تھے۔ سکولوں اور کالجوں کے قریب ہونے والے حادثات میں مزید10,000افراد ہلاک ہوئے جبکہ 35،000پیدل چلنے والے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
سائیکل اور موٹر سائیکل سواروں کو بھی ہلاکتوں کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ ان حادثات میں تیز رفتاری عام طور پر واحد سب سے بڑی وجہ کے طور پر سامنے آئی ہے۔
اس سال مرنے والوں میں دس ہزار بچے بھی شامل تھےبنیادی حفاظتی احتیاطی تدابیر کا فقدان بھی جان لیوا ثابت ہوا۔ ہیلمٹ نہ پہننے کی وجہ سے 54،000افراد اور سیٹ بیلٹ نہ پہننے کی وجہ سے 16،000افراد ہلاک ہوئے۔
دیگر اہم وجوہات میں اوور لوڈنگ شامل تھی، جس کی وجہ سے 12،000 اموات ہوئیں اور لائسنس کے بغیر ڈرائیونگ جس کی وجہ سے 34،000حادثات ہوئے۔
غلط سمت میں گاڑی چلانے سے بھی ہلاکتوں میں اضافہ ہوا۔ سال2021میں ہونے والے 13فیصد حادثات ایسے ڈرائیوروں سے متعلق تھے جن کے پاس لرنر پرمٹ تھا یا جن کے پاس کوئی مصدقہ لائسنس نہیں تھا۔
سڑک پر بہت سی گاڑیاں پرانی ہیں اور سیٹ بیلٹ جیسی بنیادی حفاظتی خصوصیات سے محروم ہیں ایئر بیگز تو دور کی بات ہے۔
یہ خطرناک سڑک کا ماحول انڈیا کے بے ترتیب ٹریفک کےساتھ مل کر اور بھی پیچیدہ ہو جاتا ہے۔
صارفین کی ایک حیران کن تعداد انڈیا کی سڑکوں پر بھیڑ لگاتی ہے۔ کاروں، بسوں اور موٹر سائیکلوں جیسی موٹر سے چلنے والی گاڑیاں ہیں جو غیر موٹر ٹرانسپورٹ جیسے سائیکلوں، سائیکل رکشہ اور ٹھیلوں، جانوروں سے کھینچی جانے والی گاڑیوں، پیدل چلنے والوں اور آوارہ جانوروں کے ساتھ جگہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
ہاکرز اپنا سامان بیچنے کے لیے سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر قبضہ کرتے ہیں جس سے پیدل چلنے والوں کو مصروف سڑکوں پر آنے کے لیے مجبور ہونا پڑتا ہے جس سے ٹریفک کی روانی مزید پیچیدہ ہوجاتی ہے۔
کوششوں اور سرمایہ کاری کے باوجود انڈیا کی سڑکیں دنیا میں سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسا بحران ہے جس کی جڑیں نہ صرف بنیادی ڈھانچے میں ہیں بلکہ انسانی رویّوں، ضابطوں کے نفاذ میں مسائل اور نظام کو نظر انداز کرنے میں بھی ہے۔
سڑک حادثات ایک اہم معاشی بوجھ ڈالتے ہیں جس سے انڈیا کو اس کی سالانہ جی ڈی پی کا تین فیصد نقصان ہوتا ہے۔
سڑک پر بہت سی گاڑیاں پرانی ہیں اور سیٹ بیلٹ جیسی بنیادی حفاظتی خصوصیات سے محروم ہیں ایئر بیگز تو دور کی بات ہےامریکہ کے بعد انڈیا میں دنیا کا دوسرا سب سے بڑا روڈ نیٹ ورک ہے جو 66 لاکھ کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔
قومی اور ریاستی شاہراہیں مجموعی طور پر کل نیٹ ورک کا تقریباً پانچ فیصد ہیں، جبکہ دیگر سڑکیں بشمول ایکسپریس وے اس کے علاوہ ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق ملک میں 35 کروڑ رجسٹرڈ گاڑیاں ہیں۔
روڈ ٹرانسپورٹ اور ہائی ویز کے وزیر نتن گڈکری نے روڈ سیفٹی میٹنگ میں بتایا کہ بہت سے سڑک حادثات اس لیے ہوتے ہیں کیونکہ لوگوں میں قانون کا احترام اور خوف نہیں ہوتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’حادثات کی کئی وجوہات ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ انسانی طرز عمل ہے۔‘
لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔پچھلے مہینے ہی نتن گڈکری نے سڑک حادثات کی خطرناک حد تک بڑھتی ہوئی شرح میں اہم کردار ادا کرنے والے سول انجینئرنگ طریقوں جن میں ناقص سڑک ڈیزائن ، غیر معیاری تعمیر اور کمزور انتظام کے ساتھ ساتھ ناکافی سائن بورڈ اور اشاروں کی نشاندہی کی تھی۔
انھوں نے کہا ’سب سے اہم مجرم سول انجینئر ہیں۔۔۔ یہاں تک کہ سڑک کے سائن بورڈ اور مارکنگ سسٹم جیسی چھوٹی چیزیں بھی ملک میں بہت خراب ہیں۔‘
نتن گڈکری نے گذشتہ ماہ پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ 2019سے اب تک ان کی وزارت نے قومی شاہراہوں میں 59بڑی خامیوں کی اطلاع دی ہے۔
حادثے کے خطرے سے دوچار 13795 ’بلیک سپاٹس‘ کی نشاندہی کی گئی ہے، جن میں سے صرف 5،036کی طویل مدتی مرمت کی گئی۔
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی دہلی کے ٹرانسپورٹیشن ریسرچ اینڈ انجری پریوینشن سینٹر کے ذریعہ کیے گئے روڈ سیفٹی آڈٹ نے انڈیا کے سڑک کے بنیادی ڈھانچے میں سنگین خامیوں کا انکشاف کیا ہے۔
کریش رکاوٹیں کو ہی لے لیں، ان کا مقصد سڑک سے اتر جانے والی گاڑیوں کو الٹائے بغیر بحفاظت روکنا ہوتا ہے لیکن بہت سی جگہوں پر وہ اس کے برعکس کام کر رہی ہیں۔
اونچائی، وقفے اور تنصیب کے واضح معیارات کے باوجود، زمینی حقیقت اکثر ایک مختلف کہانی بیان کرتی ہے۔ ان دھاتی رکاوٹوں کی اونچائی غلط ہے، یہ کنکریٹ کی بنیادوں پر نصب ہیں یا یہ نامناسب جگہو پر لگائی گئی ہیں۔
یہ خامیاں گاڑی، خاص طور پر ٹرک یا بس کو محفوظ طریقے سے روکنے کے بجائے پلٹنے کا سبب بن سکتی ہیں۔
یہ خطرناک سڑک کا ماحول انڈیا کے بے ترتیب ٹریفک کےساتھ مل کر اور بھی پیچیدہ ہے آئی آئی ٹی دہلی میں سول انجینئرنگ کے ایمریٹس پروفیسر گیتم تیواری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب تک کہ طے شدہ معیار کے مطابق انھیں ٹھیک طرح نصب نہیں کیا جاتا، کریش بیریئرز فائدے سے زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں۔‘
اس کے بعد سڑکوں کے درمیان تقسیم کے لیے لگائی گئی اونچی رکاوٹیں آتی ہیں۔
تیز رفتار سڑکوں پر ان کا مقصد وہ مخالف سمت میں چلنے والے ٹریفک کو الگ کرنا ہوتا ہے اور ان کی اونچائی 10 سینٹی میٹر یعنی محض 3.9 انچسے زیادہ نہیں ہونی چاہیے لیکن آڈٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے بہت اس سے کہیں زیادہ اونچے ہیں۔
جب تیز رفتار گاڑی کا ٹائرعمودی ڈیوائڈر (اس تقسیم کار) سے ٹکراتا ہے تو اس سے گرمی پیدا ہوتی ہے، ٹائر پھٹنے کا خطرہ ہوتا ہے، یا یہاں تک کہ گاڑی زمین سے اٹھ جاتی ہے جس سے گاڑیاں الٹ جاتی ہے۔
انڈیا میں بہت سےڈیوائڈر اس خطرے کو ذہن میں رکھتے ہوئے ڈیزائن نہیں کیے گئے ہیں۔ اور اس کے بعد اونچی گاڑیوں کے راستے ہیں۔ کئی دیہی سڑکوں پر، بار بار سرفیسنگ کی وجہ سے یہ راستے مرکزی سڑک چھ سے آٹھ انچ اونچے ہو گئے ہیں۔
یہ اچانک گراوٹ مہلک ہوسکتی ہے خاص طور پر اگر ڈرائیور کسی رکاوٹ سے بچنے کے لیے کوشش کرتا ہے۔ دو پہیوں والی سواریوں کو سب سے زیادہ خطرہ ہے لیکن یہاں تک کہ کاریں بھی یہاں پھسل سکتی ہیں، اچھل یا اُلٹ سکتی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر پرت کے اضافے کے ساتھ خطرہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ انڈیا میں نئی سڑکیں صرف امریکہ اور یورپ میں استعمال ہونے والے سڑکوں کے ڈیزائن کی نقل ہیں جہاں ٹریفک کا ماحول بہت مختلف ہےواضح ہے کہ انڈیا کی سڑکوں کے ڈیزائن کے معیار کاغذ پر تو صحیح ہیں لیکن زمین پر خراب طریقے سے نافذ کیے جاتے ہیں۔
پروفیسر تیواری کہتے ہیں ’ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ حفاظتی معیارات پر عمل نہ کرنے پر کم سے کم جرمانے عائد ہوتے ہیں۔ سڑکوں کی تعمیر کے کنٹریکٹس میں اکثر ان ضروریات کو واضح طور پر بیان نہیں کیا جاتا ہے اور ادائیگی عام طور پر کلومیٹر کے حساب سے تعمیر کے لیے دی جاتی ہیں نہ کہ حفاظتی اصولوں پر عمل کرنے پر۔‘
وزیر نتن گڈکری نے حال ہی میں 25,000کلومیٹر طویل دو لین شاہراہوں کو چار لین میں اپ گریڈ کرنے کے ایک پرجوش منصوبے کا اعلان کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’اس سے سڑکوں پر حادثات کو نمایاں طور پر کم کرنے میں مدد ملے گی۔‘
یونیورسٹی آف شکاگو کے کاوی بھلا جیسے ماہرین اس بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔
کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں روڈ سیفٹی پر کام کرنے والے کاوی بھلا کا کہنا ہے کہ انڈیا کی سڑکوں کے ڈیزائن اکثر مغربی ماڈل کی نقل ہوتے ہیں اور اپنے ملک کی منفرد ٹریفک اور بنیادی ڈھانچے کی ضروریات کو نظر انداز کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ انھیں یقین نہیں ہے کہ سڑک کو چوڑا کرنے سے ٹریفک اموات میں کمی آئے گی۔ 'اس بات کے بہت سارے ثبوت ہیں کہ انڈیا میں سڑک کی اپ گریڈیشن کے نتیجے میں الٹا ٹریفک کی رفتار میں اضافہ ہوتا ہے جو پیدل چلنے والوں، سائیکل سواروں اور موٹر سائیکل سواروں کے لیے مہلک ہے۔‘
تقسیم کے لیے لگائی گئی اونچی رکاوٹوں کا مقصد وہ مخالف سمت میں چلنے والے ٹریفک کو الگ کرنا ہوتا ہے اور ان کی اونچائی 10 سینٹی میٹریعنی محض 3.9 انچسے زیادہ نہیں ہونی چاہیےایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ انڈیا میں نئی سڑکیں صرف امریکہ اور یورپ میں استعمال ہونے والے سڑکوں کے ڈیزائن کی نقل ہیں جہاں ٹریفک کا ماحول بہت مختلف ہے۔
انڈیا امریکی طرز کے ہائی وے انفراسٹرکچر کی تعمیر کی کوشش کر رہا ہے لیکن امریکی طرز کی ہائی وے سیفٹی انجینئرنگ ریسرچ اور کریش ڈیٹا سسٹم میں سرمایہ کاری نہیں کر رہا ہے۔
انٹرنیشنل روڈ فیڈریشن کے اہلکار کے کے کپیلا کا کہنا ہے کہ بڑھتے ہوئے روڈ سیفٹی بحران سے نمٹنے کے لیے حکومت 'فائیو ای' حکمت عملی پر عمل درآمد کر رہی ہے۔ جن سے مرادسڑکوں کی انجینئرنگ، گاڑیوں کی انجینئرنگ، تعلیم، نفاذ اور ہنگامی دیکھ بھال ہیں۔
لاء کمیشن آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق بروقت ہنگامی طبی امداد کی فراہمی سے سڑک حادثات میں ہونے والی 50 فیصد اموات کو بچایا جا سکتا تھا۔
کے کے کپیلا روڈ سیفٹی پلان کے ساتھ وفاقی حکومت کی مدد کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سات اہم ریاستوں سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے سب سے زیادہ حادثات والے علاقوں کی نشاندہی کریں۔
’انھوں نے مجھے بتایا کہ فائیو ای فریم ورک کی بنیاد پر ٹارگٹڈ مداخلت کو نافذ کرنے کے بعد، یہ علاقے اپنی ریاستوں میں'"سب سے محفوظ' بن گئے ہیں۔‘
زیادہ تر ماہرین اقتصادیات اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ زیادہ سڑکوں کی تعمیر انڈیا کی ترقی کی کلید ہے لیکن یہ پائیدار ہونی چاہییں اور انھیں پیدل چلنے والوں اور سائیکل سواروں کی زندگیوں پر ترجیح حاصل نہیں ہونی چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ ’ترقی کی قیمت معاشرے کے غریب ترین طبقوں کو برداشت نہیں کرنی چاہیے۔ اس طرح کی سڑکوں کی تعمیر سیکھنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ مداخلت کرنے کی کوشش کی جائے، اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ آیا ان سے حفاظت میں بہتری آئی ہے اور اگر یہ مدد گار نہیں تو ان میں ترمیم کریں اور دوبارہ جائزہ لیں۔‘
’اگر ایسا نہیں ہوتا ہے، تو سڑکیں صرف پہلے سے زیادہ ہموار ہوں گی، گاڑیاں تیز ہوں گی اور ان سے اور بھی زیادہ لوگ مریں گے۔‘