پولیس کے مطابق عام شہریوں کو خواتین کی مدد سے ہنی ٹریپ کرنے والے ان پانچ حاضر سروس پنجاب پولیس اہلکاروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور ان کے قبضے سے کروڑوں روپے کی نقدی کے علاوہ وہ اشیا بھی برآمد کی جا چکی ہیں جو مبینہ طور پر لوگوں کو بلیک میل کرکے حاصل کی گئی تھیں۔
اس گینگ میں مبینہ طور پر پنجاب پولیس کے پانچ اہلکار بھی شامل تھے (فائل فوٹو)’گینگ میں شامل خواتین عام شہریوں سے سوشل میڈیا کی مدد سے رابطہ کرنے کے بعد انھیں ملاقات کے لیے بُلاتیں جہاں متاثرہ افراد کی برہنہ حالت میں ویڈیوز ریکارڈ کی جاتیں اور پھر انھیں بلیک میل کیا جاتا تھا۔‘
صوبہ پنجاب کے ضلع راولپنڈی کے ایس ایس پی آپریشنز کاشف ذوالفقار بی بی سی اُردو کو ایک ایسے ہنی ٹریپ گینگ کے بارے میں بتا رہے تھے جس میں مبینہ طور پر پنجاب پولیس کے پانچ کانسٹیبل بھی شامل ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ہنی ٹریپ کے کارووائیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں اِن پانچوں پولیس اہلکاروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور اُن کے قبضے سے کروڑوں روپے کی نقدی کے علاوہ وہ قیمتی اشیا بھی برآمد کی گئی ہیں جو مبینہ طور پر متاثرہ افراد کو بلیک میل کر کے حاصل کی گئی تھیں۔
یاد رہے کہ کچھ ہی عرصہ قبل پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ڈولفن سکواڈ کے اہلکار بھی اسی نوعیت کے ایک کیس میں گرفتار کیے گئے تھے جن پر ایک خاتون کی مدد سے عام شہریوں کو ہنی ٹریپ کرنے کا الزام تھا۔
راولپنڈی پولیس کے مطابق گرفتار کیے گئے افراد میں پانچ پولیس اہلکاروں کے علاوہ خواتین اور دیگر ملزمان بھی شامل ہیں۔ پولیس کے مطابق یہ دس رکنی گینگ گذشتہ کچھ عرصے سے راولپنڈی اور اسلام آباد میں سرگرم تھا۔
پولیس ملزمان تک کیسے پہنچی؟
اس معاملے کی تحققیات کرنے والی ٹیم کے سربراہ ایس ایس پی آپریشنز راولپنڈی کاشف ذوالفقار کے مطابق کچھ عرصہ قبل راولپنڈی کے تھانہ صادق آباد میں ایک شخص نے ہنی ٹریپ سے متعلق درخواست دیتے ہوئے بتایا تھا کہ اسے چند نامعلوم افراد نے ایک گھر میں حبس بےجا میں رکھا تھا۔
درخواست گزار کے بقول اسے شک ہے کہ ملزمان میں ایک پولیس اہلکار بھی شامل ہے۔
کاشف ذوالفقار کے بتایا کہ درخواست گزار سے اس پولیس اہلکار کے حلیے کے بارے میں معلوم کیا گیا اور مقامی تھانوں سے ملتی جلتی جسامت کے حامل چند پولیس اہلکاروں کو شناخت پریڈ کے لیے طلب کیا گیا، جہاں متاثرہ شخص نے ایک اہلکار کی بطور ملزم شناخت کر لی۔
ایس ایس پی آپریشنز کا کہنا تھا کہ شناخت کے بعد اس پولیس اہلکار سے جب تفتیش کی گئی تو اس نے اپنے دیگر ساتھیوں کی نشاندہی کی۔
اس مقدمے کی تفتیش کرنے والی ٹیم کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ ہنی ٹریپ والا گینگ دس افراد پر مشتمل تھا اور اس گینگ میں خواتین بھی شامل تھیں۔
انھوں نے کہا کہ گینگ کے سرغنہ نے خواتین اور دیگر ساتھیوں کے علاوہ پنجاب پولیس کے اہلکاروںکے ساتھ مل کر گینگ تشکیل دے رکھا تھا۔
ملزمان کا طریقہ وارادات کیا تھا؟
ہنی ٹریپ کے لیے خواتین کو استعمال کیا جاتا جو سوشل میڈیا ایپس کے ذریعے متاثرہ افراد سے رابطہ کرتیںپولیس اہلکار کے مطابق اس گینگ میں شامل ایک خاتون سوشل میڈیا ایپ کے ذریعے لوگوں کو ٹریپ کرتی تھیں۔
کاشف ذوالفقار کا کہنا تھا کہ پولیس تفتیش کے مطابق اس گینگ کے ارکان ڈیٹنگ ایپس کے ذریعے لوگوں کے رابطہ نمبرز اور ایڈرس معلوم کرتے اور پھر گینگ میں شامل خواتین لوگوں سے رابطہ کرتی تھیں۔
انھوں نے کہا کہ چند روز تک اس گینگ کی خواتین ان شہریوں سے سوشل میڈیا کے ذریعے رابطے میں رہتیں اور جب اُن میں شناسائی بڑھ جاتی تو خواتین ان افراد کو ملاقات کے لیے ایک مکان پر بلاتی تھیں۔
کاشف ذوالفقار کا کہنا تھا کہ اب تک کی اس مقدمے میں ہونے والی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان ملزمان نے خیابان سرسید میں ایک کوٹھی کرائے پر حاصل کی تھی جہاں پر ان شہریوں کو ملاقات کے بہانے بلایا جاتا تھا۔
تفتیشی ٹیم میں شامل اہلکار کے مطابق اس گینگ میں شامل دیگر افراد ملاقات کے بہانے آنے والے لوگوں کی برہنہ حالت میں تصاویر اور ویڈیوز بناتے اور پھر ان افراد کو دکھاتے جو ہنی ٹریپ ہو چکے ہوتے تھے۔
انھوں نے کہا کہ اس گینگ کے افراد ان تصاویر اور ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ اور شیئر کرنے کی دھمکی دیتے اور پیسے بٹورتے۔
تفتیشی ٹیم میں شامل پولیس اہلکار نے دعویٰ کیا کہ اس گینگ نے 50 سے زیادہ افراد کو ہنی ٹریپ کر کے ان سے کروڑوں روپے حاصل کیے ہیں۔
مقامی پولیس کے مطابق ملزمان ہنی ٹریپ ہونے والے افراد سے اُن کے کاروبار کے بارے میں بھی پوچھتے تھے۔
مقامی پولیس کے مطابق ہنی ٹریپ ہونے والے افراد میں متعدد سرکاری ملازمین بھی شامل ہیں جو اس گینگ کے مطابات پورا کرتے رہے ہیں۔
ایس ایس پی آپریشنز کے مطابق گرفتار ہونے والے پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے جبکہ اس گینگ کے دس افراد کا مقامی عدالت سے تین دن کا جسمانی ریمانڈ حاصل کیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اب تک کی جانے والی تفتیش میں ملزمان کی نشاندہی پر ان کے اکاؤنٹس سے وہ رقم برآمد کی گئی ہے جو انھوں نے مبینہ طور پر مختلف افراد کو ٹریپ کر کے ان سے حاصل کی تھیں۔
کاشف ذوالفقار کا کہنا تھا کہ ہنی ٹریپ کامیاب ہونے کے بعد جو رقم حاصل کی جاتی تھی وہ دس ملزمان آپس میں برابر تقسیم کر لیتے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ گرفتار ہونے والے پولیس اہلکاروں نے یہ رقم نہ صرف اپنے بینک اکاؤنٹس میں منتقل کروائی بلکہ اپنی بیویوں کے نام پر مختلف بینکوں میں کھولے گئے اکاؤنٹس میں بھی اس رقم کو منتقل کروایا۔
لوگ ایسے واقعات رپورٹ نہیں کرتے
ایس ایس پی اپریشنز کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے لوگ ایسے واقعات کو رپورٹ نہیں کرواتے جس کی وجہ سے پولیس ایسے معلامات میں خود مداخلت نہیں کر سکتی۔
ہنی ٹریپ کے اس مقدمے میں گرفتار ہونے والے پولیس اہلکاروں کے کردار کے بارے میں ایس ایس پی آپریشنز کا کہنا تھا کہ گینگ میں شامل پولیس اہلکار گینگ کے دیگر ارکان کی پشت پناہی کرتے اور شہریوں کو بلیک میل کرنے میں ان کا ساتھ دیتے تھے۔
واضح رہے کہ چند روز قبل وفاقی دارالحکومت کی پولیس کے دو اہلکاروں کو ایک خاتون ساتھی سمیت اس وقت گرفتار کر لیا گیا تھا جب وہ دو افراد کو ہنی ٹریپ کرنے کے بعد ان سے لاکھوں روپے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
اسلام آباد پولیس کے شعبہ ڈولفن میں تعینات یہ پولیس اہلکار ابھی تک اڈیالہ جیل میں ہیں اور مقامی عدالت نے ان ملزمان کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواستیں مسترد کر دی ہیں۔