چھ دن پہلے انڈیا کے علاقے امرتسر سے ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ بارڈر سکیورٹی فورس کے کہنے پر کسان سرحد پار اپنی فصل کی عجلت میں کٹائی کر رہے ہیں۔ بی بی سی کسانوں کے ان دعوؤں کی تصدیق نہیں کر سکا ہے۔
گورداس پور کے کسانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ بی ایس ایف نے انھیں دو تین دن کے اندر اپنی فصلیں کاٹنے کا کہا ہے’یہاں چاروں طرف خوف ہے۔ ہم سرحد پر رہ رہے ہیں اور یہاں کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ سرحد پر رہنے والوں کو ہمیشہ مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔‘
’کسی حکومت نے آج تک ہمارے مسائل کا حل نہیں سوچا، ہم اس وقت بھی انتہائی مشکل حالات سے گزر رہے ہیں۔‘
خوف اور بے بسی میں ڈوبے یہ الفاظ انڈیا اور پاکستان کی سرحد کے قریب واقع گاؤں پنڈ روسا کے نمبردار لکھویندر سنگھ کے ہیں۔
انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں حملے میں 26 افراد کی ہلاکت کے بعد سے جہاں دنیا بھر سے اس حملے کی مذمت کی جا رہی ہے وہیں انڈیا پاکستان کے درمیان موجودہ تناؤ نے لکھویندر سنگھ سمیت سرحد پر رہنے والوں کے مسائل کئی گنا بڑھا دیے ہیں۔
جہاں ہر طرف اس واقعے کے بعد دہشت گردی کے خاتمے کی بات کی جا رہی ہے وہیں کچھ لوگوں کو یہ خدشہ بھی ہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں جن کی روزی روٹی سیاحت پر منحصر ہے وہ اب شدید متاثر ہوں گے۔
اور انھی سب کے درمیان ایسے لوگ بھی ہیں جو کشمیر کے باہر پنجاب میں انڈیا اور پاکستان کی سرحد پر رہتے ہیں اور اس وقت ان کے ذہنوں میں بہت سے خدشات اور سوالات موجود ہیں۔
کسانوں کے مطابق ان کے لیے اتنے کم وقت میں اپنے اناج کو ذخیرہ کرنا بہت مشکل ہےوائرل ویڈیو اور انتظامیہ کی تردید
پہلگام حملے کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کا اثر سرحدی علاقوں میں بھی نظر آ رہا ہے۔
اسی تناظر میں کچھ دن پہلے انڈیا کے علاقے امرتسر سے ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ بارڈر سکیورٹی فورس (بی ایس ایف) کے کہنے پر کسان سرحد پار اپنی فصل کی عجلت میں کٹائی کر رہے ہیں۔
انڈین پنجاب کے گورداس پور ضلع کے کسانوں کا دعویٰ ہے کہ بی ایس ایف نے ایک میٹنگ میں انھیں ہدایت کی کہ وہ اپنی فصلیں دو سے تین دن کے اندر سرحد پار سے کاٹ لیں۔
بی بی سی کسانوں کے ان دعوؤں کی تصدیق نہیں کر سکا ہے۔
دوسری جانب بعد میں ڈی سی امرتسر نے ایک بیان میں اس ویڈیو کی تردید کی ہے اور کہا کہ اس میں حقیقت کے برخلاف بات کی گئی ہے۔
انھوں نے متنبہ کیا کہ پولیس اور بی ایس ایف کی تصدیق کے بغیر ایسی کسی بھی معلومات کو نہ شیئر کیا جائے اور نا ہی ان پر یقین کیا جائے۔
کسانوں کا دعویٰ
حکام کے مطابق بی ایس ایف نے ایسی کوئی ہدایات جاری نہیں کیںپنجاب کے ضلع گورداس پور کے گاؤں پنڈ روسا کے کسانوں کے مطابق ’دو دن پہلے بی ایس ایف کے اہلکاروں نے ایک میٹنگ بلائی اور انھیں حکم دیا کہ وہ کہ سرحدی باڑ سے متصل اور اس کے اس پار لگی گندم کی فصل کو دو دن کے اندر کاٹ لیں۔‘
بی ایس ایف حکام کے ساتھ میٹنگ کے بارے میں بات کرتے ہوئے گاؤں کے سابق سرپنچ پربھ شرن سنگھ نے کہا: ’ہمیں انھوں نے بتایا کہ بارڈر پر لگے گیٹ کے اس پار کھڑی گندم کی کٹائی کے لیے دو سے تین دن کا وقت دیا جا رہا ہے۔‘
گاؤں کے کسان ہرکیرت سنگھ نے بتایا کہ ’وہاں گیٹ پر جا کر دیکھیں، ہزاروں لوگ وہاں کھڑے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کی فصل کاٹی جائے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک محدود تعداد میں ہی لوگ فصل کاٹ سکتے ہیں اور وسائل بھی کم ہیں۔‘
کسانوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ بڑے کسان اب بھی اپنی فصلوں کے کاٹنے کا انتظام کر سکتے ہیں، لیکن چھوٹے کسانوں کے لیے مسائل اور بھی زیادہ ہیں کیونکہ ان کے پاس اپنی مشینیں نہیں ہوتی ہیں اور انھیں اپنی فصل کی کٹائی کے لیے بڑے کسانوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
’پہلے بھی یہاں سے بھاگنا پڑا‘
لکھویندر سنگھ کے مطابق سرحد پر رہنے والوں کو ہمیشہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہےپیٹھ روسا کے نمبردارلکھویندر سنگھ کا بھی دعویٰ ہے کہ ’بی ایس ایف نے جلد از جلد گندم کی کٹائی کی ہدایات دی ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’پنجاب کے لوگ ہر روز مہم چلا رہے ہیں۔ سرحد پر رہنے والے لوگوں کو ہمیشہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔'
انھوں نے کہا کہ ’میری عمر 67-68 سال ہے اور ہم پر یہ مظالم ڈھائے گئے کہ ہماری زمین یہاں کب سے غیر آباد ہے۔ یہاں رہنا آسان نہیں۔‘
’ہمیں ایک ہی وقت میں ہدایات دی تھیں لیکن مشکلات آڑے آ گئیں۔ کچھ مشینیں ہمارے پاس تھیں اور کچھ دوست باہر سے آئے تو ان کی مدد سے سارا کام ہو گیا۔‘
لکھویندر سنگھ نے الزام عائد کیا کہ ’کسی حکومت نے آج تک سرحدی کسانوں کو درپیش مسائل کا حل نہیں سوچا، اس لیے یہاں رہنے والے اس مصیبت کا شکارہوئے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ انھیں اس سے پہلے سنہ 1965 اور 1971 میں بھی اپنے گھر بار اور کھیت کھلیان چھوڑ کر جانا پڑا تھا۔
’ہم ذہنی اور مالی طور پر متاثر ہو رہے ہیں۔ ہمیں اپنے بچوں کو لے کر یہاں سے کسی محفوظ مقام پر جانے کی ضرورت ہے۔‘
’میرے بچوں کو وہیں پروان چڑھنا چاہیے جہاں میری فصلیں ہیں‘
ہرکیرت سنگھ کے مطابق چھوٹے کسانوں کے لیے حالات اور بھی مشکل ہیں پنجاب کے ضلع گورداس پور میں واقع پیٹھ روسا گاؤں انڈیا اور پاکستان کی سرحد کے قریب واقع ہے۔
یہاں کے مقامی ہرکیرت سنگھ پوچھتے ہیں کہ ’جن کسانوں کے پاس وسائل نہیں ہیں وہ دو دن میں سارے کام کیسے کر سکتے ہیں؟‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ 'ہمارے لیے یہ ماحول ہر چند سال بعد پیدا ہوتا ہے اور یہ مشکل یہاں رہنے والا ہی سمجھ سکتا ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کے ذہن میں کوئی خوف ہے تو انھوں نے کہا کہ ’جب میری فصل کو نقصان ہو گا تو اس سے میری زندگی کی ہر چیز متاثر ہو گی۔ میرے بچوں کی پرورش میری فصلوں سے ہوتی ہے، حکومتی احکامات سے نہیں۔‘
انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ’مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ اگلی فصل لگانے کی اجازت ملے گی بھی کہ نہیں۔‘
پولیس اہلکاروں نے کیا کہا؟
انڈیا کے سرحدی علاقے امرتسر کے ڈپٹی کمشنر ساکشی ساہنی نے وضاحت کی ہے کہ بارڈر سکیورٹی فورس نے کھیتوں میں لگی گندم کی کٹائی کے حوالے سے کوئی اعلان نہیں کیا۔
ان کے مطابق اس سلسلے میں انھوں نے سکیورٹی کے اعلی حکام سے بات کی جنھوں نے واضح کیا کہ بی ایس ایف نے گاؤں میں ایسا کوئی اعلان نہیں کیا کہ کسان دو دن کے اندر خاردار تاروں کے پار موجود اپنی فصل کاٹ لیں۔
انھوں نے کہا کہ مستقبل میں ایسی کسی بھی گمراہ کن خبر سامنے آئے تو بی ایس ایف یا ضلع انتظامیہ کے اہلکاروں سے پہلے تصدیق کی جائے۔
2000 ایکڑ اراضی سرحد پر لگی باڑ کے پار

اسی گاؤں کے سابق سرپنچ پربھ شرن سنگھ نے زمینوں کے رقبع اور حدود کے حوالے سے بتایا کہ ’ہمارے گاؤں کی سرحد پر لگی باڑ کے اس پار 100 ایکڑ زمین ہے اور ہم سے ملحقہ ایک یا دو گاؤں کی زمین بھی ہم سے زیادہ ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ تمام دیہاتوں کے پاس ’تقریباً 2000 ایکڑ اراضی ہے جو باڑ کے اُس پار ہے۔‘
ان کے مطابق ’وہ صرف ایک سے دو مشینیں جانے دیتے تھے لیکن اب وہ کہہ رہے ہیں کہ پانچ سے 10 مشینیں لاؤ اور دو سے تین دن میں اپنی گندم کی کٹائی کرو۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’کبھی کبھار مشینیں منگوا کر ان کے اناج کو ذخیرہ کرنے کا موقع ملتا ہے تاہم اب ہمیں ڈر ہے کہ اگر وہ دروازے بند کر دیں گے تو ہمارا اناج اگنا بند ہو جائے گا اور ہمیں روٹی کے لالے پڑ جائیں گے۔‘
اپنے احتجاج کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’پہلے، گندم یا دھان کی کٹائی کے دوران وہ کہتے تھے کہ ایک مشین لاؤ۔ ان کا بہانہ ہوتا تھا کہ ہمارے پاس محافظ نہیں ہیں۔ اور پتہ نہیں کل انھیں اتنے محافظ کہاں سے ملے اور انھوں نے منٹوں میں گندم کاٹنے کی بات کہہ ڈالی۔‘
فتح گڑھ صاحب سے سرحدی کسانوں کی مدد کے لیے آنے والے گروپندر سنگھ کہتے ہیں کہ ’پہلے ہم چار سے پانچ دن میں گندم کی کٹائی کرتے تھے اور اب انھوں نے صرف کل یا پرسوں تک اپنی گندم کٹائی کی مہلت دی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ہم تقریباً 15-16 سال سے یہاں کٹائی کے کام کے لیے آ رہے ہیں لیکن ایسا پہلی بار دیکھا ہے۔‘