’ٹرمپ کا خوف‘، یورپ منتقل ہونے والے امریکیوں کی تعداد میں اضافہ

image

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسری بار اقتدار میں آنے سے قبل ہی بعض امریکیوں نے ’خوف زدہ‘ ہو کر ملک چھوڑنے کی تیاری شروع کر دی تھی جبکہ اب یورپ منتقل ہونے والوں کی تعداد میں کافی اضافہ سامنے آیا ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے ویزوں اور شہریت سے متعلق ڈیٹا کا حوالہ دیا ہے اور دوسرے ممالک میں سیٹل کرنے میں مدد دینے والی کمپنیوں سے بھی بات کی ہے۔

 رپورٹ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد ان افراد کی تعداد میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے جو یورپ منتقل ہونا چاہتے ہیں تاہم ملک کی مجموعی آبادی 34 کروڑ کے تناسب سے یہ تعداد بہت زیادہ نہیں ہے۔

آئرش پاسپورٹ کے لیے دی گئی درخواستیں اس وقت دہائی میں سب سے بلند سطح پر ہیں اور سب سے زیادہ درخواستیں رواں سال کے پہلے دو ماہ کے دوران دی گئیں۔

آئرلینڈ کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جنوری اور فروری کے دوران چار ہزار تین سو افراد نے وہاں کے پاسپورٹ کے لیے اپلائی کیا جو کہ پچھلے برس کی نسبت 60 فیصد تک زیادہ ہے۔

اسی طرح فرانسیسی حکومت کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ رواں برس کے پہلے تین ماہ کے دوران وہاں لمبے قیام کے لیے امریکیوں کی جانب سے دو ہزار تین سو 83 درخواستیں موصول ہوئیں جبکہ پچھلے برس یہ تعداد ایک ہزار نو سو 80 تھی۔

فرانسیسی حکومت کی جانب سے جنوری سے مارچ کے دوران دو ہزار ایک سو 78 درخواستوں کو مںظور کیا گیا جبکہ پچھلے برس یہ تعداد ایک ہزار سات سو 87 تھی۔

اسی طرح برطانیہ کے ریکارڈ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ 2024 کے آخری تین مہینوں میں وہاں مستقل قیام کے لیے امریکیوں نے جتنی درخواستیں دیں اتنی پچھلے 20 برس کے دوران کسی سہ ماہی کے دوران سامنے نہیں آئیں۔ یہ تعداد ایک ہزار سات سو آٹھ تھی۔

رپورٹ کے مطابق ملک چھوڑنے کے خواہشمند برطانیہ، فرانس، آئرلینڈ اور دوسرے یورپی ممالک کا رخ کر رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

لوگوں کو دوسرے ممالک میں سٹیل کرانے میں مدد دینے والی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ دوسرے ممالک شفٹ ہونے کے خواہش مندوں کی تعداد میں پچھلے دو برس کے دوران کافی اضافہ ہوا ہے۔

اس کے لیے لوگوں نے جو وجوہات بیان کی ہیں ان میں سیاسی تقسیم اور گن وائلنس نمایاں ہیں۔

اطالوی امیگریشن ایڈوائزر مارکو پرمونین کا کہنا ہے کہ 2020 میں جو بائیڈن کے انتخاب کے موقع پر بھی ریپبلکن ووٹروں کی جانب سے بھی ایسی دلچسپی سامنے آئی تھی۔

روئٹرز نے جتنی بھی ری لوکیشن فرمز سے بات کی ان میں سے زیادہ تر کا یہی کہنا تھا کہ لوگوں کی امریکہ چھوڑنے میں دلچسپی ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں آنے کے بعد بڑھی ہے۔

کمپنیوں کے مطابق زیادہ تر کلائنٹ پالیسی کی سمت سماجی معاملات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔

ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کے بعد کچھ ٹی وی سٹارز بھی امریکہ چھوڑ گئے ہیں جن میں ٹاک شو کے ہوسٹس ایلن ڈی ڈیجنیرس اور روزی او ڈونیل بھی شامل ہیں اور اس بات کو میڈیا میں نمایاں طور پر محسوس کیا گیا۔

اسی طرح میلان میں ری لوکیشن کے بزنس سے وابستہ میوکین کا کہنا ہے کہ انتخابات کے بعد سے مسلسل عام لوگ ان سے رابطہ کرکے دوسرے ممالک کے حوالے سے معلومات حآصل کر رہے ہیں۔

ان کے مطابق ’لوگ غیریقنی کا شکار ہیں کہ کیا ہو رہا ہے اور آگے کیا ہو گا۔‘

رپورٹ کے مطابق آئرش پاسپورٹ کے لیے دی گئی درخواستیں اس وقت دہائی میں سب سے بلند سطح پر ہیں (فوٹو: بلومبرگ)

اسی طرح برطانیہ میں امیگریشن ایڈوائس سروس کمپنی کا کہنا ہے کہ امریکہ سے شفٹنگ کے حوالے سے معلومات حاصل کرنے والے لوگوں کی تعداد میں 25 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

برطانیہ میں، امیگریشن ایڈوائس سروس نامی امیگریشن وکلاء کی ایک کمپنی نے کہا کہ اس نے امریکہ سے پوچھ گچھ میں 25 فیصد سے زیادہ اضافہ دیکھا ہے۔

کمپنی کے ڈائریکٹر اونو اوکیریگا نے روئٹرز کو بتایا کہ کلائنٹس نے ٹرمپ انتظامیہ اور سیاسی تبدیلیوں پر تشویش کا شکار ہیں اور ان میں ایل جی بی ٹی کیو کے حامی بھی شامل ہیں۔

 


News Source   News Source Text

مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.