انڈیا کی حکومت کئی دہائیوں سے سرگرم ماؤ نواز باغیوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے اس تحریک کی آخری باقیات کو اگلے سال کے اوائل تک ختم کرنے کا عہد کیا ہے۔فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی نے مسلح ماؤ نواز باغیوں کی تاریخ کا جائزہ لیا ہے جنہوں نے 1960 سے اب تک 12 ہزار افراد کو ہلاک کیا۔بغاوت کا آغاز کیسے ہوا؟1967 میں جاگیرداروں کے استحصال کے خلاف بغاوت کا آغاز ہوا. چینی رہنما ماؤزے تنگ کے نظریات سے متاثر نیزوں اور تیر کمانوں سے لیس کسانوں نے ہمالیہ کے دامن میں واقع نکسل واڑی گاؤں میں زمینوں پر قبضہ کرنا شروع کیا۔ آغاز میں غیرمنظم بغاوت کو تیزی سے کچل دیا گیا لیکن اس نے دیگر مسلح گروہوں کو متحرک کیا اور زمین کی دوبارہ تقسیم کا مطالبہ کیا۔1980 میں ان باغیوں نے حملوں کو پولیس اور پیراملٹری فورس تک پھیلانے کا عہد کیا اور جنگلوں میں چلے گئے۔ ریاست چھتیس گڑھ میں موجود یہ جنگل ماؤ نواز باغیوں کے لیے گوریلا حملے کرنے کے بعد پناہ گاہ بن گئے۔باغیوں نے قبائلی آبادی کی زمینیں حاصل کرنے اور فصل کی مناسب قیمت حاصل کرنے کے لیے مہم میں مدد کرکے حمایت حاصل کی۔ماؤ نوازتحریک کے عروج پر کتنے طاقتور تھے؟2004 میں باغیوں کی تحریک اس وقت عروج پر پہنچی جب دو گروہوں نے کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا کی بنیاد رکھنے کے لیے اتحاد کیا۔پارٹی کی دستاویزات کے مطابق اس کا مقصد ’جنگ کے ذریعے ظالمانہ نظام کو ختم کرکے عوامی حکومت قائم کرنا تھا۔‘عروج پر باغیوں کی تعداد 15 سے 20 ہزار تھی اور انڈیا کے ایک تہائی رقبے کے برابر اضلاع میں سرگرم تھے۔ گوریلا باغیوں نے ’ریڈ کوریڈور‘ نامی علاقے میں حکومتی نظام مفلوج کر دیا اور متوازی انتظامیہ قائم کردی۔
2010 میں چھتیس گڑھ میں گھات لگا کر کیے گئے ایک حملے میں 76 اہلکاروں کو مارا گیا (فوٹو: اے ایف پی)
ان علاقوں میں باغیوں کی مضبوط گرفت تھی اور حکومت کے لیے جاسوسی کا شک ہونے پر وہ کسی کو بھی مار دیتے تھے۔ انہوں نے اس دوران سیکورٹی فورسز پر خطرناک حملے بھی کیے۔
2010 میں چھتیس گڑھ میں گھات لگا کر کیے گئے ایک حملے میں 76 اہلکاروں کو مارا گیا جو باغیوں کی طرف انڈین سکیورٹی فورسز پر سے سب سے بڑا حملہ تھا۔تین سال بعد ایک کانگریس پارٹی کے ایک قافلے پر حملے میں دو درج سے زائد لوگ مار دیے گئے جس میں ریاست کی اعلیٰ قیادت کو تقریباً ختم کر دیا گیا۔ماؤ نواز باغیوں کی موجودہ صورتحال کیا ہے؟سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے 2009 میں اپنے دور حکومت میں کہا تھا کہ ماؤ نوازوں کی شورش انڈیا کو درپیش ’اندرونی سلامتی کا سب سے بڑا خطرہ‘ ہے۔ان کی حکومت نے ماؤ نوازوں کے ہاٹ سپاٹ میں نیم فوجی دستوں کی بڑی تعداد کو تعینات کرنے کی اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کی۔
پولیس کے مطابق اب ان کا اندازہ ہے کہ گوریلوں کی تعداد ایک ہزار سے 12 سو ہے (فوٹو: اے ایف پی)
وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے بغاوت کو مسلسل کچلنا جاری رکھا، اور ماؤ نواز تحریک اب بری طرح ختم ہو چکی ہے۔
چھتیس گڑھ میں پولیس نے اے ایف پی کو بتایا کہ اب ان کا اندازہ ہے کہ گوریلوں کی تعداد ایک ہزار سے 12 سو ہے، لیکن اس کی آزادانہ طور پر تصدیق کرنا ناممکن ہے۔مارچ میں انڈین پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2010 اور 2024 کے درمیان عام شہریوں اور سیکورٹی فورسز کی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد میں 85 فیصد کمی واقع ہوئی۔