انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں سیاحوں پر ہونے والے حملے کے بعد ہوٹل اور ہاؤس بوٹ 70 فیصد تک رعایت دے رہے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں سرحد کے قریب ایک مشہور سیاحتی مقام کو بند کر دیا گیا ہے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان بیانات میں شدت آ گئی ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق برف پوش پہاڑوں، بہتے چشموں اور مغلیہ دور کے شاندار باغات کے لیے مشہور اس منقسم ہمالیائی خطے کے رہائشیوں کا انحصار سیاحت پر ہے لیکن اب پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی کے باعث ان کا ذریعہ معاش سب سے پہلے متاثر ہونے والوں میں شامل ہے۔جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں ہمسایہ ممالک اس متنازع علاقے پر دو جنگیں لڑ چکے ہیں جس پر دونوں ملک ملکیت کا دعویٰ رکھتے ہیں۔تاہم شدت پسندی میں نمایاں کمی اور چار سال تک بڑی حد تک قائم رہنے والی جنگ بندی نے سیاحت میں اضافہ کیا اور گزشتہ سال انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں 30 لاکھ سے زیادہ سیاح پہنچے جبکہ تقریباً 15 لاکھ سیاحوں نے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کا رخ کیا۔ سیاحوں کی غیرمعمولی آمد، انڈین وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کے لیے ایک بڑی کامیابی کے طور پر پیش گئی جس نے 2019 میں کشمیر کی خودمختار حیثیت کو ختم کر دیا تھا اور اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا۔رواں برس موسم گرما کے آغاز میں ہوٹلز، ہاؤس بوٹس اور ٹیکسیاں مکمل طور پر بُک ہو گئی تھیں لیکن گزشتہ ماہ 26 سیاحوں کی ہلاکت نے اب صورتحال کو بدل دیا ہے۔ انڈیا نے اس کا الزام پاکستان پر عائد کیا ہے اور اس کے خلاف کئی سفارتی اور اقتصادی اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ لیکن پاکستان نے ملوث ہونے کی تردید کی ہے، جوابی اقدامت کیے اور خبردار کیا کہ انڈیا کسی بھی فوجی کارروائی کر سکتا ہے۔
پیر چناسی سطح سمندر سے 9500 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)
یاسمین تمن جو سو سال سے پرانی ایک ٹریول ایجنسی چلاتے ہیں اور انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے مرکزی شہر سری نگر میں متعدد ہاؤس بوٹس کے مالک ہیں، نے بتایا کہ ان کے تقریباً تمام کسٹمرز نے اپنی بکنگ منسوخ کر دی ہے اور اب ان کی ہاؤس بوٹس خالی پڑی ہیں۔
انڈیا کی سیاحت کی ویب سائٹس پر ہوٹلز اور ہاؤس بوٹس پر آفرز دی گئی ہیں لیکن تمن کا کہنا ہے کہ وہ نرخ کم نہیں کریں گے کیونکہ ویسے بھی سیاحوں کی زیادہ تعداد کی آمد متوقع نہیں۔’شدید نقصان ہوگا‘دوسری طرف پیر چناسی سطح سمندر سے 9500 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہاں سڑک کے کنارے ریستوران، ہوٹل اور گیسٹ ہاؤسز میں بہت ہی کم لوگ نظر آ رہے ہیں۔ حکام نے ممکنہ انڈین حملے کے خدشے کے پیش نظر احتیاطی اقدامات لینے کی ہدایت کی ہے۔ یہ علاقہ سرحد کے قریب واقع بھی نہیں۔وادی نیلم جو سرحد پر واقع ہے اور پاکستان کے سب سے پسندیدہ سیاحتی مقامات میں شمار ہوتی ہے، اس وقت بند ہے۔ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز کے ایسوسی ایشن کے ترجمان ابرار احمد بٹ نے بتایا کہ علاقے میں 370 ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز مکمل طور پر خالی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’اس سیزن میں ہمیں شدید نقصان ہوگا‘سیاحت اس علاقے کے 16 ہزار افراد کو روزگار فراہم کرتی ہے۔
مقامی کشمیری سیاحوں کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ (فوٹو: روئٹرز)
ایک سیاح سید یاسر علی جو اپنے خاندان کے ساتھ اسلام آباد سے آئے ہوئے تھے، نے کہا کہ وہ اپنی اہلیہ اور تین بیٹیوں کے ساتھ پیر چناسی جانے سے خوفزدہ نہیں۔
’میں یہاں خود موجود ہوں، لوگ بلاوجہ خوفزدہ ہیں۔ یہ محفوظ ہے۔‘سری نگر کے ٹیکسی ڈرائیور نے کہا کہ پہلگام واقعے سے قبل سڑکوں پر رش تھا اور شہر میں گاڑی چلانے کے لیے جگہ نہیں ہوتی تھی۔
’میں اب سارا دن سواری کا انتظام کرتا ہوں۔ حملے سے پہلے میرے پاس اتنا کام ہوتا تھا کہ مزید کام نہیں لے سکتا تھا۔‘