اس بحث سے قطع نظر کہ پاکستان نے انڈیا کے طیارے گرائے یا نہیں، بی بی سی نے اس تحریر میں پاکستان اور انڈیا کو دفاعی سامان فروخت کرنے والی بعض چینی، فرانسیسی اور اسرائیلی کمپنیوں پر نظر دوڑائی ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ حالیہ کشیدگی نے انھیں کیسے متاثر کیا۔
چین میں ایک فضائی شو کے دوران جے 10 سی طیاروں کا مظاہرہپاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد یہ دعوے کیے جا رہے ہیں کہ چینی طیارہ J-10 بنانے والی کمپنی ’چنگڈو ایئر کرافٹ کارپوریشن‘ کے شیئرز میں اضافہ ہوا جبکہ رفال طیارے بنانے والی فرانسیسی کمپنی ڈیسو ایوی ایشن کے شیئرز میں کمی۔
یہ دعوے اس وقت سامنے آنا شروع ہوئے جب پاکستان نے دعویٰ کیا کہ اس نے چھ اور سات مئی کی درمیانی شب تین رفال سمیت پانچ انڈین طیاروں کو مار گرایا جبکہ انڈیا کی طرف سے اِن دعوؤں پر انڈین ایئر مارشل اے کے بھارتی کی جانب سے صرف اتنا کہا گیا کہ ’نقصانات لڑائی کا حصہ ہیں۔‘
بی بی سی ویریفائی نے تین ایسی ویڈیوز کی تصدیق کی ہے جن کے بارے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان میں نظر آنے والا ملبہ ایک فرانسیسی ساختہ رفال طیارے کا ہے جو انڈین فضائیہ کے زیر استعمال ہیں۔
دوسری جانب ایک امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’مار گرایا جانے والا کم از کم ایک انڈین طیارہ فرانسیسی ساختہ رفال ہی تھا‘ جبکہ فرانسیسی انٹیلیجنس سے وابستہ ایک اہلکار نے بھی سی این این سے بات کرتے ہوئے اس کی تصدیق کی تھی۔
انڈین ایئر مارشل اے کے بھارتی کی جانب سے صرف اتنا کہا گیا کہ ’نقصانات لڑائی کا حصہ ہیں‘واضح رہے کہ سنہ 2019 کی انڈیا پاکستان کشیدگی کے بعد انڈیا نے فرانسیسی کمپنی ڈیسو ایوی ایشن سے 36 رفال طیارے حاصل کیے تھے جبکہ لندن میں قائم انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز کے مطابق ’اسی دورانیے میں پاکستان نے چین سے کم از کم 20 جے 10 سی جنگی طیارے حاصل کیے اور یہ چینی ساختہ پی ایل 15 میزائلوں سے لیس ہیں۔‘
یاد رہے کہ پاکستانی فضائیہ کے ڈپٹی چیف آف ایئر آپریشنز ایئر وائس مارشل اورنگزیب کا کہنا تھا کہ انڈیا کے ساتھ فضائی کارروائی میں پاکستان کی طرف سے جے ایف 17، ایف 16 اور جے 10 طیاروں نے حصہ لیا تاہم انھوں نے اس حوالے سے تبصرہ نہیں کیا کہ آیا پاکستان نے چینی ساختہ پی ایل 15 کا استعمال کیا۔
اس بحث سے قطع نظر کہ پاکستان نے انڈیا کے طیارے گرائے یا نہیں، بی بی سی نے اس تحریر میں پاکستان اور انڈیا کو دفاعی سامان فروخت کرنے والی بعض چینی، فرانسیسی اور اسرائیلی کمپنیوں پر نظر دوڑائی ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ حالیہ کشیدگی نے انھیں کیسے متاثر کیا۔
پاکستان، انڈیا کو ہتھیار بیچنے والی چینی، فرانسیسی اور اسرائیلی کمپنیاں
سات مئی کو بلومبرگ نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کے دوران چینی دفاعی کمپنیوں کے شیئرز کی قدر میں اضافہ دیکھا گیا۔
جبکہ سی این بی سی کی آٹھ مئی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ جے 10 سی طیارے بنانے والی کمپنی چنگڈو کے شیئرز کی قدر میں اضافہ ہوا۔ اس نے بتایا کہ ہانگ کانگ میں لسٹڈ اس کے شیئر کی قدر چھ فیصد جبکہ شینزین میں 16 فیصد تک بڑھی جو اس کی قدر میں اکتوبر کے بعد سب سے بڑا اضافہ تھا۔
یہ وہی دن تھا جب پاکستانی حکام نے انڈیا کے آپریشن سندور کے جواب میں رفال سمیت متعدد انڈین طیارے گرانے کا دعویٰ کیا تھا۔
جے 10 سی طیارے بنانے والی کمپنی چنگڈو ایئر کرافٹ کارپوریشن (سی اے سی) ایک چینی ایرو سپیس گروپ ہے جس نے جے ایف 17 تھنڈر لڑاکا طیارے بنانے میں بھی پاکستان کے ساتھ اشتراک کی تھی۔
اس کا بنیادی کام ایوی ایشن ہتھیار (لڑاکا جہازوں میں استعمال ہونے والے ہتھیار) اور سامان کے لیے تحقیق کرنا، انھیں تیار کرنا اور برآمد کرنا ہے۔ اب تک یہ گروپ جنگی مقاصد کے لیے جے فائیو، جے سیون، جے نائن، جے ٹین، جے ٹوئنٹی اور شیولنگ جیسے طیارے تیار کر چکا ہے۔
چین اور پاکستان کی نہ صرف مشترکہ فوجی مشقیں ہوتی ہیں بلکہ پاکستان جدید ہتھیاروں کے لیے بڑے پیمانے پر چین سے خریداری کرتا ہے۔ سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ہتھیاروں کی درآمد کا 81 فیصد حصہ چین سے خریدا گیا جبکہ چین نے 5.28 ارب ڈالر کے ہتھیار پاکستان کو فروخت کیے ہیں جو اس کی جانب سے ہتھیاروں کی عالمی برآمدات کا 63 فیصد حصہ ہے۔
چینی میڈیا کے مطابق پاکستان چین سے ایف سی 31 سٹیلتھ جنگی طیارے بھی خریدنے کا اعلان کر چکا ہے۔
پاکستانی فضائیہ کے مطابق انڈیا کے ساتھ فضائی کارروائی میں پاکستان کی طرف سے جے ایف 17، ایف 16 اور جے 10 طیاروں نے حصہ لیادوسری طرف رفال طیارہ بنانے والی فرانسیسی کمپنی ڈیسو ایوی ایشن یورپی سٹاک ایکسچینج میں لسٹڈ ہے جس کی قدر میں 6 مئی سے 12 مئی تک قریب 24 یورو کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ اس پیشرفت کو گذشتہ ہفتے پاکستانی حکام کی جانب سے اسی دعوے سے جوڑا جا رہا ہے کہ انڈیا کے آپریشن سندور کے دوران پاکستانی فضائیہ نے جے 10 سی کی مدد سے رفال طیارے مار گرائے ہیں۔
سنہ 1929 سے فعال فرانسیسی کمپنی ڈیسو ایوی ایشن رفال کے علاوہ دیگر فوجی طیارے، بزنس جیٹ اور خلائی جہاز ڈیزائن کرتی ہے اور اس کمپنی کے تیارہ کردہ 10 ہزار جہاز دنیا کے 90 ممالک (بشمول انڈیا اور پاکستان) کے پاس ہیں۔ اس کے تیار کردہ فعال فوجی جہازوں کی تعداد ایک ہزار جبکہ فالکن جیٹس کی تعداد 2150 ہے۔
انڈیا نے طویل عرصے سے فرانسیسی دفاعی سامان پر انحصار کیا ہے۔ اس نے 1980 کی دہائی میں مراج 2000 طیارے جبکہ سنہ 2005 میں آبدوزیں خریدی ہیں۔ 2019 میں اسے ڈیسو ایوی ایشن سے 36 رفال طیارے ملے جبکہ اپریل 2025 میں اس نے 7.4 ارب ڈالر کے مزید 26 رفال طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا۔
اسی طرح ہروپ ڈرون بنانے والی اسرائیلی کمپنی اسرائیلی ایروسپیس انڈسٹریز کے حصص کی قدر میں بھی کچھ اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔
اس تناظر میں نو مئی کو اسرائیلی نیوز ویب سائٹ وائے نیٹ نیوز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ دفاعی صنعت نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدہ صورتحال پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے۔ ایک روز قبل پاکستانی حکام نے الزام لگایا تھا کہ انڈیا نے اسرائیلی ہروپ ڈرونز کی مدد سے اس کی حدود میں دراندازی کی ہے۔ جبکہ نئی دہلی نے پاکستان پر ترک ساختہ ڈرون کے ذریعے دراندازی کا الزام لگایا تھا۔
اس رپورٹ میں اسرائیلی دفاعی ذرائع کے حوالے سے لکھا گیا کہ گذشتہ سال انڈیا نے اسرائیل سے قریب 1.5 ارب ڈالر کے ہتھیار خریدے اور یوں انڈیا اسرائیلی دفاعی کمپنیوں کے لیے ایک بہترین مارکیٹ ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ البیٹ سسٹمز نامی اسرائیلی کمپنی انڈین فوج کو ہرمز ڈرون سپلائی کرتی ہے اور حیدرآباد میں ڈرونز کی مینوفیکچرنگ کا بھی ایک پلانٹ ہے۔ اسی شراکت داری کی مدد سے حماس کے سات اکتوبر کے حملے کے بعد انڈیا نے خام مال اور ڈرونز سپلائی کر کے اسرائیل کی مدد کی تھی۔
مگر انڈیا اور پاکستان کے درمیان سیز فائر کے اعلان سمیت عالمی سطح پر دیگر پیشرفتوں کے بعد اسرائیلی دفاعی کمپنیوں کے شیئرز کی قدر میں کمی ریکارڈ کی گئی تھی۔
روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق انڈیا اسرائیلی فوجی سامان کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ انڈیا نے گذشتہ ایک دہائی میں اسرائیل سے 2.9 ارب ڈالر کا فوجی سامان خریدا ہے جس میں ریڈار، سرویلنس، ڈرون اور میزائل شامل ہیں۔ سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی تحقیق کے مطابق انڈیا دنیا کا سب سے بڑا دفاعی امپورٹر ہے جس نے 2021 سے 2022 تک 37 ارب ڈالر کا فوجی سامان خریدا ہے۔
دریں اثنا انڈیا نے گذشتہ ایک دہائی کے دوران روس سے 21.8 ارب ڈالر، فرانس سے 5.2 ارب ڈالر اور امریکہ سے 4.5 ارب ڈالر کا دفاعی سامان خریدا ہے۔
انڈیا اسرائیلی دفاعی سامان کے بڑے خریداروں میں سے ایک ہےچنگڈو اور ڈیسو کو اُتار چڑھاؤ کا سامنا کیوں؟
چینی اور فرانسیسی ایئر کرافٹ کمپنیوں کے حصص میں اضافے اور کمی کے بارے میں سٹاک ایکسچینج سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تبدیلی کے پس پردہ کیپیٹل مارکیٹ کے محرکات ہیں جو دنیا میں سٹاک ایکسچینج میں لسٹڈ کمپنیوں کے حصص کی خرید و فروخت میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔
پاک کویت انویسٹمینٹ کمپنی کے ہیڈ آف ریسرچ اینڈ ڈویلپمینٹ سمیع اللہ طارق نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان فضائی جنگ کے دوران ٹیکنالوجی کا مقابلہ ہوا اور ان کی پرفارمنس کی بنیاد پر ہی ان دونوں کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں تبدیلی دیکھی گئی۔
انھوں نے بتایا کہ بظاہر ڈیسو ایوی ایشن کی پرفارمنس توقعات سے کم رہی اور چنگڈو کی توقع سے زیادہ، ’تو یہی اثر حصص کی قیمتوں پر بھی پڑا۔‘
ادھر عارف حبیب لمیٹڈ میں ہیڈ آف ریسرچ ثنا توفیق کی رائے ہے کہ ’شاید رفال کے سرمایہ کاروں کا اعتماد مجروح ہوا جبکہ دوسری طرف یہ بھی ممکن ہے کہ سرمایہ کار چنگڈو میں دلچسپی ظاہر کر رہے ہوں۔‘
مگر ثنا توفیق نے اس جانب اشارہ کیا کہ ’چنگڈو کے حصص کی قدر میں ابتدائی اضافے کے بعد اس میں کچھ کمی آئی جسے ٹیکنیکل کوریکشن (تکنیکی درستی) کہتے ہیں۔ اس سے مراد ہے کہ سٹاک ایکسچینج کے کاروبار میں جب ایک کمپنی کے حصص کی زیادہ خریداری ہو جاتی ہے تو کچھ سرمایہ کار سمجھتے ہیں کہ اسے بیچ کر منافع کما لینا چاہیے جسے سٹاک مارکیٹ میں پروفٹ ٹیکنگ کہتے ہیں۔‘
ماہرین کی رائے ہے کہ دنیا بھر میں حکومتیں دفاعی بجٹ میں اضافہ کر رہی ہیںکیا دو ممالک کے درمیان جھڑپوں سے دفاعی کمپنیوں کو فائدہ ہوتا ہے؟
سٹاک مارکیٹ بالخصوص عالمی منڈیوں میں کمپنیوں کے حصص پر نظر رکھنے والی کمپنی ’دی سمارٹ انویسٹر‘ کے شریک بانی ڈاکٹر ڈیوڈ کو کی رائے ہے کہ سرحد پار لڑائیوں کی خبریں دفاعی کمپنیوں کے شیئرز پر یقیناً اثر انداز ہو سکتی ہیں۔
تاہم وہ بی بی سی اردو کو بتاتے ہیں کہ ’اگر کسی کمپنی کو اس کا فائدہ ہوتا ہے اور اس کے حصص کی قدر وقتی طور پر بڑھتی بھی ہے تو یہ اضافہ دیرپا نہیں رہتا۔ مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ دفاعی سامان کی طلب مستقبل قریب میں ممکنہ طور پر کہیں کم ہونے جا رہی ہے۔‘
وہ وضاحت کرتے ہیں کہ ’عالمی سطح پر بدامنی میں بظاہر اضافہ ہو رہا ہے۔ دفاعی سامان کی طلب میں اضافہ دیرپا بھی ہو سکتا ہے جب حکومتیں اپنا دفاعی بجٹ بڑھا رہی ہیں۔‘
’یہ منصوبے دنوں تک محدود نہیں ہوتے بلکہ کئی برسوں تک چلتے ہیں۔‘ وہ مثال دیتے ہیں کہ ایک ٹینک یا طیارہ محض چند ہفتوں میں نہیں بنایا جا سکتا۔
ڈاکٹر ڈیوڈ کو کہتے ہیں کہ ’اِن دنوں دفاعی شعبہ گولیوں اور میزائلوں سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ دفاعی صنعت جدید طریقوں سے نگرانی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں بھی ملوث ہے۔‘
مگر ان کی رائے میں یہ کہنا درست نہیں کہ کوئی عالمی منڈی ’جنگ کی خبروں پر ردعمل نہیں دے گی۔‘
جب ہم نے سنگاپور میں مقیم سٹاک مارکیٹس کے اِس ماہر سے خصوصاً چینی کمپنی چنگڈو ایئر کرافٹ کارپوریشن کی حالیہ کارکردگی سے متعلق دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ جے 10 سی طیارے بنانے والی اس کمپنی کے حصص کی قدر کافی عرصے سے بڑھ رہی ہے۔ ان کے تجزیے کے مطابق اس کی وجہ ’ممکنہ طور پر چین کی جانب سے دفاعی بجٹ میں اضافہ ہے۔‘
اسی تناظر میں کوانٹم سٹریٹیجی سے منسلک ڈیوڈ روچ کی رائے ہے کہ منڈیوں میں چینی دفاعی کمپنیوں کے حصص میں قدر میں اضافہ شاید اس چیز کو بھی اجاگر کرتا ہے کہ اگر پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی بڑھتی ہے تو ’چین نقصانات کے ازالے کے لیے پاکستان کو مزید ہتھیار فراہم کرے گا۔‘
انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار سٹریٹیجک سٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق سلامتی کو درپیش بڑھتے ہوئے خطرات کے پیش نظر 2024 کے دوران عالمی دفاعی اخراجات 2.46 ٹریلین ڈالر تک جا پہنچے ہیں۔ ایشیا، مشرق وسطی، شمالی افریقہ اور یورپ کے ملکوں نے اپنے، اپنے دفاعی بجٹ بڑھا دیے ہیں۔ یہ رجحان 2025 میں بھی جاری رہنے کا امکان ہے۔