افغان طالبان کے اہم عسکری رہنما کی پہلگام حملے کے بعد انڈیا ’خفیہ‘ آمد: ابراہیم صدر کون ہیں؟

بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ طالبان حکومت میں نائب وزیر داخلہ ابراہیم صدر نے پاکستان اور انڈیا کے ایک دوسرے پر حملوں اور کشیدگی کے عروج پر ’خفیہ طور پر‘ انڈیا کا سفر کیا۔

بی بی سی پشتو کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان طالبان حکومت کے نائب وزیر داخلہ ابراہیم صدر نے پاکستان اور انڈیا کے ایک دوسرے پر حملوں اور کشیدگی کے عروج پر ’خفیہ طور پر‘ انڈیا کا سفر کیا۔

اس دوران بی بی سی پشتو کے مطابق ابراہیم صدر نے اس دورے کے دوران انڈین حکام سے ملاقات بھی کی ہے۔

ابراہیم صدر کو طالبان رہنما ملا ہبت اللہ کے قریب سمجھا جاتا ہے اور انھیں طالبان حکومت کے اہم اور سٹریٹیجک سکیورٹیکے امور سے متعلق فیصلہ سازی میں اہمیت دی جاتی ہے۔

انڈین میڈیا نے اس دورے کو اہم قرار دیا ہے کیونکہ طالبان کے ایک سینیئر اہلکار ایک ایسے وقت میں انڈین حکام سے بات چیت کے لیے انڈیا کا دورہ کر رہے تھے جب 22 اپریل کو پہلگام پر حملے کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی تھی۔

انڈین اخبار ’سنڈے گارڈیئن‘ نے لکھا ہے کہ طالبان کے ایک ایسے سینئر عہدیدار کے ساتھ ’خفیہ مواصلاتی چینل‘ کھولنا جو پاکستان کے بارے میں تنقیدی نظریات رکھتے ہیں‘ ظاہر کرتا ہے کہ انڈیا افغانستان میں نئی حکومت کے ساتھ بات چیت کے لیے اپنے نقطہ نظر پر نظرِثانی کر رہا ہے۔

ایک حالیہ پیش رفت میں انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے گذشتہ روز (جمعرات، 15 مئی) کو طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ٹیلی فون پر بات کی۔

انھوں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ ایکس پر لکھا کہ: ’میری آج شام افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی کے ساتھ اچھی بات چیت ہوئی۔ پہلگام میں دہشت گرد حملے کی شدید مذمت پر میں ان کا تہہِ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘

’میں نے افغانستان کے لوگوں کے ساتھ اپنی دیرینہ شراکت داری اور ان کی ترقیاتی ضروریات کے لیے ہماری مسلسل حمایت پر زور دیا۔ ہم نے تعاون کو بڑھانے کے طریقوں پر بھی بات کی۔‘

خیال رہے کہ ابراہیم صدر طالبان کے سرکردہ کمانڈروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے غیر ملکی افواج اور سابق افغان حکومت کے خلاف برسوں کی جنگ کے دوران نام نہاد 'ہلمند کونسل' کی قیادت کی تھی۔

وہ امریکی پابندیوں کا شکار طالبان رہنماؤں کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔

نائب وزیر داخلہ ابراہیم صدر کون ہیں؟

مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کے مطابق ابراہیم صدر ایک سخت گیر فوجی کمانڈر ہیں جنھوں نے مئی 2021 میں جنوبی ہلمند صوبے میں طالبان کی جانب سے لڑائی کی قیادت کی۔ سنہ 90 کی دہائی میں وہ طالبان دور میں نائب وزیرِ دفاع رہے۔ اطلاعات کے مطابق ابراہیم صدر کی پیدائش سنہ 1960 کی دہائی میں ہوئی تھی۔

مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کے مطابق ان کی طالبان کے سابق رہبرِ اعلیٰ ملا اختر منصور کے ساتھ وابستگی بھی تھی اور یہ بات طالبان میں ان کی اہمیت اور اثرورسوخ کا پتا دیتی ہے۔ ابراہیم صدر کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ وہ ان طالبان فوجی رہنماؤں میں سے ہیں جن کے ایران کے پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس سے قریبی روابط ہیں۔

بی بی سی مانیٹرنگ کے مطابق اکتوبر 2018 میں امریکی محکمہ خزانہ کے دفتر برائے غیر ملکی ایسٹ کنٹرول (او ایف اے سی) نے ابراہیم صدر کو خودکش حملوں اور دیگر خطرناک سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں ایک فہرست میں ڈال دیا تھا۔ ان پر ایران کی مدد سے یہ سب کام کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ ’سنہ 2018 میں ایرانی حکام نے ابراہیم کو مالی امداد اور انفرادی ٹریننگ دی تاکہ اس کی ایران سے وابستگی ثابت نہ ہو سکتے جبکہ ایرانی ٹرینرز طالبان میں ٹیکٹیکل اور جنگی صلاحیتوں کو بڑھانے کی کوشش کرنا چاہتے تھے۔‘

انڈیا اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری کب آئی؟

اگست 2021 میں جب طالبان دوبارہ اقتدار میں آئے تو افغانستان میں انڈین سفارت خانے اور قونصل خانے کے سفارت کار اور عملہ عجلت میں افغانستان سے نکل گیا تھا۔

انڈیا خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے میں بہت سست رہا ہے۔

پہلگام کے واقعے کے بعد اس وقت کے انڈین خارجہ سیکرٹری برائے افغانستان، پاکستان اور ایران نے 27 اپریل کو کابل کا دورہ کیا۔

اسی سفر کے دوران انڈین حکام بھی بحران پر طالبان حکومت کے مؤقف کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ تاہم یہ مسئلہ سرکاری خبرناموں میں اتنا واضح نہیں تھا۔

طالبان نے ابتدائی طور پر پہلگام حملے کی مذمت کرتے ہوئے ایک اور بیان میں انتہائی محتاط زبان میں کہا تھا کہ ’یہ بحران خطے کے مفاد میں نہیں ہے۔‘

چار ماہ قبل جنوری 2025 میں طالبان حکومت کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی میں انڈین نائب وزیر خارجہ وکرم مصری سے ملاقات کی تھی۔

یہ 2021 کے بعد طالبان حکومت اور انڈین حکام کے درمیان اعلیٰ ترین سطح کی پہلی ملاقات تصور کی جا رہی ہے۔

انڈین نے کابل میں اپنے مشن کے متعدد اہلکاروں کو واپس بھیج دیا ہے لیکن کابل میں ملک کا سفارت خانہ اور کچھ دوسرے شہروں میں اس کے سفارتی مشن ابھی تک کام نہیں کر رہے۔

دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے باعث پاکستان اور انڈیا کے درمیان واہگہ بارڈر کراسنگ بھی بند کر دیا گیا ہے۔ افغانستان کا 80 فیصد سامان اسی راستے سے انڈیا کو برآمد کیا جاتا تھا۔

انڈیا نے اپنے رواں مالی سال کے بجٹ میں افغانستان کے لیے امداد کو بڑھا کر 100 کروڑ روپے کر دیا ہے۔

شعبہ مطالعہ اور خارجہ پالیسی، آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن، نئی دہلی کے نائب صدر پروفیسر ہرش وی پنت نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ ’افغانستان میں طالبان کی حکومت کو معاشی بحران کا سامنا ہے اور تمام تعطل کے باوجود انڈیا افغانستان کو انسانی امداد کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہے۔ پہلگام حملے کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان تجارت بند ہے اور افغانستان کو جانے والی امداد بھی متاثر ہوئی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان اس وقت افغانستان کے لیے انڈیا کے ساتھ تجارتی تعلقات برقرار رکھنے کا واحد راستہ ہے۔ انڈیا ایران کی چابہار بندرگاہ کے ذریعے وسطی ایشیا کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس بندرگاہ کے ذریعے افغانستان، پاکستان کا راستہ اختیار کیے بغیر انڈیا اور باقی دنیا کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کر سکتا ہے۔‘

بقول اُن کے ’ایسا نہیں ہے کہ طالبان اور انڈیا کے تعلقات دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد مکمل طور پر منقطع ہو گئے تھے بلکہ بیک چینلز کے ذریعے بات چیت چل رہی تھی۔ تعلقات میں بہتری دونوں ممالک کی ضرورت ہے اور تعلقات میں گرمجوشی اس بات کا مظہر ہے۔‘

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں دراڑیں

گذشتہ کچھ عرصے سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان باہمی تعلقات تناؤ کا شکار ہیں اور اس کشیدگی میں اضافہ طالبان کے سنہ 2021 میں ملک کا اقتدار سنبھالنے کے بعد ہوا ہے۔

جب سنہ 2021 میں افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت ختم ہوئی اور امریکی افواج کے انخلا کے نتیجے میں افغان طالبان اقتدار میں آئے تو پاکستان میں بیشتر سفارتی اور عسکری امور کے ماہرین کی رائے تھی کہ اس بڑی تبدیلی کے نتیجے میں پاکستان کی خطے میں گرفت مضبوط ہو جائے گی۔

لیکن پچھلے چار سالوں میں چیزیں تیزی سے بدلی ہیں۔ پاکستان اس دورانیے میں بارہا کابل سے مطالبہ کر چکا ہے کہ وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی کرے جو ’افغان سرزمین کو پاکستان میں حملوں کے لیے استعمال کر رہی ہے۔‘ طالبان حکومت اِن الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔

پاکستان کی توقعات کے برعکس، کابل میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد پاکستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان سینٹر فار کانفلیکٹ اور سکیورٹی کے مطابق سنہ 2024 میں نومبر کے مہینے میں سب سے زیادہ حملے ہوئے جن میں 240 افراد ہلاک ہوئے جن میں تقریباً 70 سکیورٹی اہلکار شامل تھے۔

پاکستان کی جانب سے ملک سے مرحلہ وار افغان باشندوں کی بیدخلی کا عمل بھی شروع کیا گیا ہے اور یہ بھی دونوں ممالک میں تناؤ کی وجہ رہا ہے۔

طالبان حکام کا کہنا ہے کہ آنے والے مہینوں میں تقریباً 20 لاکھ افراد کو پڑوسی ملک پاکستان سے نکالا جانا ہے۔ طورخم بارڈر کراسنگ کے ذریعے روزانہ 700 سے 800 خاندان افغانستان بھیجے جا رہے ہیں۔

یو این ایچ سی آر کے مطابق تقریباً 35 لاکھ افغان شہری پاکستان میں مقیم ہیں۔ ان میں وہ 7 لاکھ لوگ شامل ہیں جو 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان ہجرت کر گئے تھے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.