پاکستان بھر میں یومِ تشکر کا دن ان سپاہیوں کے نام رہا جنہوں نے خاموشی سے، مگر بے مثال دلیری سے، دشمن کے ہر وار کو ناکام بنایا۔ آپریشن "بنیان مرصوص" کی کامیابی صرف ایک عسکری معرکہ نہیں، بلکہ ایک ایسی تاریخی گھڑی بن چکی ہے جس نے ثابت کر دیا کہ جذبہ قربانی، جدید حکمت عملی اور قومی یکجہتی جب ایک ہو جائیں تو دشمن چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، اسے پیچھے ہٹنا ہی پڑتا ہے۔
شہداء کے لواحقین نے اپنے دل کی بات قوم سے کہی۔ وہ دکھ، وہ فخر، اور وہ جذبہ جو صرف وہی محسوس کر سکتا ہے جس نے اپنے بیٹے کو وطن پر قربان ہوتے دیکھا ہو۔ ان میں میجر ذکا شہید کے والد کا کہنا تھا: “مودی نے جتنے بھی طیارے خریدے ہوں، پاکستان کی فوج کے جذبے کا کوئی متبادل دنیا میں نہیں۔” ان کی آنکھیں فخر سے بھر آئیں جب انہوں نے کہا کہ بیٹے کی شہادت کا جواب آج پاک فوج نے دشمن کو دے دیا۔
اسی طرح، سپاہی ارشد خان اور حوالدار محمد زاہد کے والدین، جنہوں نے چند مہینوں میں اپنے دو بیٹوں کو سبز ہلالی پرچم میں لپٹا دیکھا، دکھ کو نہیں، حوصلے کو اپنایا۔ والد کا کہنا تھا، “شہادت ہر کسی کا خواب ہوتا ہے، اور میرے بیٹوں کو یہ اعزاز نصیب ہوا۔” والدہ نے روایتی ماں کی طرح نہیں، ایک وفادار سپاہی کی طرح بات کی: “میری دعائیں ان کے ساتھ تھیں، اب میرا صبر ان کے نام ہے۔”
کیپٹن روح اللہ شہید کے والد نے اس معرکے کو "حق و باطل کی لڑائی" قرار دیا اور کہا کہ دشمن کو یہ غلط فہمی ہو گئی تھی کہ ہماری فوج صرف مغربی سرحد پر مصروف ہے۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ جس قوم کے بچے شہادت کو اعزاز سمجھتے ہیں، وہ کسی بھی محاذ پر جھکنے والے نہیں۔
قوم آج ان والدین کی قربانی کو سلام پیش کر رہی ہے، جنہوں نے بیٹے دیے مگر حوصلہ نہیں ہارا۔ پاک فوج کی اس فتح نے صرف سرحد پار دشمن کو پیغام نہیں دیا، بلکہ ہر پاکستانی کو یاد دلایا کہ یہ سرزمین اُن قربانیوں سے محفوظ ہے جو خاموشی سے دی گئیں، مگر کبھی فراموش نہیں ہوں گی۔