شادی سے انکار یا مالی تنازع: ’نیہا کی آخری چیخ آج بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہے‘

23 جون کو دہلی میں ایک عمارت کی چھت سے گرنے کے نتیجے میں 19 سالہ نیہا کی موت واقع ہو گئی۔ پولیس نے اس واقعے میں نامزد ملزم گرفتار کر لیا ہے تاہم دونوں خاندانوں کی جانب سے متضاد دعوے سامنے آ رہے ہیں۔
نیہا
BBC
نیہا نے گذشتہ سال 12ویں جماعت کا امتحان پاس کیا تھا اور وہ ایک نجی کمپنی میں نوکری کرتی تھیں

23 جون کو دہلی میں اشوک نگر کے علاقے میں واقع ایک عمارت کی چھت سے گرنے کے نتیجے میں 19 سالہ نیہا کی موت واقع ہو گئی تھی۔

پولیس نے یہ واقعہ پیش آنے کے 24 گھنٹوں کے اندر لڑکی کو چھت سے دھکا دینے کے الزام میں 24 سالہ لڑکے توفیق کواُن کے گھر سے گرفتار کرنے کا اعلان کیا۔

انڈیا سے متعلق بی بی سی اردو کی تحاریر براہ راست اپنے فون پر ہمارے واٹس ایپ چینل سے حاصل کریں۔ بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں

نیہا کے گھر والے اسے قتل کی واردات قرار دے رہے ہیں، جبکہ ملزم کے بھائی کا دعویٰ ہے کہ اُن کا بھائی بے قصور ہے۔

ان متضاد دعوؤں کے بیچ، جب بی بی سی کی ٹیم اس واقعے کے دو روز بعد نیہا کے گھر پہنچی تو وہاں میڈیا، ہندو تنظیموں کے کارکناں اور دہلی پولیس کے اہلکاروں کی بھاری تعداد نظر آئی۔

نیہا کا خاندان اسی پانچ منزلہ عمارت کی پہلی منزل پر رہائش پذیر ہے جہاں سے گر کر نیہا کی موت ہوئی تھی۔ سات افراد پر مشتمل یہ خاندان دو چھوٹے کمروں میں رہتا ہے۔

نیہا کی بڑی بہن نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے لیے یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ ان کی بہن اب اس دنیا میں نہیں رہی۔

بائیں ہاتھ کی تصویر اس چھت کی ہے جہاں سے مبینہ طور نیہا کو نیچے دھکیلا گیا ہے، دوسری تصویر اس جگہ کی ہے جہاں سے نیہا ملی تھی۔
BBC
بائیں ہاتھ کی تصویر اس چھت کی ہے جہاں سے مبینہ طور نیہا کو نیچے دھکیلا گیا ہے، دوسری تصویر اس جگہ کی ہے جہاں گر کر وہ ہلاک ہوئیں

’نیہا کی آخری چیخ آج بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہے‘

ان کی بہن کا کہنا ہے کہ نیہا سات بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھیں اور انھوں نے گذشتہ سال 12ویں جماعت کا امتحان پاس کیا تھا اور آگے پڑھائی جاری رکھنا چاہتی تھیں لیکن گھر کی مالی حالات کی وجہ سے ایسا نہ کر سکیں۔

نیہا کے والد سریندر یادو لکشمی نگر کے علاقے ہی میں گارڈ کے طور پر کام کرتے تھے لیکن پچھلے سال ان کی نوکری ختم ہو گئی تھی۔

بڑی بہن کے مطابق یہ صورتحال دیکھتے ہوئے نیہا نے فیصلہ کیا کہ وہ گھر چلانے میں مدد کرے گی اور وہ ساڑھی کی ایک دکان پر کام کرنے لگیں۔ انھوں نے پچھلے سال دیوالی تک وہاں کام کیا۔ بعد ازاں انھیں ایک نجی کمپنی میں نوکری مل گئی۔

بہن کے مطابق ’نیہا ویب ڈیزائنر بننا چاہتی تھی۔ لیکن کون جانتا تھا کہ وہ اگلے کچھ ہی دنوں میں وہ ہمارے درمیان نہیں ہو گی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ان کی بہن تو چلی گئی ہے لیکن اس کی آخری چیخ اب تک اُن کے کانوں میں گونج رہی ہے۔

نیہا کے گھر والوں کا کیا کہنا ہے؟

نیہا کے اہلخانہ کا دعویٰ ہے کہ جب مبینہ طور پر توفیق نے نیہا کو چھت سے دھکا دیا تو اُن کے والد سریندر یادو بھی وہاں موجود تھے۔

نیہا کی والدہ اور بہن کا کہنا ہے کہ واقعے کے روز نیہا عمارت کی چھت پر رکھی واشنگ مشین میں کپڑے دھونے گئی تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ کچھ دیر بعد نیہا نے اپنے والد کو بتایا کہ مشین میں پانی نہیں آ رہا جس پر اس کے والد چھت پر گئے۔

نیہا کے گھر والوں نے الزام عائد کیا کہ جب والد چھت پر پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ توفیق برقعہ پہنے ہوئے تھا اور نیہا سے لڑ رہا تھا۔

نیہا کے گھر والے دعویٰ کرتے ہیں کہ جب سریندر یادو اپنی بیٹی کو بچانے کے لیے آگے بڑھے تو توفیق نے انھیں پیچھے دھکیل دیا اور اس کے بعد مبینہ طور پر نیہا کو چھت سے دھکا دے دیا۔

اس بارے میں جب بی بی سی نے نیہا کے والد سے بات کرنے کی کوشش کی تو گھر والوں نے بتایا کہ وہ اسی وقت نیہا کی راکھ بہا کر واپس آئے ہیں اور بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

تصویر
BBC
جب بی بی سی کی ٹیم نیہا کے گھر پہنچی تو وہاں بڑی تعداد میں میڈیا اور ہندو مذہبی تنظیموں کے کارکن موجود تھے

واقعے کے روز کیا ہوا؟

نیہا کی بڑی بہن میناکشی کے مطابق واقعے کے وقت وہ گھر پر ہی موجود تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک پڑوسی نے انھیں آ کر بتایا کہ کسی نے نیہا کو چھت سے نیچے دھکیل دیا ہے۔

میناکشی کہتی ہیں کہ وہ بھاگ کر نیچے آئیں تو دیکھا کہ نیہا اینٹوں کے ڈھیر کے درمیان پڑی تھیں۔

ان کا کہنا ہے ’ہم اسے قریبی جی ٹی بی ہسپتال لے گئے۔ وہ سارے راستے درد سے چیختی رہی۔ ہسپتال پہنچ کر وہ مجھ سے بار بار پانی مانگتی رہی۔ اس کا گلا اتنا خشک تھا کہ وہ اپنے ہاتھ میں لگے گلوکوز کے پائپ کو منہ سے کاٹنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ہم محسوس کر رہے تھے کہ وہ خود کو زندہ رکھنے کی جنگ لڑ رہی ہے۔ وہ بار بار اپنے والدین کو کہ رہی تھی کہ اسے بچا لیں لیکن ہم اسے بچا نہ پائے۔‘

جیسے ہی اس واقعہ کی خبر علاقے میں پھیلی تو بجرنگ دل جیسی ہندو تنظیموں کے کارکن نیہا کے گھر پہنچنا شروع ہو گئے۔ نیہا کی آخری رسومات میں بھی بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔

سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے اس دوران کئی اشتعال انگیز نعرے بھی لگائے گئے۔

اشوک نگر میں زیادہ تر ہندو برادری کے گھر ہیں۔

23 جون کے اس واقعے کے بعد یہاں رہنے والے افراد میں اس بارے میں کافی بحث ہو رہی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس واقعے کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

مقامی افراد کا دعویٰ ہے کہ اس کیس میں نامزد ملزم کے نیہا کے خاندان سے قریبی تعلقات تھے اور وہ پچھلے تین سالوں سے ان کے گھر آ رہا تھا۔

میناکشی کہتی ہیں کہ ’وہ ہمارے خاندان کے ایک فرد کی طرح تھا۔ ہمارے دو چھوٹے بھائی ہیں، اس لیے ہم بہنیں اسے بڑے بھائی جیسا سمجھتی تھیں، جبکہ میری ماں اس کے ساتھ اپنے بیٹے جیسا سلوک کرتی تھی۔‘

میناکشی نے الزام عائد کیا کہ کچھ عرصہ قبل ملزم نے ان کی بہن پر شادی کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔

’جب میری بہن نے اپنا فون نمبر بدلا تو وہ اس کے آفس کال کرنے لگا۔ آفس والوں نے اسے ایک بار وارننگ بھی دی تھی کہ اگر نیہا اس سے بات نہیں کرنا چاہتی تو وہ اسے کیوں تنگ کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود وہ دھمکیاں دینے سے باز نہیں آیا۔‘

’اس نے نیہا کو دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے اس سے شادی نہیں کی تو وہ اسے نہیں چھوڑے گا۔‘

میناکشی کا دعویٰ ہے کہ نیہا نے اپنی والدہ کو بھی دھمکیوں سے متعلق بتایا تھا۔ اُن کے مطابق والدہ نے بھی توفیق کو سمجھانے کی کوشش کی تھی۔

'لیکن ہمارے لیے یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ وہ ایسا کچھ کر سکتا ہے۔'

نیہا
BBC
نیہا کے گھر کے باہر پولیس تعینات کی گئی ہے

نیہا کی والدہ کہتی ہیں کہ ’توفیق نے ہمارے اعتماد کا بدلہ ہماری بیٹی کو مار کر چکایا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے توفیق کو سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ ان کے خاندان میں ایسا نہیں ہوتا۔ ’جب نیہا نے آپ کو راکھی باندھی ہی تو شادی کیسے ہو سکتی ہے؟ شادی اس لیے نہیں ہو سکتی کیونکہ آپ کا تعلق کسی اور مذہب سے ہے۔ لیکن اس نے میری بیٹی کو مار دیا۔‘

انھوں نے مطالبہ کیا کہ ’توفیق کو بھی ایسی ہی موت ملنی چاہیے جو اس نے یماری بیٹی کو دی ہے۔‘

لیکن اس واقعے کا ایک دوسری رخ بھی ہے۔

نیہا کے اہلخانہ کے اس دعوے کے برعکس ملزم کے اہلخانہ کا دعویٰ ہے کہ گذشتہ کئی برسوں دونوں کے درمیان تعلق تھا۔

رام پور کے علاقے ٹانڈہ کے رہائشی توفیق کے والد کا انتقال ہو چکا ہے اور والدہ کافی عرصے سے بیمار ہیں۔ ان کے دس بہن بھائی ہیں۔

توفیق کے بھائی ناظم جو اس کے ساتھ شاہدرہ میں کام کرتے تھے نے بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کا بھائی بے قصور ہے۔

جب اُن سے پوچھا گیا کہ واقعے کے روز توفیق نیہا کے گھر کیا کرنے گیا تھا تو انھوں نے بتایا کہ وہ پچھلے کئی سالوں سے نیہا کے گھر جایا کرتا تھا۔

انھوں نے مزید دعویٰ کیا کہ اُن کا بھائی اس خاندان کی مالی مدد بھی کرتا رہا تھا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ توفیق نے نیہا کی والدہ کو تقریباً 60 ہزار روپے دیے تھے اور اُس روز ’وہ یہی رقم واپس لینے نیہا کے گھر گیا تھا۔‘

بھائی کے مطابق واقعے کے بعد توفیق اپنے گاؤں واپس آ گیا تھا جہاں سے پولیس نے اسے گرفتار کر لیا تھا۔

پولیس کا کیا کہنا ہے؟

جیوتی نگر پولیس سٹیشن
@DCPNEastDelhi
جیوتی نگر پولیس سٹیشن

اس واقعے کا مقدمہ دہلی کے جیوتی نگر پولیس سٹیشن تھانے میں درج ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 103کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

انڈین اخبار انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے ایڈیشنل ڈی سی پی گورو گپتا نے بتیا کہ 'نیہا اور توفیق ایک دوسرے کو کافی عرصے سے جانتے تھے، لیکن پچھلے کچھ مہینوں سے نیہا نے توفیق سے بات کرنا بند کر دی تھی۔ جب توفیق نے سنا کہ نیہا کے گھر والے اس کی شادی کسی اور سے طے کرنے والے ہیں، تو وہ 23 جون کی صبح برقعہ پہن کر اس سے ملنے گیا۔ وہاں ان دونوں کے درمیان شادی کے معاملے پر تلخ کلامی ہوئی اور توفیق نے اسے نیچے دھکیل دیا۔‘

اس بیان کی تصدیق کے لیے بی بی سی نے ڈی سی پی آشیش مشرا، ایڈیشنل ڈی سی پی گورو گپتا، کیس کے تفتیشی افسر اور جیوتی نگر پولس اسٹیشن کے ایڈیشنل ایس ایچ او نوین کمار سے رابطہ کرنے کی بہت کوشش کی، لیکن تاحال کوئی جواب نہیں ملا۔

ڈی سی پی نارتھ ایسٹ آشیش مشرا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے صرف اتنا کہا ہے کہ معاملے کی تحقیقات جاری ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts