خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں سکیورٹی فورسز اور مسلح شدت پسندوں کے درمیان جھڑپوں اور حملوں میں ایک مرتبہ پھر خطرناک حد تک اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ ان میں قبائلی اضلاع شمالی وزیرستان، اپر جنوبی وزیرستان اور لوئر جنوبی وزیرستان کے علاوہ شہری علاقوں میں لکی مروت، ٹانک اور کلاچی کے علاقے زیادہ حساس بتائے جا رہے ہیں۔

پاکستان کے سابقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز پر خودکش حملے کو دو روز گزرنے کے بعد بھی حالات کشیدہ ہیں۔ پیر کے روز کرفیو کے بعد سڑکیں ویران تھیں اور حملے کی زد میں آنے والے علاقے میں سکیورٹی فورسز کی نقل و حرکت کے لیے دفعہ 144 نافذ کی گئی تھی۔
28 جون کو صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں سکیورٹی فورسز پر حالیہ عرصے کے بڑے حملوں میں سے ایک ہوا تھا۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق سنیچر کے روز سکیورٹی فورسز کے قافلے سے بارود سے بھری گاڑی ٹکرائی گئی جس میں 13 اہلکار ہلاک ہوئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق جوابی کارروائی میں 14 شدت پسندوں کی ہلاکت ہوئی۔
پاکستان نے اس حملے کا الزام ’انڈین سپانرڈ‘ شدت پسندوں پر عائد کیا جبکہ انڈین وزارت خارجہ نے اس الزام کی تردید کی تھی۔
میر علی میں خودکش حملے کی ذمہ داری کالعدم حافظ گل بہادر نیٹ ورک سے منسلک اسود الحرب نامی تنظیم نے قبول کی تھی۔
خیبر پختونخوا میں پُرتشدد واقعات، کشیدگی اور ’تشویشناک صورتحال‘
خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں سکیورٹی فورسز اور مسلح شدت پسندوں کے درمیان جھڑپوں اور حملوں میں ایک مرتبہ پھر خطرناک حد تک اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
ان میں تین قبائلی اضلاع شمالی وزیرستان، اپر جنوبی وزیرستان اور لوئر جنوبی وزیرستان کے علاوہ شہری علاقوں میں لکی مروت، ٹانک اور کلاچی کے علاقے زیادہ حساس بتائے جا رہے ہیں جہاں تشدد اور اغوا کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔
28 جون کو ہی شمالی وزیرستان کے علاقے غلام خان کے قریب بھی سکیورٹی فورسز پر حملہ ہوا تھا جس میں مقامی پولیس کے مطابق چھ اہلکار زخمی ہوئے تھے۔
مقامی پولیس کے مطابق شمالی وزیرستان میں تشدد کے ان بڑھتے ہوئے واقعات کے بعد غلام خان کے مقام پر پاک افغان سرحد ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کر دی گئی ہے جس کے بعد اس سرحد سے تجارتی سرگرمیاں معطل ہو گئی ہیں۔
اس کے علاوہ شمالی وزیرستان کے ڈپٹی کمشنر نے تین مختلف نوٹیفیکیشن جاری کر کے رات کو کرفیو اور پیر کے دن تمام شاہراؤں پر دفعہ 144 نافذ کرنے کے احکامات جاری کیے۔
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے اتمانزئی قبیلے کے ترجمان مولانا بیت اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ مقامی لوگوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سکیورٹی فورسز اور شدت پسندوں کے درمیان جھڑپوں کی وجہ سے اس وقت مقامی لوگ بُری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ ’یہ سلسلہ اب کا نہیں بلکہ ایک عرصے سے جاری ہے، جو ختم ہونے کا نام بھی نہیں لے رہا۔‘
ایک مقامی شہری نے بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ ایک گوریلا وار جاری ہے جس میں دونوں جانب سے ایک دوسرے پر حملے ہو رہے ہیں اور اس میں عام شہریوں کا بھی بڑا نقصان ہو رہا ہے۔
19 مئی کو ایک مکان پر کواڈ کاپٹر کے ذریعے بارودی مواد پھینکا گیا تھا جس میں چار بچے ہلاک ہو گئے تھے۔ اسی علاقے میں اس کے بعد ایک اور کواڈ کاپٹر حملے کی اطلاع بھی ملی تھی جب کرکٹ کھیلتے بچوں پر بارودی مواد پھینکا گیا تھا۔
میری علی کے ہرمز کے علاقے میں کواڈ کاپٹر حملے کے بعد قریب ایک ہفتے تک مقامی لوگوں نے لاشیں سڑکوں پر رکھ کر احتجاج کیا تھا جس کے بعد سکیورٹی حکام اور حکومت کی جانب سے امن کے قیام کے لیے اقدامات کی یقین دہانی کے بعد احتجاج ختم کرنے کا اعلان کیا گیا۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی احسان اللہ ٹیپو محسود نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر لکھا کہ ’جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان ایک مرتبہ پھر آپریشن ضرب عضب اور راہ نجات کے ہنگامہ خیز دور کی طرف تیزی سے واپس جا رہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان شدید جھڑپوں کا سب سے زیادہ اثر ’عام شہری برداشت کر رہے ہیں۔‘
احسان اللہ ٹیپو محسود سے اس بارے میں رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں جس طرح علاقے میں طالبان کی موجودگی نظر آ رہی ہے اور اس کے علاوہ وزیرستان میں جس طرح کے واقعات پیش آ رہے ہیں اس کے بعد ایسا لگتا ہے کہ سکیورٹی فورسز ’شاید ایک اور ملٹری آپریشن کی تیاری کریں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پورے جنوبی پختونخوا میں کشیدگی ہے۔ ’بازاروں، مارکیٹوں اور عام جگہوں پر طالبان دیکھے جاتے ہیں۔‘
اگرچہ سرکاری سطح پر طالبان کی موجودگی کی تصدیق نہیں کی جاتی لیکن سوشل میڈیا پر جس طرح کی ویڈیوز سامنے آتی ہیں، ان میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ سڑکوں پر مسلح افراد لوگوں کی تلاشی بھی لیتے ہیں اور وہاں اپنی موجودگی بھی ظاہر کرتے ہیں۔ ان ویڈیوز کی آزادانہ تصدیق نہیں ہو سکی۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار فرزانہ علی نے بی بی سی کو بتایا کہ گذشتہ ایک ہفتے کے دوران جس طرح سے سکیورٹی فورسز پر حملے ہو رہے ہیں اور اس کے علاوہ جس طرح کواڈ کاپٹرز استعمال کیے جا رہے ہیں یہ صورتحال ’انتہائی تشویشناک ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت شدت پسند سکیورٹی فورسز کے قافلوں پر بارود سے بھری گاڑیوں سے حملہ آور ہو رہے ہیں اور سرکاری مقامات پر ڈرون یا کواڈ کاپٹرز کے ذریعے حملے بھی کیے جاتے ہیں۔ انھوں نے ایسے واقعات کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’شدت پسند اپنے اہداف تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔‘
پُرتشدد واقعات اور پس پردہ تنظیمیں
شمالی وزیرستان میں 25 مئی کو ایک خود کش حملہ ہوا جس میں 13 سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے اور اس کے بعد سکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی کا دعوی کیا جس میں 14 شدت پسندوں کو مارا گیا تھا۔
25 جون کو تحصیل غلام خان میں سکیورٹی فورسز کے قافلے کے ساتھ ایک دھماکے میں چھ اہلکار زخمی ہو گئے تھے۔ مقامی ذرائع نے اس واقعے کی تصدیق کی تھی لیکن اس بارے میں آئی ایس پی آر کی جانب سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔
اسی طرح 29 جون کو ضلع لکی مروت میں وانڈہ سیمو کے علاقے میں سکیورٹی فورسز کی گاڑی پر اس وقت آئی ای ڈی سے حملہ کیا تھا جب فورسز کے اہلکار وہاں سرچ آپریشن کر رہے تھے۔ پولیس اہلکاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر واقعے کی تصدیق کی ہے۔ اس حملے میں دو اہلکار ہلاک اور تین زخمی ہو گئے تھے۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے اس بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا تھا۔
لکی مروت میں ہی 27 جون کو کیچی قمر کے مقام پر ایک کواڈ کاپٹر کے ذریعے دیسی ساختہ بم پھینکا گیا جس میں بچوں سمیت 14 افراد زخمی ہو گئے تھے۔ اس بارے میں مقامی پولیس اہلکاروں نے بتایا تھا کہ علاقے کی ایک مسجد میں تین مسلح شدت پسندوں کی موجودگی کی اطلاع تھی اور یہ کارروائی ان کے خلاف کی گئی تھی لیکن وہ اس میں محفوظ رہے تھے اور عام شہری زخمی ہو گئے تھے۔
اسی طرح ضلع ٹانک میں ایک پولیس اہلکار کو قتل کر دیا گیا جبکہ گذشتہ ہفتے ڈیرہ اسماعیل خان سے ٹانک جانے والے سرکاری ملازمین کو اغوا کر لیا گیا تھا جنھیں بعد میں بازیاب کرا لیا گیا تھا۔
30 جون کو اپر جنوبی وزیرستان کے صدر مقام لدھا کے قریب سکیورٹی فورسز کی چوکی پر شدت پسندوں نے حملہ کیا تھا جس پر فورسز نے جوابی کارروائی کی اور اس جھڑپ میں ایک گولہ ایک مکان پر گرنے سے ایک خاتون ہلاک ہوئیں۔
لدھا سے لوکل باڈیز کے چیئرمین امان اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ تو اب ’روز کا معمول بن چکا ہے‘ اور اس بارے میں مقامی قبائل ایک مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ لدھا میں مقامی قبائل سے دو گاؤں خالی کرنے کا بھی کہا گیا گیا اور اس بارے میں 10جولائی کا تمام قبائل کا ایک مشترکہ اجلاس مکین کے مقام پر ہو گا جس میں متفقہ فیصلہ کیا جائے گا۔
صرف جنوبی اضلاع ہی نہیں ادھر ضلع مردان کی تحصیل کاٹلنگ میں بابزئی کے مقام پر 20 جون کو امن لشکر کے افراد سمیت چار افراد کو اغوا کر لیا اور دو روز بعد یعنی 22 جون کو ان کی لاشیں ملی تھیں۔
اس وقت خیبر پختونخوا میں کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان زیادہ متحرک ہے اور اس تنظیم کی جانب سے نام نہاد آپریشن الخندق کی تفصیلات روزانہ شیئر کی جاتی ہیں۔ اس تنظیم نے یہ آپریشن چند ماہ پہلے شروع کیا تھا اور اس میں متعدد واقعات کی ذمہ داری قبول کی گئی۔

اس کے علاوہ طالبان کا حافظ گل بہادر گروپ بھی زیادہ متحرک ہے اور اس تنظیم کے ساتھ وابستہ چھوٹے گروپس بھی مختلف علاقوں میں کارروائیاں کرتے ہیں۔ اسود الحرب کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ بھی حافظ گل بہادر گروپ کی ایک شاخ ہے۔
یہاں ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ تین شدت پسند تنظیموں کا ایک اتحاد بھی ضلع خیبر اور جنوبی اضلاع میں متحرک ہے۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار احسان اللہ محسود نے بتایا کہ یہ اتحاد تین گروہوں پر مشتمل ہے جن میں لشکر اسلام، تحریک انقلاب اسلامی اور اتحاد المجاہدین پاکستان شامل ہیں۔ ان تنظیموں نے متعدد واقعات کی ذمہ داری قبول بھی کی ہے۔
احسان اللہ ٹیپو محسود کے مطابق ان گروپس کی کوشش ہے کہ مقامی آبادی اور سکیورٹی فورسز کے درمیان ایک خلیج پیدا کی جا سکے اور اس میں شدت پسند کسی حد تک کامیاب ہوئے ہیں کیونکہ اس وقت جن علاقوں میں کشیدگی زیادہ ہے وہاں حکومت پر اعتماد کا فقدان پایا جاتا ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کے برعکس حکومت یا سکیورٹی فورسز کی انسداد دہشت گردی کی پالیسی اس وقت ردعمل پر انحصار کرتی ہے جیسے کسی بھی حملے کی صورت میں جوابی کارروائی کی جاتی ہے حالانکہ سکیورٹی فورسز کی پالیسی جارحانہ یا فعال یعنی پرو ایکٹو ہونی چاہیے، یعنی پہلے سے ان کی روک تھام کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔
فرزانہ علی کا کہنا تھا کہ اس وقت ان علاقوں میں ایک بے یقینی کی صورتحال ہے اور لوگوں میں خوف ہے۔ ’ایسا لگتا ہے کہ حکومت ایک اور فوجی آپریشن کرنے کا سوچ رہی ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ آپریشن ضرب عضب اور آپریشن راہ نجات کے ذریعے شدت پسندوں کا خاتمہ کر دیا گیا تھا لیکن اب ایک مرتبہ پھر ان شدت پسندوں نے اپنے ٹھکانے بنا لیے ہیں اور مسلسل کارروائیاں کر رہے ہیں۔
شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستانکے علاوہ لکی مروت میں بظاہر کواڈکاپٹر یا ڈرون استمعال کیے گئے ہیں۔
اس بارے میں احسان اللہ ٹیپو محسود کا کہنا تھا کہ بظاہر یہ وہ والے ڈرون استعمال نہیں کیے جا رہے جو امریکہ نے استمعال کیے تھے اور وہ عین نشانے پر لگتے تھے۔ ’اب جو پاکستان میں ڈرون استمعال کیے جا رہے ہیں یہ بنیادی طور پر کیمرے والے کواڈ کاپٹرز ہیں جن کے ساتھ دیسی ساختہ بم باندھ دیے جاتے ہیں اور اکثر ان کا نشانہ غلط ہو جاتا ہے‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان افغان سرحد پر باڑ یا فینسنگ کی گئی ہے لیکن اس کے باوجود اس طرح کے شدت پسند آسانی سے آ جاتے ہیں اور اس کی روک تھام ضروری ہے۔