ایک جانب مشرقِ وسطی کی تپش بالآخر پاکستان کی نو سو نو کلومیٹر طویل ایرانی سرحد تک آن پہنچی ہے۔ اوپر سے چھہتر سالہ خواجہ محمد آصف ہمارے وزیرِ دفاع ہیں۔
ایک جانب مشرقِ وسطی کی تپش بالآخر پاکستان کی نو سو نو کلومیٹر طویل ایرانی سرحد تک آن پہنچی ہے۔ اوپر سے چھہتر سالہ خواجہ محمد آصف ہمارے وزیرِ دفاع ہیں۔
آپ نے قومی اسمبلی کے فلور پر تازہ تازہ فرمایا ہے کہ ’اگر مسلم دنیا متحد نہ ہوئی اور اپنے اپنے ایجنڈے کے تحت اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کرتی رہی تو پھر سب کی باری آئے گی۔‘ زیادہ تر مسلم ممالک فوجی اعتبار سے کمزور ہیں۔ او آئی سی کا اجلاس بلا کر مسلم ممالک ایسی حکمتِ عملی بنائیں جس سے اسرائیل کا مقابلہ کیا جا سکے۔
فلسطین کے المیے پر غیر مسلم ضمیر جاگ رہے ہیں مگر مسلمانوں کے نہیں۔ جن مسلم ممالک کے اسرائیل سے تعلقات ہیں وہ یہ تعلقات منقطع کر دیں۔
جب انڈیا نے حملہ کیا تو ہم نے پانچ گنا بڑے دشمن کو مٹی میں رول دیا۔ ایران کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے میں اسرائیل اکیلا نہیں۔ اسے ہر طرح کا کور فراہم کیا گیا۔ ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جس سے عالمِ اسلام کا اتحاد نظر آئے۔
گاندھی جی سے ایک مغربی صحافی نے پوچھا: ’مغربی تہذیب کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔‘ گاندھی جی نے کہا کہ ’یہ ایک دلچسپ خیال ہے۔‘
عالمِ اسلام، عرب لیگ، او آئی سی۔ دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔
ہمارے ملنگ طبیعت خواجہ صاحب کسی اور محکمے کے وزیر ہوتے تو ہم کبھی بھی ان کی گوناگوں وزارتی مصروفیات کے سبب ان سے عالمِ اسلام کو لیڈ کرنے کی درخواست نہ کرتے۔ مگر عالمِ اسلام کی خوش قسمتیکہ ان دنوں وہ ’اعزازی وزیرِ دفاع‘ ہونے کے سبب ٹوٹل ویہلے ہیں۔
’اعزازی وزیرِ دفاع؟‘ جی ہاں۔ پاکستان میں وزیرِ دفاع کی عزت چوکھی اور میز صاف۔ سویلین دور میں وزارت کا عملی بار سیکریٹری دفاع اور چیف آف آرمی سٹاف کے کندھوں پر ہی ہوتا ہے۔
سابق وزرائے دفاع پرویز خٹک، خرم دستگیر خان، میر ہزار خان بجارانی، نوید قمر، احمد مختار، سلیم عباس جیلانی، راؤ سکندر اقبال، آفتاب شعبان میرانی، غوث علی شاہ، محمود ہارون، علی احمد تالپور وغیرہ کے ناموں سے تشفی ہو جائے گی یا اور پیچھے جاؤں۔
خواجہ صاحب بطور وزیرِ دفاع ویہلے سہی لیکن حکمران مسلم لیگ نن کے اندر ان کا ’کلہ‘ ہمیشہ سے مضبوط ہے۔ پارلیمانی حریفوں کو ذومعنی جگتوں اور پھبتیوں کے میزائلوں کے ذریعے رول دینے کے سبب خواجہ صاحب حکمران پارٹی کا بازوِ شمشیر زن ہیں۔
اسرائیلی حملوں میں تہران میں واقع کئی عمارتوں کو نقصان پہنچا ہےآپ وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں 265 روز وزیرِ خارجہ بھی رہے۔ اس دورانیے میں دفترِ خارجہ یہ سوچ سوچ کے ہلکان رہتا تھا کہ کہیں خواجہ صاحب اچانک سے حال میں آ کر ہمیں بے حال نہ کر دیں۔
مگر وزارتِ بدل جانے سے بندہ تو بدلنے سے رہا۔ یہ تو ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے انتظامی ڈھانچے میںوزیرِ دفاع کی ’بطور پوسٹ ماسٹر جنرل‘ کیا اہمیت ہے مگر باقی دنیا تو اس کرسی پر بیٹھے شخص کی ہر بات کو سنجیدگی سے لینے کی عادی ہے۔
اب اگر اس منصب پر بیٹھا شخص عین لڑائی کے درمیان دعویٰ کرے کہ ہم نے دشمن کے دو پائلٹوں کو جنگی قیدی بنا لیا ہے اور چند گھنٹوں بعد اس دعوے کی وزارتِ دفاع کے ماتحت عسکری شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے ذریعے باضابطہ تردید بھی ہو جائے تو بتائیے دنیا کس کی مانے؟
اسی پاکستان انڈیا مڈھ بھیڑ کے دوران خواجہ صاحب ایک غیر ملکی صحافن یلدا حکیم پر اپنی دھاک بٹھانے کے لیے کہیں عالمِ جذب میں کہہ بیٹھے کہ ہاں یہ بات درست ہے کہ ہم نے تیس برس تک دہشت گردی کی حمایت و مدد کی۔ مگر ہم مغربی ممالک کا ’ڈرٹی ورک‘ کر رہے تھے۔
اس بیان کا دفترِ خارجہ کو نوٹس لینا پڑ گیا اور ان ’خواجگی فرمودات‘ کو ریاستی پالیسی کے بجائے وزیرِ دفاع کے ذاتی خیالات کا لفافہ پہنانا پڑا۔ مگر خواجہ صاحب کی گرج چمک آج بھی ماشااللہ ویسی کی تیسی ہے۔
شاید خواجہ صاحب کو یاد ہو کہ چند برس پہلے بتیس اسلامی ممالک پر مشتمل سپاہ کا ایک اتحاد قائم ہوا تھا کہ جس کا ہیڈکوارٹر سعودی عرب میں تھا اور اسکے پہلے سپاہ سالار جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف نامزد ہوئے تھے۔
اگر یہ کنفرم ہے کہ یہ عسکری اتحاد اب تک قائم ہے تو سب سے پہلے خواجہ صاحب کو جنرل راحیل سے رابطہ کر کے پوچھنا چاہیے کہ آپ عالمِ اسلام کی اس عظیم الشان سپاہ کو اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کے مقابلے میں کب تک تیار کرنے کی پوزیشن میں ہیں؟
(بہتر ہو گا کہ جب جنرل صاحب چھٹیوں پر گھر آئیں تب یہ حساس گفتگو کر لی جائے)۔
خواجہ صاحب کی اس تجویز سے بھلا کس کو اختلاف ہو سکتا ہے کہ جو مسلمان ممالک اسرائیل سے سفارتی تعلقات میں ہیں۔ کم از کم وہی بطور احتجاج اسرائیل میں قائم سفارتخانوں کو فی الحال تالا لگا دیں۔ ان ممالک میں بحرین اور متحدہ عرب امارات بھی شامل ہیں۔
مگر مشکل یہ ہے کہ بحرین اور امارات میں لاکھوں پاکستانی کارکن کام کر رہے ہیں۔ خواجہ صاحب چونکہ خود بھی کسی زمانے میں امارات میں بینک ملازمت کرتے رہے ہیں لہٰذا انھیں بخوبی معلوم ہو گا کہ عربوں کو کون سا مشورہ کس دن کے کس پہر دینا سود مند ہے۔
البتہ برادر ترکی سے ان دنوں اتنی بے تکلفی ضرور ہے کہ ان سے ہی درخواست کر لی جائے کہ آپ مناسب سمجھیں تو تل ابیب میں اپنا سفارت خانہ فی الحال بند کر دیں یا کم از کم تجارت روک دیں۔ (ویسے تو مصر، سوڈان اور مراکش کو بھی چھیڑا جا سکتا ہے مگر کیا فائدہ)۔
اب آپ میں سے کوئی بھی کھڑا ہو کے پوچھ سکتا ہے کہ اگر پاکستان کو عالمِ اسلام کا اتنا ہی درد ہے اور بقول خواجہ صاحب حال میں ہی اپنے سے پانچ گنا ملک انڈیا کو ’مٹی میں رول دیا ہے‘ تو پھر مسلمان دنیا کی اکلوتی ایٹمی طاقت کے طور پر پاکستان اس اتحاد کی قیادت کے لیے خود کو کیوں پیش نہیں کرتا؟
یہ سوال ویسے اس وقت پوچھنے کا ہے تو نہیں۔ البتہ خواجہ صاحب کو کچھ ملے نہ ملے نیت کا ثواب ضرور ملے گا۔
اگر پاکستان کا معاشی ہاتھ تنگ نہ ہوتا اور اسے آئی ایم ایف اور دوست ممالک کا مرہونِ منت نہ رہنا پڑتا تو دنیا دیکھتی کہ خواجہ صاحب سفید گھوڑے پر سوار 57 اسلامی ممالک کی سپاہ کی قیادت کرتے ہوئے بذریعہ ایران، عراق، اردن بحیرہ روم کے ساحل تک پہنچنے میں منٹ نہ لگاتے۔
ہمیں بھی نیند آ جائے گی، ہم بھی سو ہی جائیں گے
ابھی کچھ بے قراری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ
(قتیل شفائی)