وفاقی بجٹ 2025-26 میں حکومت کی جانب سے چھوٹی گاڑیوں پر سیلز ٹیکس کی شرح 12.5 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کرنے کی سفارش کی گئی ہے، جس کے بعد چھوٹی گاڑیوں کی قیمتوں میں نمایاں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔آٹو سیکٹر کے ماہرین کے مطابق پہلے ہی معاشی دباؤ، مہنگائی اور ڈالر کی قدر میں اضافے کے باعث گاڑیاں عام شہری کی قوتِ خرید سے باہر ہو چکی تھیں، اور اب نئے ٹیکس نے متوسط طبقے کی امیدوں پر مزید پانی پھیر دیا ہے۔آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے سب سے زیادہ متاثر وہ طبقہ ہوگا جو محدود آمدنی میں اپنا ذاتی سفری ذریعہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ان کے مطابق پاکستان میں اسیمبل ہونے والی 660 سی سی کی چھوٹی گاڑی کے تین مختلف ویرینٹس میں تقریباً ایک لاکھ 34 ہزار روپے سے ایک لاکھ 52 ہزار روپے تک اضافہ ہو سکتا ہے، جس سے یہ گاڑی بھی عام شہری کی پہنچ سے دور ہو جائے گی۔ایچ ایم شہزاد کا مزید کہنا ہے کہ مقامی طور پر تیار ہونے والی ہائبرڈ گاڑیوں پر پہلے ہی 18 فیصد سیلز ٹیکس لاگو ہے، اور اب چھوٹی گاڑیاں بھی اسی زمرے میں آ جائیں گی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اس پالیسی سے نہ صرف صارفین متاثر ہوں گے بلکہ آٹو مارکیٹ بھی مزید سکڑ جائے گی۔ایچ ایم شہزاد نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پانچ سال پرانی گاڑیوں کی درآمد اور کمرشل امپورٹ کی اجازت دے تاکہ مقامی مارکیٹ میں مسابقت پیدا ہو اور قیمتیں نیچے آئیں۔ ان کے مطابق اس اقدام سے نہ صرف گاڑیوں کی دستیابی بڑھے گی بلکہ حکومت کو بھی 200 ارب روپے تک کا ریونیو حاصل ہو سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ’اگر حکومت گاڑیوں کی کمرشل امپورٹ پر عائد پابندی ختم کرے تو مارکیٹ میں متبادل آپشن آئیں گے، اور مقامی اسمبلرز کو قیمتیں کم کرنے پر مجبور کیا جا سکے گا۔‘آٹو انڈسٹری کے ماہر مشہود علی خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ پاکستان میں گاڑی خریدنا اب متوسط طبقے کے لیے ایک خواب بنتا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتیں، درآمدی لاگت اور غیریقینی پالیسیوں نے خریداروں کو بازار سے دور کر دیا ہے۔ 2025-26 کے بجٹ میں ٹیکسز میں اضافہ گاڑیوں کی فروخت کو مزید گرا دے گا۔
2017 /18 کے مقابلے میں گذشتہ کچھ سالوں میں گاڑیوں کی فروخت میں واضح کمی دیکھی گئی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
ان کے مطابق موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ آٹو انڈسٹری کے لیے ایک جامع پالیسی ترتیب دے جس میں ٹیکس میں نرمی، مقامی مینوفیکچرنگ کی حوصلہ افزائی اور درآمدی متبادل پر زور دیا جائے۔ مشہود علی خان نے کہا کہ جب تک حکومت پالیسیاں واضح اور مستحکم نہیں بناتی، پاکستان میں گاڑی کی ملکیت صرف خواص تک محدود رہے گی۔
پاکستان آٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے جاری کردہ اعداد شمار کے مطابق پاکستان میں گاڑیوں کی فروخت میں ماضی کے مقابلے میں اتار چڑھاو ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔ سال 2017 /18 کے مقابلے میں گذشتہ کچھ سالوں میں گاڑیوں کی فروخت میں واضح کمی دیکھی گئی ہے۔ مشہود علی خان نے بتایا کہ سال 2017/18 میں تقریباً ڈھائی لاکھ یونٹ فروخت ہوئے تھے۔ اس کے مقابلے میں سال 2024/25 میں تقریباً سوا لاکھ سے ایک لاکھ 30 ہزار یونٹ فروخت ہوئے ہیں۔ کراچی کے رہائشی اور بینک میں ملازم فیضان یاسر کا کہنا ہے کہ انہوں نے گذشتہ سال آلٹو گاڑی خریدنے کا ارادہ کیا تھا لیکن مسلسل بڑھتی قیمتوں نے ان کی تمام منصوبہ بندی ناکام بنا دی۔ انہوں نے مایوسی سے کہا کہ اب اگر ڈیڑھ لاکھ روپے مزید بڑھ جائیں گے تو شاید مجھے ایک اور سال انتظار کرنا پڑے، یا پھر موٹر سائیکل پر ہی گزارا کرنا ہو گا۔
ماہرین کے مطابق حکومت آٹو انڈسٹری کو مستحکم دیکھنا چاہتی ہے تو چھوٹی گاڑیوں پر سیلز ٹیکس میں کمی کرے (فوٹو: پاک وہیل)
آٹو سیکٹر کی برآمدات: حقیقت یا فریب؟
دوسری جانب حکومت کی جانب سے بارہا دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان سے آٹو پارٹس اور گاڑیوں کی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ تاہم ماہرین اس دعوے کو مبالغہ قرار دیتے ہیں۔ مشہود علی خان کے مطابق برآمدات صرف چند مخصوص پرزہ جات اور محدود اقسام کی گاڑیوں تک محدود ہیں اور یہ نمبرز بہت کم ہیں۔ماہرین کے مطابق اگر حکومت واقعی آٹو انڈسٹری کو مستحکم دیکھنا چاہتی ہے تو فوری طور پر چھوٹی گاڑیوں پر سیلز ٹیکس میں کمی یا مکمل رعایت دے، کمرشل امپورٹ کی اجازت ہو تاکہ مارکیٹ میں مسابقت بڑھے اور مقامی مینوفیکچررز کے لیے ریلیف پیکج اور جدید ٹیکنالوجی کی منتقلی کو یقینی بنایا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ آٹو فنانسنگ کے عمل کو آسان اور سود کی شرح کو مزید کم کیا جائے۔