ریسکیو حکام نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ہلاک ہونے والے 27 افراد میں سے 20 کا تعلق ہندو کمیونٹی سے ہے اور یہ ایک ہی خاندان کے افراد تھے۔ تاہم ریسیکو 1122 کے حکام کے مطابق اس حادثے میں ایک تین ماہ کی بچی حیران کن طور پر محفوظ رہی جسے صرف معمولی خراشیں آئی ہیں۔
کراچی کے علاقے لیاری میں ایک پانچ منزلہ عمارت زمین بوس ہونے کے بعد شروع ہونے والا ریسکیو آپریشن تقریبا 53 گھنٹے کے بعد مکمل ہو چکا ہے اور حکام کے مطابق مجموعی طور پر 27 افراد کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں جن میں سے 20 کا تعلق ایک ہی خاندان سے تھا۔
ریسکیو حکام نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ہلاک ہونے والے 27 افراد میں سے 20 کا تعلق ہندو کمیونٹی سے ہے اور یہ ایک ہی خاندان کے افراد تھے جو آپس میں رشتہ دار بھی تھے۔ تاہم ریسیکو 1122 کے حکام کے مطابق اس حادثے میں ایک تین ماہ کی بچی حیران کن طور پر محفوظ رہی جسے صرف معمولی خراشیں آئی ہیں۔
پانچ منزلہ عمارت کیوں اور کیسے گری؟ اس کی وجوہات کے بارے میں حکام نے ابھی تک کچھ نہیں بتایا تاہم سندھ حکومت کا دعویٰ ہے کہ لیاری میں تقریبا 22 مخدوش عمارات میں سے 14 کو خالی کروا لیا گیا ہے۔
بی بی سی اردو کے فیچر اور تجزیے براہ راست اپنے فون پر ہمارے واٹس ایپ چینل سے حاصل کریں۔ بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں۔
بی بی سی نے اس عمارت کے ملبے سے لاشیں نکالنے والے ریسکیو 1122 کے حکام سے بات چیت کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ ریسکیو کا عمل اتنا طویل کیوں تھا؟ اور ساتھ ہی ساتھ ایک تین ماہ کی بچی کیسے اس حادثے میں محفوظ رہی۔
ریسکیو اہلکاروں کے مطابق ’یہ ایک انتہائی شدید حادثہ تھا جس میں ایک پانچ منزلہ رہائشی عمارت زمین بوس ہوئی تو کنکریٹ، جس میں بھاری بھرکم سریا اور سیمنٹشامل تھے، رہائشیوں پر گر گیا۔‘
ان کے مطابق ’اچانک حادثے کی وجہ سے ہی زیادہ ہلاکتیں ہوئیں اور کئی لاشوں کے اعضا بکھرے ہوئے ملے جنھیں ریسکیو کے دوران اکھٹا کیا گیا۔‘
تین ماہ کی بچی جسے معمولی خراش آئی
مظہر علی پاکستان کے سب سےبڑے شہر کے ڈسڑکٹ سینٹرل کراچی میں ریسکیو 1122 ڈیزاسٹر ایمرجنسی افسر کے طور پر کام کرتے ہیں۔
جمعہ کے روز، چار جولائی کو، انھیں کنٹرول روم سے ہدایات ملیں کہ کراچی کے ساؤتھ ڈسڑکٹ میں لیاری کے علاقے میں ایک پانچ منزلہ عمارت زمین بوس ہوچکی ہے اور انھیں ریسکیو 1122 ڈسڑکٹ ساؤتھ کی مدد کرنی ہے۔
مظہر علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جب وہ ساتھیوں کے ہمراہ موقع پر پہنچے تو ’فوری طور پر ممکنہ طور پر ملبے کے نیچے زندہ بچ جانے والے افراد کی تلاش شروع کر دی گئی۔‘
’ہمیں ملبہ کے قریب ہی ایک تین ماہ کی بچی زندہ سلامت ملی جبکہ اس بچی کی والدہ اور خاندانکے چند افراد کی لاشیں کچھ فاصلے پر موجود تھیں۔‘
مظہر علی کہتے ہیں کہ ’بچی کے اوپر مٹی اور دھول پڑی ہوئی تھی اور ایک معمولی چوٹ کی وجہ سے اس کی ناک سے خون نکل رہا تھا۔ اس کے علاوہ بچی کے جسم پر کوئی زخم نہیں تھا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’جس مقام پر یہ بچی ملی تھی اس سے تھوڑے ہی فاصلے پر اس کی والدہ کی لاش کو ملبہ کاٹ کر نکالنا پڑا۔ اس کے خاندان کے دیگر افراد کی لاشیں بھی بھاری ملبے میں سے نکالی گئیں تھیں۔‘
مظہر کا خیال ہے کہ ’غالبا جب اوپر سے ملبہ گرنے لگا تو اس وقت ماں نے بچی کو بچانے کے لیے اپنے سے دور پھینک دیا جس کی وجہ سے وہ محفوظ رہی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’موقع پر موجود کچھ لوگوں نے بھی ہمیں بتایا کہ ماں نے حادثے کے وقت بچی کو دور بھینک دیا تھا۔ اس سے تو یہی سمجھ آتا ہے کہ بچی کی ماں کے پاس شاید اتنا ہی موقع تھا کہ وہ خود کو بچاتی یا اپنی بچی کو اور اس نے بچی کو بچانے کی کوشش کی۔‘
میگھجی دیو جی ہلاک ہونے والے 20 افراد کے رشتہ دار ہیں جن کا تعلق مہیشوری برادری سے ہے۔ وہ حادثے کا شکار ہونے والی عمارت کے قریب ہی رہتے ہیں۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ زندہ بچ جانے والی بچی ان کے چچا کی پوتی تھی جو اب اپنی ایک خالہ کے پاس ہے۔
اس حادثے میں اس بچی کے والدین سمیت اس کے دادا، دادی، چچا اور ایک اور بچہ بھی ہلاک ہو گئے۔ میگھجی دیو جی نے کہا کہ ’بس اس بچیکی زندگی تھی، وہ بچ گئی۔ ایسا لگتا ہے کہ حادثے سے پہلے اس بچی کو اس کی والدہ نے اٹھا کر دور پھینکا۔‘
سیڑھیوں پر بکھری لاشیں اور جسمانی اعضا
مظہر علی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمیں اس عمارت میں رہنے والے چند لوگوں نے بتایا کہ حادثے سے پہلے دو ہلکے جھٹکے آئے تھے جس کے بعد کئی لوگوں نے عمارت خالی کر دی تھی جب کہ کچھ اپنا سامان منتقل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’ایک نوجوان کی لاش نکالی گئی تو اس کے بارے میں بتایا گیا کہ خاندان کے باقی سب لوگ نکل چکے تھے لیکن اس نوجوان نےکہا کہ میں غسل کرکے آتا ہوں۔ اس دوران حادثہ ہو گیا۔‘
مظہر کا کہنا تھا کہ ’ہمیں کچھ لاشیں سیڑھیوں سے بھی ملیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ باہر نکل رہے تھے یا واپس آ رہے تھے کہ حادثہ ہو گیا۔‘
میگھجی دیو جی نے بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’عمارت پہلی بار ہلی تو بہت سے لوگ اپنا سامان لے کر نکل گئے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ سب غریب لوگ تھے۔ محنت کی جمع پونجی تھی۔ وہ زندگیوں کے ساتھ ساتھ اپنا سامان بھی بچانے کی کوشش کر رہے تھے اور ان میں زیادہ تر نوجوان تھے۔‘
’جو سامان وہ نیچے پہنچا سکتے تھے وہ انھوں نے پہنچایا اور اپنے اہلخانہ سے کہہ کر آئے کہ وہ باقی سامان لے کر نیچے جاتے ہیں۔‘
ملبے تلے زندگی کے آثار کی تلاش
مظہر علی کا کہنا تھا کہ ’ریسکیو کی ٹیم نے سب سے پہلے ملبے کے نیچے زندگی کے آثارات تلاش کرنے کی کوشش کی۔‘
’ہم نے سرچ کیمرے کی مدد زندہ بچ جانے والے لوگوں کو تلاش کرنے کی کوشش کی اور ڈیلسا لائف ڈیٹیکٹر (Delsar Life Detector) کو بھی استعمال کیا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’لاشیں بھاری بھر کم ملنے تلے دبی ہوئی تھیں۔ اگر ملبے کو بے احتیاطی سے توڑا جائے تو اس سے لاشوں کی بے حرمتی کا خدشہ تھا۔ اس لیے ملبے کو جدید الات کی مدد سے کاٹا گیا تاکہ لاشیں جتنا ممکن ہو خراب نہ ہوں۔ مظہر علی کا کہنا تھا کہ اکثر لاشوں کے اعضاء بہت دور دور تک بکھرے ہوئے تھے۔‘
ریسکیو آپریشن اتنا طویل کیوں تھا؟
ریسیکو 1122 کے ترجمان حسان الحسیب سے جب بی بی سی نے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک مشکل کام تھا جو 53 گھنٹوں میں مکمل ہوا۔‘
ان کے مطابق انھیں بہت سی رکاوٹوں کا سامنا تھا۔ ’محرم کے جلوسوں کی وجہ سے اکثر روڈ بند تھے اور ہماری ٹیموں کو پہچنے میں مشکلات کا سامنا تھا۔‘
ان کے مطابق موقع پر غیر سرکاری تنظیموں کے درجنوں کارکنان بھی مصروف تھے جو ان کے کام میں رکاوٹ بن رہے تھے۔ ’عوام اور لواحقین کا جم عفیر تھا جو ریسیکو اہلکاروں کو اپنی طرف کھینچ رہے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جس مقام پر یہ حادثہ ہوا تھا وہاں راستہ بھی بہت تنگ تھا۔ ہماری اربن سرچ ریسیکو گاڑی، جس میں ضروری آلات اور مشینری تھے، جائے حادثہ تک نہیں پہنچ پا رہی تھی۔ وہ جائے حادثہ سے تین کلو میٹر کھڑی تھی۔‘
’وہاں سے ضروری آلات لانے کے لیے ہمارے اہلکار پیدل جاتے یا موڑ سائیکل استعمال کرتے تھے۔ ہمارے اہلکار ہاتھوں سے بھی کھدائی کرکے لاشوں کو نکالتے رہے۔‘
حسان الحسیب کا کہنا تھا کہ ان وجوہات کو سامنے رکھتے ہوئے ڈی جی ریسکیو ڈاکٹر عابد جلال الدین شیخ نے رینجرز اور حکومت سے رابطہ کیا اور رینجرز اور پولیس کی مزید نفری کی درخواست کی جنھوں نے موقع پر موجود غیر ضروری لوگوں اور غیر سرکاری تنظیموں کے کارکناں کو ہٹایا۔
تاہم ان کے مطابق لواحقین کو موقع پر رہنے کی اجازت دی گئی۔