گرین کریڈٹ: حکومتِ پنجاب کا الیکٹرک بائیک کے خریداروں کو ’ایک لاکھ روپے دینے‘ کا منصوبہ کیا ہے؟

حکومتِ پنجاب کی سینیئر وزیر مریم اورنگزیب نے اعلان کیا ہے کہ اپنی پٹرول بائیک کو الیکٹرک پر منتقل کرنے والے افراد کو وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے ایک لاکھ روپیہ دیا جائے گا۔ اس منصوبے کا بنیادی مقصد فضائی آلودگی میں کمی لانا ہے کیونکہ الیکٹرک بائیکس کاربن کے اخراج کا باعث نہیں بنتیں اور ماحولیاتی بہتری میں مؤثر کردار ادا کرتی ہیں۔
Getty Images
Getty Images

حکومتِ پنجاب کی سینیئر وزیر مریم اورنگزیب نے اعلان کیا ہے کہ الیکٹرک بائیک خریدنے والے افراد کو وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے ایک لاکھ روپیہ دیا جائے گا۔

مریم اورنگزیب کے مطابق یہ رقم حکومتِ پنجاب کے گرین کریڈٹ پروگرام کے تحت ادا کی جائے گی۔

گرین کریڈٹ پروگرام شہریوں کو کاربن کے اخراج میں کمی لانے کی کوششوں کے بدلے میں مالی انعامات یعنی ’گرین کریڈٹس‘ حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ پٹرول سے چلنے والی بائیکس کو الیکٹرک وہیکلز میں تبدیل کرنے کے علاوہ، شرکا درخت لگا کر اور ایل ای ڈی لائٹس کو اپنا کر بھی کریڈٹس حاصل کر سکتے ہیں۔

اس منصوبے کا بنیادی مقصد فضائی آلودگی میں کمی لانا ہے کیونکہ الیکٹرک بائیکس کاربن کے اخراج کا باعث نہیں بنتیں اور ماحولیاتی بہتری میں مؤثر کردار ادا کرتی ہیں۔

وفاقی حکومت کی جانب سے حال ہی میں متعارف کرائی گئی الیکٹرک وہیکل پالیسی میں یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ پیٹرول سے چلنے والی بائیکس کے مقابلے ای ویز (الیکٹرک بائیکس) 100 فیصد تک زیادہ مہنگی ہیں اور اسی لیے کم آمدن والے طبقے کے لیے ٹو اور تھری وہیلرز کے لیے ایک ’کاسٹ شیئرنگ سبسڈی‘ دینے کی تجویز دی گئی تھی۔

منگل کے دن وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے اجلاس میں وزارتِ صنعت و پیداوار کی جانب سے پیش کردہ سبسڈی سکیم کی منظوری دی گئی جس کا مقصد پاکستان میں ای موٹر سائیکلوں اور رکشہ یا لوڈرز کے استعمال کو فروغ دینا ہے۔

فنانس ڈویژن کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں بتایا گیا گیا ہے کہ ای سی سی نے اس منصوبے کے لیے مالی سال 2025-26 کے بجٹ میں پہلے ہی نو ارب روپے مختص کیے ہیں۔ سکیم کے تحت سرکاری کالجوں کے بہترین کارکردگی دکھانے والے طلبا کو مفت الیکٹرک بائیکس بھی فراہم کی جائیں گی۔

منظور شدہ منصوبے کے مطابق یہ سکیم دو مراحل میں نافذ کی جائے گی جس کے تحت مجموعی طور پر ایک لاکھ 16 ہزار الیکٹرک بائیکس اور 3170 رکشہ یا لوڈرز فراہم کیے جائیں گے۔

پہلے مرحلے میں، جس کا باقاعدہ آغاز جلد وزیرِاعظم کریں گے، 40 ہزار الیکٹرک بائیکس اور 1000 رکشہ یا لوڈرز متعارف کرائے جائیں گے۔

گذشتہ مہینے بی بی سی کو دیے ایک انٹرویو میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صنعت اور پیداوار ہارون اختر نے تسلیم کیا کہ لوگوں کے لیے خود سے ای ویز (الیکٹرک وہیکلز) کو اپنانا مشکل ہو گا اور اس میں طویل وقت لگے گا۔ انھوں نے مختلف ممالک کی مثالیں دیں جہاں ای ویز کے لیے خصوصی مراعات دی گئی ہیں۔

ہارون اختر نے بتایا تھا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ سنہ 2030 تک الیکٹرک وہیکلز کی کُل تعداد کا 30 فیصد ہو جائے۔۔۔ سبسڈی دیے بغیر ہم الیکٹرک وہیکلز کی طرف منتقل نہیں ہو پائیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا خریداروں کو بینک فنانسنگ کے لیے بلاسود قرض دیا جائے گا جس کا خرچ بھی حکومت برداشت کرے گی۔

وزیر اعظم کے معاون خصوصی نے بتایا تھا کہ منصوبے کے مطابق اگلے پانچ برسوں کے دوران 22 لاکھ سے زیادہ بائیکس کو سبسڈائز کیا جائے گا جس پر حکومت 100 ارب روپے سے زیادہ خرچ کرے گی۔

اُن کے مطابق 20 ارب روپے کی رقم چارجنگ سٹیشنز کو سبسڈائز کرنے کے لیے مختص کی گئی ہے۔

انھوں نے اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا تھا کہ ’کوئی بھی چارجنگ سٹیشن پر سرمایہ کاری نہیں کرنا چاہ رہا جب تک ملک میں الیکٹرک وہیکلز کی تعداد نہیں بڑھ جاتی۔ اور صارفین الیکٹرک وہیکلز نہیں لینا چاہ رہے کیونکہ چارجنگ سٹیشن نہیں لگ رہے ہیں۔۔۔ اس لیے ہم نے چارجنگ سٹیشنز کو بھی سبسڈائز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم قریب ہر 50 کلومیٹر کے فاصلے پر چارجنگ سٹیشن دیکھنا چاہتے ہیں۔‘

getty
Getty Images

حکومتِ پنجاب کا الیکٹرک بائیک خرید کر گرین کریڈٹ حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے؟

حکومتِ پنجاب کی گرین کریڈٹ ویب سائٹ کے مطابق ای بائیک خرید کر گرین کریڈٹ حاصل کرنے کا طریقہ درج ذیل ہے:

  • سب سے پہلے تو یہ لازم ہے کہای بائیک 20 دسمبر 2024 کے بعد خریدی گئی ہو۔
  • ابتدائی مرحلے میں ای بائیک خریدنے کی رسید اور رجسٹریشن (اگر ہو چکی ہے) کی سکین دستاویز فراہم کریں جو خود رجسٹرڈ درخواست گزار کے اپنے نام پر ہو۔
  • دوسرا مرحلہ: پہلے مرحلے کے بعد آپ کو حکومت کی سائیکل یا ای-بائیک ٹریکر ایپ استعمال کرنا ہوگی۔ آپ کو ای-بائیک استعمال کرتے ہوئے کل 6000 کلومیٹر مکمل کرنا ہوں گے جس میں ماہانہ کم از کم 1000 کلومیٹر لازمی ہے۔ یہ فاصلہ زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کے اندر مکمل ہونا چاہیے۔ ٹریکر کا ڈیٹا خودکار طور پر حکومت کی ٹیم کو موصول ہوتا رہے گا۔

اگرچہ ملک میں موٹر سائیکل کو ’عام آدمی کی سواری‘ سمجھا جاتا ہے مگر الیکٹرک بائیکس میں عوامی دلچسپی اُتار چڑھاؤ کا شکار رہی ہے۔

پاکستان میں موٹر سائیکل اسمبلرز کی ایسوسی ایشن کے چیئرمین صابر شیخ نے رواں برس جولائی میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ ملک میں اس وقت کم از کم 10 چینی کمپنیاں الیکٹرک سکوٹرز اور بائیکس اسمبل کر رہی ہیں جن کی ماہانہ سیلز یا فروخت 50 ہزار سے زیادہ نہیں ہے۔

پاکستان میں موٹر سائیکل اسمبلرز کی ایسوسی ایشن کے چیئرمین صابر شیخ کے مطابق ملک میں عموماً لوگ 70 سی سی کی موٹر سائیکل خریدتے ہیں جس کی قیمت ڈیڑھ لاکھ روپے تھی اور چینی کمپنیوں کی قیمت لوگوں کی قوت خرید کے قریب قریب یعنی ایک لاکھ 10 ہزار روپے تک تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’لوگ ای وی سکوٹرز خرید نہیں پا رہے تھے کیونکہ ان میں صرف بیٹری کی قیمت ایک لاکھ کے قریب ہوتی ہے۔‘

صابر شیخ کے مطابق ’گذشتہ مہینوں کے دوران پنجاب کے بڑے اور چھوٹے شہروں میں ای وی سکوٹرز کی فروخت بڑھی ہے۔ کیونکہ لوگ فلیٹس کی بجائے گھروں میں رہتے ہیں، اسی لیے اُن کے لیے چارجنگ اور پارکنگ آسان ہوتی ہے جبکہ وہاں فاصلے بھی کم ہیں اور سڑکیں بھی قدرے بہتر ہیں۔‘

اُنھوں نے کہا تھا کہ انھیں توقع تھی کہ سب سے زیادہ ای وی سکوٹرز کراچی میں فروخت ہوں گے مگر گذشتہ دو برسوں کے دوران ایسا نہیں ہوا۔ اُن کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ اکثر اپارٹمنٹس میں رہتے ہیں جہاں چارجنگ کا مناسب انفراسٹرکچر موجود نہیں ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس مشکل کو بھی حل کرنے کے لیے بعض کمپنیاں جیسے ایٹلس ہنڈا بیٹری سویپنگ ٹیکنالوجی پر کام کر رہی ہیں۔ اس کے ذریعے آپ بیٹری کو چارجنگ کے لیے سکوٹر سے نکال کر اوپر اپنے فلیٹ تک لے جا سکتے ہیں یا دوسری چارج شدہ بیٹری سے تبدیل کر سکتے ہیں۔

مگر یہ مزید مہنگی ہے اور ’ایک بیٹری کی لاگت ہی دو ڈھائی لاکھ روپے ہے۔‘

ان کی رائے ہے کہ پاکستان میں قوت خرید محدود ہونے کی وجہ سے اگلے برسوں کے دوران گریفین بیٹریاں ہی موزوں رہیں گی۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US