بی بی سی افریقہ آئی کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کینیا میں ’میڈم‘ کے نام سے مشہور خواتین 13 سال تک کی کم عمر بچیوں کو جسم فروشی میں شامل کر رہی ہیں۔
نیامبورا (بائيں) اور چیپٹو کینیا کے ایک شہر کی وہ ’میڈمز‘ ہیں نوجوان لڑکیوں کو جسم فروشی کے کام میں شامل کررہی ہیںبی بی سی افریقہ آئی کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کینیا میں ’میڈم‘ کے نام سے مشہور خواتین13 سال تک کی کم عمر بچیوں کو جسم فروشی میں شامل کر رہی ہیں۔
کینیا کی رفٹ ویلی میں واقع مائی ماہیو نامی ٹرانزٹ ٹاؤن میں ٹرک اور لاریاں دن رات سامان اور مسافروں کو یوگینڈا، روانڈا، جنوبی سوڈان اور کانگو لانے لے جانے کے لیے چلتی رہتی ہیں۔
نیروبی سے صرف 50 کلومیٹر (31 میل) مشرق میں واقع یہ اہم ٹرانسپورٹ مرکز جسم فروشی کے لیے تو مشہور ہے ہی لیکن یہ بچوں کے جنسی استحصال کی آماجگاہ کے طور پر بھی پھل پھول رہا ہے۔
دو خفیہ تحقیقاتی صحافیوں نے جنسی کارکنوں کا روپ دھار کر رواں سال کے شروع میں کئی ماہ تک اس قصبے میں جسم فروشی کے نیٹ ورک کا پتا لگانے اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ ’میڈم‘ کیسے بنا جاتا ہے۔
ان کی خفیہ ویڈیوز میں دو مختلف خواتین دکھائی گئی ہیں جو کہتی ہیں کہ انھیں معلوم ہے کہ یہ غیرقانونی ہے لیکن پھر بھی وہ تحقیقاتی ٹیم کو کم عمر لڑکیوں سے ملواتی ہیں۔
بی بی سی نے مارچ میں اس سے متعلق تمام شواہد کینیا کی پولیس کو فراہم کیے۔ بی بی سی کا خیال ہے کہ اس کے بعد سے یہ ’میڈمز‘ اپنی جگہیں بدل چکی ہوں گی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جن خواتین اور لڑکیوں کی ہم نے ویڈیوز بنائی تھیں، ان کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ اب تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آ سکی۔
کینیا میں ایسے مقدمات میں سزائیں کم ہی ہوتی ہیں۔ کامیاب کارروائی کے لیے پولیس کو بچوں کے بیانات درکار ہوتے ہیں لیکن اکثر کمزور نابالغ بچیاں اتنی خوفزدہ ہوتی ہیں کہ وہ گواہی دینے سے ہچکچاتی ہیں۔
مائی ماہیو وہ مقام ہے جہاں سیکس کا کاروبار ٹرک ڈرائیوروں کی بدولت چل رہا ہے’یہ ابھی بچے ہیں، انھیں صرف میٹھا دے کر کنٹرول کیا جا سکتا ہے‘
بی بی سی کی تاریکی میں بنائی گئی دھندلی فوٹیج میں ایک خاتون کو دیکھا جا سکتا ہے جو خود کو نیامبورا کہتی ہیں۔
وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں کہ ’یہ ابھی بچے ہیں، اس لیے انھیں صرف کچھ میٹھا دے کر آسانی سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’مائی ماہیو میں جسم فروشی منافع بخش کاروبار ہے۔ ٹرک ڈرائیور ہی اسے فروغ دیتے ہیں اور ہمیں اسی سے فائدہ ہوتا ہے۔ یہاں یہ عام بات ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ان کے پاس ایک 13 سالہ لڑکی بھی ہے جو گذشتہ چھ ماہ سے ’کام‘ کر رہی ہے۔
نیامبورا نے کہا کہ ’کم عمر بچوں کے ساتھ کام کرنا بہت خطرناک ہوتا ہے۔ آپ انھیں کھلے عام شہر میں نہیں لا سکتے۔ میں رات کے اندھیرے میں خفیہ طور پر انھیں لے کر جاتی ہوں۔‘
کینیا کے قانون میں رضامندی سے جسم فروشی کا کام کرنے والے بالغوں پر واضح طور پر پابندی نہیں لیکن یہ بہت سے بلدیاتی قوانین کے تحت ممنوع ہے۔ مائی ماہیو میں، جو ناکورو کاؤنٹی کا حصہ ہے، اس کام پر پابندی نہیں۔
کینیا کے پینل کوڈ کے تحت جسم فروشی کی کمائی سے زندگی گزارنا، خواہ وہ جنسی کارکن ہو یا تیسرا فریق جو اسے فروغ دے یا منافع کما رہا ہو، غیرقانونی ہے۔
اور 18 سال سے کم عمر بچوں کی سمگلنگ یا فروخت پر 10 سال سے لے کر عمر قید تک کی سزا ہو سکتی ہے۔
جب نیامبورا سے پوچھا گیا کہ کیا گاہک کنڈوم استعمال کرتے ہیں، تو انھوں نے کہا کہ وہ عام طور پر اس بات کو یقینی بناتی ہیں لیکن کچھ ایسا نہیں کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’کچھ بچیاں زیادہ کمانا چاہتی ہیں (اس لیے استعمال نہیں کرتیں)لیکن کچھ کو مجبور کیا جاتا ہے (کہ وہ استعمال نہ کریں)۔‘
ایک اور ملاقات میں، وہ خفیہ تحقیقاتی صحافی کو ایک گھر لے گئیں جہاں تین چھوٹی لڑکیاں ایک صوفے پر ایک ساتھچپکی بیٹھی تھیں جبکہ ایک اور لڑکی کرسی پر بیٹھی تھی۔
پھر نیامبورا کمرے سے باہر نکل گئیں جس سے تحقیقاتی صحافی کو لڑکیوں سے بات کرنے کا موقع ملا۔
مائی ماہیو میں کتنے بچوں کو جنسی کام پر مجبور کیا جاتا ہے یہ معلوم نہیں لیکن 50,000 کے قریب آبادی والے اس چھوٹے سے شہر میں انھیں تلاش کرنا آسان ہےلڑکیوں نے کیا بتایا؟
لڑکیوں نے بتایا کہ انھیں روزانہ جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک لڑکی نے کہا کہ ’کبھی کبھی آپ کو کئی لوگوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنا پڑتا ہے۔ گاہک آپ کو ناقابل تصور چیزیں کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔‘
کینیا میں سیکس انڈسٹری میں کام کرنے کے لیے مجبور کیے جانے والے بچوں کی تعداد کے حوالے سے حالیہ اعداد و شمار دستیاب نہیں۔
سنہ 2012 میں امریکی محکمہ خارجہ کی کینیا میں انسانی حقوق کی کارروائیوں پر ملکی رپورٹ میں 30,000 افراد کا اس صنعت میں ہونے کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔ یہ اعدادوشمار کینیا کی حکومت اور اب ختم ہو چکے غیر سرکاری ادارے (این جی او) ’اریڈیکیٹ چائلڈ پروسٹیچیوشن ان کینیا‘ سے حاصل کیا گیا تھا۔
دیگر مطالعات مخصوص علاقوں پر مرکوز رہے ہیں، خاص طور پر ملک کے ساحلی علاقوں پر، جو سیاحتی ریزورٹس کے طور پر مشہور ہیں۔
’گلوبل فنڈ ٹو اینڈ ماڈرن سلیوری‘ نامی این جی او کی سنہ 2022 کی ایک رپورٹ میں پایا گیا کہ کیلیفی اور کوالے کاؤنٹیز میں تقریباً 2,500 بچوں کو جنسی کاروبار میں دھکیلا گیا تھا۔
دوسرے خفیہ تحقیقاتی صحافی نے ایک خاتون کا اعتماد حاصل کیا جو خود کو چیپٹو کہتی تھیں اور ان سے کئی ملاقاتیں کیں۔
انھوں نے کہا کہ چھوٹی لڑکیوں کو فروخت کرنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ ’روزی کما سکتی ہیں اور آرام سے رہ سکتی ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’آپ کو یہ کاروبار بہت خفیہ طریقے سے کرنا پڑتا ہے کیونکہ یہ غیرقانونی ہے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ اسے ایک کم عمر لڑکی چاہیے، تو میں اس سے (زیادہ) پیسے لیتی ہوں۔ ہمارے پاس ایسے گاہک بھی ہوتے ہیں جو ہمیشہ ان (کم عمر لڑکیوں) کے لیے آتے ہیں۔‘
چیپٹو نے خفیہ تحقیقاتی صحافی کو ایک کلب میں لے جا کر اپنی چار لڑکیوں سے ملوایا۔ سب سے چھوٹی نے کہا کہ وہ 13 سال کی ہے۔ دیگر نے کہا کہ وہ 15 سال کی ہیں۔
میڈمز کی کمائی
انھوں نے ان لڑکیوں سے ہونے والی اپنی کمائی کے بارے میں بتایا کہ ہر 3,000 کینیائی شلنگ (یا 23 امریکی ڈالر) میں سے ان کا حصہ 2,500 شلنگ (یا 19 ڈالر) ہوتا ہے۔
مائی ماہیو کے ایک گھر میں ایک اور ملاقات کے دوران، چیپٹو نے تحقیقاتی صحافی کو دو کم عمر لڑکیوں کے ساتھ اکیلے چھوڑ دیا۔
ان میں سے ایک نے بتایا کہ وہ اوسطاً پانچ مردوں کے ساتھ روزانہ جنسی عمل کرتی ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر وہ کنڈوم کے بغیر جنسی تعلق قائم کرنے سے انکار کر دے تو کیا ہوتا ہے، تو انھوں نے کہا کہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا۔
’مجھے (کنڈوم کے بغیر) کرنا پڑتا ہے۔ (ورنہ) مجھے بھگا دیا جائے گا اور میرا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ میں یتیم ہوں۔‘
کینیا کی سیکس انڈسٹری ایک پیچیدہ، دھندلی دنیا ہے جہاں مرد اور عورت دونوں بچوں کی جسم فروشی میں شامل ہیں۔
مائی ماہیو میں کتنے بچوں کو جنسی کام پر مجبور کیا جاتا ہے یہ قطعی طور پر معلوم نہیں لیکن 50,000 کے قریب آبادی والے اس چھوٹے سے شہر میں انھیں تلاش کرنا آسان ہے۔
’بیبی گرل‘ کے نام سے مشہور ایک سابق سیکس ورکر اب جنسی استحصال سے بچ کر بھاگنے والی لڑکیوں کو مائی ماہیو میں پناہ فراہم کرتی ہیں۔
اس 61 سالہ معمر خاتون نے 40 سال تک سیکس انڈسٹری میں کام کیا۔ جب وہ اپنی عمر کی 20 کی دہائی کے اوائل میں تھیں تو پہلی بار وہ اس کام پر مجبور ہوئیں اور خود کو سڑکوں پر پایا۔ اس وقت وہ حاملہ تھیں اور گھریلو تشدد کی وجہ سے اپنے شوہر سے بھاگنے کے بعد وہاں پہنچی تھیں۔ ان کے ساتھ ان کے تین چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے۔
انھوں نے بی بی سی کو چار نوجوان خواتین سے ملوایا، جنھیں مائی ماہیو میں میڈمز نے بچپن میں ہی جنسی کام کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔
ہر لڑکی نے ٹوٹے ہوئے خاندانوں یا گھر میں بدسلوکی کی ایک جیسی کہانیاں سنائیں۔ ان بدسلوکیوں سے بچنے کے لیے وہ مائی ماہیو پہنچیں جہاں ان کا پھر سے پرتشدد استحصال کیا جانے لگا۔
19 سالہ للیئن جسم فروشی چھوڑ کر فوٹوگرافی سیکھ رہی ہیںاستحصال کی ایک جیسی کہانی
مشیل نے بتایا کہ کس طرح 12 سال کی عمر میں انھوں نے اپنے والدین کو ایچ آئی وی کی وجہ سے کھو دیا اور انھیں گھر سے نکال کر سڑکوں پر پھینک دیا گيا، جہاں ان کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جس نے انھیں رہنے کے لیے جگہ دی لیکن ان کے ساتھ جنسی زیادتی شروع کر دی۔
مشیل نے بتایا کہ ’میرا ضبط ختم ہو چکا تھا لیکن میرے پاس کوئی اور نہیں تھا۔‘
دو سال بعد ایک خاتون نے ان سے رابطہ کیا جو مائی ماہیو کی میڈم نکلیں اور اس نے بھی انھیں جنسی کام پر مجبور کیا۔
للیان اب 19 سال کی ہیں۔ انھوں نے بھی بہت چھوٹی عمر میں اپنے والدین کو کھو دیا تھا۔ وہ اپنے ایک چچا کے ساتھ رہ گئیں، جو انھیں شاور میں نہاتے فلماتے اور تصاویر اپنے دوستوں کو بیچ دیتے۔ جلد ہی شہوت نظری ریپ میں بدل گئی۔
’وہ میرا بدترین دن تھا۔ اس وقت میں 12 سال کی تھی۔‘
جب وہ اپنے چچا کے ہاں سے فرار ہوئیں تو انھیں ایک ٹرک ڈرائیور نے ان کا ریپ کیا اور وہ انھیں مائی ماہیو لے گیا۔ مشیل کی طرح مائی ماہیو میں ایک عورت نے ان سے رابطہ کیا اور انھیں جسم فروشی کے کام پر مجبور کیا۔
ان نوجوان خواتین کی اس کام میں گزاری جانے والی مختصر زندگی تشدد، نظرانداز کیے جانے اور بدسلوکی کی داستان ہے۔
’بیبی گرل‘ کے پاس اب وہ نئے ہنر اور نئی مہارتیں سیکھ رہی ہیں۔ دو فوٹوگرافی سٹوڈیو میں اور دو بیوٹی سیلون میں کام سیکھ رہی ہیں۔
بیبی گرل کے نام سے مشہور 61 سالہ خاتون لڑکیوں کو بچانے اور بیداری پیدا کرنے کی مہم پر ہیںبیداری مشن
ناکورو کاؤنٹی کینیا میں ایچ آئی وی انفیکشن کی سب سے زیادہ شرح والے مقامات میں سے ایک ہے اور بیبی گرل، جنھیں امریکی امدادی ایجنسی یو ایس ایڈ کی حمایت حاصل ہے، لوگوں کو غیر محفوظ جنسی تعلقات کے خطرات سے آگاہ کرنے کے مشن پر ہیں۔
ان کا نائواشا جھیل کے قریب کارگیٹا کمیونٹی ہیلتھ سنٹر میں دفتر ہے، جہاں وہ کنڈوم اور مشورہ فراہم کرنے کا کام کرتی ہیں تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یو ایس ایڈ کی فنڈنگ روکنے کے فیصلے کے ساتھ اس کے آؤٹ ریچ پروگرام بند ہونے والے ہیں۔
انھوں نے بی بی سی ورلڈ سروس کو بتایا کہ ’ستمبر سے ہم بے روزگار ہو جائیں گے۔‘
اس کے ساتھ انھوں نے مزید کہا کہ وہ ان نوجوان خواتین اور لڑکیوں کے بارے میں بہت فکر مند ہیں جو ان پر انحصار کرتی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’آپ نے دیکھا کہ یہ بچیاں کتنی کمزور ہیں، وہ خود کیسے زندہ رہیں گے؟ وہ ابھی تو صحت یاب ہی ہو رہی ہیں۔‘
بی بی سی نے اس سلسلے میں رابطہ کیا تو امریکی حکومت نے اپنی فنڈنگ میں کٹوتیوں کے ممکنہ اثرات کے بارے میں تبصروں کا جواب نہیں دیا۔
یو ایس ایڈ گذشتہ ماہ باضابطہ طور پر بند ہو گیا۔
ابھی کے لیے للیئن نے اپنی ساری توجہ فوٹو گرافی سیکھنے اور بدسلوکی سے دور رہنے پر مرکوز کی ہوئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’میں اب خوفزدہ نہیں ہوں کیونکہ بیبی گرل میرے لیے موجود ہیں۔ وہ ماضی کو دفن کرنے میں ہماری مدد کر رہی ہیں۔‘