’رشتے داروں کا ڈر نہ ہی رُخصتی کے آنسو‘: دلہا، دلہن کے بغیر ہونے والی ’فیک شادیاں‘ جو نوجوانوں میں مقبول ہو رہی ہیں

کیا آپ ’شادی‘ کی ایک ایسی تقریب میں شرکت کرنا چاہیں گے جس میں نہ تو آپ کا سامنا رشتہ داروں سےہو، نہ آپ کو خاندان کے تبصرے سننے کو ملیں اور کوئی یہ سوال پوچھنے والا بھی نہ ہو کہ ’آپ کی شادی کب ہو رہی ہے؟‘

انڈیا میں شادی کی تقریبات کے حوالے سے آپ کے ذہن میں پہلا خیال کیا آتا ہے؟ جی ہاں، تیز چمکتی روشنیاں، زرق برق ملبوسات، بالی وڈ گانوں پر رقص اور شاندار کھانے۔۔۔ یعنی پورا ماحول زندگی سے بھرپور اور اسراف میں ڈوبا دکھائی دیتا ہے۔

لیکن کیا آپ شادی کی کسی ایسی تقریب کا سوچ سکتے ہیں جس میں نہ تو دلہا، دلہن ہوں، نہ رشتے دار اور نہ ہی رُخصتی کے وقت آپ کو آنکھوں سے بہتے آنسو نظر آئیں۔

تو چلیے آپ کو لیے چلتے ہیں 'فیک میریجز' (یعنی فیک شادیوں) کی دنیا میں، جو انڈیا کے مختلف شہروں میں تیزی سے مقبول ہو رہی ہیں۔

انڈیا میں بڑے ہوٹلز، کلبز اور مختلف کمپنیاں ٹکٹ (پیسوں) کے عوض اس نوعیت کی پارٹیوں کا اہتمام کر رہی ہیں جس میں ان پارٹیوں میں شریک افراد کو شادی جیسا ماحول انجوائے کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ یہ ویڈنگ تھیم پارٹی نائٹ کی طرح ہے۔

گذشتہ چند ہفتوں کے دوران فیک ویڈنگز نے دہلی، ممبئی اور بنگلورو جیسے بڑے شہروں میں دھوم مچا رکھی ہے۔ ان پارٹیوں میں زیادہ تر نوجوان شریک ہو رہے ہیں جو دوستوں کے ہمراہ پوری رات پارٹی کرتے ہیں۔

بی بی سی کی ٹیم نے گذشتہ ہفتے دہلی کی ایک ایسی ہی فیک سنگیت (شادی سے چند روز پہلے ہونے والی موسیقی کی محفل اور ڈانس) پارٹی میں شرکت کی۔

دہلی کے ایک عالیشان کلب میں ہونے والی اس تقریب کا ماحول ہی الگ تھا۔ خواتین روایتی ساڑھیوں اور لہنگوں میں گھوم رہی تھیں جبکہ مرد حضرات نے کرتے اور روایتی لباس پہن رکھے تھے۔ سٹیج پر ایک ڈھولی مسلسل ڈھول بجا رہا تھا اور گول گپوں میں کھٹے پانی کے بجائے ٹکیلا شاٹس (شراب) کے دور چل رہے تھے۔

پہلی مرتبہ اس طرح کی پارٹی میں آنے والی شیوانگی سرین کے بقول یہ حیرت انگیز تجربہ تھا۔

Fake Marriages
BBC
شیوانگی سرین ہر ماہ اس نوعیت کی ایک تقریب میں شرکت کرتی ہیں کیوںکہ اُن کے بقول یہ شاندار تجربہ ہے

اُن کا کہنا تھا کہ ’خاندان کی شادیوں میں بہت دباؤ ہوتا ہے۔ کپڑوں کے انتخاب اور اس سے بڑھ کر لباس پر خاندان والوں کے تبصرے لیکن اس شادی میں ایسا کچھ نہیں ہے یہاں صرف لطف ہے۔ خاص طور پر یہ پارٹی ہم صرف اپنے دوستوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ ہم تقریب سے ایک دن پہلے خود کپڑوں کا انتخاب کرتے ہیں اور اکھٹے تیار ہوتے ہیں۔‘

ان تقریبات میں شرکت کا ٹکٹ 1500 انڈین روپے سے لے کر 15 ہزار روپے تک ہے جو مقام اور سہولیات کے لحاظ سے چارج کیا جاتا ہے۔ شیوانگی اور اُن کے دوستوں نے فی جوڑا 10 ہزار روپے ادا کیے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ وہ ہر ماہ اس نوعیت کی ایک تقریب میں شرکت کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کریں گی کیوںکہ یہ شاندار تجربہ ہے۔

ہوٹل مالک شرد مدن کہتے ہیں کہ مہمان نوازی میں نیا پن ہوٹل انڈسٹری کی کامیابی کے لیے اہم ہے۔ ہم اپنے مہمانوں کے لیے کچھ نیا کرنے کی کوشش جاری رکھیں گے۔

مدن کہتے ہیں کہ اس ایونٹ کے انعقاد پر تقریباً 10 لاکھ روپے خرچ آیا ہے اور اُن کی ٹیم کو توقع ہے کہ وہ اس سے دگنا کما لیں گے لیکن اُن کے بقول یہ صرف منافع کمانے کے لیے نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اُن کے لیے یہی کافی ہے کہ اس نوعیت کی تقریبات میں زیادہ سے زیادہ لوگ شریک ہوں کیوںکہ ہوٹل مالکان بھی یہ چاہتے ہیں کہ کچھ مختلف کیا جائے۔

’8کلب ایونٹس‘ کے شریک بانی کوشال چنانی کہتے ہیں کہ بیرون ملک انڈین نوجوانوں کی وجہ سے اُنھیں اس طرح کی پارٹیوں کے انعقاد کا خیال آیا۔

کوشال چنانی کے کلب نے گذشتہ ماہ بنگلورو میں ایک بڑی پارٹی کا اہتمام کیا تھا جس میں لگ بھگ دو ہزار افراد شریک ہوئے تھے۔

اُن کا کہنا تھا کہ بیرونِ ملک مقیم انڈین روایتی ملبوسات پہن کر بالی وڈ میوزک کی دُھن پر رقص جیسی نائٹ پارٹیز کرتے ہیں۔ یہی وہ آئیڈیا تھا جسے ہم نے اپنایا۔

کوشال کہتے ہیں کہ بنگلورو کے فائیو سٹار ہوٹل میں ہونے والے اس ایونٹ کا شاندار ردِ عمل ملا جس سے اُنھیں دہلی میں اس طرح کی تقریب کا اہتمام کرنے کا حوصلہ ملا جس کے تمام ٹکٹ فروخت ہو چکے تھے۔

اُن کے بقول ان ایونٹس کی کامیابی کے بعد جے پور، کولکتہ اور لکھنؤ جیسے شہروں کے آرگنائزرز بھی اُن سے رُجوع کر رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس حوالے سے ضوابط بنائے ہیں جو بہت دلچسپ ہیں۔ یہ ایک طرح سے ایک گائیڈ ہے کہ کس طرح اسے نفع بخش بنایا جا سکتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ تمام فیک میریجز کا ایک جیسا ہی سکرپٹ ہو۔

’تھرڈ پلیس‘ نامی سٹارٹ اپ نےبینگلورو میں ایک ایسی موسیقی کی محفل کا انعقاد کیا جس میں شرکا کو شراب پیش نہیں کی گئی بلکہ یہ صرف ایک جشن تھا۔

کمپنی کی سی ای او انوراگ پانڈے نے بتایا کہ ’ہم نے حاضرین کو دلہا اور دلہن کی ٹیموں میں تقسیم کر دیا اور مختلف گیمز کھیلیں جیسے کسی رشتے دار کی نقل اُتارنا وغیرہ۔‘

اس پارٹی میں ڈھول تاشے تھے، مہانوں کی آمد پر اُن کا شاندار استقبال کیا گیا اور ایسٹرالوجی کے تھیم پر مبنی گیمز بھی تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ الکوحل کو جان بوجھ کر مینیو میں شامل نہیں کیا گیا۔

پانڈے کا کہنا ہے کہ ’بعض اوقات نشے کی زیادتی کی وجہ سے تقریب کا بھر پور لطف نہیں ملتا ہے۔ ہم چاہتے تھے کہ مہمانوں کا تجربہ کسی پب میں گزراے گئی شام سے زیادہ بہتر ہو۔ ہم چاہتے تھے کہ انڈیا کی شادیوں کی روح کو دکھایا جا سکے۔‘

مبصرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے محافل کی شہرت ظاہر کرتی ہے کہ نوجوانوں میں کسی بھی چیز کو منانے کی خواہش بڑھ رہی ہے۔

ادیب اور سماجی اُمور کے تجزیہ کار سنتوش دسائی کا کہنا ہے کہ ’لوگ کسی چیز سے جڑنا چاہتے ہیں جیسا کہ کوئی ایسا موقع جسے بھرپور طریقے سے منایا جا سکے اور ایسی صورتحال میں شادی سے بہتر کون سا موقع ہو سکتا ہے جس میں لطف اور تفریح سب شامل ہو۔‘

انھوں نے کہا کہ حقیقی شادی سے منسلک دباؤ اور پریشرز کو ختم کر دیا جائے، تو مزہ اور لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔

انھوں نے اس بات کی جانب اشارہ بھی کیا کہ ان تمام تقاریب میں لوگوں کو گذشتہ شادیوں میں خریدے گئے اپنے مہنگے ملبوسات دوبارہ پہننے کا موقع ملتا ہے۔

تو کیا ایسی تقاریب زیادہ عرصے تک چلتی رہیں گی؟

ایونٹ پلان کرنے والی کمپنی ’ٹچ وڈ ایونٹس‘ کے بانی وجے آرورا کا ماننا ہے کہ فیک میریجز کی تقاریب کا اس وقت ٹرینڈ ہے اور اس میں کافی دلچسپی بھی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’جین زی ضرور اس طرح کی تقاریب کا حصہ بننا چاہے گی۔

’اگر یہ تقریبات ایک نئے کاروبار کے طور پر ابھرتی ہیں تو پھر یہ زیادہ بڑے پیمانے پر ہوں گی۔ یہ ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہیں جس سے پوری صنعت کے لیے کاروبار کے مواقع پیدا ہوں گے۔‘

ایک اندازے کے مطابق انڈیا میں شادی کی صنعت کی مالیت تقریباً 130 ارب ڈالر سالانہ ہے۔ اگرچہ یہ انڈسٹری فروغ پا رہی ہے لیکن اس میں کچھ مسائل بھی ہیں۔

انڈیا میں زیادہ تر شادیاں قدرے سرد موسم، نومبر سے مارچ کے دوران میں ہوتی ہیں جبکہ مون سون اور گرمیوں کے مہینے شادیوں کے حساب سے آف سیزن ہوتے ہیں۔

اِن آف سیزن مہینوں میں شادی ہال زیادہ تر خالی ہوتے ہیں اور اس دوران فیک میریجز کی تقاریب لوگوں کو تفریح کا موقع بھی فراہم کرتی ہیں اور اُس خلا کو بھی پُر کر سکتی ہیں۔

آرورا کا کہنا ہے کہ وہ بڑھتی ہوئی فیک میرجیز پر حیران ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’اس سے یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ یہ ایسی تقاریب ہیں جن کا ہم حصہ بننا چاہتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر ہم اپنے دوستوں یا رشتے داروں کی شادیوں میں نہ بھی جائیں پھر بھی ہم ان فیک میرجیز میں جانے کا تجربہ کرنا چاہتے ہیں۔‘

اگرچہ یہاں آنے والوں تمام مہمان واپس جاتے ہوئے کچھ زیادہ خوش نہیں ہوتے۔

بینگلورو سے تعلق رکھنے والے شری شیتی شرما کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے جس فیک میرج کی تقریب میں شرکت کی وہ زیادہ اچھی نہیں تھی۔

وہ کہتی ہیں کہ گذشتہ کئی برسوں سے وہ گھر سے دور تھیں اور شادی کی تقاریب کو بہت یاد کر رہی تھیں۔

انھوں نے کہا کہ شادی کی ان تقاریب کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ان میں رشتے داروں سے آمنا سامنا نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی آپ سے یہ پوچھتا کہ آپ کی شادی کب ہو رہی ہے؟

شرما اور ان کی دوستوں نے کئی گھنٹے کی شاپنگ کا بعد اپنے ڈریس خریدے تھے لیکن انھیں زیادہ مزہ نہیں آیا۔

انھوں نے بتایا کہ 'تقریب کا آغاز ای ڈی ایم سے ہوا اور دو گھنٹے کے بعد ہی بالی وڈ کے گانے بجنا شروع ہو گئے۔'

ہمیں توقع تھی کہ ’ہمیں شادی کا کھانا ملے گا لیکن ہمیں پیزا اور فرائز ملے، میٹھا بھی نہیں تھا بس الکوحل تھی،ڈیکور بہت معمولی تھا۔‘

بعض افراد ان تقاریب پر تنقید کر رہے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ یہ تقاریب انڈین شادیوں اور اُن سے جڑی روایات اور قدروں کو غیر اہمبنا رہے ہیں۔

لیکن دہلی میں فیک میرج کی تقریب میں شرکت کرنے والے ویدای کپور اس سے متفق نہیں ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اگر آپ کسی کو کہیں کہ دلہا یا دلہن بنیں تو یہ صحیح نہیں لیکن یہ صرف ایک پارٹی ہے اور اس سے صرف لطف اندوز ہونا چاہیے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US