کراچی سے ڈھاکہ جانے والا طیارہ، برطانوی جاسوس اور خطرناک ہتھیار: جب انڈیا میں آسمان سے اسلحے کی بارش ہوئی

یہ واقعہ دسمبر 1995 کا ہے جب 17 دسمبر کی رات ایک روسی ساختہ طیارہ کراچی سے ڈھاکہ کے لیے روانہ ہوا۔ یہ جہاز تقریباً چار ٹن وزنی خطرناک ہتھیاروں سے لدا ہوا تھا۔
plane
Getty Images

یہ واقعہ دسمبر 1995 کا ہے جب 17 دسمبر کی رات ایک روسی ساختہ طیارہ کراچی سے ڈھاکہ کے لیے روانہ ہوا۔ یہ جہاز تقریباً چار ٹن وزنی خطرناک ہتھیاروں سے لدا ہوا تھا۔

طیارے میں ڈنمارک سے تعلق رکھنے والے کم پیٹر ڈیوی، برطانوی اسلحہ ڈیلر پیٹر بلیچ، سنگاپور سے تعلق رکھنے والے انڈین نژاد شہری دیپک مانیکن اور عملے کے پانچ ارکان سمیت آٹھ مسافر سوار تھے۔ جہاز کے عملے میں شامل پانچوں افراد کا تعلق لیٹویا سے تھا اور وہ روسی زبان بولتے تھے۔

انڈیا کے شہر وارانسی کے بابت پور ہوائی اڈے پر طیارے میں ایندھن بھرا گیا۔ طیارے میں لدے ہتھیاروں کے ساتھ تین پیراشوٹ بندھے ہوئے تھے۔

انڈین تحقیقاتی ادارے سی بی آئی کو بعد میں دیے گئے ایک بیان میں پیٹر بلیچ نے اعتراف کیا تھا کہ کراچی لینڈ کرنے سے قبل بلغاریہ کے شہر برگاس میں طیارے میں تمام ہتھیار لوڈ کیے گئے تھے۔

سینیئر صحافی چندن نندی اپنی مشہور کتاب ’دی نائٹ اٹ رینڈ گنز‘ میں لکھتے ہیں کہ ’وارانسی سے ٹیک آف کرنے کے بعد طیارے نے اپنا راستہ تبدیل کیا اور جیسے ہی یہ مغربی بنگال کے انتہائی پسماندہ ضلع پرولیا پہنچا، اس نے بہت نیچی پرواز کرنا شروع کر دی۔‘

’اسی دوران جہاز میں موجود پیراشوٹ سے بندھے ہوئے ان لکڑی کے ڈبوں کو، جن میں سینکڑوں کی تعداد میں AK 47 رائفلیں تھیں، طیارے سے نیچے گرا دیا گیا۔‘

’یہ مواد جھلدا گاؤں کے قریب گرا، جو آنند مارگ کے ہیڈکوارٹر کے بالکل قریب تھا۔ ہتھیار گرانے کے بعد جہاز نے اپنے پہلے سے طے شدہ روٹ پر دوبارہ پرواز شروع کی۔ یہ کولکتہ میں اترا جہاں اس میں ایندھن بھرا گیا اور پھر تھائی لینڈ کے شہر پھوکٹ کے لیے روانہ ہو گیا۔‘

پیٹر بلیچ کا خدشہ

چندن ننڈی اور برطانوی صحافی پیٹر پوفم کے مطابق طیارے میں سوار اسلحہ ڈیلر پیٹر بلیچ کا تعلق برطانوی خفیہ ایجنسی MI 6 سے تھا اور وہ کبھی کبھی جاسوسی کے مشنز میں ان کی مدد کرتے تھے۔

جب ہوائی جہاز نے وارانسی سے ٹیک آف کیا تو اسے خدشہ تھا کہ ان کے طیارے کو مار گرایا جا سکتا ہے۔

برطانیہ کے مشہور اخبار ’دی انڈیپنڈنٹ‘ کے چھ مارچ 2011 کو شائع ہونے والے شمارے میں صحافی پیٹر پوفم نےUp in Arms: The Bizarre Case of the British Gun Runner, the Indian Rebels and the Missing Dane' کے عنوان سے ایک مضمون لکھا ہے۔

انھوں نے لکھا کہ ’پیٹر بلیچ نے مجھے بتایا کہ اس فلائٹ سے تین ماہ قبل ڈنمارک کے ایک صارف کو اسلحہ فراہم کرنے کے لیے اُن سے رابطہ کیا گیا۔ جب انھیں پتہ چلا کہ یہ اسلحہ کسی ملک کے لیے نہیں بلکہ ایک شدت پسند تنظیم کے لیے تھا تو انھوں نے برطانوی خفیہ ایجنسی کو آگاہ کیا۔‘

’برطانوی انٹیلیجنس نے انھیں مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنا کام جاری رکھیں۔ اس یقین کے ساتھ انھوں نے اپنا کام جاری رکھا کہ وہ انتہا پسندی کے خلاف ایک سٹنگ آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں اور انڈین ایجنسیاں ہتھیار گرانے سے پہلے اسے روک لیں گی اور وہ وہاں سے نکل سکیں گے۔‘

Kim Divie
Getty Images
کم ڈیوی پرولیا اسلحہ کیس کے ماسٹر مائنڈ تھے

جب پرولیا میں ہتھیار گرائے گئے

دوسری جانب مشن شروع ہونے سے پہلے ایسے کوئی اشارے نہیں ملے کہ انڈین انتظامیہ اسے روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔

پیٹر پوفہم لکھتے ہیں کہ ’بلیچ نے کہا کہ وارانسی سے ٹیک آف کرتے ہی انھیں فکر لاحق ہو گئی اور انھیں لگ رہا تھا کہ انڈیا نے طیارہ مار گرانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اُن کا انجام بہت قریب ہے۔‘

لیکن طیارے نے رات کی تاریکی میں ہتھیار گرائے اور کچھ نہیں ہوا۔ بلیچ کے مطابق یہاں اُن کی پریشانیاں ختم ہو چکی تھیں لیکن دراصل یہیں سے مشکلات شروع ہو رہی تھیں۔

سینکڑوں AK47 رائفلیں اور ہتھیار زمین پر بکھرے ہوئے تھے۔

18 دسمبر کی صبح پرولیا ضلع کے گنوڈیہ گاؤں کے رہائشی سبھاش تنتو بائی اپنے مویشی چرانے نکلے کہ اچانک ان کی نظر سامنے گھاس پر پڑی جہاں کوئی چیز چمک رہی تھی۔

جھلدا تھانے کی کیس ڈائری میں لکھا ہے کہ جب سبھاش قریب پہنچے تو اُن کی نظر ایسی بندوق پر پڑی جو انھوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ چاروں طرف 35 کے قریب بندوقیں بکھری ہوئی تھیں۔ یہ دیکھ کر وہ فورا جھلدا تھانے کی طرف دوڑے۔

سٹیشن انچارج پرنو کمار مترا نے چندن نندی کو بتایا کہ ’یہ خبر سنتے ہی میں نے وردی پہنی اورروانہ ہوا، جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ زمین پر پڑے زیتون کے رنگ کے لکڑی کے کریٹ ٹوٹے ہوئے تھے اور ان میں رکھے ہوئے ہتھیار غائب تھے۔‘

’میرے ایک ساتھی نے انڈین فوج کے سپاہی کو بلایا اور میری درخواست پر اس نے قریبی تالاب میں غوطہ لگایا۔ جب وہ باہر آیا تو اس کے ہاتھ میں ٹینک کو تباہ کرنے والا گرنیڈ تھا۔ پہلی بار مجھے محسوس ہوا کہ یہ ایک سنگین معاملہ ہے۔‘

اس کے بعد لاؤڈ سپیکر کے ذریعے اعلان کیا گیا کہ جن کے پاس اسلحہ ہے وہ پولیس کے پاس جمع کروائے۔ بڑی تعداد میں AK 47 رائفلیں قریبی دیہات سے ملیں۔

ایک شخص نے آ کر بتایا کہ کھیت میں نائیلون کا ایک بڑا پیراشوٹ پڑا ہے جس کے نیچے کئی رائفلیں تھیں۔

کولکتہ کی عدالت کی جانب سے برطانیہ، بلغاریہ، لیٹویا اور جنوبی افریقہ کے متعلقہ حکام کو بھیجی گئی ایک درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’مجموعی طور پر تین سو AK 47 رائفلیں، نائن ایم ایم کی 25 پستول، دو عدد اسنائپر رائفلیں، 2 نائٹ ویژن دوربین، 100 گرینڈ اور 16000 گولیاں پرولیا کے آس پاس کے علاقوں میں ملی ہیں جن کا وزن 4375 کلوگرام تھا۔'

Secuirty
Getty Images
انڈیا کی حکومت کم ڈیوی کو اپنی تحویل میں لینا چاہتی تھی

طیارے کو زبردستی ممبئی میں اتارا گیا

ہتھیار گرانے والوں کے لیے مشکلات اس وقت بڑھنا شروع ہوئی جب جہاز سے گرایا گیا کہ اسلحہ انڈین سیکیورٹی فورسز کے ہاتھ لگ گیا۔

اس سب کے باوجو جہاز نے کلکتہ کے بجائے چنئی میں اتر کر ایندھن بھروایا اور وہاں سے پھر ٹیک آف کیا۔

ان کا جہاز ابھی ممبئی سے 15-20 منٹ کے فاصلے پر تھا کہ کاک پٹ کے ریڈیو پر آواز آئی اور انڈین فضائیہ کے مگ 21 طیارے نے روسی طیارے کو ممبئی ایئرپورٹ پر اترنے کا حکم دیا۔

چندن نندی لکھتے ہیں کہ ’جہاز نے لینڈ کرنا شروع کیا تو کم ڈیویکے چہرے پر پریشانی کے آثار بڑھنے لگے۔ انھوں نے اپنے بریف کیس سے کچھ کاغذات نکالے اور انھیں پھاڑ کر جلا دیا۔‘

’پھر بریف کیس سے چار فلاپی ڈسکیں نکالیں، انھیں ٹکڑے ٹکڑے کیا اور لائٹر سے انھیں آگ لگا دی۔ جب تک وہ فارغ ہوا، جہاز ممبئی ایئرپورٹ کے رن وے پر لینڈ کر رہا تھا۔‘

کم ڈیوی کا فرار

جہاز رات 1:40 منٹ پر ممبئی اترا لیکن وہاں ایک بھی سرکاری شخص موجود نہیں تھا۔

پیٹر بلیچ نے سی بی آئی کو دیے گئے اپنے بیان میں بتایا تھا کہ 10 منٹ کے بعد ہوائی اڈے کی ایک جیپ وہاں پہنچی جس میں دو افراد سوار تھے۔

ان افراد نے اُن سے پوچھاکہ وہ لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں اور جہاز بغیر اجازت کے کیوں اتارا گیا؟

چندن نندی لکھتے ہیں کہ ’ڈیوی اور بلیچ نے ان دونوں افسران سے بات چیت کی۔‘ ان کے مطابق انڈین افسران کی حماقت اور نااہلی کی یہ اتنہا تھی کہ جب ڈیوی نے ان سے پوچھا کہ کیا انھیں لینڈنگ فیس ادا کرنی پڑے گی تو افسر نے ہاں میں جواب دیا۔

’طیارے کے اترنے کے تقریباً 45 منٹ بعد ایک اور جیپ وہاں پہنچی، جس میں سادہ کپڑوں میں ملبوس چھ یا سات افراد سوار تھے۔ انھوں نے اپنا تعارف کسٹم حکام کے طور پر کرایا اور کہا کہ وہ طیارے کی تلاشی لینا چاہتے ہیں۔‘

’کسٹم حکام کے طیارے میں داخل ہونے کے بعد ڈیوی جہاز کے اندر گئے۔ کاغذات کا فولڈر اٹھایا اور خاموشی سے جہاز سے اتر گئے اور پھرکسی نے ڈیوی کو نہیں دیکھا۔ تھوڑی دیر بعد طیارے کو 50 سے 70 مسلح سکیورٹی اہلکاروں نے گھیر لیا۔‘

طیارے کے عملے کو عمر قید کی سزا

پیٹر بلیچ اور عملے کے پانچ ارکان کو گرفتار کیا گیا اور ان پر انڈیا کے خلاف جنگ مسلط کرنے کا مقدمہ چلایا گیا۔ دو سال تک چلنے والے مقدمے کے بعد سب کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

کم ڈیوی تقریباً 10 سال بعد دوبارہ منظر عام پر آئے۔ پورے ڈنمارک کے سفر کے دوران کم ڈیوی نے اپنے کام کی خوب قصیدے پڑھے۔

بھارت نے کم ڈیوی کی حوالگی کی پوری بھر پور کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔

ڈیوی نے 27 اپریل 2011 کو ایک ٹی وی انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ ’اس پورے واقعہ میں انڈین خفیہ ایجنسی را کا کردار تھا اور انڈین حکومت کو ہتھیار گرانے کے بارے میں پیشگی اطلاع تھی اوریہ را اور MI 6 کا مشترکہ مشن تھا۔‘

حکومت نے اس دعوے کی تردید کی اور سی بی آئی نے کہا کہ اس واقعہ میں کسی حکومتی ایجنسی کا کوئی کردار نہیں تھا۔

Kim
Getty Images
کم نے را پر الزامات عائد کیے

ڈیوی کا سنسنی خیز دعویٰ

بعد ازں کم نے 'They Called Me Terrorist' کے عنوان سے ایک کتاب لکھی۔

اپنی کتاب میں کم ڈیوی نے دعویٰ کیا کہ ’ریاست بہار کے ایک سیاستدان نے انڈیا سے فرار ہونے میں اُن کی مدد کی تھی۔‘

یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ ’اُن ہی کی مدد سے فضائیہ کے ریڈار کو کچھ دیر کے لیے بند کیا گیا تھا تاکہ ہتھیاروں کو بغیر کسی رکاوٹ کے گرایا جا سکے۔ ان ہتھیاروں کا مقصد مغربی بنگال میں تشدد پھیلانا تھا تاکہ اسے جواز بنا کر جیوتی باسو کی قیادت میں ریاستی حکومت کو ختم کیا جائے۔‘

آنندا مارگا نے پہلے تو کم ڈیوی کےتمام دعووں اور الزامات کی تردید کی تھی اور کہا کہ کچھ لوگ ان کی تنظیم کو بدنام کرنا چاہتے ہیں۔ آنندا مارگا نے دعویٰ کیا کہ پولیس کو وہاں کوئی ہتھیار نہیں ملا ہے۔

پارلیمنٹ کی طرف سے تشکیل دی گئی ’پرولیا آرمز ڈراپنگ کمیٹی‘ کے کچھارکین پارلیمان سے جب پوچھا کہ کیا انڈین ایئر فورس کے ریڈار دن میں 24 گھنٹے کام کرتے ہیں، تو انڈین ایئر فورس کے نمائندے ایئر وائس مارشل ایم میک موہن نے جواب دیا کہ 'ریڈار کو 24 گھنٹے فعال رکھنا ممکن نہیں ہے کیونکہ اس سے ان کے جل جانے کا خطرہ ہے۔‘

(پرولیا اسلحہ گرانے والی کمیٹی کی تیسری رپورٹ، صفحہ 7)

کیا انڈیا کو پیشگی اطلاع تھی؟

کم ڈیوی نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انڈین انتظامیہ کو ان کے فلائٹ پلان کے بارے میں پیشگی اطلاع تھی۔ انھیں یہ بھی معلوم تھا کہ طیارے میں کتنے لوگ سوار تھے، طیارے میں کتنے ہتھیار تھے اور انھیں کہاں گرایا جانا تھا۔

ڈیوی نے سوال کیا کہ کوئی بھی شخص حکومت کی اطلاع کے بغیر ایک دشمن ملک سے ہتھیاروں سے لدے جہاز کو انڈین سرزمین میں کیوں اور کیسے لائے گا؟

انٹیلیجنس ایجنسی را کے سابق افسر آر کے یادیو نے اپنی کتاب ’مشن را‘ میں لکھا ہے کہ ’ڈیوی کے ان دعوؤں کی تصدیق اس وقت ہوئی جب انڈیا کے دورے پر آئے ہوئے برطانوی وزیر داخلہ مائیکل ہاورڈ نے ایک پریس کانفرنس میں واضح طور پر کہا کہ برطانوی حکومت نے انڈیا کو ہتھیار گرانے کے بارے میں پیشگی اطلاع دے دی تھی۔‘

’اس سب کے باوجود ڈائریکٹوریٹ جنرل آف سول ایوی ایشن نے جہاز کو کلکتہ میں اترنے کی اجازت کیوں دی؟ اگر را کے پاس اس کے بارے میں پیشگی اطلاع تھی تو دوسری سرکاری ایجنسیوں جیسے انٹیلی جنس بیورو، مقامی پولیس یا محکمہ کسٹمز نے وارانسی میں ہی طیارے کی تلاشی کیوں نہیں لی؟‘

پیٹر بلیچ اور عملے کی رہائی

آر کے یادیو نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’روسی طیارے کو جان بوجھ کر ایئرپورٹ کی عمارت سے چھ کلومیٹر دور کھڑا کیا گیا۔ جب سیکیورٹی اور انٹیلیجنس ایجنسیاں وہاں پہنچیں تو طیارے کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور ڈیوی کو ایئرپورٹ سے ایک سرکاری گاڑی میں لے جایا گیا۔ انھیں کسٹم اور امیگریشن کے بغیر ہی فرار ہونے دیا گیا۔‘

یہ سوچنا بھی مشکل ہے کہکوئی غیر ملکی طیارہ انڈیا کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتا ہے اور پیراشوٹ کی مدد سے اس کی حدود میں ہتھیار گرا دیتا ہے۔

چندن نندی لکھتے ہیں کہ ’یہ بھی سمجھ سے باہر ہے کہ طیارے کی زبردستی لینڈنگ کے باوجود، سارے واقعے کا ماسٹر مائنڈ کم ڈیوی عرف نیل نیلسن انڈین سکیورٹی اداروں کو چکما دے کر پراسرار حالات میں ممبئی کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے فرار ہوا۔‘

کم ڈیوی کے ساتھی پیٹر بلیچگرفتار ہو گئے اور اس اُمید پر کہ انھیں کوئی رعایت ملے، انھوں نے تمام واقعہ تفصیل سے بیان کیا لیکن اُن پر مقدمہ چلا اورانھیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

سنہ 2004 میں اس وقت کے برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی درخواست پر صدر عبدالکلام نے انھیں معافی دی اور وہ رہا ہو گئے۔اُس وقت انڈیا کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی تھے۔

دوسری جانب اُن کی رہائی سے چار سال پہلے ہی 22 جولائی 2000 کو عملے کے باقی ارکین کو روسی کے صدر کے دورے کے موقع پر جذبہ خیر سگالی کے تحت رہا کر دیا گیا تھا۔

ڈنمارک کا انکار

سی بی آئی نے اس معاملے کی تحقیقات کیں لیکن پہلے پانچ سال کے بعد یہ تحقیقاتی عمل سست پڑا اور پھر رک گیا۔چندن نندی کے مطابق ’اسے سست ہونے دیا گیا۔‘

بقول اُن کے ’سی بی آئی کے ڈائریکٹر پی سی شرما کے جانے کے بعد، کسی بھی سی بی آئی سربراہ نے اس معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ 2001 سے 2011 کے درمیان کا وقت مکمل طور پر ضائع ہو گیا تھا۔ حالانکہ پیٹر ڈیوی کو اپریل 2011 میں کوپن ہیگن میں گرفتار کیا گیا تھا، لیکن ایک دن کے بعد انھیں ڈنمارک کی پولیس نے رہا کر دیا تھا۔ ڈنمارک کی پولیس نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔‘

ڈنمارک کی عدلیہ نے ڈیوی کو انڈیا کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ انھیں خدشہ تھا کہ اُن پر تشدد کیا جائے گا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جائے گی۔

وہ سوال جن کے جواب نہیں مل سکے

چندن نندی لکھتے ہیں کہ ’مکمل چھان بین کے بعد یہ بات بھی سامنے آئی کہ اس سکینڈل کی منصوبہ بندی کم از کم تین سال پہلے کی گئی تھی۔ کم کے پاس دو جعلی پاسپورٹ تھے۔ ایک پاسپورٹ میں اس کا نام کم پالگریو ڈیوی تھا اور دوسرے پاسپورٹ میں اس کا نام کم پیٹر ڈیوی تھا۔‘

یہ دونوں پاسپورٹ 1991 اور 1992 میں نیوزی لینڈ کے دارالحکومت ویلنگٹن سے جاری کیے گئے تھے۔

اس واقعے کو تقریباً 30 سال گزرنے کے باوجود ابھی تک کچھ سوالات کے واضح جوابات نہیں مل سکے ہیں، جیسے کہ یہ ہتھیار کس کے لیے گرائے گئے؟ انھیں کس نے ڈراپ کیا اور کس نے اس کی قیمت ادا کی؟

اس طیارے کو انڈیا کی فضائی حدود میں داخل ہوتے ہی کیوں نہیں روکا گیا؟ کیا انڈیا کی انٹیلیجنس ایجنسی راکو ان ہتھیاروں کے گرائے جانے کا پہلے سے علم تھا اور اگر ایسا تھا تو اس نے پیشگی اطلاع ہونے کے باوجود دوسری ایجنسیوں کو مطلع کیوں نہیں کیا؟

کم ڈیوی کو ممبئی ایئرپورٹ سے کیسے نکلنے دیا گیا اور وہ واپس ڈنمارک کیسے پہنچی؟


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US