اپنے مختصر آٹھ سالہ دورِ حکومت میں شاندار فتوحات سے سلطان سلیم اوّل نے وہ بنیادیں رکھیں جن پر سلطان سلیمان کے دور میں سلطنت اپنی معراج کو پہنچی۔

سلطان سلیم اوّل تو عثمانی تخت کے بھی وارث نہیں تھے مگر پھر سنہ 1517 کے سمٹتے اگست نے دیکھا کہ قاہرہ میں مکہ کے مقدس شہر کی کنجیاں دے کر انھیں اسلامی دنیا کا رہنما یا خلیفہ تسلیم کرلیا گیا۔ اسی لیے تُرک انھیں ’یاووز‘ یعنی ’درشت‘ اور ’ارادے کا پکا‘ کہتے ہیں، یعنی جو ٹھان لی تواس پر عمل کیے بغیر نہ ٹلے!
سلیم 10 اکتوبر 1470 کو جدید ترکی کے شمالی شہر اماسیا میں جب پیدا ہوئے تو ان کے دادا محمد ثانی حکمران تھے اور والد بایزید ابھی (بایزید ثانی کے لقب کے ساتھ) سلطان نہیں بنے تھے۔
مورخ ایلن میخائل اپنی کتاب ’گاڈز شیڈو‘ میں لکھتے ہیں کہ سلطان بایزید ثانی کے دس بیٹوں میں چوتھے سلیم کو تخت کا وارث بننے کی توقع ہرگز نہیں تھی۔
’مگر ذاتی کرشمے اور عسکری مہارت کے ساتھ، اور اپنی غیرمعمولی صلاحیت کی حامل والدہ گُل بہار کی رہنمائی سے، سلیم نے 1512 میں سلطنت سنبھالنے بعد اس کے رقبے کو تقریباً تین گنا بڑھا دیا اور ایسا حکومتی ڈھانچہ قائم کیا جو بیسویں صدی تک قائم رہا۔‘
انسائکلوپیڈیا برٹینیکا کی تحقیق ہے کہ سلطان سلیم اوّل تخت پر اُس خانہ جنگی کے بعد بیٹھے جس نے ان کے والد بایزید ثانی اور بھائیوں کو بھی لپیٹ میں لیا تھا۔
انسائکلوپیڈیا برٹینیکا کی تحقیق ہے کہ سلطان سلیم اوّل تخت پر اُس خانہ جنگی کے بعد بیٹھے جس نے ان کے والد بایزید ثانی اور بھائیوں کو بھی لپیٹ میں لیا تھا۔ایلن میخائل کے مطابق سنہ1512 تک شہزادہ احمد اپنے والد کے بعد تخت کے سب سے مضبوط امیدوار سمجھے جاتے تھے۔ ’بایزید مزید حکومت کرنا نہیں چاہتے تھے۔ انھوں نے احمد کو جانشین نامزد کر دیا۔ اس اعلان پر سلیم سخت برہم ہوئے اور انھوں نے بغاوت کر دی۔‘
اپنی کتاب میں وہلکھتے ہیں کہ اگرچہ 1511 میں پہلی جنگ میں سلیم اپنے والد کی افواج سے ہار گئے، تاہم بالآخر انھوں نے اپنے والد کو معزول کر دیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب کسی عثمانی شہزادے نے اپنے ہی والد کے خلاف باقاعدہ فوج لے کر بغاوت کی تھی۔
برٹینیکا میں لکھا ہے کہ بایزید اپنی صلح جُو فطرت کے باوجود ینی چری فوج کے زور پر تخت نشین ہوئے تھے اور فوجی مہمات میں بے دلی دکھاتے تھے۔ سلیم نے بایزید کو جلاوطن کیا جہاں ان کا فوری بعد انتقال ہوگیا۔ پھر سلیم اوّلنے اپنے تمام بھائیوں، ان کے سات بیٹوں اور اپنے پانچ میں سے چار بیٹوں کو بھی (ریشم کی ڈوری سے) قتل کروایا۔
’صرف سب سے قابل، سلیمان کو جانشین کے طور پر چھوڑا۔‘
برٹینیکا کے مطابق ’اس اقدام نے مخالفین کو کسی متبادل رہنما سے محروم کر دیا جس کے گرد وہ جمع ہو سکتے۔ یوں اگرچہ حکومت میں دیوشِرمے (ینی چریاور درباری گروہ) کا عمل دخل برقرار رہا، مگر اصل اختیار سلیم کے ہاتھ میں تھا۔‘
’سلیم کی اصل توجہ مشرق کی طرف تھی، جہاں ایران کے صفوی بانی شاہ اسماعیل اوّل اپنے قِزِل باش پیروکاروں کے ساتھ نہ صرف سیاسی بلکہ نظریاتی خطرہ بنے ہوئے تھے۔
’سنہ 1514 کی جنگِ چالدَران میں سلیم نے شاہ اسماعیل کو شکستِ فاش دی اور اناطولیہ کے کُرد اور ترکمان امرا کو سلطنت میں شامل کر لیا۔‘
ڈیوڈ مورگن نے شاہ اسماعیل پر اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ ان کی فوج زیادہ تیز رفتار تھی اوران کے سپاہی بہتر تیاری کے ساتھ میدان میں اترے تھے، لیکن عثمانیوں نے جدید فوجی ڈھانچے، توپ خانے، بارود اور بندوقوں کی بدولت کامیابی حاصل کی۔
عثمانیوں نے 7 ستمبر کو صفوی دارالحکومت تبریز پر قبضہ کیا۔ ایلن میخائل نے لکھا ہے کہ اس جمعہ کا خطبہ تبریز کی مساجد میں سلیم کے نام سے پڑھا گیا۔
رُڈولف پی۔متھی کی کتاب ’دی پرسوٹ آف پلیژر: ڈرگز اینڈ سٹِمولینٹس ان ایرانین ہسٹری (1500–1900)‘کے مطابق، سلیم نے جنگ کے بعد اسماعیل کے بارے میں کہا: ’وہ ہمیشہ اس قدر شراب کے نشے میں رہتے تھے کہ عقل کھو بیٹھتے اور سلطنت کے امور کو مکمل طور پر نظرانداز کرتے تھے۔‘
اس کے بعد سلیم اوّل نے مملوکوں کا رُخ کیا اور 1516 کی جنگِ مرج دابق اور 1517 کی جنگِ رَیدانیہ میں کامیابی حاصل کی۔
برٹینیکا میں لکھا ہے کہ ’ان فتوحات کے نتیجے میں شام، مصر اور فلسطین عثمانیوں کے زیرِ نگیں آ گئے اور مکہ و مدینہ جیسے مقدس مقامات کے شامل ہونے سے سلیم مسلم دنیا کے سب سے طاقتور حکمران تسلیم کر لیے گئے۔‘
’یہ فتوحات عثمانیوں کے لیے بے حد اہم ثابت ہوئیں۔ بہتر نظم و نسق کے تحت نئی سلطنت نے استنبول کو وہ مالی وسائل دیے جنآوں نے پندرھویں صدی کے مالی بحران ختم کر دیے اور سلطنت کو سولھویں صدی کی سب سے طاقتور و خوشحال ریاستوں میں شامل کر دیا۔‘
’عثمانیوں نے مملوکوں کی جگہ مشرقِ وسطیٰ میں یورپاور ایشیا کو ملانے والے قدیم تجارتی راستوں پر قبضہ کر لیا۔‘
برٹینیکا کے مطابق، مشرق میں عثمانی فتوحات اور ایران میں صفوی سلطنت کے قیام نے اس انتشار اور سیاسی خلا کا خاتمہ کیا جو گیارہویں صدی میں عباسی خلافت کے زوال کے بعد پیدا ہوا تھا۔ پورے خطے میں امن و استحکام قائم ہوا، اور مشرقِ وسطیٰ ایک بار پھر ایک طاقتور سلطنت کے زیرِ سایہ منظم ہوا۔
’البتہ مسلم دنیا مستقل طور پر تقسیم ہوگئی: ایران اور ماوراء النہر (وسطی ایشیا کا جنوب مغربی حصہ) عرب دنیا سے الگ ہوگئے، جبکہ پہلی بار اناطولیہ اور جنوب مشرقی یورپ عرب دنیا کا جزو بن گئے۔‘
سلطان سلیم اوّل نے صفوی سلطنت کو دنیا سے کاٹنے کے لیے ایران کی ریشم کی تجارت پر سخت پابندی لگائی۔ تاریخ کی مختلف کتابوں سے پتا چلتا ہے کہ یہ سخت اقدامات عثمانیوں کو بھی نقصان دیتے رہے، مگر سلیم نے صفویوں کو کمزور کرنے کے لیے انھیں جاری رکھا۔ ان کی وفات کے فوری بعد یہ پالیسی سلطان سلیمان اوّل نے ختم کر دی۔
نعیم الرحمٰن فاروقی نے ’مغل اوٹومن ریلیشنز‘ میں لکھا ہے کہ ابتدا میں (بعد میں مغل سلطنت کی بنیاد رکھنے والے ظہیرالدین محمد) بابر اور عثمانیوں کے تعلقات کشیدہ تھے۔
پیغمبر اسلام کی تلوار اور کمان استنبول میں توپ قاپی محل میں نمائش پر رکھی ہوئی ہیں۔’سنہ 1513میں سلیم اوّل نے یہ خدشہ محسوس کرتے ہوئے کہ بابر صفویوں سے جا ملیں گے، ان سے صلح کی اور استاد علی قلی، مصطفیٰ رومی سمیت کئی عثمانی ماہرین کو ان کی مدد کے لیے روانہ کیا۔ یہی تعاون آئندہ مغل۔عثمانی تعلقات کی بنیاد بنا۔‘
ابراہم ارالی کی کتاب ’ایمپررز آف دی پیکاک تھرون‘ کے مطابق بابر نے ان ہی سے توپوں اور آتشیں اسلحے کو محض قلعہ بندی کے لیے نہیں بلکہ میدانِ جنگ میں بھی استعمال کی حکمتِ عملی سیکھی، جس نے انھیں ہندوستان میں برتری دلائی۔
مؤرخین کا اتفاق ہے کہ اپنے مختصر آٹھ سالہ دورِ حکومت میں شاندار فتوحات سے سلیم نے وہ بنیادیں رکھیں جن پر سلطان سلیمان کے دور میں سلطنت اپنی معراج کو پہنچی۔
جب عثمانیوں نے مصر فتح کیا تو آخری عباسی خلیفہ المتوکل ثالث قاہرہ میں مقیم تھے اور مملوکوں کے ہاتھوں محض ایک کٹھ پتلی کی حیثیت رکھتے تھے۔ انھیں استنبول بھیج دیا گیا۔ اٹھارہویں صدی میں ایک روایت نے جنم لیا کہ گویا انھوں نے خلافت کا خطاب باضابطہ طور پر سلیم اوّل کو مصر کی فتح کے وقت منتقل کر دیا تھا۔
کیرولین فنکل اپنی کتاب ’عثمانزڈریم : دی سٹوری آف اوٹومن ایمپائر، 1300–1923‘ میں وضاحت کرتی ہیں کہ سلیم نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ خلافت کے اختیارات استعمال کر رہے ہیں، اور اس مبینہ ’باضابطہ منتقلی‘ کا تصور محض بعد کی اختراع تھا۔
ایلن میخائل لکھتے ہیں کہ مملوکوں پر فتح سے روم کی سلطنت کے عروج کے بعد پہلی بار بحیرہ اسود، بحیرہ احمر، بحیرہ خزر ( بحیرہ قزوین یا بحیرہ کیسپیین) اور بحیرہ روم ایک ہی سلطنت کے زیرِ حکم آ گئے تھے۔
’مصر کی فتح سلطنت کے لیے بے حد نفع بخش ثابت ہوئی کیونکہ اس سے دیگر تمام عثمانی علاقوں کے مقابلے میں زیادہ محصول ملا اور قریباً سو فیصد خوراک بھی سلطنت کو یہیں سے مہیا ہوئی۔ تاہم، مکہ اور مدینہ ان تمام شہروں میں سب سے زیادہ اہم تھے کیونکہ ان ہی کی بدولت سلیم اور ان کے جانشینوں کو بیسویں صدی کے اوائل تک پوری مسلم دنیا کا خلیفہ تسلیم کیا گیا۔‘
سلطان سلیم اوّل داڑھی نہ رکھتے، شکار اور تیراکی پسند کرتے، کتاب دوست اور علم پرور تھے، حتیٰ کہ جنگی مہمات میں بھی کتاب ساتھ رکھتے۔علی توفکچی اپنے ایک مضمون میںلکھتے ہیں کہ سلطان سلیم اوّل خود کو ’خادمِ حَرَمین شریفین‘ کہتے تھے۔
’مکہ اور مدینہ کے امیر (عہدے کانام شریف تھا) نے ایک خط کے ساتھ دونوں مقدس شہروں کی کنجیاں سلطان سلیم اوّل کو بھیجیں اور ان کے سامنے اپنی اطاعت کا اعلان کیا۔ انھوں نے ’مقدس امانات‘ (یعنی وہ اشیا جو پیغمبر اسلام، آپؐ کے اصحاب اور بعض دوسرے انبیا کرام سے منسوب ہیں) کا ایک اہم حصہ بھی سلطان کو روانہ کیا۔
’سلطان سلیم اوّل مقدس امانات کی آمد اور امیر کے صلح جو رویے سے بے حد خوش ہوئے۔ امیر کو ان کی اطاعت اور مقدس امانات اور کنجیوں کے بھیجنے پر قیمتی تحائف ارسال کیے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے خطے کے عوام کی خدمت کے لیے دو لاکھ اشرفیاں اور غلہ سے لدے جہاز بھی روانہ کیے۔
’مقدس امانات، جو اس سے پہلے مملوک حکمرانوں کی حفاظت میں تھیں، کے لیے استنبول کے توپ قاپی محل میں سلطان نے اپنا ذاتی کمرہ، یعنی تخت شاہی کا کمرہ، وقف کر دیا۔
’سلطان سلیم کے حکم سے یہاں دن رات قرآن کی تلاوت کا اہتمام کیا گیا۔ چار صدیوں تک یہاں قرآن مسلسل پڑھا جاتا رہا۔ بس جمہوریہ کے قیام کے بعد یہ روایت تقریباً پچاس برس تک منقطع رہی۔ تاہم عثمانی مورخ اور کلاسیکی ترک موسیقی کے ماہر یلماز اوزتونا نے 1969 میں رکنِ پارلیمان منتخب ہونے کے بعد اسے دوبارہ زندہ کروایا۔ آج یہ روایت ترک حکومت کی نگرانی میں جاری ہے۔‘
سلیم اوّل کی فتوحات نے سلطنت کو تین براعظموں پر پھیلا دیا۔ وہ زیادہ تر میدانِ جنگ میں رہے اور محل کی زندگی سے گریزاں رہے۔ سلیم اوّل کی دو معروف بیویاں تھیں، کم از کم چھ بیٹے اور نو بیٹیاں تھیں۔
تیز مزاج، غیر معمولی توقعات اور بے رحم فیصلے— یہ سبسلیم اول کی شخصیت کا حصہ تھے۔
مائیک ڈیش کی کتاب ’اوٹومن ایمپائرز لائف اینڈ ڈیتھ ریس‘ میں لکھا ہے کہ روایت ہے کہ ان کے کئی وزرا معمولی سی لغزش پر بھی قتل کر دیے گئے۔
’ایک وزیر نے ہنستے ہوئے سلطان سے کہا: ’اگر آپ مجھے قتل کرنے کا ارادہ کریں تو پہلے خبر دے دیجیے گا تاکہ میں اپنے معاملات درست کر لوں۔‘
سلیم نے قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا: ’یقیناً ایسا کرنے کا سوچ رہا ہوں، مگر ابھی تک تمہاری جگہ لینے والا کوئی موزوں آدمی نہیں ملا، ورنہ یہ کام کب کا کر چکا ہوتا!‘
اسی پس منظر نے عثمانیوں میں ایک بد دعا کو جنم دیا: ’اللہ کرے تم سلیم کے وزیر بنو!۔‘
ریاستی امور میں وہ سخت اور بے لچک تھے، مگر ذاتی زندگی میں انتہائی منکسر المزاج، مطالعہ پسند اور عام عالم کی طرح دکھائی دیتے۔
ایلن میخائل کے مطابق سلیم نے مذہبی تنوع کو فروغ دیا، یہودیوں سمیت دیگر اقلیتوں کو سلطنت میں خوش آمدید کہا، علم و فلسفے کی سرپرستی کی، اور خود بھی شاعری کی۔
سلیم ترک اور فارسی دونوں زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ عثمانی ادبی نقاد لطیفی (وفات 1582) کے مطابق وہ ’فارسی بولنے کے نہایت شوقین‘ تھے۔ وہ ایکشاعر بھی تھے اور ترکی اور فارسی دونوں زبانوں میں ’سلیمی‘ تخلص کے ساتھ اشعار کہتے تھے۔ ان کی فارسی شاعری کے مجموعے آج بھی محفوظ ہیں۔
سادہ، متقی اور صوفی مزاج تھے۔ داڑھی نہ رکھتے، شکار اور تیراکی پسند کرتے، کتاب دوست اور علم پرور تھے، حتیٰ کہ جنگی مہمات میں بھی کتاب ساتھ رکھتے۔ سادہ ترین لباس پہنتے۔ ان کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ بیٹے سلیمان کی شان و شوکت دیکھ کر کہا: ’بیٹے! اگر تم ایسے لباس پہنو گے تو تمہاری ماں کیا پہنے گی؟‘
سلیم اوّل کی مغرب کی جانب منصوبہ بند مہم اس وقت رُک گئی جب وہ بیماری میں مبتلا ہو کر 49 برس کی عمر میں وفات پا گئے۔ سرکاری روایت کے مطابق وہ ایک ناسور کے غلط علاج کے باعث فوت ہوئے، مگر بعض مؤرخین ان کی موت کو سرطان یا حتیٰ کہ زہر خورانی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ کچھ محققین نے اسے سلطنت میں پھیلی طاعون کی وبا سے بھی جوڑا ہے۔
22 ستمبر 1520 کو ان کا آٹھ سالہ دورِ حکومت ختم ہوا۔
کیرولن فنکل کے مطابق مکہ اور مدینہ کے راستوں کا محافظ بن کر اور مشرقِ وسطیٰ کے مرکزی مسلم خطوں کو فتح کر کے انھوں نے عثمانیوں کو سب سے نمایاں مسلم طاقت بنا دیا۔
’ان فتوحات نے سلطنت کا جغرافیائی اور ثقافتی مرکز بلقان سے مشرقِ وسطیٰ کی طرف منتقل کر دیا۔ اٹھارویں صدی تک مملوک سلطنت کی فتح کو ایسے لمحے کے طور پر رومانوی رنگ دیا گیا جب عثمانیوں نے بقیہ مسلم دنیا کی قیادت سنبھالی۔ اسی لیے سلیم اوّل کو پہلا باقاعدہ عثمانی خلیفہقراردیا جاتا ہے۔‘
ان کے نام پرنو سال پہلے استنبول میں باسفورس پر بنا یاووز سلطان سلیم پل دنیا کا پانچواں بلند ترین (322 میٹر) پل ہے جو ترکی کے یورپی حصے کو ایشیائی حصے سے ملاتا ہے۔