کیا مستقبل میں کسی بالی وڈ سٹار کے ساتھ مصنوعی ذہانت (اے آئی) سے بنائی گئی تصویر آپ کو مشکل میں ڈال سکتی ہے؟ ایسا ممکن ہے۔
ایشوریہ رائے نے یہ تشویش ظاہر کی ہے کہ ان کی شخصیت کو ڈیپ فیک میں استعمال کیا جا رہا ہےکیا مستقبل میں کسی بالی وڈ سٹار کے ساتھ مصنوعی ذہانت (اے آئی) سے بنائی گئی تصویر آپ کو مشکل میں ڈال سکتی ہے؟ ایسا ممکن ہے۔
گذشتہ چند ہفتوں سے بالی وڈ کے بعض بڑے نام اپنی شخصیت کے تحفظ کے لیے سرگرم نظر آ رہے ہیں۔ انھوں نے اپنی ’شخصیت کے حقوق‘ کو قانونی تحفظ دینے کے لیے عدالت سے رجوع کیا ہے۔ ان میں معروف ہدایتکار کرن جوہر، معروف اداکارہ ایشوریہ رائے بچن اور ان کے شوہر اداکار ابھیشیک بچن شامل ہیں۔
شخصیت کے حقوق، جنھیں ’پبلسٹی رائٹس‘ بھی کہا جاتا ہے، ایسے حق کو ظاہر کرتے ہیں کہ جس کے تحت کوئی فرد اپنی شناخت یا شخصیت سے مالی یا دیگر فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔ اس میں کسی فرد کا نام، تصویر، آواز، انداز، یا وہ جملے یا حرکات شامل ہیں جو اس سے منسوب ہیں۔
یہ حقوق کسی شخص کی شناخت کے غلط استعمال یا غیر قانونی تجارتی فائدے سے بچاتے ہیں، اور یہ صرف اس فرد تک محدود ہوتے ہیں۔
مثلاً، کوئی مشہور شخصیت اپنی شہرت کا فائدہ اٹھا کر کسی چیز کی تشہیر کے بدلے معاوضہ حاصل کر سکتی ہے، لیکن اس کی تصویر کسی اور شخص یا ادارے کو بغیر اجازت استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔
انڈیا میں شخصیت کے حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی مخصوص قانون موجود نہیں، اس لیے جج حضرات عام قانون (کامن لا) پر انحصار کرتے ہیں، یعنی ایسے قوانین جو عدالتوں کے فیصلوں کی بنیاد پر وقت کے ساتھ بنے ہیں۔
انیل کپور نے سنہ 2023 میں متعدد ویب سائٹس اور پلیٹ فارمز پر مقدمہ کیا تھاانڈیا کی صورت حال امریکہ جیسے ممالک سے مختلف ہے، جہاں کچھ ریاستوں میں شخصیت کے حقوق کے تحفظ کے لیے باقاعدہ قوانین موجود ہیں۔ اس معاملے میں کیلیفورنیا کی مثال لی جا سکتی ہے جہاں ہالی وڈ واقع ہے۔
انڈیا میں یہ حقوق اکثر نظر انداز کیے جاتے ہیں، اور چھوٹے کاروبار یا دکانیں مشہور شخصیات کی تصاویر کو اپنی تشہیر کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
دلی ہائی کورٹ میں دائر اپنی درخواستوں میں بالی وڈ کے سٹارز نے شکایت درج کی ہے کہ ان کی شناخت کو غیر قانونی طریقے سے تجارتی مقاصد، جعلی پروفائلز، جعلی ویب سائٹس، اور یہاں تک مصنوعی ذہانت سے فحش مواد تیار کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
عدالت نے ان مشہور شخصیات کے حقوق کو تسلیم کیا ہے اور متعلقہ افراد اور پلیٹ فارمز کو حکم دیا ہے کہ وہ ایسے غیر قانونی مواد ہٹا دیں۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی مشہور شخصیت نے اس مسئلے پر عدالت سے رجوع کیا ہے۔
دو سال قبل سنہ 2023 میں اداکار انیل کپور نے متعدد ویب سائٹس اور پلیٹ فارمز پر مقدمہ کیا تھا کیونکہ وہ ان کا نام، تصویر، آواز، اور ان کا مشہور جملہ ’جھکاس‘ (جسے انھوں نے ایک فلم میں ادا کیا تھا) تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے تھے۔
گذشتہ سال، دلی ہائی کورٹ نے اداکار جیکی شروف کی جانب سے دائرکردہ شکایت پر ان کی شخصیت کے حقوق کو تسلیم کیا اور بغیر اجازت ان کے نام، تصویر یا عرفی ناموں کے استعمال پر پابندی لگا دی۔
دلیر مہندی اپنے بھانگڑا کے لیے مشہور ہیں’سب سے پہلے دلیر مہندی نے عدالت کا رخ کیا‘
قانونی فرم ’کے لا‘ کے سینیئر پارٹنر اور وکیل نکھل کرشن مورتی نے بتایا کہ انڈیا میں پہلی بار کسی مشہور شخصیت نے سنہ 2002 میں اپنے شخصیت کے حقوق کے لیے عدالت کا رخ کیا تھا، جب گلوکار دلیر مہندی نے اپنی مشابہت میں بنائے گئے کھلونوں کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا۔
کرشن مورتی اس مقدمے میں دلیر مہندی کے وکیل تھے۔ وہ یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’یہ کھلونے بازار میں سرعام فروخت ہو رہے تھے۔ ان کو رنگ برنگی پگڑیاں اور لباس پہنائے گئے تھے، اور بیٹری سے چلنے والی گڑیاں ان کے مشہور گانے بھی گاتی تھیں۔‘
دلی ہائی کورٹ نے ان کھلونوں کی تیاری اور فروخت پر پابندی لگا دی، جو کہ ایک تاریخی فیصلہ تھا اور اس کے بعد آنے والے مقدمات کے لیے ایک نظیر بنا۔ کرشن مورتی کے مطابق سنہ 2023 کے بعد سے ایسے مقدمات میں اضافہ ہوا ہے۔
ان قانونی فتوحات کے باوجود، وہ کہتے ہیں کہ انڈیا کو اب بھی شخصیت کے حقوق کے تحفظ میں مغربی ممالک کے مقابلے میں بہتری کی ضرورت ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایک بڑی کمی یہ ہے کہ انڈیا میں ان حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی واضح قانون موجود نہیں، اس لیے عدالتیں ان مقدمات کو عمومی قانون اور پرانے فیصلوں کی روشنی میں دیکھتی ہیں۔
وکیل دھرو انند کے مطابق اس طرح کے مقدمات میں فیصلے ’عدالتی نظیروں‘ پر مبنی ہوتے ہیں۔
لکشمی کمارن اینڈ شری دھرن اٹارنیز کی پارٹنر وِندھیا ایس مانی کہتی ہیں کہ انڈین عدالتیں ان مقدمات میں دیگر قوانین جیسے کاپی رائٹ، ٹریڈ مارک، دانشورانہ املاک کے قوانین، اور آئین میں درج بنیادی حقوق کو بھی مدنظر رکھتی ہیں۔
یہ جرمنی، جاپان اور امریکہ جیسے ممالک سے مختلف ہے جہاں شخصیت کے حقوق باقاعدہ قوانین کا حصہ ہیں۔
جون میں ڈنمارک نے اپنی کاپی رائٹ قوانین میں ترمیم کی تجویز دی ہے تاکہ ہر شہری کو اپنے چہرے، آواز اور جسم پر حقوق حاصل ہوں۔
دھروانند کہتے ہیں کہ امریکہ کی کئی ریاستوں میں شخصیت کے حقوق کو ایک علیحدہ ’ملکیتی حق‘ کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ یعنی کسی فرد کے مرنے کے بعد بھی اس کے اہل خانہ ان کی شخصیت کے حقوق کے تحفظ سے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر، امریکی ریاست ٹینیسی میں شخصیت کے حقوق کو ’منتقل ہونے والا حق‘ (وراثتی حق) مانا جاتا ہے۔ گلوکار ایلوس پریسلی کی وفات کے بعد ان کے نام اور تصویر کے حقوق ان کی جائیداد کی طرح ان کے وارثین کے حوالے کر دیے گئے تھے۔
لیکن انڈیا میں شخصیت کے حقوق کو آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت رازداری کے حق (رائٹ ٹو پرائیویسی) کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ عدالتوں کا ماننا ہے کہ چونکہ رازداری کا حق انسان کے مرنے کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے، اس لیے شخصیت کے حقوق بھی ختم ہو جاتے ہیں۔
سنہ 2021 میں جب اداکار سوشانت سنگھ راجپوت کے والد نے ان کے بیٹے پر بننے والی فلم کی ریلیز کو روکنے کے لیے درخواست دی تھی تو دلی ہائی کورٹ نے فلم کی ریلیز پر پابندی لگانے سے انکار کر دیا۔ عدالت نے کہا کہ سوشانت کا رازداری، پبلسٹی اور شخصیت کا حق وراثت کے حق کی طرح قابلِ منتقلی نہیں ہے۔
سوشانت سنگھ راجپوت کی سنہ 2020 میں 34 سال کی عمر میں ہونے والی موت نے ان کے پرستاروں کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور ان کی موت متنازع ہو گئی تھی۔ اس کے بعد ان کی موت کی وجوہات پر مبنی کئی ویڈیوز، فلمیں اور رپورٹس سامنے آئیں جن میں قیاس آرائیاں شامل تھیں۔
کرن جوہر نے دلی ہائی کورٹ سے اپنی شخصیت کے تحفظ کے لیے رجوع کیا ہےوکیل دھروانند کا کہنا ہے کہ اگر انڈیا کے قانونی نظام میں شخصیت کے حقوق کو باقاعدہ قانون کی شکل دی جائے تو ایسے معاملات میں مدد مل سکتی ہے، کیونکہ اس میں وراثت کا حق ایک شق کے طور پر شامل کیا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس سے اس حق کی وضاحت بہتر انداز میں ہو گی اور اُس سے اس کے نفاذ میں پائی جانے والی بے ترتیبی اور تضادات کم ہوں گے۔
وکیل کرشنا مورتی کا کہنا ہے کہ اگر قانون میں معاوضے اور ہرجانے کا تصور بھی شامل کر دیا جائے تو یہ ایک روک تھام کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں: ’فی الحال، عدالتیں صرف کسی متنازع مواد کو روکنے کا حکم دے سکتی ہیں، لیکن مشہور شخصیت کو مالی یا ساکھ کے اعتبار سے جو نقصان ہو چکا ہوتا ہے، اس کا ازالہ ممکن نہیں ہوتا۔ تو پھر ان کے نقصان کا معاوضہ کون دے گا؟‘
تاہم، وکیل وندھیا مانی کا کہنا ہے کہ شخصیت کے حقوق کا قانون میں باقاعدہ طور پر شامل نہ ہونا بعض اوقات زیادہ فائدہ مند ہو سکتا ہے، کیونکہ اس سے عدالتوں کے پاس تعبیر کے لیے زیادہ وسیع دائرہ کار ہوتا ہے، جو متاثرہ فرد کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔
لیکن کیا یہ نکتہ آج کے دور میں مؤثر ہے، جب ٹیکنالوجی ہماری زندگی کے ہر پہلو میں داخل ہو چکی ہے اور روزگار اور شناخت کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکی ہے؟
گذشتہ سال سنہ 2024 میں ہالی وڈ کے سینکڑوں رائٹرز نے اس بات کے خلاف ہڑتال کی کہ مصنوعی ذہانت ان کے روزگار پر قبضہ کر رہی ہے۔ اسی سال، اداکارہ سکارلٹ جونسن نے اوپن اے آئی پر الزام لگایا کہ اس نے ان کی آواز اپنی مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ ماڈل GPT-4o میں استعمال کی ہے لیکن کمپنی نے ان کے الزام کی تردید کی ہے۔
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سخت قوانین کسی فرد کی شناخت کو ٹیکنالوجی کے استحصال سے بچا سکتے ہیں؟
وندھیا مانی کہتی ہیں کہ قوانین چاہے کتنے ہی محتاط انداز میں بنائے جائیں، وہ ٹیکنالوجی سے ہمیشہ ایک قدم پیچھے ہی رہیں گے۔
وہ کہتی ہیں: ’آج کی پیچیدہ معاشرتی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ قوانین کو سمجھ داری سے پڑھنا، ان کی تشریح کرنا اور ان کا اطلاق کرنا زیادہ ضروری ہے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’اس کے علاوہ، اپنے حقوق کے بارے میں آگاہی اور ان کے نفاذ کی خواہش ہی وہ کنجی ہے جس کے ذریعے موجودہ قانونی نظام، خاص طور پر آئین میں موجود تحفظات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔‘