ایک نایاب بیماری جس میں ہر قسم کا ڈر ختم ہو جاتا ہے یہاں تک کہ ہوائی جہاز سے کودنے میں بھی خوف نہیں آتا

ڈر یا خوف محسوس کرنا ایک فطری اور ارتقائی عمل ہے جو ہمیں اہم حفاظتی تدابیر کے لیے تیار کرتا ہے۔ لیکن کچھ لوگ ایک ایسی نایاب بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں جس کی وجہ سے انھیں کسی بھی چیز سے ڈر نہیں لگتا۔

ڈر یا خوف محسوس کرنا ایک فطری اور ارتقائی عمل ہے جو ہمیں اہم حفاظتی تدابیر کے لیے تیار کرتا ہے لیکن کچھ لوگ ایک ایسی نایاب بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں جس کی وجہ سے انھیں کسی بھی چیز سے ڈر نہیں لگتا۔

سوال یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی خوف کے بغیر کیسے گزارتے ہیں؟

ذرا تصور کریں کہ آپ ہوائی جہاز سے چھلانگ لگائیں اور آپ کو کچھ بھی محسوس نہ ہو، نہ آپ کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوں، نہ ایڈرینالین ابال مارے۔

ایسا ہی ایک حقیقی اتفاق برطانیہ کے شہری جورڈی سرنک کی زندگی میں پیش آیا۔ انھیں کشنگز سنڈروم نامی ایک بیماری ہے جس میں ایڈرینل گلینڈز بہت زیادہ کورٹیسول پیدا کرتے ہیں جو کہ ایک ایسا ہارمون ہے جو ذہنی دباؤ سے متعلق ہوتا ہے۔ اس کا علاج یہ کیا گیا کہ اس کے ایڈرینل گلینڈز نکال دیے گئے تاکہ ان کی بے چینی کم ہو سکے۔

یہ علاج حد سے زیادہ کامیاب رہا۔ بے چینی تو ختم ہو گئی، لیکن ان کے ساتھ کچھ عجیب ہونے لگا۔ سنہ 2012 میں جب وہ ڈزنی لینڈ گئے اور رولر کوسٹر پر بیٹھے تو انھیں کسی قسم کے خوف کا بالکل بھی احساس نہیں ہوا اور وہ بالکل نہیں ڈرے۔

اس کے بعد انھوں نے ہوائی جہاز سے چھلانگ لگائی، نیوکیسل کے ٹائن برج سے زپ لائن پر اترے اور لندن کی دی شارد عمارت سے رَسی کے ذریعے نیچے آئے اور یہ سب کارنامہ انجام دیتے ہوئے نہ تو ان میں جوش نے ابال مارا اور نہ ہی انھیں اپنی دھڑکنیں تیز محسوس ہوئیں۔

جورڈی سرنک کا تجربہ کمیاب ہے، لیکن انوکھا نہیں۔ یہ کہانی ان لوگوں کو جانی پہچانی لگ سکتی ہے جو ارباخ-ویٹھے بیماری (Urbach-Wiethe disease) کا شکار ہیں، جسے لپوئڈ پروٹینوسس بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک جینیاتی بیماری ہے جس کی دنیا بھر میں صرف تقریباً 400 تصدیق شدہ مثالیں ہیں۔

نہ گرنے کا ڈر نہ جلنے کا ڈر
Getty Images
نہ گرنے کا ڈر نہ جلنے کا ڈر

سب سے مشہور مریضہ ایس ایم

اس بیماری کی سب سے مشہور مریضہ ایس ایم کے نام سے جانی جاتی ہیں اور جن پر امریکہ کی ائیووا یونیورسٹی میں سنہ 1980 کی دہائی سے سائنسی تحقیق ہو رہی ہے۔ سنہ 2000 کی دہائی کے اوائل میں، جب جسٹن فائن سٹائن گریجویشن کے طالبعلم تھے، تو وہ اس ٹیم کا حصہ بنے اور انھوں نے ایس ایم کو ڈرانے کے لیے مختلف طریقے آزمانے شروع کیے۔

فائن سٹائن کہتے ہیں کہ ’ہم نے انھیں ہر ممکنہ خوفناک فلم دکھائی‘ لیکن اس کا ان پر کو اثر نظر نہیں آیا۔ فائن سٹائن اب فلوٹ ریسرچ کولیکٹو سے وابستہ ہیں۔ یہ ادارہ ایک خاص طریقہ علاج (ریسٹ) کو فروغ دیتا ہے جو درد، دباؤ اور بے چینی کے لیے علاج کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ان پر ’بلیئر وچ پروجیکٹ‘، ’ایراکنوفوبیا‘، ’دی شائننگ‘ یا ’سائلینس آف دی لیمب‘ جیسی فلموں نے بھی کوئی اثر نہیں چھوڑا۔ یہاں تک کہ ایس ایم کو ایک مشہور بھوت بنگلے کی سیر کرائی گئی لیکن وہ بھی بے اثر رہی۔

فائنس سٹائن بتاتے ہیں: ’ہم نے انھیں سانپوں اور مکڑیوں جیسے حقیقی خطرات سے دوچار کیا، لیکن نہ صرف یہ کہ اسے ذرا بھی ڈر نہ لگا، بلکہ وہ ان کی طرف بڑھنے لگیں۔ انھیں ان جانداروں کو چھونے اور ان کے ساتھ تعامل کرنے کی شدید جستجو محسوس ہوتی تھی۔‘

یہ بیماری ای سی ایم-1 جین میں ایک خاص تبدیلی کی وجہ سے ہوتی ہے، جو کروموسوم 1 پر واقع ہے۔ یہ جین ایک ایسے پروٹین کے لیے ذمہ دار ہے جو جسم کے ٹشوز کو سہارا دینے والے ایک ڈھانچے میں مدد دیتا ہے۔

جب یہ جین خراب ہوتا ہے تو جسم میں کیلشیم اور کولیجن جمع ہونے لگتے ہیں، جس سے خلیے مرنے لگتے ہیں۔ دماغ کا ایک حصہ 'امیگڈالا' خاص طور پر اس عمل سے متاثر ہوتا ہے، اور یہی حصہ خوف کی پروسیسنگ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

ایس ایم کے معاملے میں، جب ان کا امیگڈالا تباہ ہوا تو وہ خوف محسوس کرنا بند کر بیٹھیں۔

فائن سٹائن کہتے ہیں کہ ’دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اثر صرف خوف تک محدود ہے اور وہ خوشی، غصہ یا اداسی جیسے جذبات کی سمجھ بوجھ اب بھی رکھتی ہیں۔‘

خوف ایک فطری عمل ہے
Getty Images
خوف ایک فطری عمل ہے

خوف کی مختلف اقسام

تاہم معاملہ اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ امیگڈالا خوف کی کچھ مخصوص اقسام میں زیادہ کردار ادا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، یہ ’خوف سیکھنے (fear conditioning) میں اہم ہے۔ چوہوں پر تجربات سے پتہ چلا ہے کہ اگر کسی آواز کے فوراً بعد انھیں بجلی کا جھٹکا دیا جائے، تو وہ صرف آواز سن کر بھی خوف سے ساکت ہو جاتے ہیں۔‘

لیکن ایس ایم کو یہ سیکھنے کی صلاحیت نہیں۔ مثلاً، وہ جانتی ہے کہ گرم پتیلی کو نہیں چھونا چاہیے، مگر اگر اسے ایسی کوئی چیز دکھائی جائے جو پہلے درد کا سبب رہی ہو تو بھی وہ خوف یا دل کی دھڑکن میں اضافہ محسوس نہیں کرتیں۔ یہاں تک کہ وہ دوسروں کے چہروں پر خوف کی جھلک تک پہچان نہیں سکتیں، البتہ خوشی یا اداسی کے تاثرات کو سمجھ لیتی ہیں۔

وہ بہت ملنسار ہیں، لیکن ساتھ ہی خطرناک حالات کو پہچاننے اور ان سے بچنے میں انھیں دشواری ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ کئی بار چاقو یا بندوق کی نوک پر دھمکیوں کا سامنا کر چکی ہیں۔

فائن سٹائن بتاتے ہیں کہ ’وہ ان لوگوں کے قریب بہ آسانی چلی جاتی ہیں جن سے دور رہنا چاہیے، اور اسی وجہ سے وہ کئی بار خطرے سے دو چار ہو چکی ہیں۔‘

ایک تجربے میں، محققین نے ایک اجنبی کو ایس ایم کے قریب جانے کو کہا اور پوچھا کہ وہ کتنی دوری پر خود کو آرام دہ محسوس کرتی ہے۔ اس نے 0.34 میٹر (تقریباً ایک فٹ) کی دوری بتائی، جو عام افراد کے مقابلے میں آدھی تھی۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ذاتی حدود میں دوسروں کی موجودگی کو غیرمعمولی طور پر قبول کرتی ہیں۔

امریکہ کی یونیورسٹی آف میری لینڈ میں نفسیات کے پروفیسر الیگزینڈر شیک مین کہتے ہیں: ’ایسے تجربات میں ایس ایم جیسے افراد اجنبی محققین کے بالکل قریب، ناک سے ناک ملا کر بات کرتے ہیں، جو ایک صحت مند اور مکمل امیگڈالا رکھنے والا شخص کبھی نہیں کرے گا۔‘

یہ بات اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ امیگڈالا صرف خوف کے جذبات کو نہیں، بلکہ ہمارے سماجی رویے کو منظم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔

ایس ایم کی پرواز کرتے جہاز سے چھلانگ
Getty Images
ایس ایم نے پرواز کرتے جہاز سے چھلانگ لگائی لیکن ان کی نہ تو دھڑکن تیز ہوئی نہ انھیں خوف کا احساس ہوا

امیگڈالا کے بغیر پیدا ہونے والے خوف

پھر بھی، کچھ ایسے خوف بھی ہیں جو امیگڈالا کے بغیر بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ ایک تجربے میں، فائن سٹائن اور ان کے ساتھیوں نے ایس ایم سے کہا کہ وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ سانس کے ذریعے اندر لیں، جو بعض لوگوں میں گھبراہٹ اور دم گھٹنے کا احساس پیدا کرتا ہے۔

سائنسدانوں کو امید تھی کہ وہ حسبِ معمول بالکل بھی نہیں گھبرائیں گی، لیکن حیرت انگیز طور پر وہ گھبرا گئیں۔ دو دیگر مریض جن کے امیگڈالا کو بھی نقصان پہنچا تھا، انھوں نے بھی اس طرح کے تجربے کے دوران شدید خوف محسوس کیا۔

فائن سٹائن کہتے ہیں 'اس معاملے میں تو انھیں مکمل طور پر ایک پینک اٹیک ہوا۔ اور یہ ایس ایماس کی بالغ زندگی کا سب سے شدید خوف تھا جو انھوں نے کبھی محسوس کیا۔'

یہ دریافت فائن سٹائن کو ایک دہائی پر محیط تحقیق پر لے گئی تاکہ امیگڈالا کے خوف میں کردار کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔ تحقیق سے پتہ چلا کہ دماغ میں خوف کے دو الگ الگ راستے ہوتے ہیں، اور یہ اس پر منحصر ہوتا ہے کہ خطرہ بیرونی ہے یا اندرونی۔

جب بات کسی چور، سانپ یا ریچھ جیسے بیرونی خطرات کی ہو تو امیگڈالا ایک آرکسٹرا کے کنڈکٹر کی طرح کام کرتا ہے، اور دماغ و جسم کے دوسرے حصوں کو ردعمل دینے کے لیے ہدایات دیتا ہے۔ سب سے پہلے یہ دماغ کے ان حصوں سے معلومات حاصل کرتا ہے جو بینائی، سونگھنے، چکھنے اور سننے کے احساسات پر کام کرتے ہیں۔

اگر امیگڈالا خطرہ محسوس کرے، تو یہ ہائپوتھیلمس کو پیغام بھیجتا ہے، جو گردن کے پچھلے حصے کے قریب واقع ہوتا ہے۔ ہائپوتھیلمس پھر پچوٹری گلینڈ سے رابطہ کرتا ہے، جو ایڈرینل گلینڈز کو کورٹیسول اور ایڈرینالین جیسے ہارمونز خون میں خارج کرنے کو کہتا ہے۔

فائن سٹائن کہتے ہیں کہ 'یہ عمل دل کی دھڑکن تیز کرتا ہے، بلڈ پریشر بڑھاتا ہے، اور جسم کو وہ تمام عام علامات دیتا ہے جو ایک روایتی 'لڑو یا بھاگو' قسم کے خوف میں ظاہر ہوتی ہیں۔'

لیکن جب خطرہ اندرونی ہو، یعنی خون میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی زیادتی ہو تو دماغ اس کا سامنا مختلف طریقے سے کرتا ہے۔ جسم میں دماغ کو آکسیجن کا کوئی سینسر نہیں ہوتا، اس لیے جب CO₂ کی سطح بڑھتی ہے تو جسم اسے دم گھٹنے کی علامت سمجھتا ہے۔

فائن سٹائن کی تحقیق سے پتا چلا کہ یہ دماغ کا برین سٹیم یعنی وہ حصہہے جو سانس لینے جیسے خودکار جسمانی افعال کو کنٹرول کرتا ہے اور جو CO₂ کی زیادتی کو محسوس کرتا ہے اور گھبراہٹ پیدا کرتا ہے۔

عام طور پر، امیگڈالا اس ردعمل کو روکنے کا کام کرتا ہے، لیکن چونکہ ایس ایم کا امیگڈالا موجود نہیں، اس لیے اس کی گھبراہٹ بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔ (سائنسدان اب تک یہ نہیں جان سکے کہ امیگڈالا یہ کردار کیوں ادا کرتا ہے۔)

شیک مین کہتے ہیں: 'یہ ایک بہت اہم سائنسی نتیجہ ہے، کیونکہ اس سے ہم سیکھتے ہیں کہ امیگڈالا ہر قسم کے خوف، بے چینی اور پینک کے لیے ضروری نہیں ہے۔ یہ خاص طور پر بیرونی خطرات پر ردعمل دینے کے لیے ضروری ہے، جیسے چور، سانپ، مکڑی، یا بھوت بنگلے میں سے نکلنے والے ڈراؤنے منظر۔ لیکن یہ اندرونی محرکات جیسے CO₂ کے بڑھنے پر ہونے والی شدید گھبراہٹ کو کنٹرول کرنے کے لیے ضروری نہیں لگتا۔'

دماغ پر چوٹ لگنے سے وہ حصہ تباہ ہو جاتا ہے جو جسم کو ڈر کا سگنل بھیجتا ہے
Getty Images
دماغ پر چوٹ لگنے سے وہ حصہ تباہ ہو جاتا ہے جو جسم کو ڈر کا سگنل بھیجتا ہے

خوف کی ارتقائی اہمیت

یقیناً ایس ایم محض ایک فرد ہے، اس لیے اس پر مبنی سائنسی نتائج ہر کسی پر لاگو نہیں ہوتے۔ اس کے کیس کی خاص بات یہ ہے کہ ان کی بیماری نے ان کے امیگڈالا کو تقریباً مکمل طور پر تباہ کر دیا، جبکہ باقی دماغ محفوظ رہا۔ تاہم، دماغی چوٹ کے بعد ہر فرد کا ردعمل مختلف ہو سکتا ہے، اور یہ بھی اہم ہے کہ دماغ کو نقصان کس عمر میں پہنچا۔

پھر بھی ایس ایم کی غیر معمولی کہانی یہ واضح کرتی ہے کہ خوف کی ضرورت ہمیں کیوں پیش آتی ہے۔ تمام ریڑھ کی ہڈی والے جاندار بشمول ممالیہ، پرندے، رینگنے والے جانور، مینڈک اور مچھلیاں امیگڈالا رکھتے ہیں، اور یہ ان کی بقا کے لیے بے حد اہم ہے۔

فائن سٹائن بتاتے ہیں: 'جب آپ کسی جانور کا امیگڈالا خراب کر دیتے ہیں اور اسے دوبارہ جنگل میں چھوڑ دیتے ہیں، تو وہ عموماً چند گھنٹوں یا دنوں کے اندر مر جاتا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بغیر اس اہم دماغی نظام کے، جو خطرات کی شناخت کرتا ہے، وہ جانور خود کو مسلسل خطرے میں ڈالتا رہتا ہے۔'

لیکن ایس ایم نے، امیگڈالا کے بغیر، کئی خطرناک حالات کے باوجود، پچاس سال سے زیادہ کی زندگی گزار لی ہے۔

فائن سٹائن کہتے ہیں: 'اس کے کیس سے میرے ذہن میں جو سوال ابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ شاید یہ بنیادی جذبہ خوف ہماری جدید زندگی میں اتنا ضروری نہ ہو بلکہ یہ نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے، خاص طور پر مغربی معاشروں میں، جہاں ہماری بنیادی ضروریات پوری ہوتی ہیں، لیکن اس کے باوجود دباؤ اور بے چینی کی بیماریاں خطرناک حد تک بڑھتی جا رہی ہیں۔'


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US