پب جی گیم کا جنون: لاہور میں ماں اور بھائی بہنوں کا قاتل کم عمر لڑکا جسے فرانزک شواہد کے بعد 100 سال کی سزا ہوئی

علی زین کی عمر کم تھی تاہم وہ پولیس کے لیے ابتدا ہی سے شک سے باہر نہیں تھے۔ کاہنہ پولیس کے لیے وہ اس وقت مدعی سے ملزم میں تبدیل ہوئے جب ان کے ایک ماموں نے پولیس کو علی زین کے اعترافِ جرم کے بارے بتایا۔
جرم، علامتی تصویر
Getty Images
(فائل فوٹو)

جب پولیس وہاں پہنچی تو انھیں گھر کے دو الگ کونوں میں خون میں لت پت چار لاشیں ملیں اور ایک کم عمر لڑکا جو بعد میں اس واقعے کا مدعی بنا۔ اس ہی نے پولیس کو اطلاع دے کر بلایا تھا۔

لاہور کے علاقے گجومتہ میں واقعہ دو منزلہ گھر کے اندر کمرے کی دہلیز پر ایک لاش پڑی ملی۔ یہ لڑکے کے 21 سالہ بڑے بھائی کی تھی۔ ان کے کان کے پاس سر میں گولی لگی تھی۔ باقی تین لاشیں گھر کے ایک کمرے میں پلنگ پر پڑی ملیں۔

ان میں لڑکے کی والدہ اور 8 سالہ لے پالک چھوٹی بہن کے سر میں گولیاں لگی تھیں۔ چوتھی لاش ان کی بڑی بہن کی تھی جس کے سینے میں گولیاں لگی ملیں۔

کم عمر لڑکے کا نام علی زین تھا اور اس وقت ان کی عمر لگ بھگ 14 برس تھی۔ یہ سنہ 2022 کی بات ہے۔ علی زین نے پولیس کو بتایا کہ وہ قریب واقعہ اپنے دوسرے گھر میں سو رہے تھے جب علی الصبح ان کے اس گھر کے پڑوسی نے ان کو آ کر جگایا کہ ان کے گھر کے دروازے کھلے پڑے ہیں۔

جب وہ یہاں پہنچے تو انھیں اپنے گھر کے یہ تمام افراد مردہ حالت میں ملے۔ یوں بظاہر ان لوگوں کے قتل کا کوئی چشم دید گواہ موجود نہیں تھا۔ پولیس نے پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کے اہلکاروں کو موقع پر بلایا۔

انھوں نے وہاں سے شواہد جمع کیے۔ ان میں گولیوں کے چھ خول، تین گولیوں کے سکے، خون کے سیمپل وغیرہ شامل تھے۔ تحقیق کاروں کو اس گھر میں سے دو دستانے بھی ملے۔

دائیں ہاتھ کا دستانہ گھر ہی میں ایک کلینک نما کمرے میں مریضوں کے لیے بنے بیڈ پر پڑا تھا۔ بائیں ہاتھ کا دستانہ اندر لاونج میں استری کے میز پر پڑا تھا۔

جانے سے پہلے پی ایف ایس اے کے اہلکاروں نے علی زین کے دونوں ہاتھوں سے جی ایس آر یعنی گن شاٹ ریزیڈیو کے دو سیمپل بھی لے لیے۔ گن شاٹ ریزیڈیو بندوق سے نکلنے والے وہ کیمیکل ذرات ہوتے ہیں جو بندوق چلانے والے شخص کے ہاتھ کی جلد پر جمع ہو جاتے ہیں۔

پی ایف ایس اے کے اہلکار کسی امکان کو خارج نہیں کر سکتے تھے کیونکہ گھر میں تمام لوگ قتل ہو گئے تھے۔ جو واحد شخص زندہ بچا تھا وہ علی زین تھے۔ اس وقت پولیس نے علی زین کی مدعیت میں مقدمہ درج کر کے تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔

لیکن جلد ہی علی زین ہی ملزم میں تبدیل ہو گئے اور رواں ہفتے لاہور کی ایک عدالت نے ان کے خلاف جرم ثابت ہونے پر انھیں اپنی والدہ، بڑے بھائی اور دو بہنوں کے قتل کا مجرم قرار دے کر 100 سال قید کی سزا سنائی۔

چاروں قتل کی سزائیں متواتر ہوں گی یعنی ایک سزا ختم ہونے کے بعد دوسری شروع ہو گی ہوں اور اس طرح علی زین کو مجموعی طور پر 100 سال جیل میں گزارنا ہوں گے۔ انھیں ہر قتل کے بدلے دس لاکھ روپے ہرجانہ دینے کا بھی حکم دیا گیا۔

لیکن وہ پکڑے کیسے گئے؟ ان اموات کا تو کوئی چشم دید گواہ ہی موجود نہیں تھا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ’فرانزک سائنس سے جمع کیے شواہد کسی شک و شبہے کے بغیر علی زین کے ہاتھوں ان چاروں افراد کے قتل کو ثابت کرتی ہیں۔‘

لیکن علی زین نے اپنی ہی والدہ اور بہن بھائیوں کو کیوں قتل کیا اور کیا پی ایف ایس اے کو ان کے گھر سے ملنے والے دستانے ان کا جرم ثابت کرنے میں مددگار ثابت ہوئے۔

وہ گھر جہاں پر ماں کو ان کے تین بچوں سمیت قتل کیا گیا
BBC
وہ گھر جہاں پر ماں کو ان کے تین بچوں سمیت قتل کیا گیا

مدعی سے ملزم: پولیس کو پہلا سرا کب ملا؟

علی زین کی عمر کم تھی تاہم وہ پولیس کے لیے ابتدا ہی سے شک سے باہر نہیں تھے۔ کاہنہ پولیس کے لیے وہ اس وقت مدعی سے ملزم میں تبدیل ہوئے جب ان کے ایک ماموں نے پولیس کو علی زین کے اعترافِ جرم کے بارے بتایا۔

لاہور کی عدالت کے تفصیلی فیصلے کے مطابق علی زین کے ماموں نے پولیس کو بتایا کہ علی نے جڑانوالہ میں فاتحہ کے موقع پر ان کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کیا۔ ’اس نے ایک اور شخص کی موجودگی میں ہم سے معافی مانگی اور کہا کہ اس کے والد سے بھی ہم اسے معافی لے دیں۔‘

انھوں نے پولیس کو بتایا کہ پکڑنے کی کوشش پر علی زین فرار ہو گئے۔ کچھ روز بعد پولیس نے انھیں روہی نالہ پل کے قریب سے مخبر کی اطلاع پر گرفتار کر لیا۔ علی زین نے پولیس کی حراست میں جرم کا اعتراف کیا۔

وہ پولیس کو اپنے گھر لے گئے جہاں ان کی نشاندہی پر پی ایف ایس اے کے اہلکاروں کی موجودگی میں پولیس نے آلہ قتل یعنی وہ پستول برآمد کیا جس سے علی زین نے اپنے خاندان کے افراد کو قتل کیا تھا۔

یہ ان کی والدہ کا لائسینسی پستول تھا جو قتل کرنے کے بعد علی زین نے اپنے کمرے میں سائیڈ ٹیبل کی دراز میں رکھ دیا تھا۔

جرم، علامتی تصویر
Getty Images

پب جی کا اثر: قتل کی رات کیا ہوا؟

عدالتی فیصلے کے مطابق پولیس نے ملزم کو ان کی مرضی سے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جہاں انھوں نے اپنا اعترافی بیان ریکارڈ کروایا۔ اس کے بعد علی زین کو پی ایف ایس سے میں پولی گراف ٹیسٹ کے لیے لے جایا گیا۔

پولی گراف ٹیسٹ جھوٹ پکڑنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

عدالتی فیصلے کے مطابق ’ٹیسٹ کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی کیونکہ ملزم نے اس سے پہلے ہونے والے ابتدائی انٹرویو کے دوران ایک مرتبہ پھر اعتراف جرم کر لیا۔‘

پہلے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے اور پھر پی ایف ایس اے میں اعتراف جرم کے دوران علی زین نے پولیس کو بتایا کہ ’انھیں پب جی ویڈیو گیم کھیلنے کا جنون تھا اور وہ اکثر خود کو کمرے میں بند کر کے کئی گھنٹوں تک پب جی کھیلتے تھے۔‘

ان کی والدہ اس پر ان کی سرزنش کرتی تھیں۔ پب جی ایک ایسی گیم ہے جس میں کئی کھلاڑی آن لائن کھیلتے ہیں اور جو کوئی غلطی کیے بغیر آخری بچتا ہے وہ جیت جاتا ہے۔

علی زین نے اپنے اعترافی بیان میں لکھا کہ 18 اور 19 جنوری 2022 کی درمیانی شب وہ اپنے کمرے میں بند پب جی کھیل رہے تھے جب ان سے ایک غلطی ہوئی اور وہ گیم ہار گئے۔

’اسی گیم کے زیر اثر میں نے جا کر اپنی والدہ کا پستول نکالا اور پہلے کمرے میں سوئی والدہ اور بہنوں پر گولیاں چلائیں اور پھر بڑے بھائی پر گولیاں چلائیں۔‘

انھوں نے لکھا کہ ان لوگوں کو قتل کرنے کے بعد وہ جا کر سو گئے۔

صبح اٹھ کر انھوں نے خود پولیس کو اطلاع دے کر بلایا اور بتایا کہ ان کے خاندان کے افراد کو کسی نامعلوم شخص نے قتل کر دیا۔

اعتراف جرم سے انکار: ملزم کے بیان پر کہانی میں نیا رخ

تحقیقات مکمل کرنے کے بعد پولیس نے علی زین کو چالان کے ساتھ عدالت میں پیش کیا جہاں ان پر فرد جرم عائد کی گئی تاہم عدالت کے سامنے وہ اپنے اعترافی بیانات سے انکاری ہو گئے۔ انھوں نے عدالت کے سامنے اس بات سے انکار کر دیا کہ انھوں نے اپنے خاندان کے افراد کو قتل کیا۔

ساتھ ہی انھوں نے یہ استدعا بھی کہ انھیں جوونائل قرار دیا جائے کیونکہ ان کی عمر 18 برس سے کم ہے۔ عدالت نے ان کی عمر کا تعیّن کر کے انھیں جوونائل قرار دیا اور ان کے خلاف جوونائل عدالت میں مقدمے کا آغاز ہوا۔

علی زین نے اپنے دفاع میں عدالت کے سامنے موقف اختیار کیا کہ ان کے ماموں نے پولیس کی ملی بھگت کے ساتھ ان کے خلاف جھوٹی کہانی گھڑی۔

’وہ میری والدہ کی جائیداد ہتھیانا چاہتے ہیں اس لیے انھوں نے مجھے پھنسانے کی کوشش کی حالانکہ میں تو خود ظلم کو نشانہ بنا ہوں۔ میرے خاندان کو قتل کیا گیا۔‘

خیال رہے کہ پی ایف ایس اے کے سامنے دیے گئے اعترافی بیان کو عدالت کے سامنے قابل قبول نہیں سمجھا جا سکتا۔ اب استغاثہ کو شواہد کی مدد سے ان کے خلاف جرم ثابت کرنا تھا۔

سب سے پہلے انھیں یہ ثابت کرنا تھا کہ علی زین قتل کے وقت وہاں موجود تھے کیونکہ اس واقعے کا کوئی چشم دید گواہ موجود نہیں تھا اور پھر انھیں یہ ثابت کرنا تھا کہ جو پستول پولیس نے برآمد کیا، اس ہی سے قتل ہوئے ہیں اور اس کو چلانے والے علی زین تھے۔

یہاں دیگر شواہد کے ساتھ پی ایف ایس اے کو ملنے والے دستانے مددگار ثابت ہوئے۔

فرانزک شواہد
Getty Images

بارود کے ذرات اور ڈی این اے: فرانزک سائنس نے ملزم کو کیسے پکڑا؟

پی ایف ایس اے نے عدالت میں ٹریس کیمسٹری تجزیے کی رپورٹ ثبوت کے طور پر جمع کروائی۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ’اس رپورٹ نے واضح طور پر یہ ثابت کیا کہ ملزم کے دونوں ہاتھوں سے جو سوائپ لیے گئے تھے ان پر گن شاٹ ریزیڈیو کے ذرات ملے ہیں۔‘

یعنی ان کے ہاتھوں پر پستول چلاتے وقت نکلنے والے ذرات موجود تھے۔ عدالت نے بتایا کہ رپورٹ کے مطابق یہی ذرّات ان دو دستانوں سے بھی ملے ہیں جو پی ایف ایس اے نے شواہد کے طور پر اکٹھے کیے تھے۔

عدالت کے مطابق ’ان دستانوں کے اندر والی طرف سے جو ڈی این اے کے سیمپل لیے گئے وہ ملزم علی زین کے ڈی این اے سے میچ کر گئے ہیں۔‘

عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پستول علی زین ہی نے چلائی اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ قتل کی رات وہ موقع پر موجود تھے۔

پی ایف ایس اے نے فائر آرم ٹول مارک تجزیے کی رپورٹ میں یہ بتایا کہ جو گولیوں کے خول موقع سے ملے تھے یہ اس پستول سے فائر کیے گئے تھے جسے ملزم کی نشاندہی پر پولیس نے برآمد کیا تھا۔

فرانزک ڈی این اے کی رپورٹ میں یہ بھی ثابت ہوا کہ پستول کے ساتھ جو دو میگزین پولیس نے برآمد کیے تھے ان پر بھی ملزم علی زین کا ڈی این اے ملا۔

عدالت نے ملزم علی زین کو سزا سناتے ہوئے اپنے فیصلے میں لکھا کہ اگر ماورائے عدالت اعترافی بیانات کو الگ بھی کر دیا جائے تو واقعاتی اور فرانزک شواہد ملزم کے خلاف جرم ثابت کرتے ہیں۔

عدالت نے انھیں جوونائل مانتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US