یہ مجوزہ منصوبہ واضح طور پر اُس پیش رفت کے حصول کے لیے کافی نہیں ہو سکتا جو صدر ٹرمپ چاہتے ہیں۔ اس منصوبے میں اب بھی اسرائیل اور حماس دونوں کے سیاسی حلقوں کے لیے اہم رکاوٹیں موجود ہیں جو انھیں بالآخر کسی معاہدے پر پہنچنے سے روک سکتی ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ کے خاتمے کا اُن کا منصوبہ ممکنہ طور پر تاریخ کے عظیم ترین منصوبوں میں سے ایک ہے اور یہ ’مشرق وسطیٰ میں دائمی امن‘ لا سکتا ہے۔
یہ مبالغہ آرائی ہو سکتی ہے مگر اُن کا 20 نکاتی مجوزہ منصوبہ بلاشہ ایک اہم سفارتی قدم ضرور ہے، جس کا اعلان پیر کو صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں نتن یاہو کے ساتھ ملاقات کے بعد کیا۔
یہ منصوبہ غزہ کے مستقبل کے بارے میں ٹرمپ انتظامیہ کے ماضی کے مؤقف میں تبدیلی کے مترادف ہے اور اسرائیل پر اس سے کہیں زیادہ دباؤ ڈالتا ہے جتنا واشنگٹن نے اس سال نتن یاہو پر جنگ بندی کے کسی معاہدے کو قبول کرنے کے لیے لگایا ہے۔
آنے والے ہفتوں میں یہ مجوزہ منصوبہ حقیقت کا روپ دھارتا ہے یا نہیں، اس کا انحصار انھی عوامل پر ہو گا جو ہمیشہ سے بنیادی نوعیت کے رہے ہیں: مثلاً کیا نتن یاہو اور حماس کی قیادت، دونوں اب جنگ کو جاری رکھنے کے بجائے اس کے خاتمے میں زیادہ فائدہ دیکھ رہے ہیں۔
اس مجوزہ منصوبے پر حماس کا ردعمل ابھی تک واضح نہیں ہے۔ حماس کی ایک اہم سینیئر اہلکار نے اس پر مایوسی کا اظہار کیا اور بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اشارہ دیا کہ یہ شرائط فلسطینیوں کے مفادات کے تحفظ میں بڑی حد تک ناکام رہی ہیں اور یہ بھی کہ حماس کسی بھی ایسے منصوبے کو قبول نہیں کرے گا جو غزہ سے اسرائیل کے مکمل انخلا کی ضمانت نہ دے۔
پیر کو وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر کے ساتھ کھڑے نتن یاہو نے کہا تھا کہ اسرائیل نے ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کو تسلیم کیا ہے، اس سے قطع نظر کہ اسرائیل میں اُن کے اتحاد میں شامل انتہائی دائیں بازو کے ایک رہنما نے پہلے ہی اِن 20 نکات میں سے کچھ کو مسترد کر دیا ہے۔
لیکن صرف ٹرمپ کے مجوزہ نکات کو تسلیم کرنا جنگ کو ختم کرنے کے مترادف نہیں ہو گا۔ اور اگرچہ نتن یاہو اس الزام کو مسترد کرتے ہیں مگر اسرائیل میں اُن کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اگر اس سے اسرائیل میں نتن یاہو کی سیاسی بقا کو خطرہ لاحق ہوتا ہے تو وہ معاہدے کو ناکام بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اس لحاظ سے، یہ مجوزہ منصوبہ واضح طور پر اُس پیش رفت کے حصول کے لیے کافی نہیں ہو سکتا جو ٹرمپ چاہتے ہیں۔ اس منصوبے میں اب بھی اسرائیل اور حماس دونوں کے سیاسی حلقوں کے لیے اہم رکاوٹیں موجود ہیں جو انھیں بالآخر کسی معاہدے پر پہنچنے سے روک سکتی ہیں۔

اس منصوبے میں کافی ابہام بھی ہے جسے کوئی بھی فریق اس پورے عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے، اور اس کی ناکامی کا ذمہ دار دوسرے فریق کو ٹھہرا سکتا ہے۔
اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ واضح ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہو گی۔
ٹرمپ نے نتن یاہو پر یہ بات واضح کرتے ہوئے پیر کو انھیں بتایا کہ اگر حماس اس مجوزہ منصوبے پر راضی نہیں ہوتی تو انھیں (اسرائیل) ’(حماس کو ختم کرنے کے لیے) جو کچھ کرنا پڑے گا اس کے لیے امریکہ کی مکمل حمایت حاصل ہو گی۔‘
اگرچہ ٹرمپ نے اسے ایک معاہدے کے طور پر پیش کیا ہے لیکن حقیقت میں یہ مزید مذاکرات کے لیے ایک ڈھانچہ ہے- یا جیسا کہ انھوں نے ایک موقع پر کہا کہ ’اصولوں‘ کا ضابطہ کار ہے۔ یہ اس قسم کے تفصیلی منصوبے سے بہت دور ہے جو غزہ میں جنگ کے خاتمے پر اتفاق کے لیے درکار ہو گا۔
یہ ایک ایسی کوشش ہے جس کا مقصد مرحلہ وار جنگ بندی اور معاہدے کے تحت جنگ کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
ٹرمپ ایک ’آل اِن ون‘ امن معاہدہ چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے یرغمالیوں کی رہائی کے بارے میں مخصوص تفصیلات، رہا کیے جانے والے فلسطینی قیدیوں کی شناخت اور جنگ کے بعد غزہ کی حکمرانی کے لیے مخصوص شرائط جیسے بہت سے دیگر امور کے علاوہ اسرائیلی انخلا کی تفصیلات کا نقشہ تیار کرنے کے لیے کافی کام کی ضرورت ہے۔
ان میں سے کسی چیز کے بارے میں بھی ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے میں تفصیل سے نہیں بتایا گیا ہے اور اس سب کے باعث امن معاہدے کو پٹری سے اُتارنے کی صلاحیت ہے۔
یہ ڈھانچہ ماضی کی تجاویز سے مستعار لیا گیا ہے جس میں جولائی کا سعودی فرانسیسی منصوبہ اور 20 نکاتی منصوبے کے تحت غزہ کے انتظام کی عارضی نگرانی کرنے والے مجوزہ ’بورڈ آف پیس‘ کے رکن اور برطانیہ کے سابق وزیراعظم سر ٹونی بلیئر جیسے حالیہ اقدامات شامل ہیں۔
یہ مسودہ ٹرمپ کے ایلچی سٹیو وٹکوف اور ان کے داماد جیرڈ کشنر نے اسرائیل، یورپی اور عرب ممالک بشمول قطر اور مصر سے مشاورت کے بعد تیار کیا ہے۔ اِس میں لڑائی روکنے، اسرائیلی افواج کے محدود انخلا کے علاوہ حماس سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ باقی تمام یرغمالیوں کو رہا کرے اور اس کے بعد اسرائیل کے زیر حراست سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔
اس کے بعد غزہ میں روزمرہ کے امور چلانے کے لیے ایک مقامی، ٹیکنوکریٹک انتظامیہ کے قیام کا تصور پیش کیا گیا ہے، جس کی نگرانی ’بورڈ آف پیس‘ کرے گا، جو مصر سے کام کرے گا۔
’پرامن بقائے باہمی اور ہتھیار ترک کرنے‘ کا عہد کرنے والے حماس کے باقی ارکان کو عام معافی دی جائے گی اور ایسا نہ کرنے والوں کو جلاوطن کر دیا جائے گا۔ امریکہ اور عرب ممالک کی طرف سے تشکیل دی گئی ایک بین الاقوامی ’استحکام‘ فورس غزہ کی سکیورٹی سنبھالے گی اور فلسطینی مسلح دھڑوں کو غیرعسکری بنانے کے عمل کو یقینی بنائے گی۔
مسودے میں فلسطینی ریاست کا ذکر ہے لیکن صرف مبہم اصطلاحات میں۔ اس منصوبے سے پتا چلتا ہے کہ اگر رام اللہ میں قائم فلسطینی اتھارٹی میں اصلاحات کی جاتی ہیں تو، ’بالآخر فلسطینی خود ارادیت اور ریاست کے لیے ایک ٹھوس راستے کے لیے حالات تیار ہو سکتے ہیں۔‘
عرب ممالک ٹرمپ کی تجاویز کو اپنے لیے ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ جزوی طور پر اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے امریکی صدر کی جانب سے فروری میں پیش کیے گئے غزہ ’رویرا‘ منصوبے کو ٹھکانے لگا دیا ہے جس کا نتیجہ فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کی شکل میں نکلنا تھا۔

ان نکات میں عرب ممالک کے لیے کم از کم فلسطینی ریاست کا ذکر ہے، اگرچہ اس بارے میں کوئی ٹھوس وعدہ موجود نہیں ہے۔
اور امریکی منصوبے میں کہا گیا ہے کہ ’اسرائیل غزہ پر قبضہ نہیں کرے گا اور نہ ہی اسے ضم کرے گا‘- اگرچہ مقبوضہ مغربی کنارے کے لیے اس طرح کا کوئی وعدہ نہیں ہے۔ یہ عرب ممالک کے لیے ایک اہم شق ہے اگرچہ منصوبے کی ایک اور شق اس سے متصادم ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل اب بھی غزہ کی ’سکیورٹی حدود‘ میں اپنی فوج تعینات رکھے گا۔
اسرائیل کی جانب سے نتن یاہو کا کہنا ہے کہ یہ سارا فریم ورک جنگ کے خاتمے کے ان کے مقاصد کے مطابق ہے جو کہ حماس کو غیر مسلح دیکھنا، غزہ کو غیر فوجی بنانا اور کسی فلسطینی ریاست کا قیام نہ ہونا ہے۔
لیکن یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ آیا تخفیف اسلحہ اور فلسطینی ریاست کی شقوں کو ان کی حکومت کے کچھ حصوں کی طرف سے قبول کیا جائے گا یا آیا وہ اس دباؤ کو مزید شقوں کو شامل کرنے یا ’بہتر بنانے‘ کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔
اب بہت کچھ حماس کے ردعمل پر منحصر ہے۔
جیسا کہ میرے ساتھی رشدی ابو علوف نے پہلے لکھا تھا، یہ ایک اور ایسا لمحہ ہو سکتا ہے جس میں ایک ’ہاں‘ اور ایک ’لیکن‘ ہو، جس میں حماس تجاویز کو قبول کرتی نظر آئے لیکن ساتھ ہی مزید وضاحتیں بھی مانگے۔ لہٰذا وائٹ ہاؤس کو اس معاہدے کے حوالے سے وہی پیشہ ورانہ خطرہ درپیش ہے جو جنگ کے خاتمے کے لیے گذشتہ ’فریم ورک‘ اور ’اصولوں‘ کے مصنفین کے لیے تھا۔
آج ایک اور اہم بات مشترکہ اعلان سے چند لمحے پہلے، ٹرمپ کی جانب سے نتن یاہو کو قطر سے معافی مانگنے پر مجبور کرنا تھا۔
عرب ممالک نے رواں ماہ کے اوائل میں دوحہ میں حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنانے والے فضائی حملے پر اسرائیل سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قطر اب اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالث کے طور پر واپس آ سکتا ہے۔
ٹرمپ اور نتن یاہو کی ملاقات سے چند گھنٹے پہلے، غزہ شہر میں اسرائیلی گولہ باری اور فضائی حملوں میں شدت آئی۔ اسرائیل کا وسیع تر حملہ حماس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کے اس کے خود ساختہ منصوبے کا حصہ رہا ہے، لیکن یہ عام شہریوں کے لیے مزید تباہی لایا ہے۔
باقی دنیا کے بیشتر ممالک نے اسرائیل کے اقدامات کی مذمت کی ہے۔ دریں اثنا، غزہ میں حماس کے انچارج کمانڈر، عز الدین الحداد کے بقول وہ ایک ’حتمی اور فیصلہ کن جنگ‘ کی تیاری کر رہے ہیں جس میں تقریباً پانچ ہزار جنگجو شریک ہوں گے۔
فرانس اور سعودی عرب کی سربراہی میں یورپی اور عرب ممالک نے موسم گرما سفارتی راستے کی بحالی کی کوشش میں گزارا۔ اس سے اسرائیل کی بین الاقوامی تنہائی کے احساس میں اضافہ ہوا ہے اور نتن یاہو اب بھی غزہ میں مبینہ جنگی جرائم کے لیے بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کی طرف سے جاری کردہ بین الاقوامی گرفتاریکے وارنٹ کے تحت مطلوب ہیں۔
یورپی ممالک کے خیال میں یہ تنازعہ قابو سے باہر ہوتا جا رہا تھا اور ان کا خیال تھا کہ وہ اس دو ریاستی حل کے لیے اعتدال پسندوں سے اپیل کر سکتے ہیں۔ اگرچہ اس منصوبے میں یہ خیال واضح طور پر موجود نہیں ہے لیکن انھوں نے ٹرمپ کو غزہ کے لیے ایک اعتدال پسند تجویز پر اتفاق کرنے کو کلیدی قدم سمجھا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ امریکی فریم ورک اس مسئلے کو مذاکرات کی طرف واپس لے جائے گا لیکن اسے ٹرمپ کے بقول ’جنگ کے خاتمے‘ جیسی کسی بھی چیز تک پہنچانے کے لیے اب بھی کئی ہفتوں یا اس سے زیادہ وقت کے محنت طلب کام کی ضرورت ہو گی۔