پاکستان نے امریکہ کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی یقینی بنانے کے لیے صدر ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ خطے میں دیرپا امن کی خاطر ’دو ریاستی حل‘ کی تجویز پر عملدرآمد ناگزیر ہے۔
پاکستان نے امریکہ کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی یقینی بنانے کے لیے امریکی صدر ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ خطے میں دیرپا امن کی خاطر ’دو ریاستی حل‘ کی تجویز پر عملدرآمد ناگزیر ہے۔
گذشتہ روز واشنگٹن ڈی سی میں ٹرمپ نے اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں غزہ جنگ بندی اور مشرقِ وسطیٰ میں دیرپا قیام امن کے لیے مجوزہ منصوبہ پیش کیا تھا۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر شروع سے ہی اس منصوبے کی حمایت کر رہے ہیں۔ خود شہباز شریف بھی اس حوالے سے ایکس پر پیغام جاری کر چکے ہیں جبکہ منگل کو نائب وزیر اعظم پاکستان اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ آٹھاسلامی ممالک مجوزہ منصوبے کے تحت ایک امن فورس تعینات کریں گے اور پاکستان بھی اس سے متعلق فیصلہ کرے گا۔
اس اعلان کے بعد جہاں غزہ میں دو سال سے جاری بمباری کے بعد امن کی امید پیدا ہوئی ہے وہیں کئی افراد مسئلہ فلسطین پر پاکستان کے دو ریاستی حل کے اصولی موقف میں تبدیلی کا دعویٰ کر رہے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ فلسطین کے معاملے پر کئی دہائیوں سے پاکستان کا ایک تاریخی موقف رہا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے ماضی میں یہ کئی بار دہرایا گیا ہے کہ پاکستان ’فلسطینیوں کی حق خودارادیت کی منصفانہ جدوجہد اور 1967 سے قبل کی سرحدوں پر مبنی ایک خودمختار، آزاد اور متصل فلسطینی ریاست کے قیام کی جدودجہد میں فلسطینی عوام کے ساتھ ہے جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہوگا۔
پاکستان کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ ’مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل اور فلسطینی عوام کے لیے قابل قبول حل تک پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔‘
اس سلسلے میں ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آخر پاکستان کی فلسطین کے لیے دو ریاستی پالیسی کیا ہے؟ 20 نکاتی امن منصوبے میں بغیر کسی الحاق کے فلسطین کی ریاست کی تشکیل کی بات کی گئی ہے تو کیا پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر سکتا ہے؟
فلسطین کے معاملے پر پاکستان کی دو ریاستی پالیسی کیا ہے؟
فلسطین کے بارے میں پاکستان کی پالیسی بانی پاکستان محمد علی جناج کے اس بیان کی عکاس ہے جس کے مطابق ’جب تک فلسطینیوں کو اُن کے حقوق نہیں مل جاتے پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کر سکتا ہے۔‘
پاکستان کے دفترِ خارجہ کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق پاکستان خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام پر یقین رکھتا ہے جس کا دارالحکومت ’القدس شریف‘ ہو گا۔
منگل کو جب پاکستان کے نائب وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار سے جب اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی اس ضمن میں بڑا واضح پالیسی ہے جس میں کوئی تبدیل نہیں کی گئی ہے۔‘
تاہم انھوں نے اس حوالے سے مزید کچھ نہیں کہا۔
پاکستان کا ماننا ہے کہ آزاد فلسطینی ریاست کی سرحدیں جون 1967 سے پہلے کی ہوں گی۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ فلطسین کے تنازع کا حل اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون کی تنظیم کی قرارداد پر عمل درآمد کے تحت ہی ممکن ہو سکتا ہے۔
یاد رہے کہ جون 1967 میں اسرائیل کی مصر، اردن اور شام کے ساتھ جنگ ہوئی جو چھ دن تک جاری رہی تھی۔
اس جنگ میں اسرائیل نے اُس وقت مصر کے کنٹرول میں موجود غزہ کی پٹی اور جزیرہ نما سینا، اردن کے قبضے میں موجود مغربی کنارہ اور مشرقی یروشلم کا حصہ اپنے کنٹرول میں لیا تھا۔ اس جنگ کے دوران شام کے زیر کنٹرول گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کا قبضہ ہو گیا تھا۔
اس جنگ میں ان علاقوں کو اپنے قبضے میں لینے کے بعد اسرائیل کی سرحدی حدود میں تین گنا اضافہ ہو گیا تھا۔ اس کے بعد مصر اور اردن کی حکومتوں نے اسرائیل کو تسلیم کیا اور کچھ علاقوں کا قبضہ واپس لے لیا لیکن مغربی کنارہ، غزہ اور مشرقی یروشلم یہ تنیوں علاقےفلسطین اور اسرائیل کے مابین متازع علاقے ہیں۔
کئی دہائیوں تک بین الاقوامی برادری نے اسرائیل کا ان علاقوں کے ساتھ الحاق کو تسلیم نہیں کیا تھا لیکن سنہ 2017 میں امریکی صدر ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا اور امریکہ سفارت خانے کو وہاں منتقل کیا۔
2019 میں ٹرمپ نے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کی خودمختاری کو بھی تسلیم کر لیا لیکن اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی برادری مشرقی یروشلم اور گولان کی پہاڑیوں کو تا حال مقبوضہ علاقہ ہی تصور کرتی ہیں۔
پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے معاملے پرعوامی رائے بہت مخالف ہے۔پاکستان کی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی شرط کیا ہے؟
پاکستان کی جانب سے صدر ٹرمپ کے مجوزہ منصوبے کی حمایت کے بعد یہ سوال اُٹھ رہا ہے کہ کیا پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر سکتا ہے؟
پاکستان کے سابق سینیٹر مشاہد حسین سید کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے معاملے پر پاکستان کی پالیسی ملک کی جوہری پالیسی اور کشمیر پالیسی کی طرح بہت واضح ہے جسے ’کوئی حکومت یا وزیراعظم تبدیل نہیں کر سکتا۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ دو ریاستی حل کا مطلب یہ ہے کہ فلسطین کو بھی ایک ریاست تسلیم کیا جائے کیونکہ اسرائیل تو پہلے ہی ایک ریاست ہے۔
انھوں نے کہا پاکستان کی دو ریاستی پالیسی کے مطابق پاکستان چاہتا ہے کہ فلسطین کو بھی آزاد ریاست تسلیم کیا جائے اور اس کا مطلب ’یہ ہر گز نہیں ہے کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لے گا۔‘
مگر قائداعظم یونیوسٹی میں انٹرنیشنل ریلیشنز کے شعبے سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر قندیل عباس کا موقف مختلف ہے۔
بی بی سی بات کرتے ہوئے ڈاکٹر قندیل نے کہا کہ اسرائیل فلسطین تنازعے کے حل کے لیے پاکستان کا اُصولی موقف اقوام متحدہ کی قرارداد کے عین مطابق ہے، یعنی وہ دو ریاستی حل کی حمایت کرتا ہے جس کا مطلب فلسطینی ریاست کے قیام کے بعد بالواسطہ طور پر اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے۔
مشاہد حسین سید کے مطابق اسرائیل ایک جارحیت پسند ملک ہے اور اس کا فلسطین پر غیر قانونی قبضہ ہے جسے پاکستان تسلیم نہیں کرتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا اور فلسطین میں قیام امن ’دو الگ الگ چیزیں ہیں اور اس وقت مسئلہ غزہ میں جنگ بندی ہے۔‘
ڈاکٹر قندیل کا کہنا ہے کہ پاکستان میں یہ ایک جذباتی معاملہ ہے اور کئی مذہبی جماعتیں تو اسرائیل کو غیر قانونی تسلیم کرتے ہوئے دو ریاستی حل کی بھی حمایت نہیں کرتی ہیں اور اسی لیے سیاسی جماعتیں بھی ابہام کا شکار ہو جاتی ہیں کیونکہ عوامی سطح پر رائے بہت واضح ہے۔
انھوں نے کہا کہ ابھی جو ملاقاتیں ہوئی ہیں ان میں پاکستان نے دو ریاستی حل پر زیادہ بات کرنا شروع کر دی ہے اور ممکنہ طور پر مستقبل میں حکومتی سطح پر پالیسی میں تبدیلی ہو سکتی ہے لیکن عوام رائے بہت دوٹوک اور واضح ہے۔

ٹرمپ کے غزہ پلان کی حمایت پر بعض پاکستانی برہم
جب سے پاکستان نے اس منصوبے کی حمایت کی ہے، سوشل میڈیا پر ایک حلقہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔ بعض صارفین نے یہ سوال دہرایا کہ وزیراعظم ’عوام کو اعتماد میں لیے بغیر کیسے ٹرمپ کے منصوبے کا خیر مقدم کر سکتے ہیں؟‘
پاکستان کے سابق سفیر عبدالباسط نے ٹرمپ کے غزہ منصوبے پر تمام مسلمان ممالک کی جانب سے جاری مشترکہ بیان کو ’سرینڈر‘ قرار دیا ہے۔
انھوں نے ایکس پر مشترکہ بیان کو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ’مسلمان دنیا نے مکمل طور پر ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ اس (اعلامیے) میں فلسطینی ریاست کا ذکر بھی نہیں کیا گیا ہے جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو۔‘
انھوں نے لکھا کہ ’پاکستان اگر فلسطین کی ریاست کے قیام سے قبل ابراہیم اکارڈ کو تسلیم کرتا ہے تو یہ بہت بڑی غلطی ہو گی۔‘
حکمران جماعت مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والے سینیٹر افنان اللہ خان نے ایکس پر جاری پوسٹ میں لکھا کہ ’اس منصوبے سے عرب اور مسلم ممالک کے ذریعے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے حماس پر دباؤ ڈالنا ہے۔ یرغمالیوں کی رہائی کے بعد اسرائیل فلسطینیوں کا قتل عام جاری رکھے گا۔‘
سینیٹر افنان اللہ نے مزید کہا کہ ’کوئی بےوقوف ہی نیتن یاہو پر اعتماد کر سکتا ہے۔‘
سابق وزیر اور رکنِ قومی اسمبلی مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ قوم کو اعتماد میں لیے بغیر وزیراعظم کو یہ اختیار کس نے دیا کہ وہ ٹرمپ کے پیس پلان کو خوش آمدید کہیں۔
ایکس پر جاری بیان میں مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ ’پاکستانی عوام کسی ایسے امن منصوبے کو نہیں مانیں گے جِس میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو جنگی جرائم پر کلین چِٹ دی جائے یا جنگی جرائم کی عدالت میں اُن کے محاسبے کی بات نہ ہو۔‘
فاطمہ بھٹو نے اس امن مصوبے کے بارے میں لکھا کہ ’امہ مر چکی ہے۔‘
ایکس پر اپنی پوسٹ میں فاطمہ بھٹو نے لکھا کہ ’کوئی بھی مسلمان اس تاریخی بربریت کو معاف نہیں کر سکتا ہے۔ آپ نے ہولو کاسٹ دیکھا اور کچھ نہ کیا بلکہ قاتلوں کے لیے تالیاں بجائی ہیں۔‘
سیاسی مذہبی جماعت جماعتِ اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ وہ ’وزیراعظم کے اس بیان کو تسلیم نہیں کرتے ہیں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق کسی بھی قوم کو یہ حق ہے کہ اگر اس کی سرزمین پر قبضہ ہو تو وہ اس کے خلاف مسلح جدوجہد کرسکتی ہے۔‘
ایکس پر جاری اپنے بیان میں انھوں نے کہا کہ ’پاکستانی قوم کی مرضی کے بغیر کوئی بھی شخصیت کیسے ڈونلڈ ٹرمپ کو رضامندی دے سکتی ہے۔‘