امریکا میں ایک بار پھر حکومتی شٹ ڈاؤن شروع ہو گیا ہے جس کے باعث ہزاروں وفاقی سرکاری ملازمین کی تنخواہیں رکنے کا خطرہ پیدا ہوگیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق حکومتی فنڈنگ بل امریکی سینیٹ سے منظور نہ ہو سکا جس کے نتیجے میں سرکاری اداروں کا کام متاثر ہوا ہے۔ اندازوں کے مطابق تقریباً 75 ہزار ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی رک گئی ہے جبکہ کئی محکموں کی سرگرمیاں بھی عارضی طور پر معطل کر دی گئی ہیں۔
وفاقی اداروں کے ہزاروں ملازمین کو بغیر تنخواہ کے چھٹی پر بھیج دیا گیا جبکہ ضروری خدمات انجام دینے والے ملازمین کو تنخواہ کے بغیر کام جاری رکھنا پڑے گا اس کے علاوہ جو محکمے کانگریس کی فنڈنگ پر انحصار نہیں کرتے ان کے ملازمین پر اثر نہیں پڑے گا۔
امریکی سیاست میں شٹ ڈاؤن نے ایک بار پھر ڈیموکریٹس اور ری پبلکنز کو آمنے سامنے کر دیا ہے، ایوان نمائندگان کے ری پبلکن اسپیکر مائیک جانسن نے ڈیموکریٹس کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ انہوں نے حکومت کو بند کرنے کے لیے باقاعدہ ووٹ دیا جس کی وجہ سے بچے، مائیں، سابق فوجی اور دیگر طبقات ہیلتھ کیئر اور فلاحی منصوبوں سے محروم ہو گئے ہیں۔
ریپبلکنز کا موقف ہے کہ ڈیموکریٹس کو سات ہفتوں کے لیے موجودہ فنڈنگ بڑھانا چاہیے جبکہ ڈیموکریٹس کا کہنا ہے کہ وہ بڑی رعایتوں کے بغیر ایسا نہیں کریں گے۔
واضح رہے کہ امریکا میں اس سے قبل سب سے طویل شٹ ڈاؤن 2018 میں ہوا تھا جو 35 دن تک جاری رہا اور یہ ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں پیش آیا تھا۔
اس بار بھی ری پبلکنز کی جانب سے پیش کی گئی فنڈنگ تجاویز کو مطلوبہ 60 ووٹ نہیں مل سکے۔ ووٹنگ میں 55 اراکین نے بل کی حمایت جبکہ 45 نے مخالفت کی۔ نتیجتاً بدھ کی صبح جب امریکی عوام جاگے تو حکومت کے پاس فنڈنگ ختم ہو چکی تھی۔
اس شٹ ڈاؤن کے نتیجے میں کچھ سرکاری ادارے اور خدمات رک گئی ہیں تاہم تمام سہولیات معطل نہیں ہوں گی۔ اہم شعبے جیسے ایمرجنسی سروسز اور سلامتی ادارے کام کرتے رہیں گے مگر ہزاروں ملازمین کو تنخواہ کے بغیر چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے لیکن کانگریس کے اراکین اپنی تنخواہیں بدستور لیتے رہیں گے۔