فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ 20 نکاتی غزہ امن منصوبے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے بعض شقوں میں ترمیم کا مطالبہ کیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق حماس کے مذاکرات کاروں نے دوحا میں ترک، مصری اور قطری حکام کے ساتھ بات چیت کی اور واضح کیا کہ تنظیم کو جواب دینے کے لیے دو سے تین دن درکار ہیں۔ فلسطینی ذرائع کے مطابق سب سے بڑا اختلاف غیر مسلح کیے جانے کی شق پر ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ حماس اسرائیل کے مکمل فوجی انخلا کے لیے بین الاقوامی ضمانتیں چاہتی ہے اور اس بات کی یقین دہانی بھی ضروری سمجھتی ہے کہ فلسطینی رہنماؤں یا مزاحمتی دھڑوں کے کارکنان کو کسی قسم کی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ نہ بنایا جائے۔
ٹرمپ کے اعلان کردہ منصوبے میں 72 گھنٹوں کے اندر یرغمالیوں کی رہائی، حماس کو غیر مسلح کرنا، اسرائیلی فوج کا بتدریج انخلا اور غزہ کی حکمرانی کے لیے غیر سیاسی ٹیکنوکریٹ کمیٹی کی تشکیل شامل ہے۔ منصوبے میں فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت اور ریاست کے قیام کا ذکر تو موجود ہے تاہم کوئی واضح ضمانت نہیں دی گئی۔
ذرائع کے مطابق حماس کی صفوں میں اس منصوبے پر اختلافِ رائے بھی پایا جاتا ہے۔ کچھ دھڑے غیر مشروط منظوری کے حامی ہیں تاکہ فوری جنگ بندی ممکن ہو سکے جب کہ دیگر رہنماؤں کو خدشہ ہے کہ غیر مسلح ہونا اور کارکنان کی بے دخلی مزاحمت کو ختم کرنے کے مترادف ہوگا۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے ساتھ پریس کانفرنس میں غزہ امن منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم نیتن یاہو نے واضح کیا ہے کہ اسرائیلی فوج غزہ کے بیشتر حصوں میں بدستور موجود رہے گی اور انہوں نے فلسطینی ریاست کے قیام پر بھی کوئی اتفاق نہیں کیا۔
اقوام متحدہ کے مطابق اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ میں 66 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے جب کہ مسلسل بمباری نے علاقے کو ناقابلِ رہائش بنا دیا ہے۔